تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو

اسلاف کے تذکروں سے نسل نوکی تربیت وقت کی ضرورت

جاویدہ بیگم ورنگلی

 

تاریخ اصل میں نسل انسانی کے تجربات کا نچوڑ ہوتی ہے۔ انسان اپنے بزرگوں کے تجربات سے سبق حاصل کرکے بہت سی ٹھوکروں سے بچ جاتا ہے۔ قوموں کی تاریخ پڑھنے سے جہاں عروج و زوال کے اسباب معلوم ہوتے ہیں وہیں ہمیں رہنمائی بھی ملتی ہے۔ خیالات کو بے پناہ وسعت ملتی ہے انسان اپنی محدود دنیا سے نکل کر ایک وسیع تجربات کی دنیا میں پہنچ جاتا ہے۔ اپنے حال کا ماضی سے مقابلہ کرتا ہے۔ اپنی کمزوریوں پر قابو پانے کی کوشش کرتا ہے۔ چاہتا ہے کہ اس کا حال اس کے ماضی کی طرح شاندار ہو۔ اس کے دل میں ایک نیا جذبہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی ایسی ہی تاریخ رقم کرکے جائے۔ اس لیے انسانی زندگی میں تاریخ کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اسلام دشمن عناصر کی جانب سے مسلمانوں کی عظیم تاریخ کو مسخ کرنے کی و جہ یہی ہے کہ نئی نسل کو اپنے اسلاف کی تاریخ سے کوئی دلچسپی باقی نہ رہے اورمذہبی روایات سے ان کی وابستگی کو کمزور کیا جاسکے۔ امت مسلمہ کی طاقت، اس کی دینی بصیرت اور اس کے اخلاقی کردار میں ہے. جس کا اقرار دشمنوں نے بھی کیا ہے لیکن آج ہماری نسل اپنے درخشاں ماضی کو نہیں جانتی۔ اس کے برخلاف اہل مغرب کی تاریخ اور ان کی روایات، ان کے اسلاف کو نہ صرف جانتی ہے بلکہ ان کی عقیدت ان کے دل میں کچھ اس طرح بیٹھ گئی ہے کہ ہر معاملہ میں ان ہی کا ذکر ان ہی کی مثالیں دینے میں ایک قسم کا فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ ذہنی مرعوبیت اپنے شاندار ماضی کو نہ جاننے کی وجہ سے پیدا ہوئی ہے۔ اس لیے وقت کا تقاضہ ہے کہ نئی نسل کے سامنے ہمارے اسلاف کے تذکرے مسلسل آتے رہیں تاکہ ان کا رشتہ ماضی سے کٹنے نہ پائے اور ان میں خود اعتمادی پیدا ہو۔
عظیم اسلامی ریاست سے وابستہ چند تاریخی واقعات پیش ہیں.
مسلمان حضرت عمر خلیفہ دوم کے دور خلافت میں شام کے بڑے بڑے شہر فتح کرکے آگے بڑھتے جارہے تھے پے درپے شکستوں پر شہنشاہ ہر قل نے فیصلہ کیا کہ ایک ہی محاذ پر فوجیں جمع کرکے مسلمانوں کا مقابلہ کیا جائے ۔ مملکت کے طول و عرض سے فوجیں جمع ہونے لگیں۔ شام کے محاذ پر حضرت ابو عبیدہؓ فوج کے سپہ سالار تھے۔ ابو عبیدہؓ نے اپنے ماتحت تمام سالاروں کو بلاکر حالات سے واقف کرایا اور مشورہ طلب کیا۔ ایک مشورہ یہ آیا کہ عیسائیوں کو شہر سے نکال دیا جائے کیونکہ اپنی عورتوں بچوں کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑنا مناسب نہیں۔ اس پر ایک سالار نے کہا اے امیر! یہ صریحاً اس عہد کی خلاف ورزی ہوگی جو ہم نے اہل شہر سے کیا ہوا ہے ۔ اور اس کا آپ کو کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ آخر میں مباحثے کے بعد یہ طے ہوا کہ مفتوحہ علاقے چھوڑ کر تمام فوجیں دمشق میں جمع ہوں۔ قرارداد کے مطابق حضرت ابوعبیدہؓ نے عیسائیوں سے جو خراج اور جزیہ لیا تھا واپس کردیا کہ ان حالات میں وہ ان کی حفاظت نہیں کرسکتے۔ یہ رقم کئی لاکھ بنتی تھی جبکہ جنگ کے زمانے میں فوج کو ایک ایک پیسے کی ضرورت ہوتی ہے۔ ابو عبیدہؓ نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ عیسائیوں سے کہہ دیا کہ یہ تمہاری حفاظت کا معاوضہ تھا اب جبکہ ہم تمہاری حفاظت سے قاصر ہیں اور جنگی حالات کے پیش نظر اس شہر کو چھوڑ کر جارہے ہیں تو اس لیے اس رقم سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق نہیں ہے‘‘۔ جنگی تاریخ ایسی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے فاتح تو مفتوحین کو لوٹتے ہیں حمص کے شہروں کے لیے یہ تجربہ بڑا حیران کن تھا وہ مسلمانوں کی حق پسندی انصاف سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اسلامی لشکر حمص خالی کرکے جارہا تھا وہ روتے جاتے اور کہتے جاتے خدا تمہیں دوبارہ واپس لائے۔
کیا آج کے اس دور میں یہ واقعہ پڑھ کر ہمارے نوجوان کا سر فخر سے اونچا نہ ہوگا۔ کیا وہ اس کو بطور مثال اپنے سامنے رکھنا نہیں چاہیں گے ؟
حضرت عمر بن عبدالعزیز کے دور خلافت میں سمرقند کا ایک وفد دارالخلافہ پہنچا اور اپنا معاملہ خلیفہ کے سامنے پیش کیا۔ آپ کے پیشرو سپہ سالار قتیبہ بن مسلم نے بغیرکسی آگاہی کے ہمارے ملک پر حملہ کیا اور اس پر اپنا قبضہ جمالیا جو آپ کے جنگی قوانین کی کھلی خلاف ورزی ہیں۔ ہم کو معلوم ہے مسلمان کسی ملک پر حملہ کرنے سے پہلے ان کو اسلام کی دعوت پیش کرتے ہیں۔ اگر ان کے دشمن اس دعوت کو قبول نہ کریں تو جزیہ کا مطالبہ کرتےہیں. اگر جزیہ دینے سے بھی انکار کرتے ہیں تب ہی ان کے خلاف تلوار اٹھاتے ہیں۔ حضرت عمر نے سارا واقعہ سن کر اپنے گورنر سلیمان السری کو لکھا کہ جیسا ہی یہ خط تمہارے پاس پہنچے تو اہل سمر قند کی شکایات پر غور و تحقیق کرنے کے لیے ایک قاضی مقرر کردو۔ اسے تاکید کردو کہ حقیقت واقعہ کی تحقیق کے بعد جلد از جلد حق کے مطابق اپنا فیصلہ صادر کردے۔ اگر قاضی ان کے حق میں فیصلہ دے تو ان کی سرزمین سے فوجوں کا انخلا عمل میں لایا جائے اور جو مسلمان ان کے درمیان جاکر آباد ہوگئے ہوں ان کو وہاں سے اٹھاکر اس جگہ آباد کرو جہاں قتیبہ بن مسلم سے پہلے وہ تھے۔ گورنر خط پڑھتے ہی وقت کے چیف جج کو اس معاملہ کی سماعت پر مامور کیا۔ معاملے کو تمام گواہوں کے بیانات لینے کے بعد یہ حقیقت سامنے آئی کہ اہل سمر قند حق پر ہیں۔ گورنر نے مسلمان فوجوں کو حکم دیا کہ وہ فوراً ان کا ملک چھوڑدیں اور اپنے سابقہ فوجی ٹھکانوں پر واپس چلے جائیں۔ ان کے سرزمین میں کسی صلح یا معاہدہ کے بغیر نہ داخل ہوں نہ قیام کریں۔ جب اہل سمر قند کو اس فیصلہ کا علم ہوا تو باہم مشورہ کرنے لگے ان میں سے ایک تجربہ کار زمانہ شناس نے کہا یہ بڑی بد بختی ہوگی کہ اتنے اچھے انسانوں کو پانے کے بعد تم ان کو چھوڑدو۔ یہ سورج ہے ان کی وجہ سے یہاں روشنی ہے، ان کی وجہ سے ہمارے گلی کوچوں میں امانت و دیانت، راست بازی و پاک بازی شرافت قائم ہے۔ یہ اگر یہاں سے چلے جائیں تو سمجھو کہ یہاں سے شرافت رخصت ہوگئی۔ ظلم و ستم کا بازار گرم ہوجائے گا۔ یہ نیکی و شرافت کے علم بردار ہیں یہ روشنی کے مینارے ہیں۔ ان کو یہاں سے ہرگز جانے نہ دینا، یہ گواہی ایک غیر مسلم قوم کے فرد کی ہے ۔انسان کا کردار ہے جو دلوں کو مسخر کرتا ہے یہی کردار کی قوت تھی جس نے غیر مسلموں کے دل جیت لیے تھے-
حضرت عمر فاروق خلیفہ دوم کے زمانہ خلافت میں مصر فتح ہوا اور حضرت عمروؓ بن عاص گورنر مقرر ہوئے تو ایک دن بہت سے مصری آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہماری زراعت کا انحصار دریائے نیل کے پانی پر ہے جب دریائے نیل خشک ہوجاتا ہے تو ہم ایک رسم جب تک ادا نہ کریں جو قدیم زمانے سے چلی آرہی ہے اس میں پانی نہیں چڑھتا۔ حضرت عمرو بن عاص کے سوال کرنے پر کہ وہ رسم کیا ہے انہوں نے جواب دیا ’’ہم چاند کی گیارہ تاریخ برویت دیگر ہر سال جون کی بارہ تاریخ کو ایک کنوری لڑکی کا انتخاب کرتے ہیں اور اس کے والدین کی مرضی سے اسکو بیش قیمت زیورات اور کپڑے پہناتے ہیں پھر اس کو دریائے نیل کی بھینٹ چڑھادیتے ہیں۔ اس طرح کرنے سے دریائے نیل میں پانی چڑھ آتا ہے آج کل بھی دریا میں پانی کم ہوگیا ہے۔ اس لیے آپ ہمیں اپنی قدیم رسم ادا کرنے کی اجازت عنایت فرمائیں۔ حضرت عمرو بن عاص نے کہا ’’جو کچھ تم نے کہا یہ محض توہم پرستی ہے۔ اسلام ایسے اوہام اور لغویات کو مٹانے کے لیے آیا ہے میں تم کو کسی بے گناہ لڑکی پر ایسا ظلم کرنے کی اجازت نہیں دوں گا۔ مصری مایوس ہوکر چلے گئے۔ اتفاق سے دریائے نیل میں پانی بالکل کم ہوگیا بہت سے لوگ قحط کے ڈر سے مصر چھوڑنے کی تیاری کرنے لگے۔ حضرت عمرو بن عاص نے اس صورت حال کی اطلاع حضرت عمر کو دی تو انہوں نے لکھا ’’الحمدللہ ! تم نے مصریوں کوٹھیک جواب دیا ہے۔ فی الحقیقت اسلام ایسی رسوم باطلہ کومٹانے آیا ہے۔ میں اس خط کے ساتھ ایک رقعہ بھیج رہا ہوں اس کو دریائے نیل میں ڈال دو ۔ حضرت عمر بن عاص کو یہ خط ملا تو انہوں نے رقعہ کو دریاے نیل میں ڈالنے سے پہلے اس کی عبارت پڑھی جو اس طرح تھی ’’اللہ کے بندے عمر امیر المومین کی طرف سے۔ دریائے نیل کو معلوم ہو کہ اگر تو اپنے اختیار سے بہہ رہا تو رک جا اور اگر تو اللہ تعالیٰ کے حکم سے بہہ رہا ہے تو اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کرتا ہوں کہ وہ تجھے پہلے طرح بہ فراوانی رواں کردے‘‘۔ حضرت عمرو بن عاص مصریوں کے سامنے یہ رقعہ دریائے نیل میں ڈال کر واپس آئے۔ اگلی صبح جب اہل مصر نیند سے بیدار ہوئے تو انہوں نے قدرت الٰہی کا وہ کرشمہ دیکھا کہ دریائے نیل میں پانی سولہ ہاتھ بڑھ گیا تھا اور زمین سیراب ہورہی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر بہت سے مصری اسلام کی حقانیت پر ایمان لے آئے اور یہ ظالمانہ رسم ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی۔
حضرت عمرؓ کے زمانے خلافت میں مسلمانوں نے ایران پر لشکر کشی کی۔ ایران کا سب سے معتمد اور جنگی مہارت میں مشہور قائد ہرمزان تھا وہ جنگی فریب فکر و دغا میں بڑا ماہر تھا۔ حضرت عمرؓ کے دور خلافت میں مسلمانوں کی ایرانیوں سے سخت جنگ ہوئی۔ ایک جنگ میں مسلمانوں کے سپہ سالار حضرت ابو عبیدہؓ تھے دوسری طرف ایرانی لشکر تھا۔ سپہ سالار جاہان تھا جو ایک مشہور جرنیل تھا۔ بڑی گھمسان کی لڑائی ہوئی آخر کار ایرانیوں کو شکست ہوگئی۔ فتح کے بعد مسلمانوں نے گرفتاریاں شروع کیں۔ ایک مسلمان سپاہی نے سپہ سالار جاہان کو گرفتار کیا۔ مسلمان سپاہی جاہان کو بحیثیت سپہ سالار نہیں جانتا تھا جب جاہان نے اسکو کہا کہ میں بوڑھا سپاہی ہوں تم مجھے گرفتار کرکے کیا کروگے مجھے چھوڑدو تو میں معقول معاوضہ دوں گا۔ مسلمان سپاہی چونکہ جاہان کو نہیں جانتا تھا اس کو امان دے دی۔ عہد پختہ کرانے جب دونوں حضرت ابو عبیدہؓ کے پاس پہنچے تو وہاں لوگوں نے جاہان کو پہچان لیا ۔ بعض مسلمانوں نے کہا کہ جاہان نے مکاری کی دھوکہ دیا۔ اس لیے یہ معاملہ منسوخ سمجھا جائے اور جاہان کو قتل کردیا جائے مگر حضرت ابو عبیدہؓ نے کہا کہ اب ایسا نہیں ہوسکتا۔ جب ملت کے ایک فرد نے اسے امان دی تو پوری ملت کو اس کا عہد وفا کرنا چاہیے۔ اس سارے مسلمانوں پر اس کا خون حرام ہے