توہین رسالت ؐپر سپریم کورٹ کا تازیانہ

عدالت کی ہدایت کے باوجودنفرت انگیز بیانات کے خلاف قانون کیوں نہیں بنایا گیا؟

نور اللہ جاوید ، کولکاتا

کیا ٹی وی چینلوں پر فرقہ وارانہ مباحث پر لگام کسی جائے گی ؟۔دفعات ایک ہی مگر دلی پولیس کا رویہ مختلف کیوں؟
نوپور شرما آزاد ۔محمد زبیر پابند سلاسل۔۔کیا اودے پور سانحہ کی سازش بے نقاب ہوگی؟
توہین رسالتؐ کی ملزم و معطل شدہ بی جے پی لیڈر نوپور شرما کی عرضی پر سپریم کورٹ کی دو رکنی بنچ نے جو تبصرے کیے ہیں۔اس سے ملک میں ایک نئی بحث کا آغاز ہوگیا ہے کہ مذہبی جذبات کو بھڑکانے اور نفرت انگیز بیانات کے خلاف قانون سازی ہوگی؟ یا پھر ملک اسی طرح انارکی کا شکار رہے گا؟۔سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ واضح کرتا ہے کہ عدالت عظمی توہین رسالت کی سنگینی کو سمجھنے کے ساتھ یہ بھی محسوس کرتی ہے کہ چوں کہ نفرت انگیز بیانات دینے والی خاتون کا تعلق حکمراں جماعت سے تھا اس لیے وہ اب تک آزاد ہے اور پولیس اس کے خلاف کارروائی کرنے کی جرأت نہیں کرپارہی ہے۔
توہین رسالت کا مسئلہ ہمیشہ سے سنگین رہا ہے۔یہ صرف مسلمانوں کی نفسیات کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ مسلمانوں کے وجود سے وابستہ ہے۔گزشتہ 14صدیوں میں نبیؐ کی توہین کو امت مسلمہ نے کبھی بھی برداشت نہیں کیا ہے۔یہ ایک سرخ لکیر رہی ہے جس کو عبور کرنے کی کسی نے بھی اجازت نہیں دی ہے۔ نوپور شرما نے ٹی وی چینل پر جس نخوت اور تکبرانہ لہجہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تضحیک کی کوشش کی، ظاہر ہے اس کے خلاف مسلمانوں کا غم و غصہ لازمی تھا۔چناں چہ ہندوستان ہی نہیں پوری دنیا میں اس پر سخت رد عمل سامنے آیا اوراس کے بعد بین الاقوامی سطح پر ہندوستان کو پشیمانی کا سامنا کرنا پڑا ۔نوپور شرما کے غیر ذمہ دارانہ بیان کے نتیجے میں ہی پورے ملک میں احتجاج ہوئے اور اس درمیان بعض مقامات پر ہنگامہ آرائیاں بھی ہوئیں اور اس بہانے بے قصوروں کے مکانات پر بلڈوزر چلادیے گئے اور اب راجستھان کے اودے پور میں ایک غیر مسلم درزی کے قتل کا سانحہ پیش آیا۔ اس کی کسی بھی مہذب سماج میں اجازت نہیں دی جاسکتی ہے اور نہ اسلام مسلمانوں کو قانون کو ہاتھ میں لینے کی اجازت دیتا ہے۔ جرم و سزا دینے کی ذمہ داری اتھارٹی کی ہے اور کوئی ایک فرد کو اتھارٹی بننے کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم اودے پور سانحہ کے ملزم کا جو سیاسی تعلق سامنے آرہا ہے وہ اس پورے واقعے کے پس منظر پر ہی سوال کھڑا کرتا ہے کہ کہیں اودے پور میں کنہیالال کا قتل کسی سیاسی سازش کا تو حصہ نہیں ہے؟۔
سپریم کورٹ نے نوپور شرما کے خلاف کارروائی میں تاخیر کی جو وجوہات بیان کی ہیں وہ مرکزی حکومت ،نوپور شرما، میڈیا اور پولیس چاروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والی ہیں۔ یقیناً اس معاملے کی اصل گناہ گار نوپور شرما ہے مگر نیوز چینل جس نے اس مباحثہ کا انعقاد کیا تھا وہ بھی کم گناہ گار نہیں ہے۔اسی طرح دلی پولیس کی لاپرواہی نے بھی اس معاملے کو طول دے دیا اور اب تک یہ موضوع بحث ہے۔ خود سپریم کورٹ نے بھی اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے میڈیا کے غیر ذمہ دارانہ رویے پر ناراضگی ظاہر کی ہے کہ جب یہ معاملے عدالت میں زیر دوراں ہے تو پھر اس نے اس پر مباحثہ کا انعقاد کیو ں کیا؟ کیا یہ مخصوص ایجنڈے کو چلانے کی کوشش تھی؟۔ عالمی دبائو کے نتیجے میںا گرچہ مودی حکومت نے نوپور شرما سے کنارہ کشی اختیار کرلی ہےمگر بی جے پی کے نچلے سطح کے لیڈران اب بھی نوپور شرما کی حمایت کررہے ہیں۔ صرف پارٹی سے معطل کرنا کافی نہیں تھا۔ حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وہ اس معاملے کے گناہ گاروں کے خلاف کارروائی کرتی۔
ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ جب سپریم کورٹ نے 2014میں پرواسی بھلائی سنگھٹن بمقابلہ حکومت ہند کیس میں ’’نفرت انگیز بیانات ‘‘ پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ نفرت انگیز بیانات سے ابتدا ہوتی ہے اور اس کے بعد یہ معاملہ’’ قتل عام پر‘‘ منتج ہوتا ہے۔اس وقت سپریم کورٹ نےنفرت انگیز بیانات کی تشریح کرنے کے ساتھ ساتھ قانون سازی کی بھی ہدایت دی تھی۔مگر گزشتہ 8سالوں میں اس پرکوئی قانون سازی نہیں ہوئی۔کیا اس صورت میں سپریم کورٹ کو مرکز ی حکومت سے سوال نہیں پوچھنا چاہیےکہ ان 8سالوں میں قانون سازی کیوں نہیں کی گئی؟۔اگروقت پر قانون سازی اور کارروائی ہوجاتی تو شاید ملک کے حالات اس حدتک نہیں پہنچ پاتے۔ اس نکتے پر بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ سپریم کورٹ کا یہ تبصرہ تحریری فیصلے کا حصہ نہیں ہے ۔ایسے میں اس تبصرے کی قانونی حیثیت اور اہمیت بھی قابل غور ہے۔جب کہ سپریم کورٹ نے محض چند دن قبل گجرات فسادات پر ذکیہ جعفری کی عرضی کو خارج کرتے ہوئے اپنے فیصلے میں ان لوگوں پر تنقید کی جو انصاف کے حصول کےلیے مسلسل جدو جہد کررہے تھے۔بلکہ اپنے فیصلے میں ان لوگوں کے خلاف کارروائی کرنے کی سفارش کردی ۔چناں چہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے محض چند گھنٹے بعد ہی گجرات پولیس نے جلد بازی کا مظاہرہ کرتے ہوئے سماجی کارکن تیستا سیتلواد اور سابق آئی پی ایس آفیسر سری کمار کو گرفتار کرلیا ۔جب کہ یہ تبصرہ ہی حیران کن ہے۔ انصاف کے تقاضوں کے یکسر خلاف ہے۔انصاف کی فریاد آخر کہاں سنی جائے گی۔عرضی گزاروں کوکٹہرے میں کھڑا کرنے کی یہ نظیر مستقبل میںعدالت پر عوام کے ایمان و ایقان کو نقصان پہنچائے گی۔
حال ہی میں مشہور انگریزی میگزین ’’دی کاروان ‘‘ نے مئی 2022کے شمار ے میں The Bloody Record of the Delhi Police کے عنوان سے گزشتہ 70سالوں میں دلی پولیس کے غیر انسانی چہرے اور اس کے جانبدارانہ کردار کو بے نقاب کیا ہے۔نوپور شرما کے معاملے میں بھی دلی پولیس کا کردار انتہائی شرم ناک رہا ۔نوپور شرما اور الٹ نیوز کے شریک بانی ایڈیٹر محمد زبیرکے خلاف شکایت پر ایک ہی جیسے دفعات لگائے گئے مگر نوپور شرما آزاد ہے اور محمد زبیر کو گرفتار کرلیا ۔ دلی بنگلور جاکر اس کے لیپ ٹاپ کو ضبط کیا اور اب تو محمد زبیر کے غیر ملکی تعلقات بھی نکالے جارہے ہیں۔ای ڈی بھی سرگرم ہوگئی ہے اور کوئی بعید نہیں ہے کہ این آئی اے بھی سامنے سے آکر اس معاملے میں اپنے کرتب دکھانے لگے ۔عدالت سے محمد زبیر کی گرفتاری پر روک کے باوجود 4سال پرانے ٹویٹ کی بنیاد پر گرفتاری یہ سوال کھڑا کرتی ہے کیا اس ملک میں دو قوانین ہیں۔حکومت حامیوں کے لیے الگ قانون ہے اور حکومت کے ناپسندیدہ افراد کے لیے الگ قوانین ۔
نوپور شرما کی عرضی پر سپریم کورٹ کا تبصرہ
توہین رسالت کے معاملے میں نوپور شرما کے خلاف ملک بھر میں ایف آئی آر درج ہیں۔مختلف ریاستوں کی پولیس اسٹیشنوں سے شرما کی طلبی ہورہی ہے، کل کلکتہ پولیس نے نوپور شرما کے خلاف لک آئوٹ کا نوٹس جاری کیا ہے۔نوپورشرما نے عدالت میں عرضی دائر کی تھی کہ ملک بھر میں دائر تمام ایف آئی آر کوایک جگہ کردی جائیں۔صحافی ارنب گوسوامی کے معاملے میں سپریم کورٹ کے فیصلہ کی نظیر موجود ہےکہ جس میں عدالت نے کہا تھا کہ ایک ہی جرم کے معاملے میں مختلف سزائیں نہیں ہوسکتیں تاہم سپریم کورٹ نے اس معاملے میں نوپور شرما کو کسی قسم کی رعایت دینے سے انکار کرتے ہوئے اس پر سخت تبصرے کیے اور مذہبی جذبات کو بھڑکانے اور نفرت انگیزی کے خلاف عدالت کے رخ کو پیش کرنے کی کوشش کی۔جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس جے پی پردی والا پر مشتمل بنچ نے کہا کہ ’’نوپور شرما کے بیانات کی وجہ سے ملک میں افسوس ناک واقعات رونما ہوئے ہیں۔یہ ریمارکس یا تو سستی تشہیر، سیاسی ایجنڈے یا کچھ مذموم سرگرمیوں کے لیے دیے گئےہیں۔ملک میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی ذمہ دار یہ خاتون اکیلی ہے۔ ہم نے اس ٹی وی بحث کو دیکھا کہ اسے کس طرح اکسایا گیا۔ لیکن جس طرح اس نے یہ سب کہا اور بعد میں بھی کہتی رہی وہ شرم ناک ہے۔درحقیقت نوپور شرما نے ایک ڈھیلی زبان کا استعمال کیا اور اس نے ٹی وی پر غیر ذمہ دارانہ بیانات دے کر پورے ملک میں آگ لگا دی ہے۔ اس کے باوجودوہ دعویٰ کررہی ہیں کہ وہ گزشتہ دس سالوں سے وکالت کررہی ہیں ۔انہیں پورے ملک سے اپنے تبصروں کے لیے فوری طور پر معافی مانگنی چاہیے ۔‘‘شرما کی معافی بہت دیر سے آئی اور وہ بھی مشروط۔پٹیشن سے تکبر کا احساس ہوتا ہے اور وہ سمجھتی ہیں کہ مجسٹریٹ ان کے سامنے بہت چھوٹا ہے۔جب ایف آئی آر درج کی جاتی ہے اور آپ کو گرفتار نہیں کیا جاتا ہے، تو یہ آپ کی طاقت کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ سوچتی ہیں کہ ان کے پاس بیک اپ کرنے کی طاقت ہے اور اس لیے وہ غیر ذمہ دارانہ بیانات دیتی ہیں۔ اگر آپ کسی پارٹی کے ترجمان ہیںتوآپ کو مذہبی توہین اور لوگوں کی دل آزاری کی کھلی چھوٹ نہیں ہے۔اگر بحث کا غلط استعمال ہورہا ہے تو سب سے پہلے نوپور شرما کو ان اینکروں کے خلاف ایف آئی آردرج کرانی چاہیے تھا۔ٹی وی بحث کس لیے تھی؟ زیر سماعت موضوع کا انتخاب کیوں کیا گیا؟ جو معاملہ زیر سماعت ہے اس پر بحث کرنا ٹی وی چینل کا کام ہے؟ صرف ایک ایجنڈے کو فروغ دینے کے لیے یہ مباحثہ رکھا گیا ہے۔‘
عدالت کے اس تبصرے کے بعد نوپور شرما کے وکیل نے عرضی واپس لے لی ، مگر سپریم کورٹ نے عرضی واپس لینے کی جو تحریری اجازت دی اس میں ان کا یہ تبصرہ اس فیصلے کا حصہ نہیں تھا۔ظاہر ہے کہ ایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ تحریری شکل میں نہ ہونے کی صورت میں اس کی قانونی حیثیت کیا ہے؟کیا یہ فیصلہ مستقبل میں نظیر بن سکتا ہے۔ ؟ناگپور میں ممبئی ہائی کورٹ بنچ میں سینئر وکیل فردو س مرزا کہتے ہیں کہ ’’توہین مذہب اور نفرت انگیزی بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔اس سے قبل سپریم کورٹ نے نفرت انگیز بیانات کو بہت ہی سنجیدگی سے لیتے ہوئے نفرت انگیز بیانات کی تشریح کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کاسلسلہ نفرت انگیز بیانات سے شروع ہوتا ہے اور قتل عام پر جاکر منتج ہوتا ہے۔اسی طرح تحسین پونے والے کیس میں عدالت نے ایک بار پھر نفرت انگیز بیانات پر ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے موب لنچنگ کے خلاف قانون سازی کی ہدایت دی تھی ۔اس لیے مجھے لگتا ہے کہ سپریم کورٹ کو اپنے اس تبصرے کو فیصلے کا حصہ بنانا چاہیے تھا۔یہ بہتر ین موقع تھاکہ سپریم کورٹ حکومت سے پوچھتی کہ اس نے اب تک نفرت انگیز بیانات کے خلاف قانون سازی کیوں نہیں کی؟ کیوں کہ ملک میں اس وقت نفرت انگیز بیانات کے خلاف مستقل کوئی قانون نہیں ہے۔دو فرقوں کے درمیان نفرت پھیلانے اور مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے والے دفعات کے تحت کارروائی کی جاتی ہے جب کہ نفرت انگیز بیانات کا معاملہ اس سے کہیں زیادہ سنگین ہے۔مجھے سپریم کورٹ کا فیصلہ کچھ ادھوراسا معلوم ہوتا ہے۔سپریم کورٹ نے ایک اچھا موقع ضائع کیا ہے۔ وہ حکومت سے کہتی کہ اگر آپ قانون صحیح وقت پربناتے تو شاید اتنی جگہ فسادات نہیں ہوتے۔مگرچوں کہ ہم سب سسٹم سے اتنے مایوس ہوچکے ہیں کہ تھوڑی سی امید کی کرن نظرآتی ہے تو ہم خوش ہوجاتے ہیں ۔
کیا نیوز چینلوں کی فرقہ واریت پر لگام لگائی جائے گی
سپریم کورٹ نے اپنے تبصرے میں نیوزچینل پر ہونے والے ڈبیٹ پر بھی سخت تبصرے کیے ہیں ۔سپریم کورٹ نے سوال کیا کہ’’ عدالت میں زیر غور معاملات کو ٹی وی چینلس کس طرح اپنی بحثوں کا حصہ بناسکتے ہیں ؟۔اس کا مقصد کیا ہے؟۔کیا اس کا مقصد ایجنڈا چلانا ہے‘‘۔سپریم کورٹ کے تبصرے کا یہ حصہ اس لیے بھی اہم ہے کہ گزشتہ ایک دہائی سے یہ ٹی وی نیوز چینلس ایک خاص ایجنڈے کے تحت ملک کے حقیقی مسائل پر بحث و مباحثہ کے لیے موضوع کا انتخاب کرنے کے بجائے ایسے موضوعات کا انتخاب کرتے ہیں جس میں ملک میں فرقہ واریت اور نفرت انگیز کا پھیلنا لازمی ہے۔حال ہی انگریزی نیوز پورٹل ’’نیوز لانڈری ‘‘نے مارچ 2022سے 19جون 2022تک کے درمیان ملک کے مشہور نیوز چینلوں پر ہونے والے ٹی وی مباحثہ کا تجزیہ پیش کیا ہے ۔جس میں بتایا ہے کہ گزشتہ تین مہینوں میں ان نیوز چینلوںنے کن کن موضوعات پر ڈبیٹ کیا ہے۔زیادہ تر نیوز چینلوں پر ان تین مہینوں میں مہنگائی ،بے روزگاری ، تعلیم کے پرائیوٹائزیشن اور دیگر حقیقی مسائل پر نہ بہترین رپورٹنگ ہوئی ہے اور نہ ہی اس پر ماہرین کے ساتھ ڈبیٹ کیا ہے۔بلکہ بیشتر نیوز چینلوں نے ہندو مسلمان کے موضوع پر زیادہ ڈبیٹ کئے ہیں ۔نیوز لانڈری کے مطابق ’’زی نیوز ‘‘ پر ان تین مہینوں میں کل 73بحثیں ہوئیں جس میں 28بحثیں ہندو مسلمان کے عنوان سے ہوئی ہیں ۔ٹائمس نائو (نوبھارت )پر کل68بحثیں ہوئی جس میں 29بحثیں ہندو مسلمان سے متعلق تھیں۔ری پبلک بھارت پر کل 90بحثیں ہوئیں جن میں 45بحثیں ہندو مسلمان کے نام پر ہوئی ۔نیوز 18انڈیا کل 68بحثیں ہوئی جس میں 45ہندو مسلم کے نام پر تھیں۔مشہور ہندی نیوزچینل آج تک پر کل 88بحثیں ہوئیں جس میں 45اسی موضوع پر تھیں۔انگریزی نیوز چینل ری پبلک پر 182بحثیں ہوئی جن میں 60اس موضوع پر تھیں۔اے بی پی نیوز چینل میں 68میں سے 39بحثیں ہندو مسلم کے نام پر کی گئیں۔این ڈی ٹی وی نے 77بحثوں میں سے 23بحثیں فرقہ واریت کے خلاف کیں۔یہ اعداد و شمار واضح کرتے ہیں ملک کے قومی نیوز چینلس کس ایجنڈے پر کام کررہے ہیں۔الہ آباد میں جے این یو کی سابق طالبہ آفرین فاطمہ کے گھر پر بلڈزور چلانے کی خبر کوجس طریقے سے نیوز چینلوں نے پیش کیا وہ ہندوستانی صحافت کے لیے شرم نا ک ہے۔مگرایسے میں یہ سوال لازمی ہے کہ اس پر لگام کون کسے گا۔کیا ملک میں ایسا کوئی ادارہ ہے جو نیوز چینلوں کے رویے پر لگام لگاسکے۔وہ بھی اس وقت جب نیوز چینلوں کے درمیان ہندتو اور حکومت کے طرف دار ہونے کو ثابت کرنے کی ہوڑ لگی ہو۔
عدالت کے فیصلے کے بعد نیوز چینلوں اور ڈیجیٹل میڈیا پر جس طریقے سے عدالت اور اس کے ججوں کی کردار کشی کی گئی ہے وہ قابل افسوس انگیز ہے۔اس کا احساس خود بنچ کے جج جسٹس جے بی پردی والاکو بھی ہے۔ انہوں نے آج ایک تقریب میں اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے سوا ل کیا کہ کیا ملک کی عدالتوں کو میڈیا کے مزاج کو دیکھ کر فیصلے کرنے ہوں گے ۔چاہے قانون کے تقاضے کچھ بھی ہوں۔جسٹس جے بی پردی والا کہتے ہیں کہ عدالتوں کے فیصلے کا تجزیہ کرنے کے اختیارات کو کوئی نہیں چھین سکتا ہے مگر میڈیا ٹرائل عدالت کے معاملات میں غیر ضروری مداخلت ہے اور یہ لکشمن ریکھا ہے جسے عبور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے‘‘۔
محمد زبیر کی گرفتاری :کیا ملک میں دو طرح کے قوانین ہیں؟
الٹ نیوز کے شریک بانی ایڈیٹر محمد زبیر کی گرفتار ی ملک کے نظام عدل پر سوالیہ نشان ہے ۔نوپور شرما کے معاملے کو پورے ملک کے سامنے لانے والوں میںا ہم کردار ادا کرنے والے محمدزبیر دائیں بازو کے نشانے پر کافی عرصے سے تھے۔ان کے خلاف ہندو یوا واہنی گجرات کے ٹوئیٹر ہینڈل سے مسلسل مہم چلائی جارہی تھی اور ہندو واہنی کی شکایت کی بنیاد پر ہی چار سال پرانے ایک ٹویٹ جس میں کوئی بھی مذہبی تبصرہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ ایک فلم کی کلپ شیئر کی گئی کو بنیاد بناکر دلی پولیس نے گرفتار کرلیا۔دلی پولیس کے کردار پر زیادہ بات کرنے کی گنجائش نہیں ہے۔اس معاملے میں ذیلی عدالت کا رویہ تشویش ناک ہے۔سنیچر کو محمد زبیر کی پولیس تحویل کی مدت مکمل ہورہی تھی ۔انہیں عدالت میں پیش کیا جانا تھا۔عدالت نے شام 7بجے اس پر اپنا فیصلہ سنا یا مگر ٹی وی نیوز چینلوں اور دیگر میڈیا پلیٹ فارم پر سہ پہر تین بجے کے بعد سے ہی محمد زبیر کو جیل بھیجنے کی خبر چلنے لگی تھی۔یہ صورت حال ملک کے نظام عدل پر کئی اہم سوالات کھڑے کرتے ہیں؟ ملک کی عدالتوں کو کون چلارہا ہے۔عدالت کے فیصلوں کوقبل از وقت کون عام کررہا ہے؟ ملک کے مشہور وکیل وراجیہ سبھا کے ممبر پارلیمنٹ کپل سبل کہتے ہیں کہ عدلیہ نے جس طریقے سے قانون کی حکمرانی کی خلاف ورزی کے معاملات پر آنکھیں بند کرلی ہیں،اس کی وجہ سے میں نے شرم سے سر جھکالیاہے۔میں بھی گزشتہ 50سالوں سے عدلیہ کا حصہ رہا ہوں۔محمد زبیر کو قید میں رکھنے کے لیے دلی پولیس کے پاس کوئی جواز نہیں تھا۔اس لیے محمدزبیر کے خلاف دوسرے ثبوت تلاش کیے جارہے ہیں ۔ان دنوں جانچ ایجنسی پہلے ایک شخص کو گرفتار کرتی ہے اور پھر اس شخص کے خلاف ثبوت تلاش کرتی ہیں۔یہ رجحان انتہائی خطرناک ہے۔
اودے پور قتل ۔کیا یہ کسی سازش کا حصہ ہے؟
راجستھان کے اودے پور میں محمد ریاض عطاری اور محمد غوث کے ہاتھو ںکنہیالال کا قتل ،پھر اس کی ویڈیو گرافی اور اس کو سوشل میڈیا پر وائرل کیا جانا انتہائی افسوس ناک ہے، کوئی بھی مذہب اس کی اجازت نہیں دیتا ہے۔مگراس واقعے کے رونماہونے کے بعد ریاض عطاری جس کا تعلق بریلوی مکتبہ فکر کے دعوت اسلامی گروپ سے ہے کے بہانے جس طریقے سے’’د عوت اسلامی گروپ‘‘ کا میڈیا ٹرائل شروع کیا گیا ہے اس سے یہ شک ہوتا ہے کہ کہیں یہ واقعہ کسی سازش کا حصہ تو نہیں ہے۔دعوت اسلامی گروپ کی شروعات پاکستان میں مولانا الیاس قادری عطاری نے کی مگر ہندوستان کی دعوت اسلامی گروپ کااب اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔دوسرے یہ کہ یہ گروپ تبلیغی جماعت کی ہی طرح سیاسی معاملات سے خود کو دور رکھتا ہے۔بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق الیاس قادری عطاری اور ان کی جماعت مکمل طور پر غیر سیاسی ہے اور آج تک کسی بھی سیاسی معاملات یا پھر کسی بھی طرح کے احتجاج کا حصہ نہیں رہی ہے۔ دو سال قبل اسی راجستھان کے راجسمندمیں بنگالی مزدور افروزالاسلام کا ایک ہندو شخص شمبھو ناتھ نے بہیمانہ انداز میں قتل کیا اور ایک 8سالہ لڑکے سے اس کی ویڈیو گرافی کرواکے ویڈیو کو وائرل کیا۔بعد میں شمبھو کو ہیرو بناکر پیش کیا گیا۔درگا پوجا کے موقع پراس کی مورتی کی جھانکی نکالی گئی۔ اس وقت کسی نے بھی شمبھو ناتھ کے حوالے سے کسی بھی ادارے کا میڈیا ٹرائل نہیں کیا تھاجب کہ دونوں واقعات ایک ہی نوعیت کے ہیں۔
اس معاملے میں دو ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جو اس واقعے کے سازش کا حصہ ہونے کے شبہ کو یقین میں تبدیل کرتے ہیں۔ ریاض عطاری کا سیاسی تعلق اور کنہیا لال کے بیٹوں کا یہ دعویٰ کہ پڑوس کے لڑکے نے بابا کا موبائل لے کر نوپور شرما کی حمایت والے پوسٹ کو شیئر کیاتھا ۔ریاض عطاری بی جے پی کا ورکر رہا ہے اور وہ بی جے پی کے پروگراموں میں شریک ہوتا رہا ہے۔بی جے پی اقلیتی مورچہ کے مقامی صدر کے ذریعہ بی جے پی کے ممبر اسمبلی اور سابق ریاستی وزیر داخلہ کے ساتھ تصاویر اس کی سیاسی پہنچ کو واضح کرتے ہیں ۔ایسے میں یہ شبہ ہونا یقینی ہے کہیں محمد ریاض عطاری کا استعمال تو نہیں کیا گیا ہے؟ کہیں تیسرے کردار نے اس کے مذہبی جذبات کو بھڑکاکر سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش تو نہیں کی ہے؟چوں کہ چند مہینوں بعد راجستھان میں اسمبلی انتخاب ہونے والے ہیں۔
اودے پور قتل کے بعد لبرل دانشوروںنے جس طریقے سے ہندوستان کے اسلامائزیشن کے حوالے سے سوالات کھڑے کیے ہیں وہ تعجب خیز ہیں ۔انڈین ایکسپریس میںاودے پور سانحہ کے بہانے بھانوپرتاب مہتااور تلوینی سنگھ جیسے معتدل مزاج کالم نویسوں نے اپنے کالم میں توہین رسالت کے خلاف قوانین، مدارس کے نصاب تعلیم اور مسلم نوجوانوں کے درمیان مذہبی شدت پسندی کے حوالے سے گفتگو کی ہے وہ یہ ثابت کرتے ہیں ملک کا لبرل طبقہ بھی اسلامو فوبیا کا شکار ہے۔ان دونوں نے بین السطور کے ذریعہ اس پورے واقعے کے لیے مدارس کے نصاب کو ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے علما سے خود تبدیل کرنے یا پھر حکومت سے مداخلت کی اپیل کی ہے۔ساتھ ہی ان دونوں نے توہین مذہب کے خلاف کسی بھی قسم کی قانون سازی کی مخالفت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اظہار رائے کی آزادی پرروک نہیں لگائی جاسکتی ہے ۔تلوینی سنگھ تو ایک قدم آگے بڑھ کر ہری دوار ، دلی اور دیگر مقامات پر دھرم سنسد کے ذریعہ مسلمانوں کے قتل عام کی اپیل کو سادھو اور سنتوں کا ذاتی فعل قرار دیتی ہیں مگر محمد ریاض اور محمد غوت کے عمل کو اسلامی تعلیمات کا نتیجہ قرار دیتی ہیں۔ان دونوں کا بہترین جواب دلی یونیورسٹی کے پروفیسر اپوروا آنند نے دیا ہے انہوں نے لکھا ہے کہ مسئلہ قانون سازی سے کہیں زیادہ مساوات کا ہے۔اسی ملک میں بین المذاہب شادی، تبدیلی مذہب کے خلاف قانون ہے تو پھر توہین رسالت ؐکے خلاف کیوں نہیں ؟علاوہ ازیں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر مسلمانوں کے جذبات کو بھڑکانے کی کھلی چھوٹ نہیں دی جاسکتی ہے۔دوسری سب سے اہم بات مساوات کا بھی مسئلہ ہے ۔ایک ہی طرح کے جرم میں صرف مذہبی بنیاد پر پولیس کا کردار الگ الگ ہوجاتا ہے۔محمد زبیر قید میں ہیں جب کہ نوپور شرما آزاد ہے۔اودے پور قتل کے ملزمین کو مذہب سے جوڑ کر دیکھا جاتا ہے۔مگر موب لنچنگ ، گائے کشی کے نام پر مسلمانوں کوبرسرعام مارنے والوں کے خلاف پولیس ، میڈیا اور عوام کا رویہ نرم ہوتا ہے۔کنہیا لال کے قتل پر نکلنے والے جلوس دراصل اس قتل کے خلاف نہیں بلکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار ہیں۔
(نوراللہ جاویدصحافت سے گزشتہ 20سالوں سے وابستہ ہیں)؎
[email protected]
فون:8777308904
***

 

***

 سپریم کورٹ نے نوپور شرما کے خلاف کارروائی میں تاخیر کی جو وجوہات بیان کی ہیں وہ مرکزی حکومت ،نوپور شرما، میڈیا اور پولیس چاروں کو کٹہرے میں کھڑا کرنے والی ہیں۔ یقیناً اس معاملے کی اصل گناہ گار نوپور شرما ہے مگر نیوز چینل جس نے اس مباحثہ کا انعقاد کیا تھا وہ بھی کم گناہ گار نہیں ہے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 جولائی تا 16 جولائی 2022