توہم پرستی یا نفسیاتی انتشار ؟۔ والدین کے ہاتھوں جوان بیٹیوں کا قتل

آندھراپردیش میں انسانیت سوزواقعہ ۔ تعلیم یافتہ ماں باپ کی بد ترین جہالت۔سماجی مصلحین کو توجہ دینے کی ضرورت

دعوت نیوز ڈیسک:

 

ماں کے بارے میں مشہور شاعر منور رانا نے کہا تھا ’’وہ پاگل بھی ہو جائے تو بیٹے یاد رہتے ہیں‘‘ لیکن آندھرا پردیش کے ضلع چتور میں ایک دل دہلانے والے واقعہ میں بظاہر تعلیم یافتہ لیکن حقیقت میں توہم پرستی کی شکار ماں نے اپنے ہاتھوں سے اپنی ہی جوان بیٹیوں کو اس یقین کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا کہ روحانی طاقتوں کی بدولت وہ پھر سے زندہ ہو جائیں گی اور ’’کَل یُگ‘‘ کا خاتمہ ہو جائے گا اور ’’ستہ یُگ‘‘ شروع ہو جائے گا۔ جب یہ خاتون اپنی بیٹیوں کا قتل کر رہی تھی تو اس کا شوہر خاموش تماشائی بنا ہوا تھا۔ یہ جوڑا خود اپنی بھی جان لینا چاہتا تھا اس یقین کے ساتھ کہ وہ بھی دوبارہ زندہ ہو جائیں گے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ گرفتاری کے وقت بھی یہ والدین پولیس کے سامنے بار بار یہ التجا کر رہے تھے کہ انہیں شام تک کا وقت دیا جائے تاکہ وہ لڑکیوں کو دوبارہ زندہ کرسکیں کیونکہ انہیں یقین تھا کہ وہ دوبارہ زندہ ہو جائیں گی۔
مزید حیرت انگیز بات یہ ہے کہ یہ پورا خاندان انتہائی تعلیم یافتہ ہے۔ مقتول 27 سالہ الیکھیا اور 22 سالہ سائی دیویا کا باپ پرشوتم نائیڈو، کیمسٹری سے ایم فل اور پی ایچ ڈی ہے اور گورنمنٹ ویمن ڈگری کالج کا وائس پرنسپل ہے اور ماں پدمجا ایم ایس سی میاتھس گولڈ میڈلسٹ ایک پرائیویٹ تعلیمی ادارے کی پرنسپل ہے۔ اس کے علاوہ الیکھیا نے حال ہی میں بھوپال کے آئی آئی ایف ایم سے فارسٹ مینجمنٹ میں ڈپلوما کیا تھا اور سائی دیویا نے بنگلورو سے بی بی اے مکمل کرتے ہوئے اے آر رحمان میوزک اسکول سے موسیقی میں تربیت بھی حاصل کی تھی۔
واقعات سے پتا چلتا ہے کہ الیکھیا اور سائی دیویا چند دن قبل اپنے کتے کو واک پر لے جا رہی تھیں کہ ان کا پاؤں راستے میں پڑے لیمو مرچی پر پڑ گیا تھا۔ توہم پرستی میں مبتلا خاندان کی یہ لڑکیاں اسی دن سے نفسیاتی پیچیدگیوں میں مبتلا ہو گئیں۔ سائی دیویا کو خدشہ لاحق ہو گیا تھا کہ اب وہ زندہ نہیں رہے گی اور اس کی موت واقع ہو جائے گی۔ اس کی بہن الیکھیا بھی اپنی بہن کے شک کو اور مضبوط کر رہی تھی۔
گرفتاری کے بعد سے یہ جوڑا نہ صرف عجیب و غریب منطق پیش کر رہا ہے بلکہ انوکھی و عجیب و غریب حرکتیں بھی کر رہا ہے۔ یہ اور اس کے بعد وقوع پذیر ہونے والے چونکا دینے والے واقعات سے پتا چلتا ہے کہ یہ اور ان کے تعلیم یافتہ ماں باپ کیا واقعی جنون کی حد تک توہم پرستی میں مبتلا ہیں یا کسی شدید نفسیاتی مسائل کا شکار ہیں۔
دونوں ماں باپ کے محروسی کے دوران دیے گئے بیان کے مطابق سائی دیویا کی حالت میں تبدیلی کے بعد وہ اپنی بیٹیوں کو لے کر ایک تانترک کے پاس پہنچے۔ اس نے جادو ٹونا کیا جس کے بعد بھی سائی دیویا پر موت کا خوف برقرار رہا اور وہ زار وقطار روتے ہوئے کہہ رہی تھی اس کی موت واقع ہونے والی ہے۔ تعلیم یافتہ ماں باپ نے جو توہم پرستی میں جنون کی حد تک مبتلا ہیں، اپنی بیٹی کے جسم سے آسیب کا سایہ اتارنے کے نام پر اس کی پٹائی کی جس کے نتیجے میں وہ اور زور زور سے رونے لگی۔ ماں باپ سمجھ رہے تھے کہ ان کی بیٹی پر حاوی آسیب درد سے رو رہا ہے۔ اس جوڑے نے یہ کہتے ہوئے اپنی بیٹی کے سر پر ڈمبل سے حملہ کر دیا کہ وہ اس مرتبہ شیطان کو نہیں چھوڑیں گے اور اس کے بعد اس پر خنجر سے حملہ کیا گیا۔ نتیجہ میں لڑکی کی موت واقع ہو گئی۔ چھوٹی لڑکی کی موت کے بعد اس کے ماں باپ اور بڑی بہن نے قریب پانچ گھنٹے نعش کے ساتھ گزارے، بڑی بہن الیکھیا نے ماں باپ سے کہا کہ وہ اپنی بہن کو زندہ واپس لائے گی۔ بڑی بیٹی کے کہنے کے مطابق پرشوتم نائیڈو اور پدمجا نے مل کر الیکھیا پر بھی ڈمبل سے حملہ کر دیا جس کے بعد اس کی بھی موت واقع ہو گئی۔ روحانی طاقتوں کے ذریعے بیٹیوں کو زندہ کرنے کا دعویٰ کرنے والے اس جوڑے نے اپنی ایک بیٹی کے بال بھی نکال دیے تھے۔
اس خاندان کی نفسیاتی پیچیدگیوں سے واقفیت حاصل کرنے کے لیے ہفت روزہ دعوت نے عثمانیہ یونیورسٹی حیدرآباد، سائیکالوجی ڈیپارٹمنٹ کی ایچ او ڈی ڈاکٹر پی سواتی سے بات کرتے ہوئے یہ جاننے کی کوشش کی آخر وہ کونسی ذہنی حالت ہوتی ہے جس میں ایک انسان اپنوں پر انتہائی تشدّد اور اذیت پہنچاتے ہوئے بھی ان کے درد کو محسوس نہیں کرتا اور تشدد بھی اس انتہائی سطح کا جس میں ایک جوان اور طاقتور انسان موت کے منہ میں چلا جاتا ہے۔ پھر یہاں پر تشدد کو انجام دینے والا کوئی دوسرا نہیں ہے بلکہ ایک ماں ہے اور ماں کی فطرت کی تعمیر ہی اس طرح کی گئی کہ وہ اپنی اولاد کی ایک کانٹے کی چبھن کا درد بھی برداشت نہیں کر پاتی کُجا کہ وہ خود ہی اپنی اولاد کو موت کے گھاٹ اتار دے؟ جانوروں، چرندوں، پرندوں میں بھی ماں اپنے بچوں کی حفاظت میں جان دے دیتی ہے۔ اسی لیے تو منور رانا نے کہا ہے’’وہ پاگل ہو بھی جائے تو بیٹے یاد رہتےہیں‘‘ لیکن یہاں یہ کیسا پاگل پن ہے کہ ایک ماں ہی اپنی بیٹیوں کو ڈمبل سے مار مار کر قتل کر دیتی ہے؟
ڈاکٹر سواتی نے اس فعل کے پس پردہ محرکات پر تفصیلی روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ اس طرح کی ذہنی سطح پر کوئی بھی انسان اچانک نہیں پہنچتا۔ یہ نفسیاتی عدم توازن (psychological disorder) نہیں بلکہ پیچیدہ نفسیاتی امراض (psychiatric) کے مسائل ہیں۔ واضح رہے کہ سائیکالوجسٹ، نفسیاتی رہنمائی کے لیے، بات چیت اور کونسلنگ کی مدد سے علاج کرتے ہیں اور ماہر نفسیات (Psychiatrists) میڈیکل ڈاکٹر ہوتے ہیں جو دواؤں سے نفسیاتی امراض کا علاج کرتے ہیں۔ ڈاکٹر سواتی کہتی ہیں ویسے تو اخباری اطلاعات کے مطابق اس خاندان کے تعلیم یافتہ ہونے کی خبریں آرہی ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ کام کے مقام پر ان کے والدین کا دوستانہ برتاؤ تھا کبھی کسی سے ان کی بد سلوکی کی شکایت بھی سامنے نہیں آئی بلکہ ان کے ساتھی اس واقعہ پر حیرت زدہ ہیں۔ یعنی بظاہر پر تعیش اور پرسکون نظر آنے والا خاندان کیا واقعی پر سکون تھا؟ ڈاکٹر سواتی کہتی ہیں ’’ایسا ہرگز نہیں ہے۔۔۔ یہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کئی برسوں سے جاری ہے جس کو وہ اپنی تعلیم یافتہ خاصیت یا طاقت کی بناء پر سماج سے چھپانے میں کامیاب رہے۔ جیسا کہ اس کیس کی مزید تحقیق اس بات کو ثابت بھی کرتی ہے‘‘۔ تحقیقات کے مطابق متوفی لڑکیوں کے نانا اور ماں پدمجا کے والد شدید نفسیاتی مسائل کا شکار تھے اور ان کی موت بھی اسی مرض میں ہوئی۔ پدمجا چند سال پہلے ہوئی اپنے والد کی موت کے بعد شدید دباؤ کا شکار تھی کیونکہ وہ اپنے والد کے بہت زیادہ قریب رہتی تھی۔
ڈاکٹر سواتی اس واقعہ کی اہم ذمہ دار بڑی لڑکی الیکھیا کو ٹھہراتی ہیں۔ وہ ایسا اسی لیے کہتی ہیں کہ الیکھیا بھی نو سال کی عمر سے ہی اپنے نانا کی طرح نفسیاتی مسائل کا شکار ہو چکی تھی۔ جس کا خاموشی سے علاج جاری تھا لیکن ان کا خاندان اندرونی طور پر الیکھیا کی مُسلسل نفسیاتی حرکات سے بہت متاثر تھا۔ چونکہ والدین اور چھوٹی بہن، الیکھیا سے بہت زیادہ محبت کرتے تھے اسی لیے وہ الیکھیا کی جنون کی حالت میں کہی گئی تمام باتوں پر آہستہ آہستہ اعتبار کرنے لگے۔ ڈاکٹر سواتی کہتی ہیں ’’اس طرح کے نفسیاتی مریض یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں مافوق الفطرت طاقتیں دکھائی دیتی ہیں اور وہ ان سے باتیں بھی کرتی ہیں یا پھر وہ اس بات کا دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ انہیں طرح طرح کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ ان کے رویے انتہائی مثبت اور منفی دونوں طرح کے ہوتے ہیں۔ مثبت رویوں میں کبھی کبھی یہ خود کو خدا یا خدائی اوتار ہونے کا بھی دعویٰ کرنے لگتے ہیں اور انسانیت کا ہمدرد ظاہر کرتے ہیں۔ اپنی پراثر باتوں سے یا رو دھو کر اور جذباتی استحصال کرتے ہوئے اپنے اطراف موجود افراد کو اپنے قابو میں کر لیتے ہیں۔ اس خاندان میں بھی یہی صورت حال تھی۔ والدین سمیت بہن بھی پوری طرح الیکھیا کی تابعدار تھے۔ مسلسل کئی سالوں سے اسی ماحول میں رہتے ہوئے یہ خاندان الیکھیا کی باتوں اور دعوؤں کو صحیح سمجھنے لگا تھا۔ لاک ڈاؤن کے دوران مسلسل ساتھ رہنے کی وجہ سے الیکھیا کے حاکمانہ رویے کو مزید تقویت ملتی گئی‘‘۔ ڈاکٹر سواتی کہتی ہیں کہ ’’کچھ اور مزید تحقیق کرنے پر پتا چلتا ہے کہ ملزم والدہ پدمجا کے نانا بھی نفسیاتی مسائل کا شکار تھے۔ یہ جینیاتی عوارض (genetic disorders) جو چار نسلوں میں چلتا رہا یعنی پدمجا اور اس کے نانا، الیکھیا اور اس کے نانا۔ یہی وہ پس پردہ عوامل ہیں جو اچانک اس صورتحال میں نمودار ہوئے ہیں‘‘
ڈاکٹر سواتی چھوٹی بہن سائی دیویا کے اچانک تبدیل ہوئے رویے کو بھی یہی جینیاتی مرض قرار دیتی ہیں۔ ایک معمولی حادثے نے سائی دیویا کے اندر موجود دماغی خلل کو باہر نکلنے کا راستہ فراہم کیا۔ بجائے اس کے کہ سائی دیویا کو صحیح رہنمائی فراہم کی جاتی الیکھیا کے رویے اس کے وہم کو مزید تقویت دینے لگے پھر یہ واقعہ رونما ہوگیا۔
ڈاکٹر سواتی کے مطابق ’’اس طرح کے نفسیاتی امراض کے بارے میں ہندوستان میں عوام کو بہت کم آگہی حاصل ہے۔ توہم پرستی اور غلط عقیدہ کی بنا پر لوگ بہت جلد ایسے واقعات کو جادو ٹونے سے جوڑ لیتے ہیں جبکہ اس صورتحال سے بچنے کا واحد طریقہ علاج ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے ہی کہا تھا کہ یہ نفسیاتی مسائل (psychiatric problems) ہیں تو اس کا دواؤں اور بہتر نگرانی سے موثر علاج کیا جا سکتا ہے۔ جس سے ایک انسان عام اور صحت مند زندگی گزار سکتا ہے۔
ہفت روزہ دعوت نے ۔۔کَل یُگ اور ’’سَتّیہ یُگ‘‘ لیمو اور مرچ کی حقیقت پر برصغیر کی مشہور ویدک آسٹرولوجی، تقابل ادیان اور اسپیشلٹی واستو شاستر ڈاکٹر سعدیہ کامران سے بات کر کے ان چیزوں کی حقیقت جاننے کی کوشش کی۔ ڈاکٹر سعدیہ کامران کہتی ہیں عام طور پر ہندو مذہب کے پیروکار جب زیادہ پڑھ لیتے ہیں تو وہ عقیدہ سے متعلق غلط فہمی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ لیکن ہر ہندو جانتا ہے کہ لیمو اور ہری مرچ کا استعمال جادو ٹونے یا تانترک ودیا میں استعمال نہیں ہوتا جب کہ اس پر لونگ لگا کرجادو ٹونے کے اثرات کو ختم کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ عام طور پر ہر ہندو گھر سے باہر یا گاڑیوں، دوکانات کے باہر لیمو اور مرچ لگاتے ہیں۔ یہ ٹوٹکا پُرانک ہے اور وہیں سے ہندو پیروؤں میں آیا ہے۔ لکشمی دیوی جس کو وہ دولت کی دیوی مانتے ہیں، اس کی بہن آلکشمی ہے اس کو کھٹا پسند ہے اور لکشمی کو میٹھا پسند ہے۔ میٹھے سے گھر میں مٹھاس یعنی خوشحالی اور کھٹے سے برائی کا اضافہ ہوتا ہے۔ اسی لیے وہ لیمو اور مرچ کو گھر سے باہر لگاتے ہیں تاکہ باہر ہی باہر اس کی دعوت ہو جائے۔ یہ بات ہر ہندو جانتا ہے کہ خالی لیمو مرچ سے کچھ بھی نہیں ہوتا ہے۔ یہ بات وہ بھی جانتا ہے جو پُران اور وید تک بھی نہ پڑھا ہو۔ سعدیہ کامران کہتی ہیں کہ ہاں اگر ان لیموؤں پر لونگ لگے ہوں تو وہ تنتر یعنی جادو کیا ہوا ہوتا ہے جو ظاہر ہے اثر کرے گا۔ جب لوگ اتنے پڑھے لکھے ہیں تو وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کوئی بھی کَل یُگ کو ختم نہیں کرسکتا کیونکہ ان کے عقیدے کے مطابق کَل یُگ کے خاتمے کے لیے ابھی ساڑھے چودہ لاکھ سال باقی ہیں ان کے پاس یہ اعداد وشمار مستند ہیں اور کچھ بھی کر کے اس کو بدلا نہیں جا سکتا اور کوئی بھی ستیہ یُگ کو لا نہیں سکتا یہ بات بھی معمولی پڑھا لکھا ہندو جانتا ہے۔ یہاں تک کہ کوئی پڑھا لکھا ہندو بھی اس دعویٰ کو قبول نہیں کرے گا۔ رہی یہ بات کہ وہ اپنے اس عمل سے دنیا بھر سے کورونا کی وبا ختم کریں گے بالکل بے بنیاد ہے۔ وہ نہ تو کوئی اسٹرلوجر ہیں اور نہ ہی ان پر کسی دیوی دیوتا کا الہام ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ ’’پنر جنم‘‘ دوبارہ سے زندہ ہونے کا دعویٰ بھی بالکل بے بنیاد ہے کیونکہ ان کے ویدیک اور پُرانک عقیدے کے مطابق اسّی ہزار یونیاں ہیں اور ہر انسان اپنے اچھے اور برے کرموں کا پھل بھگتے بغیر دوبارہ انسانی حالت میں واپس نہیں آسکتا۔ اسی لیے وہ سب جانتے ہیں کہ ایک بار مرنے کے بعد دوبارہ کوئی بھی زندہ نہیں ہو سکتا۔
دراصل اسلام ہی وہ واحد دین ہے جو حق اور باطل کی تفریق کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اسی لیے فرمایا گیا ہے حق آگیا ہے باطل مٹ گیا اور باطل کو مٹنا ہی ہے۔ اسلام ہی وہ دین ہے جو عقیدہ سے متعلق ایک مضبوط نظریہ پیش کرتا ہے کہ اللہ رب العالمین ہی وہ واحد ہستی ہے جو نظام عالم کو چلاتی ہے۔ ہر شر اور خیر اللہ کی جانب سے ہے اور اللہ کا ذکر ہی قلوب کو مطمئن کرتا ہے۔
***

بظاہر پر تعیش اور پرسکون نظر آنے والا خاندان کیا واقعی پر سکون تھا؟ ڈاکٹر سواتی کہتی ہیں ’’ایسا ہرگز نہیں ہے۔۔۔ یہ اندرونی ٹوٹ پھوٹ کئی برسوں سے جاری ہے جس کو وہ اپنی تعلیم یافتہ خاصیت یا طاقت کی بناء پر سماج سے چھپانے میں کامیاب رہے

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021