توحید کا ایک ہی صحیح تصور

محمد یوسف اصلاحی

 

توحید کو ماننے والے اور توحید کو اپنانے کا دعویٰ کرنے والے یوں تو بہت سے گروہ ہیں لیکن توحید کا ایک ہی صحیح تصور ہے جو قرآن پیش کرتا ہے، اس کے خلاف جو تصورات بھی پیش کیے جاتے ہیں وہ سراسر باطل اور ناقابل قبول ہیں، اس عظیم دعوے کی بنیاد تعصب اور تنگ نظری نہیں بلکہ علم و عقل اور جذبہ حق پسندی ہے اور اس دعوے کی سچائی تھوڑے سے غور و فکر سے بآسانی سمجھ میں آسکتی ہے۔
توحید و بندگی رب کا مستند علم
اس واضح حقیقت سے کون انکار کرنے کی جرات کرسکتا ہے کہ خدا کی معرفت کا صحیح اور قابل اعتماد علم اور اس کی بندگی کا مقبول اور مستند طریقہ صرف وہی ہوسکتا ہے جو اللہ نے خود اپنے بندوں کو بتایا ہے اور یہ کہ اللہ نے اپنے بندوں کو اپنی ذات و صفات کا ایک ہی علم اور اپنی بندگی کا ایک ہی طریقہ بتایا ہے، یہ بات قطعاً خلاف عقل ہے کہ وہ اپنی معرفت اور بندگی کے متضاد تصورات اور طریقے اپنے بندوں کو بتائے۔ تحقیق طلب بات صرف یہ ہے کہ خدا کی ذات و صفات کا وہ صحیح علم اور اس کی بندگی کا وہ مستند اور مقبول طریقہ کیا ہے؟ اور یہ ہر حق پسند کا فرض ہے کہ وہ اس علم صحیح اور طریق زندگی کو معلوم کرے۔ اس سے بڑی نادانی اور محرومی اور کیا ہوگی کہ علم و عقل سے کام لیے بغیر اور کسی طرق زندگی پر اس پہلو سے اطمینان حاصل کیے بغیر آدمی آنکھیں بند کیے باپ داد کے مذہبی تصورات سے چمٹا رہے اور باپ دادا کی اندھی تقلید کرتا رہے یا زندگی کی گاڑی خواہشات کے حوالے کر کے بے فکر ہو جائے۔
قرآن کا دعویٰ اور اس کی اطمینان بخش دلیل
قرآن کا دعویٰ یہ ہے کہ توحید کا صحیح علم اور بندگی رب کا صحیح طریقہ صرف وہی ہے جو قرآن پیش کرتا ہے، اس کے برخلاف جو تصور توحید اور جو طریقہ بندگی بھی ہے وہ سراسر باطل اور عنداللہ غیر مقبول ہے۔ اس لیے کہ قرآن ہی وہ مستند اور محفوظ ہدایت نامہ ہے جو خدا نے نازل کیا ہے، اس دعوے کی اطمینان بخش دلیل خود قرآن اور اس کی تعلیمات ہیں۔
قرآن ایک جامع، مربوط، واضح اور مکمل کتاب ہے، یہ ہر اختلاف اور تضاد سے پاک ہے، اس کی تعلیمات علم و عقل کی کسوٹی پر پوری اترنے والی اور قابل عمل ہیں، یہ علم و حکمت کا سرچشمہ اور فصاحت و بلاغت کا بے مثل نمونہ ہے، اس کی ہدایات، وسیع علم، بے خطا نقطہ نظر، غیر جانبداری اور حقیقت و صداقت کی آئینہ دار ہیں۔ اس کے اصول نہایت جامع، لچک دار اور ہر دور کی ضرورت کے لیے مفید اور کار آمد ہیں، اس کو قبول کرنے والا نہ زندگی کسی ضرورت میں کسی دوسری ہدایت کا محتاج رہتا ہے اور نہ اپنے دل و دماغ میں شک اور تذبذب کی کوئی خلش محسوس کرتا ہے۔
ایک ایسی عظیم کتاب وہی خدا نازل کر سکتا ہے، جس کا علم پوری کائنات کا احاطہ کیے ہوئے ہو، جس کے لیے ماضی، حال اور مستقبل سب حاضر ہوں، جس کے نقطہ نظر میں تنگی اور خطا کا امکان نہ ہو، جو انسان کی ہر ضرورت اور فطرت کے ہر تقاضے کا مکمل اور یقینی علم رکھتا ہو اور جو انسان کی نفسیات اور اس کے عمل و اجتہاد کی قوتوں سے پوری طرح باخبر ہو اور کوئی معمولی سے معمولی چیز بھی اس کی نظر سے اوجھل نہ ہو۔ انسان، جو اپنی تمام تر علمی ترقیوں کے باوجود کائنات کے بہت تھوڑے سے حصے کے بارے میں بہت محدود سا علم حاصل کرسکا ہے۔ جس کو اپنی تاریخ کا بھی کامل علم نہیں ہے، جو اپنے مستقبل اور اس کی ضرورتوں سے بھی پوری طرح با خبر نہیں ہے اور پھر اس کے علم کی کوتاہی اور غلطی سامنے آتی رہتی ہے۔ یہ انسان قرآن جیسی جامع اور مکمل کتاب کیسے تصنیف کر سکتا ہے؟ ایسی کتاب تصنیف کرنا تو درکنار یہ تو قرآن جیسی ایک سورت بھی مرتب نہیں کر سکتا۔
قرآن کی مثال پیش کرنے سے عاجزی
قرآن ۱۴ صدیوں سے برابر چیلنج کر رہا ہے کہ جو لوگ بھی قرآن کو خدا کا نازل کیا ہوا ہدایت نامہ نہیں مانتے اگر وہ سچے ہیں تو اپنے علم و دانش کا پورا زور لگا کر اس جیسی ایک سورت ہی تصنیف کر لائیں اور پھر یقین کی پوری قوت سے اعلان کرتا ہے کہ وہ ہرگز ایسا نہیں کر سکتے۔ اور اگر تمہیں اس امر میں شک ہے کہ یہ کتاب جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کی ہے یہ ہماری ہے یا نہیں تو اس کے مانند ایک ہی سورت بنا لاؤ، اپنے سارے ہمنواؤں کو بلالو ایک اللہ کے سوا جس سے چاہو مدد لے لو، اگر تم سچے تو تو یہ کام کر کے دکھادو، لیکن اگر تم ایسا نہیں کرسکتے، اور یقیناً کبھی نہیں کرسکتے تو ڈرو اس سے آگ سے جس کا ایندھن بنیں گے انسان اور پتھر (جن کو وہ معبود بنا کر پوجتا رہا ہے) جو تیار کی گئی ہے ان کے لیے جو حق کا انکار کرتے ہیں‘‘۔
طالب حق کے فکر و فیصلے کا صحیح انداز
قرآن کا یہ دعویٰ کہ خدا کی معرفت اور اس کی بندگی کا صحیح علم وہی ہے جو قرآن پیش کر رہا ہے اور انسانیت کی کامیابی اور فلاح اسی کو قبول کرنے میں ہے اس لیے کہ یہ خدا کا نازل کیا ہوا، آخری، مستند اور محفوظ ہدایت نامہ ہے، ایک ایسا چونکا دینے والا دعوی ہے جو ہر باشعور اور طالب حق کو جھنجھوڑتا ہے اگر وہ واقعی اپنی بھلا چاہتا ہے تو جہالت تعصب لا پروائی، آبا کی اندھی تقلید اور ہٹ دھرمی کی روش چھوڑ کر، صاف دل و دماغ کے ساتھ سنجیدگی سے اس دعوے پر غور کرے اور خدا نے سوچنے، سمجھنے، دیکھنے سننے اور فیصلہ کرنے کی جو قوتیں دے رکھی ہیں ان سے کام لے کر اپنی زندگی کے بارے میں کوئی فیصلہ کرے، اس لیے کہ زندگی صرف ایک ہی بار ملتی ہے، اگر آدمی نے غلط عقیدے پر زندگی کی بنیاد رکھی تو وہ ہمیشہ کے لیے ناکام و نامراد ہوگیا اور اگر صحیح عقیدے پر زندگی کی تعمیر کی تو دنیا میں بھی کامیاب رہے گا اور مرنے کے بعد بھی فلاح و نجات سے ہمکنار ہوگا۔
(اے محمد!) صاف صاف کہہ دیجیے کہ یہ حق تمہارے رب کی جانب سے آیا ہوا ہے، اب جس کا جی چاہے ایمان لائے اور جس کا جی چاہے اس انکا انکار کر دے۔ ہم نے (انکار کرنے والے) ظالموں کے لیے ایک (ایسی ہولناک) آگ تیار کر رکھی ہے جس کی لپٹیں انہیں گھیرے میں لے چکی ہیں وہاں اگر وہ پانی مانگیں گے تو ایسے پانی سے ان کی توضع کی جائے گی جو تیل کی تلچھٹ جیسا ہوگا اور ان کا منہ بھون ڈالے گا، بد ترین پینے کی چیز اور بہت ہی بری آرام گاہ! رہے وہ لوگ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں تو ہم نیکو کار لوگوں کے اعمال خیر کا اجر ہرگز ضائع نہیں کیا کرتے، ان کے لیے سدا بہار جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی۔ وہاں وہ سونے کے کنگنوں سے آراستہ کیے جائیں گے، باریک ریشم اور اطلس و دیبا کے سبز کپڑے پہنیں گے اور اونچی مسندوں پر تکیے لگائے بیٹھے ہوں گے، بہترین اجر اور بہترین آرام گاہ!‘‘۔

اللہ نے اپنے بندوں کو اپنی ذات و صفات کا ایک ہی علم اور اپنی بندگی کا ایک ہی طریقہ بتایا ہے، یہ بات قطعاً خلاف عقل ہے کہ وہ اپنی معرفت اور بندگی کے متضاد تصورات اور طریقے اپنے بندوں کو بتائے۔ تحقیق طلب بات صرف یہ ہے کہ خدا کی ذات و صفات کا وہ صحیح علم اور اس کی بندگی کا وہ مستند اور مقبول طریقہ کیا ہے؟ اور یہ ہر حق پسند کا فرض ہے کہ وہ اس علم صحیح اور طریق زندگی کو معلوم کرے۔