تمل ناڈو: کئی سیاسی وسماجی محاذوں پر حکومت کے بیباکانہ اقدام

اسٹالن کی زیرقیادت ڈی ایم کے حکومت عوام کے دل جیتنے کے لیے کوشاں ۔ ریاست کے سیاسی منظر نامہ کا جائزہ

اسانغنی مشتاق رفیقی، وانم باڑی

 

آخر کار ایک دہائی کے بعد تمل ناڈو اسمبلی انتخابات 2021 میں واضح اکثریت کے ساتھ کامیابی حاصل کر کے ڈی ایم کے نے اپنی حکومت بنا لی جس کی پیش قیاسی اکثر سیاسی پنڈتوں نے کی تھی۔ لیکن نتائج میں کئی چونکا دینے والے حقائق سامنے آئے۔ اے آئی اے ڈی ایم کے اور بی جے پی اتحاد نے توقع سے ذیادہ ووٹ حاصل کر کے کئی حلقوں کو آئندہ کے لیے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا۔ شاید یہی بات رہی کہ ڈی ایم کے رہنما ایم کے اسٹالن 7 مئی کو وزیر اعلیٰ کے عہدے کا حلف لیتے ہی عوام سے اپنے رابطے کو مضبوط کرانے میں جٹ گئے۔
تمل ناڈو کی سیاست ملک کی سیاست سے اس لیے بھی الگ مانی جاتی ہے کہ یہاں عوام کی اکثریت علاقائی مسائل کو ہی اہمیت دیتی ہے۔ ذات پات کا بول بالا ہونے کے باوجود تمل زبان اور تمل کلچر پر کوئی بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ اپنی تمل شناخت پر جنون کی حد تک غرور، اپنی زبان اور علاقائیت سے والہانہ محبت ایسی چیزیں ہیں جس کی وجہ سے یہ شمالی ہندوستان کی کسی بھی پارٹی اور تنظیم سے نظریاتی طور پر شاذ ونادر ہی متاثر ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کی دو دہائی کے بعد سے جب سے ڈراوڑین پارٹیوں نے تمل شناخت کو اصل موضوع بنا کر اقتدار پر اپنا قبضہ جمایا، کانگریس جیسی قدیم پارٹی بھی یہاں اپنا کوئی مضبوط حلقہ نہیں بنا سکی۔
گزشتہ سات سالوں میں جب سے بی جے پی مرکز میں برسر اقدار آئی ہے شمالی ہندوستان میں تیزی سے سیاسی منظر نامے بدل رہے ہیں۔ کانگریس پارٹی اپنی چمک مکمل کھوتی جارہی ہے۔ اُس کی صفوں میں اس قدر انتشار ہے کہ پتہ ہی نہیں چلتا کہ کون کب چولا بدل لے، جو آج اُس کی طرف سے سیکولر ازم کی دہائی دے رہا ہے کل ممکن ہے اِسی لمحے بی جے پی کے خیموں میں بیٹھا شدت پرستی کا راگ الاپتا دکھائے دے ۔ علاقائی پارٹیوں میں بھی اب وہ بات نہیں رہی کہ اپنے بل پر ریاست میں حکومت بنا سکیں، اس کے لیڈروں کی اکثریت کرسی اور دولت کی ہوس میں مبتلا، ان اصولوں پر بھی سمجھوتہ کرنے کو تیار ہو جاتی ہے جس کو اساس بنا کر انہوں نے عوامی حمایت حاصل کی تھی۔ عوام کی اکثریت فسطائی طاقتوں کے فریب میں مبتلا ہوکر ایسے مسئلوں پر ووٹ کرنے لگی ہے جس سے نہ ملک کی ترقی ممکن ہے نہ اُس کے حقیقی مسائل حل ہو سکتے ہیں، اکثریت کو اقلیت کا خوف دلا کر نفرت کی آگ بھڑکا کر ملک کی سکیولر شناخت کو چیلنج کیا جارہا ہے۔ ایک طرف ملک بدترین وبا کا شکار ہو کر شدید معاشی بحران سے دوچار ہے تو دوسری طرف ملک کے چند گنے چنے سرمایہ داروں کی دولت میں ہزاروں گنا اضافہ ہوگیا ہے۔ میڈیا، عدلیہ اور افسر شاہی کی اکثریت حکومت کی زبان بولتی نظر آرہی ہے۔ جمہوریت میں جمہور کے اختیارات پر سوال کھڑے کیے جارہے ہیں اور نیشنلزم کا حوالہ دے کر ایسے ایسے قوانین لائے جارہے ہیں جن سے تانا شاہی کی بو آتی ہے۔ اس پس منظرکے ساتھ تمل ناڈو میں اصولوں سے سمجھوتہ نہ کرنے والی شناخت کے ساتھ ایک مضبوط علاقائی پارٹی ڈی ایم کے کے اقتدار میں آنے سے سیاسی گلیاروں میں ایک اچھا شگون مانا جا رہا ہے۔ اس کی وجہ سے سیکولر محاذ پر لوگوں کا اعتماد بحال ہوا ہے اور فسطائی خیموں میں بوکھلاہٹ نظر آ رہی ہے۔
اقتدار میں آتے ہی جس تیزی سے ڈی ایم کے حکومت نے وبا میں گرفتار ریاست کو اُس کے خوفناک شکنجے سے نکالا ہے، اس سے عوام کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ چار ہزار روپیوں کے علاوہ معمول کے اناج کے ساتھ چودہ عدد ضروری اشیا سے بھری ایک تھیلی ہر خاندان کو مہیا کرانے سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے معاشی مشکلات کی شکار عوام کو بڑی راحت ملی ہے۔ وزیر اعلیٰ کا حفاظتی کٹ پہن کر کووڈ اسپتالوں کا دورہ اور مریضوں سے راست گفتگو، آکسیجن کی کمی کو دور کرنے کے لیے ہنگامی اقدامات، ضروری دوائیوں کی فراہمی کے لیے بر وقت احکامات، ویکسین کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے امریکی انتظامیہ سے رابطہ، عوام کو ویکسینشن کی طرف راغب کرنے کی مسلسل اور کامیاب کوشش، یہ سب ایسی چیزیں ہیں جن کی وجہ سے ریاست اب تیزی سے وبا کی گرفت سے باہر نکل رہی ہے۔ ویکسین کے معاملے میں مرکزی حکومت کی پالیسی کو بدلنے میں تمل ناڈو کی ویکسین پالیسی کا بھی ایک بڑا رول رہا ہے، جس کی وجہ سے سیاسی محاذ پر اس کے سیاسی قد میں اضافہ ہوا ہے۔
گزشتہ دنوں پہلی مرتبہ بحیثیت وزیر اعلیٰ دہلی کے سفر اور وزیر اعظم سے ملاقات میں وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالن کی باڈی لینگویج کو یہاں کے عوام میں بڑی پذیرائی ملی اور اسے تمل وقار کی بحالی کے طور پر دیکھا گیا۔ اس ملاقات میں وزیر اعلیٰ نے کھلے اور صاف لفظوں میں مرکزی حکومت سے تینوں زرعی قوانین اور شہریت ترمیم قوانین کی واپسی، نیٹ امتحانات کا مکمل خاتمہ، سری لنکا کے تمل مہاجرین کی شہریت اور سری لنکن بحریہ کے ہاتھوں تمل ماہی گیروں کی تکلیف کا مستقل حل، نئی تعلیمی پالیسی کے نفاذ کی واپسی کے ساتھ مدورائی میں AIIMS کے قیام میں تیزی، جی ایس ٹی میں ریاستی حکومت کو بقایا رقم کی فوری فراہمی، وبا کے لیے ویکسین اور ضروری ادویات کی مناسب مقدار میں فراہمی، ’’سیتو سمندرم شپ کینل پروجکٹ‘‘ کی بحالی (جسے ہندوتوا حامی ہندو آستھا کے خلاف بتا رہے ہیں)، چنگل پیٹ کے ایچ ایل ایل بائیوٹک یونٹ اور کنوور کے پاسچر انسٹیٹیوٹ میں ویکسین کی تیاری شروع کرنے کا مطالبہ، چنئی میں سپریم کورٹ کی علاقائی شاخ کا قیام، مدراس ہائی کورٹ میں تمل زبان کو سرکاری زبان بنانے کی مانگ اور کئی فلاحی اور عوامی بہبودی اسکیموں کی بحالی اور ان میں مدد کے ساتھ خصوصی ریلیف پیکیج کا بھی مطالبہ شامل ہے۔
ایک دور میں واجپائی کی زیر قیادت ین ڈی اے کا حصہ رہ چکی ڈی ایم کے پارٹی کا موجودہ تیور شروع سے ہی بی جے پی کے ساتھ ٹکراؤ اختیار کرتا دکھائی دے رہا ہے۔ ایک طرف ریاست کے عوام کو اپنی طرف مکمل مائل رکھنے کے لیے نئی نئی فلاحی اسکیموں کا اعلان تو دوسری طرف مرکزی حکومت (جس کو مرکزی حکومت کہنے سے بھی گریز کرتے ہوئے یونین گورنمنٹ کہہ کر مخاطب کیا جارہا ہے، جسے خود ڈی ایم کے کی ایک نئی سیاسی حکمت عملی سمجھی جارہی ہے) سے ببانگ دہل اپنا حق طلب کرنا اور سوالات کھڑے کرنا، ان طاقتوں کے لیے جو مرکزی حکومت کی ریڑھ کی ہڈی بنی ہوئی ہیں، ایک بہت بڑا چیلنج بنتا دکھائی دے رہا ہے۔
ریاست میں عورتوں کے لیے سرکاری بسوں میں مفت بس پاس کا اعلان جہاں عورتوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی بڑی پہل ہے وہیں حکومت کے زیر انتظام مندروں میں بحیثیت پجاری خدمات کے لیے ان عورتوں کو جو اُس میں دلچسپی رکھتی ہیں تربیت اور تقرری کے اعلان کو ایک انقلابی سماجی تبدیلی کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اس بات کی جہاں ترقی پسندوں نے کھل کر تائید کی ہے وہیں قدامت پسند طبقے کی جانب سے اس پر سخت رد عمل سامنے آرہا ہے۔ تمام ہندوتوا تنظیمیں اِسے تملوں اور ہندوؤں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔ حالانکہ مندروں میں غیر برہمن پجاری کے ذریعے اشلوک پڑھنے اور پجاری کے فرائض انجام دینے کو لے کر ڈی ایم کے اس سے پہلے بھی جبکہ وہ حکومت میں تھی ایسے اقدامات کر چکی ہے، جس کی عدالت عالیہ کی جانب سے بھی توثیق ہوئی ہے ۔ 2015 میں عدالت عالیہ نے ڈی ایم کے حکومت کے ایک قانون کے خلاف جس میں غیر برہمنوں کو پجاری بنانے کی بات کہی گئی تھی، دائر کیے گئے مقدمے کی سنوائی کرتے ہوئے فیصلہ دیا تھا کوئی بھی قابل ہندو جو ہندو شاستروں سے واقف ہو اور روایتوں کا علم رکھتا ہو بحیثیت پجاری خدمات انجام دے سکتا ہے۔
اقلیتوں کے تعلق سے بھی ڈی ایم کے حکومت کا رویہ بہت امید افزا ہے۔ وزیراعظم مودی کے ساتھ راست گفتگو میں وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالین نے شہریت ترمیم قانون واپس لینے کا مطالبہ رکھ کر اقلیتوں کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اسمبلی کے فلور پر وزیر اعلیٰ نے یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ ان کی حکومت سچر کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر عمل کرے گی اور اقلیتوں کے لیے اسکیموں کو زیادہ موثر انداز میں نافذ کرے گی۔ اسی کے ساتھ رواں اسمبلی میں شہریت ترمیم قوانین کے خلاف قرار داد پاس کرانے کی بات اور اس قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر گزشتہ حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے مقدمات کی واپسی کا اعلان بھی اقلیتوں کے تئیں حکومت کی سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔
ماضی میں مرکزی حکومت کی ساجھے دار رہی اے آئی اے ڈی ایم کے حکومت کے دور میں صحافیوں پر بہت سے بے جا مقدمات قائم کیے گئے اسی طرح مرکزی حکومت کے شہریت ترمیم قوانین، تینوں زرعی قوانین، نیٹ امتحان اور ایسی دوسری کئی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر بھی مقدمات قائم کیے گئے، اسمبلی کے فلور سے وزیر اعلیٰ کا یکمشت ان سب کی واپسی کا اعلان بھی حکومت کی طرف سے ایک بیباکانہ اقدام مانا جارہا ہے۔
تمل ناڈو حکومت کی جانب سے ریاست کے معاشی حالات کو سدھارنے کے لیے ماہرین معاشیات کی پانچ رکنی کونسل کا قیام اس پورے نئے منظر نامے میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔ اس اقدام کو تمل ناڈو حکومت کا ایک ایسا انقلابی قدم مانا جا رہا ہے جس کی مثال ملنی مشکل ہے۔ اس پانچ رکنی کونسل میں ریزرو بینک آف انڈیا کے سابق گورنر رگھو رام راجن، مشترکہ نوبل معاشیات کے انعام آفتہ ایسٹر ڈوفلو، ماہر ترقیاتی معاشیات ژان ڈریز، نریندر مودی حکومت کے سابق اقتصادی مشیر اروند سبرامنیم اور سابق وزیر خزانہ ایس نارئن شامل ہیں۔ اس کونسل سے کہا گیا ہے کہ وہ ریاستی حکومت کی موجودہ مالی صورتحال کو ذہن میں رکھتے ہوئے جو مسلسل خسارے اور قرضوں کی بھر مار سے اپنے بد ترین دور سے گزر رہی ہے، اسی کے ساتھ لوگوں کی توقعات پر بھی نظر رکھتے ہوئے حکومت کو معاشی اور معاشرتی پالیسی، سماجی انصاف اور انسانی ترقی سے متعلق امور، خواتین کے لیے مساوی مواقع کی فراہمی اورپسماندہ طبقات کی فلاح وبہبود کے لیے عمومی رہنمائی فراہم کریں۔ ان سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام شعبوں میں روزگار، پیداواری صلاحیت کو بڑھانے اور ہم جہتی ترقی کے لیے تجاویز پیش کریں۔ اگر تمل ناڈو کی حکومت کی یہ پہل کامیابی سے ہمکنار ہوئی اور ریاست کی ترقی میں اضافہ ہوا تو ملک کی تمام ریاستوں کے لیے ایک نمونہ سمجھا جائے گا۔
اسمبلی انتخابات میں اپنی ہار کے غم سے نہ ابھر پانے والی اے آئی اے ڈی ایم کے سیاسی محاذ پر ایک الجھے ہوئے حزب مخالف کا کردار ادا کر رہی ہے۔ اس کے اندر موجود آپسی اختلافات بھی اب کھل کر سامنے آنے لگے ہیں۔ ایک طرف اُسے اپنی صفوں کو جوڑے رکھنا ہے وہیں پارٹی کے کارکنوں میں پارٹی سے خارج کردہ سابق سربراہ ششی کلا کے لیے بڑھتی ہوئی حمایت بھی اُس کے لیے پریشانی کا سبب ہے۔ اس پس منظر میں ڈی ایم کے کے لیے یہ ایک نادر موقع ہے کہ وہ عوام میں فلاحی اقدامات کر کے اپنی گرفت مضبوط کرے اور فسطائی طاقتوں کے خلاف اپنے تیور میں کوئی تبدیلی لائے بغیر ڈٹ کر میدان میں جمے رہے۔ اقلیتوں اور پسماندہ طبقات کے مسائل پر خصوصی توجہ دے۔ حزب مخالف کے خلاف انتقامی کارروائیوں سے گریز کرتے ہوئے تعمیری کاموں میں مشغول رہے۔ اگر وہ اس نہج پر اپنی حکومت کو آگے بڑھائے گی تو آنے والے دنوں میں اقتدار پر اس کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جائے گی۔
***

وزیر اعظم مودی کے ساتھ راست گفتگو میں وزیر اعلیٰ ایم کے اسٹالین نے شہریت ترمیم قانون واپس لینے کا مطالبہ رکھ کر اقلیتوں کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے۔ ساتھ ہی اسمبلی کے فلور پر وزیر اعلیٰ نے یہ یقین دہانی بھی کرائی ہے کہ ان کی حکومت سچر کمیٹی کی سفارشات کی بنیاد پر عمل کرے گی اور اقلیتوں کے لیے اسکیموں کو زیادہ موثر انداز میں نافذ کرے گی۔ اسی کے ساتھ رواں اسمبلی میں شہریت ترمیم قوانین کے خلاف قرار داد پاس کرانے کی بات اور اس قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر گزشتہ حکومت کی جانب سے قائم کیے گئے مقدمات کی واپسی کا اعلان بھی اقلیتوں کے تئیں حکومت کی سنجیدگی ظاہر کرتا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 4 تا 10 جولائی 2021