تمل ناڈو میں تبلیغی جماعت سے وابستہ 129 غیر ملکی حراستی کیمپ میں رہنے پر مجبور

ضمانت منظور ہونے کے باوجود ریاستی حکومت کی جانب سے غیر ملکی شہریوں کی رہائی پر پابندی

(دعوت نیوز نٹ ورک) تمل ناڈو حکومت نے مارچ کے مہینے میں تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرنے والے ایشیاء یورپ اور افریقی ممالک کے جملہ129 شہریوں کو سب سے پہلے چینئی کے پوجھل سینڑل جیل میں رکھا گیا۔ اس کے کچھ ہفتوں بعد سیدا پیٹ کی جیل میں رکھا گیا پھر انہیں بورسٹل اسکول میں منتقل کیا گیا، جس کو جلد بازی میں حراستی کیمپ میں تبدیل کر دیا گیا تھا۔ جہاں سے ان کا اپنے خاندان سے رابطہ مکمل طور پر منقطع ہے۔وزارت داخلہ کے ذرائع کے مطابق ملک کے الگ الگ حصوں میں 35 ممالک کے 3500 سے زیادہ غیر ملکی شہری پھنسے ہوئے ہیں۔ صرف یوپی میں 737 غیر ملکی شہری موجود ہیں۔ ان میں کئی حاملہ خواتین اور بزرگ بھی ہیں جنہیں فوری طبی نگہداشت کی ضرورت ہے۔ لیکن تمل ناڈو میں 129 غیر ملکی شہریوں کی حالت بہت زیادہ خراب ہے۔ جن میں 12 خواتین ہیں اور کچھ ایسی خواتین بھی ہیں جن کے بچے بے حد چھوٹے ہیں۔ تمل ناڈو حکومت نے اپریل میں ریاست بھر میں 15 ایف آر آئی درج کیں اور جوائنٹ انٹر ڈسٹرکٹ آپریشن شروع کرکے ان غیر ملکی شہریوں کو مسجدوں اور نجی رہائش گاہوں سے گرفتار کیا گیا تھا ۔جہاں انہوں نے خود کو کورنٹین کیا تھا۔ ان میں سے ملیشیاء کے دس شہریوں کو جہاز میں سوار ہونے سے کچھ منٹوں پہلے حراست میں لیا گیا تھا۔ تب سے لے کر اب تک جیلوں میں بند ان غیر ملکی شہریوں نے ہر طرح سے قانونی راحت حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن ریاستی حکومت مختلف حربے استعمال کرتے ہوئے ان شہریوں کی رہائی کو مزید پیچدہ بنا رہی ہے۔چینئی میں ان شہریوں کی گرفتاری کے ایک مہینے بعد مدراس ہائی کورٹ نے تھائی لینڈ کے چھ شہروں کو ضمانت دی۔ اس پر تمل ناڈو حکومت نے ان شہریوں کو رہا کرنے کے بجائے سرکاری احکامات جاری کرکے انہیں حراست میں رکھا۔ گورنربنواری لال پروہت نے ودیشی ایکٹ 1946 کی دفعہ 3(2) کے تحت اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے، آٹھ مئی کو جاری آرڈیننس میں کہا غیر ملکی شہری چننئی کے پوجھل میں بنے خصوصی کیمپ میں رہیں گے۔ اس آڈر کے ساتھ تمل ناڈو ملک کی کورونا وائرس وباء کے دوران غیر ملکی ایکٹ کے تحت حراستی سنٹر بنانے والی پہلی ریاست بن گئی۔ وہ ریاستیں جہاں پہلے سے ہی حراستی کیمپ موجود ہیں انہوں نے بھی ان کا استعمال نہیں کیا لیکن تمل ناڈو حکومت نے بورسٹل اسکول کو حراستی سنٹر میں تبدیل کردیا۔ بھلے ہی ریاستی حکومت نے اس کیمپ کو عارضی کیمپ بتایا لیکن وکیلوں اور کارکنوں نے اس بیان کو گمراہ کرنے والا بتایا۔ تمل ناڈو میں پہلے ہی حراستی سنٹر کی طرز پر تروچی میں انٹر میڈیٹ کیمپ موجود ہے جہاں زیادہ تر سری لنکا کے شہریوں کو رکھا جاتا ہے۔ لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس نئے سرکاری احکامات کے مطابق تمل ناڈو حکومت مذہبی اقلیتوں کو ہراساں کرنے کا تہیہ کرچکی ہے۔قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نئے احکام سے حراست میں رکھے گئے غیر ملکی شہریوں کی بحفاظت رہائی کے لیے چننئی اور مدورائی کی عدالتوں میں طویل عرصے سے چل رہی قانونی کوششوں کو شدید دھکا لگا ہے۔ پوجھل سنٹرل جیل سے جڑے بورسٹل اسکول میں 38 لوگوں کو رکھنے کی گنجائش ہے۔ لیکن یہاں 129 لوگوں کو حراست میں رکھا گیا ہے۔تمل ناڈو میں محروس تمام غیر ملکی شہریوں پر بھی تقریباََ وہی تمام دفعات نافذ کیے گئے جو ملک بھر میں گرفتار کیے گئے تمام تبلیغی جماعت سے وابستہ غیر ملکی شہریوں پر نافذ کیے گئے۔ ان پر آئی پی سی اور وبائی امراض سے متعلق ایکٹ کے تحت مختلف دفعات اور مبینہ طور پر ویزا ضابطوں کی خلاف ورزی کرنے کے لیے غیر ملکی ایکٹ کے تحت معاملات درج کیے گئے۔ اب جبکہ ان سبھی 129 غیر ملکی شہریوں کو ان معاملات میں پہلے ہی ضمانت مل چکی ہے۔ لیکن غیر ملکی ایکٹ کے تحت ریاستی حکومتوں کے پاس ملزم غیر ملکی شہریوں کو بری کرنے یا انہیں ملک بدر کرنے پر پابندی لگانے کا جو اختیار ہے، تامل ناڈو حکومت اس اختیار کو بروئے کار لاتے ہوئے ان غیر ملکی شہریوں کو حراستی کیمپ میں بھیج چکی ہے۔ جس کی وجہ سے ان غیر ملکی شہریوں کی عنقریب رہائی کے امکانات تقریباََ موہوم ہوچکے ہیں۔مدراس ہائی کورٹ کے مدورائی بنچ کے جسٹس جی آر سوامی ناتھن نے 12 جون کو انسانی ہمدردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ "یہ غیر ملکی شہری پہلے ہی بہت تکلیف برداشت کر چکے ہیں۔ ” جج نے مزید کہا "آئین کے آرٹیکل 21 کے تحت زندگی گزارنے کا حق ان عرض گزاروں پر بھی ہوتا ہے بھلے ہی یہ غیر ملکی شہری ہوں”۔ عدالت نے اپنے آرڈر میں ریاست کو ہدایت دی کہ وہ بورسٹل اسکول میں حراست میں رکھے گئے غیر ملکی شہریوں کو جیل کے اندر نہ رکھے۔ ہائی کورٹ کے واضح احکامات کے بعد بھی ریاستی حکومت نے ان غیر ملکی شہریوں کو اسی بورسٹل اسکول میں رکھا۔ بنیادی سہولیات سے محروم اس اسکول میں ان غیر ملکی شہریوں کے ساتھ عام قیدیوں سے بھی بےحد برا برتاؤ کیا جارہا ہے۔تبلیغی جماعت سے وابستہ ان غیر ملکی شہریوں کے ساتھ اس قدر برے برتاؤ کی ابتداء اس وقت سے ہوئی جب مارچ کورونا وائرس کے معاملے لگاتار بڑھنے پر اچانک لاک ڈاؤن نافذ ہوا۔ اس وقت یہ تمام غیر ملکی تبلیغی جماعت کے ارکان جہاں تھے وہیں پھنسے رہ گئے اور نظام الدین مرکز میں کچھ ممبر کورونا وائرس سے متاثر پائے گئے۔ اس وقت بی جے پی حکومت اور اس کے حامی میڈیا گھرانے اور متعصب سوشل میڈیا حامیوں نے ان تبلیغی جماعت کے کارکنان پر وباء کو پھیلانے کا خوب پروپیگنڈا کیا جس کے نتیجے میں ملک بھر کی کئی ریاستوں میں ان غیر ملکی شہریوں کے خلاف ایف آر آئی درج کی گئی۔ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں شرکت کرنے والے مہاراشٹر، ہریانہ اور اترپردیش میں لگ بھگ 100 غیر ملکی شہریوں کو اب تک رہا کیا جاچکا ہے لیکن ابھی ایسے ہزاروں تبلیغی کارکنان ملک بھر کئی مقامات پر محروس ہیں۔تبلیغی جماعت سے وابستہ ان غیر ملکی شہریوں کے معاملات کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ان مقدمات کی پیروی میں کئی جھول نظر آتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ تمام مقدمات میں مقامی طور انفرادی اور غیر منظم کوششیں جاری ہیں۔ قومی سطح پر یا سپریم کورٹ میں پیروی کرنے کے لیے تبلیغی مرکز کا اصل مجاز وکیل اب تک سامنے نہیں آیا۔ سب سے پہلے جو واضح خامی نظر آتی ہے وہ یہ ہے جب ملک بھر میں حراست میں لیے گئے تمام غیر ملکی تبلیغی کارکنان پر یکساں دفعات نافذ کی گئی تھیں تو سپریم کورٹ میں عرضی داخل کرکے ان تمام مقدمات کی ایک جگہ سنوائی کی گزارش کی جاسکتی تھی۔ اگر یہ ممکن نہ تھا تو تبلیغی جماعت کو ملک گیر پیمانے پر قانونی ماہرین کی مدد سے تمام عدالتوں میں ایک منظم قانونی کارروائی کے ذریعے ان تمام غیر ملکی شہریوں کی مدد کرکے جلد راحت پہنچانے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔
***