مشرق وسطىٰ ۔ اثر و رسوخ کی نئی کش مکش

ترکی اور متحدہ عرب امارات ایک دوسرے کے مدِّ مقابل

ڈاکٹر رضوان رفیقی ، نئی دلی

مشرق وسطیٰ ،جو پہلے کئی دہائیوں تک صرف دو خیموں میں منقسم تھا‏،اس وقت تین خیموں میں بٹا ہوا دکھائی دےرہا ہے‏۔ تینوں خیموں میں سے ہرایک کی کوشش ہے کہ خطّے میں اس کا اثر ونفوذ وسیع ہو‏۔ پہلے اس کش مکش کے سرخیل تیل سے مالامال دو مسلم ریاستیں سعودی عرب اور ایران تھے ۔ ایران شیعی دنیا کی وکالت کررہا تھا تو سعودی عرب سنّی دنیا کی کمان سنبھالے ہوئے تھا ‏۔مگر اب اس دوطرفہ کش مکش نے مثلّث کی شکل اختیار کرلی ہے۔ ایران، عراق اورشام کے ساتھ اپنے شیعہ ایجنڈے پر گام زن ہے تو دوسری طرف سنّی دنیا کی قیادت دو حصوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک خیمے میں امارات کی قیادت میں سعودی عرب ، بحرین اور مصر ہیں تو دوسرے خیمےمیں ترکی کے ساتھ خلیجی ریاست قطر شامل ہے‏۔عرب میڈیا کے مطابق اس رسّہ کشی میں سعودی عرب کا مقابلہ ایران سے ہے تو دوسری طرف امارات اور ترکی آپس میں دست وگریباں ہیں ‏۔ اس مثلث کی ابتداء مشرق وسطیٰ میں عوامی انقلاب کی سیریز سے ہوئی، جب ترکی اور قطر مختلف ممالک میں عوامی تحریکوں کے ساتھ کھڑے نظر آئے اور سعودی عرب اور امارات نے اس عوامی انقلاب کو سبوتاژ کرنے میں اپنی عافیت جانی‏۔ اس اختلاف کی بنیاد عرب بہاریہ کے شروع میں ہی پڑ چکی تھی ،مگر اس کے مظاہر اس وقت زیادہ واضح ہوئے‏ جب تين سال قبل سعودی عرب ، امارات اور مصر کے مثلّت نے قطر کے بائیکاٹ کا فیصلہ لیا اور خلیج کونسل کا رکن ہونے کے باوجود اس کی ناکہ بندی کردی۔ اس سے قبل 15 جولائی 2016 کی رات میں ترکی میں ناکام فوجی انقلاب کی کوشش ہوئی، جس میں ترکی کی جانب سے امارات کی طرف انگلی اٹھائی گئی‏۔
ایران اور سعودی کی مخاصمت اب ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔ دونوں ملکوں کے حکم راں گاہے بہ گاہے مختلف مسائل پر ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھہراتے رہتے ہیں لیکن اس وقت ترکی اور امارات ایک دوسرے کے مدِّ مقابل ہیں اور دونوں کی کوشش ہے کہ مختلف محاذوں پر دوسرے فریق کو منہ کی کھانی پڑے ۔ ترکی اور امارات میں بظاہر کوئی موازنہ نہیں ہے ‏۔ ظاہری اور معنوی لحاظ سے دونوں ممالک میں زمین و آسمان کا فرق ہے ‏۔ ترکی جہاں خلافتِ عثمانیہ کی شکل میں ایک روشن تاریخ رکھتا ہے تو امارات کی پوری تاریخ ایک صدی سے کچھ زائد پر محیط ہے اور تیل کی دولت کے ظہور کے بعد ہی وہ دنیا کے نقشے پر اتنی قوّت کے ساتھ ابھرا ہے ۔ دونوں ممالک کے درمیان صرف فطری مقابلہ آرائی ہی نہیں ہے بلکہ اس نے مکمل مخاصمت کی شکل اختیارکرلی ہے ۔ دونوں ممالک کےحکم راں دو الگ طرح کے نظریات کے حامل ہیں اور دونوں کے مفادات ومصالح یَکسر جدا ہیں ‏۔ مشرقِ وسطیٰ کے امور میں دونوں ممالک گلے تک ڈوبے ہوئے ہیں ۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ابوظہبی یا انقرہ سے اُس ’’میدانِ کارزار‘‘ کی دوری کتنی ہے ؟۔ اثرونفوذ کے لیے افریقہ کے جنگلات بھی سرکیے جا سکتے ہیں اور لیبیا کے صحراؤں کی بھی خاک چھانی جاسکتی ہے ‏۔
اگر ترکی اور امارات کا موازنہ کیا جائے تو ترکی امارات کے مقابلے میں کہیں آگے ہے‏۔ ترکی کارقبہ سات لاکھ اسّی ہزار پانچ سو اسّی ( 7,80,580 )کیلومیٹر مربع ہے تو امارات کا رقبہ صرف تراسی ہزار چھ سو ( 83,600)کیلو میٹر مربع ہے ، ترکی کی آبادی امارات کی آبادی کے مقابلے میں تقریباً نوگنا زیادہ ہے یعنی 2019 کے انڈکس کے مطابق ترکی کی آبادی آ‏ٹھ کروڑ دس لاکھ (8,10,00,000)سےمتجاوز ہے تو امارات کی اصل آبادی ( غیرملکیوں کو چھوڑ کر )صرف نوّے لاکھ) 90,00,000سے کچھ زائد ہے ‏۔ ترکی ایک طرف ناٹو کا رکن ہے تو عالمی عسکری درجہ بندی میں وہ گیارہویں(11) پائے دان پر ہے جب کہ امارات کا نمبر اس سے کافی نیچے پینتالیسویں (45) نمبر پر آتا ہے لیکن امارات کی مجموعی داخلی پیداوار(GDP)اور فی کس آمدنی ترکی کے مقابلے میں بہترہے‏۔ 2018 کے احصائیے کے مطابق ترکی کی کل جی ڈی پی(GDP)جہا ں سات سو اکہتر رب ڈالر ہے تو امارات کی جی ڈی پی چارسو چودہ ارب ڈالرہے ‏۔ فی کس آمدنی کا گراف ترکی کے مقابلے میں امارات کا کافی بہتر ہے ‏۔ترکی میں فی کس آمدنی جہاں سات ہزار چھ سو چھیالیس(7,646)ڈالر ہے تو ایک اماراتی کی آمدنی انتالیس ہزار دو سو پینتیس(39,235) ڈالر ہے ‏۔ ترکی جہاں سالانہ انیس 19ارب ڈالر اپنی فوجی صلاحیتوں کے ارتقاء پر خرچ کرتا ہے توامارات بائیس 22 ارب ڈالرسے زائد اپنی فوجی ضروریات کی تکمیل پر صرف کرتا ہے ‏۔خام تیل کے معاملے میں امارات ترکی سے کہیں آگے ہے ‏۔ ترکی جہاں یومیہ دولاکھ پچاس ہزار بیرل تیل نکالتاہے ،حالاں کہ اس کی اپنی مقامی کھپت آٹھ لاکھ پچاس ہزار بیرل سے کچھ زائد ہے تو دوسری طرف امارات یومیہ تیس لاکھ بیرل سے زائد تیل نکالتا ہے ،حالاں کہ اس کی یومیہ کھپت صرف پانچ لاکھ پچہتر ہزار بیرل ہے ‏۔
اگر مسلم ممالک میں دونوں ملکوں کی اہمیت کی بات کی جائے تو ترکی تنظیم اسلامی تعاون (OIC) کی تاسیس میں شامل رہا ہے اور اب تک بڑا فعال کردار ادا کرتا رہا ہے گرچہ اوآئی سی پرعملاً سعودی عرب کی اجارہ داری ہے ، اس کے باوجود ترکی مختلف مواقع پراس پلیٹ فارم کو مختلف ایشوز کے لیے استعمال کرتا رہا ہے‏۔ 22 مئی 2014 کو ترکی نے باقاعدہ ایک ریزولیشن پاس کرایا جس کے بموجب اوآئی سی میں اس کی مستقل نمائندگی طے ہوگئی‏۔ 2016 ، 2017 اور 2018 میں مسلسل او آئی سی کے اجلاس رجب طیب اردوان کی صدارت میں منعقد ہوتے رہے‏۔ اس کے مقابلے میں امارات 1972 میں اوآئی سی کار کن بنا ، لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے وہ اس پلیٹ فارم پر اپنا مرکزی کردار ادا کررہا ہے ۔ مارچ 2019سے لے کر اپریل 2020تک او آئی سی کے تین اجلاس ابو ظہبی کی صدارت میں منعقد ہو چکے ہیں‏۔ آخری اجلاس تو کرونا وائرس کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے بذریعہ ویڈیو منعقد کیا گیا ‏۔ اوآئی سی میں ترکی کی سرگرم شرکت اب معدوم ہوتی جارہی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ترکی کے لیے اب اس پلیٹ فارم میں کچھ زیادہ دل چسپی نہیں بچی ہے‏۔ مئی 2019میں سعودی عرب کی صدارت میں جب او آئی سی کا اجلاس منعقد ہوا تو اس میں رجب طیب اردوان شریک نہیں ہوئے اور اپنے وزیرخارجہ چاویش اوغلو کو نمائندہ بنا کر بھیج دیا ‏۔اسی طرح اس کے فوری بعد دسمبر 2019 کے وسط میں کوالالمپور سمّٹ میں سعودی عرب اور امارات شریک نہیں ہوئے اور سعودی عرب کے دباؤ میں پاکستان نے بھی آخری وقت میں معذرت کرلی کیوں کہ سعودی عرب نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا کہ ترکی اور ملیشیا دوسرے بڑے مسلم ممالک کے ساتھ مل کر او آئی سی کے بالمقابل کوئی نیا بلاک تشکیل دینا چاہتے ہیں جس کی اجازت سعودی عرب قطعی نہیں دے سکتا‏۔ اتفاق ایسا ہوا کہ اس سمّٹ میں ملیشیا کے علاوہ ترکی، ایران اور قطر کے سربراہان شریک ہوئے جو اماراتی بلاک کے مخالف تصور کیے جاتے ہیں ‏۔
امارات جہاں عرب لیگ اور خلیج کونسل کا ممبر ہے جو اب قطر کے بائیکاٹ کے بعد خود انقسام کا شکارہے ‏۔ اسی عرب لیگ نے اپنے ہنی مون پیریڈ 2009میں ترکی کو بالاتفاق سلامتی کونسل کی رکنیت کے لیے نام زد کیاتھا ، جب مشرق وسطیٰ میں عوامی مظاہروں کا سیلاب نہیں آیا تھا ،لیکن اب عرب لیگ سعودی عرب ، امارات اورمصر کے فیصلوں پر دستخط ثبت کرنے کےلیےباقی رہ گئی ہے‏‏۔عرب لیگ کا باقاعدہ اجلاس اکتوبر 2019 میں منعقد ہوا جس میں ترکی کی شام میں مداخلت کے خلاف قرارداد پاس کی گئی۔ اسی طرح غیررسمی اجلاس دسمبر 2019کی قرارداد میں لیبیا میں ترکی کی شمولیت کے خلاف قرارداد منظور کی گئی ‏۔ خلیج کونسل قطر محاصرے کے بعد سے تین حصوں میں منقسم ہے ، ایک طرف قطر ہے تو دوسری طرف سعودی عرب ، امارات اور بحرین ہیں۔ کویت اور عمان نے اپنے آپ کو غیر جانب دار قرار دے رکھا ہے اور آخر الذکر دونوں ممالک قطر اور دیگر خلیجی ممالک کےدرمیان مصالحتی کوششوں میں پیش پیش رہتے ہیں‏۔ ترکی اگر چہ عرب لیگ کا رکن نہیں ہے لیکن وہ 1952سے ناٹو کا سرگرم ممبرہے اور اس فوجی بلاک میں امریکہ کے بعد سب سے طاقت ور فوج رکھنے والا ملک ہے ‏۔ ترکی کے اندر ناٹو کے کئی فوجی اڈّے ہیں‏۔ اس کے مقابلے میں امارات کی ناٹو میں شراکت صرف برائے نام ہے جس کی ابتدا 2004 میں استنبول کی دعوت پر ہوئی ‏۔ مختلف پلیٹ فارموں میں کہیں ترکی کا پلڑا بھاری ہے تو کہیں امارات کا‏۔ ناٹو میں اگر ترکی کی سُنی جاتی ہے تو اوآئی سی میں امارات کا طوطی بولتاہے ‏۔
ترکی میں AK پارٹی مسلسل بیس برسوں سے برسرِ اقتدار ہے جس کی جڑوں میں اسلامی نظریہ سرایت کیا ہوا ہے ‏۔ اس پارٹی میں زیادہ تر وہی لوگ شامل ہیں جو کسی نہ کسی مرحلے میں نجم الدین اربکان کے شاگرد رہے ہیں ، جنہیں ترکی میں اسلامی تحریک کا سرخیل کہا جاتا ہے ‏۔ لیکن ملک کی بنیادیں سیکولر اسٹیٹ پر قائم ہیں اور وہاں کی فوج اس سیکولر شناخت کی محافظ تصور کی جاتی ہے ‏۔ فوج کسی بھی پارٹی کو اس بات کی اجازت نہیں دے سکتی کہ وہ کمال اتاترک کے اس ورثہ سے چھیڑ چھاڑ کرے ۔ 2011 میں مشرق وسطیٰ میں برپا عوامی انقلاب اور زیادہ تر ممالک میں اس کی ناکامی نے رجب طیب اردوان کی اس حکمت عملی کو تقویت بخشی ہے کہ براہ راست اداروں سے ٹکراؤ کی پالیسی نہ اختیار کی جائے اور جمہوری واسلامی اقدار کے درمیان مصالحت کی کوئی شکل نکالی جائے جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہیں۔ رجب طیب اردوان نے بتدریج ملک کے دیگر اداروں پر اپنی گرفت مضبوط کرلی ہے اور اس میں استحکام اس وقت پیدا ہوا ہے جب جولائی 2016کے ناکام انقلاب کے بعد انہوں نے فوج پر نکیل کسی اور 2017میں دستوری ترامیم کے ذریعے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں تبدیل کردیاجس پر ان کے مخالفین ان پر ڈکٹیٹر بننے کا الزام لگاتے ہیں ۔ ترکی عوامی تحریکوں کے پہلو بہ پہلو کھڑا دکھائی دیتا ہے‏۔ اس نے جہاں تیونس اور مصر میں عوامی تحریک کی تائید بلاکسی تردد کے روز اوّل سے کی ہے وہیں وہ فوجی انقلاب کا سخت مخالف رہا ہے ‏۔ مصر میں فوجی ڈکٹیٹرشپ سے ترکی کی ایک دن بھی نہیں نبھی ۔ اسے شام میں بشار الاسد ایک آنکھ نہیں بھاتا تو لیبیا میں عوامی حکومت کی تائید میں اسے فوجی مداخلت سے پرہیز نہیں‏۔ترکی سرد جنگ کے آغاز سے ہی امریکہ کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے اور ایک طویل عرصے تک دونوں ممالک کے تعلقات بہت خوش گواررہے ہیں لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے یہ تعلقات سردمہری کا شکار ہورہے ہیں اس کی خاص وجہ کرد علیحدگی پسندوں کو امریکی حمایت ہے جنہیں وہ فوجی و تذویراتی مدد فراہم کرتا ہے تو ترکی ان کو باغی گردانتا ہے ۔ اسی طرح انقرہ معروف ترک دانشور فتح اللہ گولن اور ان کی تنظیم (فیتو) کو ترکی میں 2016 کے ناکام فوجی انقلاب کے پسِ پردہ ماسٹر مائینڈ سمجھتا ہے تو امریکہ فتح اللہ گولن کو اپنا مہمان بنا کر تمام سہولیات فراہم کرتا ہے ‏۔ ترکی نے جب امریکہ کے بجائے روس سے ’’S400‘‘میزائل کا سودا کیا تو اس کی یہ حرکت بھی امریکہ کو ناگوار گزری ‏۔ لیکن ترکی کی یہ کوشش ہے کہ بڑی طاقتوں سے متوازن رشتے استوار رکھے جائیں‏۔
ترکی کے بالمقابل امارات گرچہ دستوری طور پر ایک سیکولر اسٹیٹ نہیں ہے مگر اس کی کوشش ہے کہ اسے مکمل سیکولر اسٹیٹ میں تبدیل کردیا جائے‏۔ واشنگٹن میں یو اے ای کے سفیر یوسف عتیبہ نے اپنے ایک انٹرویو میں اس عزم کا اظہار بھی کیا تھا کہ متحدہ عرب امارات چند سالو ں میں مشرق وسطیٰ کا آئیڈیل سیکولر اسٹیٹ ہوگا۔ امارات کا نظام حکم رانی فیڈرل بادشاہت ہے جس میں متحدہ عرب امارات کی سات ریاستیں شامل ہیں‏۔ غیر اعلانیہ طور پر یہ بات طے ہے کہ سب سے بڑی ریاست ابوظہبی کا امیر متحدہ عرب امارات کا صدر ہوگا اور دوسری طاقت ور ریاست دبئی کا امیر وزیر اعظم کا چارج سنبھالےگا ‏۔اگرچہ تمام ہی ریاستوں کے حکم راں اعلیٰ سطحی بااختیار باڈی کے ممبرہیں ،مگر عملاً یہی دونوں ریاستیں تمام فیصلوں پر اثر انداز ہوتی ہیں ۔ اس وقت امارات کے صدرخلیفہ بن زاید النہیان اور وزیراعظم محمد بن راشد المکتوم منظر نامے سے غائب نظر آتے ہیں اور ہر اسٹیج پر ولی عہد محمد بن زاید نظر آتے ہیں جو اس بات کی علامت ہے کہ امارات کی سطح پر محمد بن زاید سب سے زیادہ طاقت ور شخصیت ہیں اور عملاً وہی متحدہ عرب امارات کے حکم راں ہیں‏۔
ترکی جہاں عوامی تحریکوں اور اسلامی تنظیموں کی پشت پناہی کرتا ہے تو امارات نے اسلامی تحریکوں کے تعلق سے اپنا رخ تبدیل کرلیا ہے ۔ 2011 کے اوائل میں امارات نے اپنے یہاں موجود اسلام پسندوں پر شکنجہ کسا اور سو (100) سے زائد علماء ومفکرین کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا کہ ان کا وجود قومی سلامتی کے لیے خطرہ ہے تو دوسری طرف مصر میں فوجی انقلاب کے بعد مصر کے اخوان کو دہشت گردوں کے خانے میں ڈال دیا ‏۔3 جولائی 2013 کے فوجی تختہ پلٹ کو جہاں ترکی فوجی بغاوت سے تعبیر کرتا ہے تو اس کے بالکل برعکس امارات اسے مرسی کے خلاف عوامی انقلاب سے تعبیر کرتا ہے جس کی فوج نے مدد کی ‏۔ ترکی کی طرح امارات بھی امریکہ کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے لیکن امریکہ نے خلیج میں کئی پارٹنرس بنا رکھے ہیں ۔ موجودہ صورتِ حال میں امارات کا سب سے بڑا مخالف قطر بھی امریکہ کا پارٹنرہے اور سعودی عرب ، کویت ، بحرین بھی اسی صف میں میں ہیں ،لہٰذا امریکہ کی نظر میں امارات کی وہ اہمیت نہیں ہے جو ترکی کوحاصل ہے ، اگرچہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور امارات کے تعلقات میں کافی گرم جوشی دیکھی گئی ہے ، جس کو پروان چڑھانے میں امریکہ میں موجود لابیز کا بڑا رول ہے‏۔
ترکی اور امارات کے درمیان یہ کش مکش صرف عالمی فورمس میں نفوذ بڑھانے تک محدود نہیں ہے ،بلکہ اب اس کش مکش کا دائرہ تفریح و سیریلس تک پہنچ گیا ہے ‏۔ ایک طرف ترکی نے سرکاری سرپرستی میں ارتغرل غازی کے کردار کو نمایاں کرنے کے لیے Dirilis: Ertugrul نامی سیریز بنوائی اور اسے مختلف زبانوں میں ترجمہ کرواکر نشرکیا ، تو دوسری طرف امارات نے ’’ممالک النار‘‘ Kingdoms of Fire نامی سیریل کا آغاز کیا جس میں خلافت عثمانیہ اور مختلف بادشاہتوں کی کش مکش کو اجاگر کیا گیا ہے ، تاکہ ترکی ڈرامے کی تاثیر کو نئی نسل کے ذہنوں سے زائل کیا جاسکے ۔
مشرق وسطیٰ کے دو اہم ممالک ایران اور اسرائیل کے تعلق سے ان دونوں ممالک کے اعلانیہ وغیر اعلانیہ مواقف الگ الگ ہیں‏۔ شام کی عوامی تحریک اور بشار الاسد کی حمایت کے موضوع پر ایران اور ترکی دونوں کے بالکل متضاد موقف ہیں ‏۔ ایران جہاں بشار الاسد کا پرزور حمایتی ہے اور اس کے اقتدار کو بچانے کے لیے نہ صرف اس نے فوجی مداخلت کی، بلکہ بشار کے اقتدارکو بچانےکےلیے روس کو بھی شام میں دعوت دی تاکہ عوامی تحریک کام یاب نہ ہونے پائے ‏اس کے مقابلے میں ترکی اوّل روز سے عوامی حمایت میں کھڑا ہے جس کے نتیجے میں چالیس لاکھ سے زائد شامی مہاجرین کا بوجھ ترکی کو مسلسل آٹھ سالوں سے اٹھانا پڑرہا ہے ‏۔ اسی طرح ایران اور امارات کے تعلقات بھی بہت خوش گوار نہیں ہیں ‏۔ دونوں ممالک کے درمیان تین جزیروں پر استحقاق کا معاملہ بہت پرانا ہے، جس پر کبھی کبھی لفظی جنگ جھڑپ میں تبدیل ہو جاتی ہے ‏۔ لیکن اس کے باوجود ایران اور امارات کے درمیان تجارتی تعلقات کبھی منقطع نہیں ہوئے ‏۔ 2019 کے تجارتی انڈیکس کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان تقریباً چودہ ( 14 ) ارب ڈالر کی تجارت ہوئی ‏۔
اسرائیل اور ترکی کے درمیان سفارتی تعلقات 1949 سے قائم ہیں لیکن گزشتہ دس برسوں میں اس میں کافی نشیب وفراز دیکھنے کو ملے ہیں‏۔ غزہ کی ناکہ بندی توڑنے کے لیے جب ترکی کی مشہور چیریٹی آرگنائزیشن IHH نے پانی کے جہاز پرغذائی اجناس پہنچانے کی کوشش کی اور اسرائیلی گولہ باری میں کئی والنٹیرس شہید ہوگئے ، تب ترکی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرلیے تھے ، اور بالآخر اسرائیل کومعافی مانگ کر اور ہرجانہ ادا کرکے سمجھوتہ کرنا پڑا تھا ‏۔ اس کے مقابلے میں امارات کے اسرائیل سے اعلانیہ تعلقات نہیں ہیں اور نہ امارات میں اسرائیلی سفارت خانہ قائم ہے ‏۔ مگر حالیہ چند سالوں میں غیراعلانیہ تعلقات میں کافی گرم جوشی دیکھنے کو مل رہی ہے ‏۔ تعلقات کی اس گرم جوشی میں امریکہ میں تعینات اماراتی سفیر یوسف عتیبہ کا اہم رول ہے جن کے توسط سے ولی عہد محمد بن زاید اور صدر ٹرمپ کےیہودی داماد اور وہائٹ ہاؤس کے ایڈوائزر جارید کوشنر گہرے دوست ہوگئے ہیں ‏۔ سلسلہ صفحہ نمبر۱5
بعض ذرائع کے مطابق فلسطینی مزاحمت کوکم زور کرنے اور ڈیل آف سنچری کو نافذ کرانے میں یہ دوستی بہت کام آرہی ہے ‏۔
امارات اپنے حجم اور افرادی قوت کے اعتبارسے بہت چھوٹا ہونے کے باوجود خطّہ میں ایک اہم کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے ‏۔ابو ظبی کی اس خواہش کو اس کی مستحکم معیشت آگے بڑھانے میں بہت معاون ثابت ہورہی ہے ‏۔ اپنی معاشی مضبوطی کے بل پر ابوظہبی نے حلیف ملکوں کی ایک فوج کھڑی کر دی ہے،جس میں مشترکہ مصالح کی بنیاد پر سعودی عرب ، مصر اور بحرین ساتھ ساتھ ہیں تو دوسری طرف ترکی کے پڑوسی ممالک یونان اور قبرص Cyprus))نے اپنا وزن بھی ابوظہبی کے پالے میں ڈال رکھاہے ‏۔ خطّہ میں ابوظہبی کا عمل دخل اس لیے بھی زیادہ ہوگیا ہے کہ خطّے کی دو بڑی طاقتیں عراق اور شام امریکی جارحیت اور خانہ جنگی کی وجہ سے اپنی طاقت گنوا چکی ہیں اور دوسری بڑی طاقت سعودی عرب نے اپنے آپ کو یمن کی جنگ میں الجھا رکھا ہے۔ اب مشرق وسطی میں صرف ترکی ہے جو ابوظہبی کے عزائم میں روڑا بن سکتا ہے ‏۔ ابو ظبی کا یہ بھی احساس ہے کہ اسلامی دنیا کی قیادت عرب ملکوں میں رہنی چاہیے‏۔ حرمین کی وجہ سے سعودی عرب اگر دینی قیادت کے فرائض انجام دے رہا ہے تو سیاسی قیادت کی باگ ڈور امارات کے حصے میں رہنی چاہیے‏۔
اس وقت مشرق وسطیٰ کے کئی ممالک میں دونوں طاقتیں نبردآزماہیں اور اپنے مفادات و مصالح کی حفاظت میں پوری قوت صرف کیے ہوئے ہیں ‏۔ لیبیا ہو یا تیونس ، الجزائر ہو یا سوڈان ، مراقش ہو یا مورتانیا ، ہر جگہ ابو ظبی اور انقرہ آمنے سامنے ہیں ‏۔ لیکن گزشتہ چند ہفتوں سے لیبیا دونوں مسلم ممالک ترکی اور متحدہ عرب امارات کے مفادات کی رزم گاہ بنا ہوا ہے ‏۔ لیبیا جہاں افریقی ممالک میں سب سے زیادہ خام تیل کے ذخائر رکھتا ہے اور ایک اندازے کے مطابق اڑتالیس( 48 )ارب بیرل سے زائد ریزرو تیل کے ذخائر لیبیا میں پائے جاتےہیں۔ ترکی چاہتاہے کہ موجودہ وفاقی حکومت کی تائید کے ذریعے ان تیل کے کنوؤوں تک رسائی حاصل کرے تاکہ خام تیل کے معاملے میں اس کا انحصار ایران اور روس پر کم سے کم ہو تو دوسری طرف بیس( 20 )ارب ڈالرکا انویسٹمنٹ، جو ترکی نے لیبیا میں پہلے ہی کررکھا ہے ، وفاقی حکومت کے خاتمے کی شکل میں ڈوب جائے گا‏۔ اسی طرح ترکی اس کوشش میں بھی ہے کہ لیبیا کی مضبوطی کی شکل میں اسے ایسا حلیف مل جائے گا جو نہ صرف سیاسی اسلام کی تعبیرو تشریح میں اس سے ہم آہنگ ہوگا ، بلکہ یوروپ سے مذاکرات میں ایک مضبوط حلیف کی پشت پناہی حاصل ہوگی ‏، لہٰذا ترکی کی پہلی کوشش ہے کہ امارات اور مصر کا حمایت یافتہ خلیفہ حفتر ہزیمت کا شکارہو اور اسلام پسندوں اور جمہوریت پسندوں کی حکومت مستحکم ہو ‏۔ اسی لیے طرابلس کی تازہ معرکہ آرائی میں وفاقی حکومت کے سربراہ فائز سراج نے انقرہ کا رخ کیا تو خلیفہ حفتر نے قاہرہ کا ‏۔ ترکی کی طرح امارات کے مفادات بھی لیبیا سے وابستہ ہیں ، جہاں لیبیا کے تیل کے ذخائر پر ابو ظبی کی نظر ہے ‏۔ وہیں فائز سراج کی حکومت کا خاتمہ کرکے ابو ظبی اسلام پسندوں کے اس متوقع قلعہ کو مسمار کرنا چاہتاہے ‏۔ مفادات کے اس ٹکراؤ نے دونوں ممالک کو آمنے سامنے لا کھڑا کیا ہے ‏۔ ایک طرف جہاں پوری دنیا کرونا وائرس کے خلاف جنگ لڑرہی ہے تو دوسری طرف طرابلس کے اردگرد ترکی اور امارات آمنے سامنے ہیں ‏۔ لیکن ابتدائی طور پر ترکی کی حمایت یافتہ فائز سراج کی فو ج کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے ‏۔18 مئی سے 9 جون کے درمیان خلیفہ حفتر کی ہاتھوں سے تین اہم مقامات وفاقی حکومت کو منتقل ہوگئے ہیں ‏، جس میں وطیہ ایربیس ، طرابلس انٹرنیشنل ایرپورٹ ، اور ترہونہ شامل ہیں ،جس سے دارالحکومت طرابلس کا پورا انتظامی علاقہ اب وفاقی حکومت کے قبضے میں آگیا ہے ‏۔
مسئلہ فلسطین مشرقِ وسطیٰ میں کلیدی رول ادا کرنے کےلیے کسی بھی ملک کے لیے شاہ کلید کی حیثیت رکھتا ہے ‏۔ ہر ملک کی خواہش ہے کہ اس مسئلہ کو حل کرنے میں اپنا رول ادا کرے ‏۔ مسئلہ فلسطین کے تعلق سے بھی دونوں ممالک متضاد موقف رکھتےہیں ‏۔ ابوظہبی جہاں فلسطین کی سب بڑی مزاحمتی تحریک "حماس ” کو دہشت گردوں کی فہرست میں رکھتا ہے تو انقرہ کے حماس کے قائدین سے دیرینہ تعلقات ہیں ‏۔ ترکی اور حماس میں تعلقات کی یہ گرمی 2002 میں اے کے پارٹی کے برسراقتدار آنے کے بعد سے زیادہ دیکھنے میں آرہی ہے ، جس سے اسرائیل کے ساتھ ساتھ بعض خلیجی ممالک بھی نالاں ہیں کیوں کہ وہ تحریک حماس کو اخوان المسلمون کا پَرتو سمجھتے ہیں اور عرب بہاریہ کے بعد سے انہیں اخوان سے خدا واسطے کا بَیر ہے ‏۔ اسی طرح وہائٹ ہاؤس کے تیارکردہ ” ڈیل آف سنچری ” بھی دو ممالک متضاد موقف رکھتے ہیں ‏۔جہاں ترکی صدرنے یہ اعلان کررکھا ہے کہ "صدی کی ڈیل ” نافذ نہیں ہوسکتی اس کا انجام کوڑے دان ہے وہیں جارید کوشنر کے محمد بن زاید سے بہت قریبی تعلقات ہیں اور جون 2019 میں بحرین کی اقتصادی کانفرنس میں جہاں اس ڈیل کی رونمائی ہوئی تھی اور اس کے کچھ خدّوخال سامنے آئے تھے ‏، ابوظہبی کی سرگرم شرکت رہی ‏۔ تیسرا بڑا مسئلہ جو دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کا باعث ہے وہ سابق فتح لیڈر محمد دحلان کی شخصیت ہے ‏۔ محمد دحلان اگر اب تک فتح تحریک میں ہوتے تو وہ محمود عباس کے جا نشین ہوتے ‏، مگر 2011میں ان کو فتح سے علیٰحدگی اختیار کرنی پڑی تھی جس کے بعد دحلان نے ابوظہبی میں مستقل سکونت اختیار کرلی اور اب وہ ولی عہد محمد بن زاید کے چیف ایڈوائزر ہیں ‏۔ دحلان ترکی کو 2016 کے ناکام فوجی انقلاب میں مطلوب ہیں اور ترکی نےنومبر 2019 میں ان کی گرفتاری پر سات لاکھ ڈالر انعام کا اعلان کررکھا ہے ۔ ابوظہبی دحلان کو اب تک فلسطین کے مسئلہ میں اپنے محوری کردار کو ادا کرنے کے لیےاستعمال کرتا رہا ہے ‏۔ ابوظہبی کی کوشش ہےکہ حماس کسی طرح دحلان کی شخصیت کو فلسطینی اتھارٹی کے صدر کی حیثیت سے تسلیم کرلے جو ترکی کے لیے بالکل قابل قبول نہیں ہے ‏۔ ایک طرف ابوظہبی یمن میں سعودی عرب کے ساتھ عبدربہ منصور کی منتخب حکومت کو صاحب اقتدار بنانے کے لیے حوثیوں سے لوہا لیے ہوئے ہے تو اس کے بالکل برعکس لیبیا میں منتخب حکومت کو اکھاڑ پھینکنے کے درپے ہے۔ اصل معاملہ خطّہ میں ’’کس کی چلے‘‘ اور مفادات کے کا ٹکراؤ کا ہے ‏۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دونوں طاقتیں دوسروں کا گھر بنانے اورسنوارنے کے چکّر میں اپنے گھر کو اجاڑ لیں‏۔
***


موجودہ صورتِ حال میں امارات کا سب سے بڑا مخالف قطر بھی امریکہ کا پارٹنرہے اور سعودی عرب ، کویت ، بحرین بھی اسی صف میں میں ہیں ،لہٰذا امریکہ کی نظر میں امارات کی وہ اہمیت نہیں ہے جو ترکی کوحاصل ہے ، اگرچہ حالیہ برسوں میں امریکہ اور امارات کے تعلقات میں کافی گرم جوشی دیکھی گئی ہے ، جس کو پروان چڑھانے میں امریکہ میں موجود لابیز کا
بڑا رول ہے‏۔