چین کے خلاف تجارتی پابندی قومی مفاد میں نہیں

دواسازی کی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہوگی۔جنگ میں نقصان صرف دشمن کا نہیں ہوتا

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

چین، بھارت کا ایک بڑا اور اہم تجارتی حصہ دار ملک ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک فارما سیوٹیکلس، کیمیکلس کے ساتھ ساتھ کئی عالمی پیداواریت کی زنجیر میں خاص طور پر شراکت دار ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان 90ارب ڈالر کی دو طرفہ تجارت ہے۔ بھارت کی کئی صنعتوں کے لیے چین سب سے بڑا سپلائر ہے جن ۲۰ پیداواروں کو بھارت سب سے زیادہ برآمد کرتا ہے ان میں چین کی حصہ داری ۴۳ فیصد ہے۔ بھارت اپنی ضرورت کا ۹۰ فیصد سولر پینل چین سے لیتا ہے جب کہ کل بلیک ڈرگس کی امپورٹ کا دو تہائی حصہ چین سے ہی آتا ہے۔ ملک کے خاص صنعتی چیمبر سی آئی آئی کے سکریٹری جنرل چندر جیت بنرجی کا کہنا ہے کہ کورونا وبا سے ملک کی صنعتوں کے لیے خام مال کی کمی پیدا ہوگئی ہے یہ آنے والے دنوں میں چھوٹے کاروباریوں کو تجارت کے مواقع پر کافی مخالف اثر دکھا سکتا ہے۔ فی الوقت حکومت اور صنعتی دنیا کے درمیان تنظیم بنانے کی شدید ضرورت ہے تاکہ کوئی وقت ضائع کیے بغیر حالات سے نمٹنے کے لیے ضروری قدم اٹھائے جاسکیں۔ حالات ضرور تشویشناک ہیں مگر انہیں کنٹرول کیا جاسکتا ہے۔ سی آئی آئی نے کورونا وبا کے بھارتی معیشت پر پڑنے والے اثرات کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک تحقیق بھی کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ بھارت چین سے درآمد پر اس طرح سے منحصر ہوگیا ہے کہ اسے چین سے ضرورت پوری نہ ہونے پر مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ملک کی کل درآمدات میں چین کی حصہ داری ۳۰ فیصد کے قریب ہے لیکن الکٹرانکس کے درآمدات میں ۴۵ فیصد آٹو موبائل پارٹس میں 25 فیصد، ملک ڈرگس میں ۷۰ فیصد، موبائل فون پارٹس میں 90 فیصد چینی حصص ہیں۔ درآمدات کے ساتھ برآمدات پر بھی اثر پڑنے لگا ہے۔ بھارت سے ہونے والے برآمدات میں چین کا مقام تیسرا ہے۔ سمندری مچھلی، کپاس، کیمیکلس، پلاسٹک، خام لوہا سب سے زیادہ اکسپورٹ چین کو ہی ہوتا ہے۔ یہ سب سیکٹرس ملک کے کسانوں، مچھیروں سے لے کر چھوٹی، بڑی صنعتوں کے مفاد سے جڑے ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس نے بھارت کے 50فیصد کپاس کے اکسپورٹ کو متاثر کیا ہے۔ ملک کے موبائل فون بازار پر دو تہائی سے زیادہ حصہ چینی کمپنیوں کا ہے۔ بھارت میں اتنی فیکٹریز ہونے کے باجوود 85 تا 90 فیصد سامان چین سے ہی آتا ہے۔ عام طور پر بھارت میں فون کو اسمبل کیا جاتا ہے۔ سی آئی آئی کے مطابق جنوری۔ مارچ کی سہ ماہی میں اسمارٹ فون کی فروخت میں اسی وجہ سے 15فیصد کی گراوٹ ہوئی۔ گزشتہ ہفتہ گلوان وادی میں چین اور بھارت کے درمیان فوجی تصادم کے بعد بھارتیوں کا غصہ ابل پڑا اور لوگ چینی اشیاء پر پابندی اور بائیکاٹ کا مطالبہ کررہے ہیں۔ ایسے نئے حالات میں نئی دلی میں مقیم چینی سفیر سون وی ڈونگ نے صاف طور پر کہا ہے کہ بھارت یا دوسرے ملکوں کو چین کے ساتھ لوگوں کی آمد و رفت یا تجارت پر پوری طرح پابندی لگانے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہمیں توقع ہے کہ بھارت کاروبار اور لوگوں کے آمد و رفت کے معاملے میں ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے گا اور دونوں ملکوں کے درمیان کاروبار پہلے کی طرح بہتر رہیں گے۔
بھارت میں چین کی اشیاء کی طلب اس لیے بھی زیادہ ہے کیوں کہ دوسرے ممالک کی اشیاء کے مقابلے میں اور ملک کی بڑی آبادی کی مالی حیثیت کے حساب سے دستیاب ہے۔ مگر بھارت اور چین کے درمیان تجارتی پابندیاں لگانے سے سب سے زیادہ خسارہ متوسط طبقہ اور کم آمدنی والے لوگوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ہمارے ملک میں ایسا کوئی سسٹم تیار نہیں ہوا ہے جو کم قیمت پر غریبوں کو ضرورت کا سامان مہیا کرائے۔ موبائل فون، ٹی وی، کمپیوٹر، فین اے سی کولر واشنگ مشین، کھلونے، بجلی کے بلب وغیرہ جیسے ڈھیروں چینی سامانوں کی قیمت دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت کم ہے۔ غصہ میں بھرے ہوئے عوام چین کو سبق سکھانے کے لیے چینی اشیاء کا بائیکاٹ کرنے اور پابندی لگانے کا مطالبہ پوری قوت سے کر رہےہیں جس میں عوام مبینہ طور پر چینی اشیاء مثلاً فون، ٹی وی، کمپیوٹر وغیرہ کو توڑ کر اپنے دل کی بھڑاس نکال رہے ہیں۔ یہ غصہ فطری ہے۔ خریداری کے بعد چینی سامان کا مالک تو بھارتی شہری ہو جاتا ہے۔ اس طرح دونوں ملکوں کی تجارت کو یکلخت ختم کرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ چینی سامان کے بائیکاٹ کیے جانے پر اس سیکٹر میں کام کرنے والے ہمارے عوام پر برا اثر پڑے گا۔ عام طور پر کم پونجی والے دوکاندار چینی اشیاء کو دور دراز علاقوں میں لے جا کر بیچتے ہیں ان کی روزی روٹی ختم ہوکر رہ جائے گی۔ بہت سارے دوکاندار موسمی سامان خرید کر گوداموں میں اسٹاک کرتے ہیں وہ سب دیوالیہ ہوجائیں گے۔ ایسی حرکات پر نقصان چین سے زیادہ بھارت اور یہاں کے غریبوں کو ہوگا۔ اگر بھارت اور چین کے درمیان تجارتی لین دین کا جائزہ لیں تو امریکہ کے بعد چین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دا رہے۔ سال 2019-20 کے دوران بھارت اور چین کے درمیان 50.5 لا کروڑ روپیوں کی تجارت ہوئی جب کہ بھارت اور امریکہ کے درمیان 85.5لاکھ کروڑ روپے تھی۔ اس طرح بھارت کی کل تجارت میں حصہ داری 11فیصد ہے۔ ڈیپارٹمنٹ آف کامرس کے تجزیہ کے مطابق بھارت نے مالی سال 2019-20میں چین سے 40.4لاکھ کروڑ روپے کا سامان درآمد کیا۔ بھارت اپنے ایکسپورٹ کا 32.5فیصد حصہ چین کو ایکسپورٹ کرتا ہے۔ درحقیقت بھارت زیادہ تر ایسی چیزیں چین سے منگواتا ہے جس کی بنیاد پر ملک میں فنشڈ پروڈکٹ (Finished Product) تیار کیا جاتا ہے جسے گھریلو بازار میں بیچا جاتا ہے یا دیگر ممالک میں ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ سال 2019-20میں بھارت نے چین سے 28.1لاکھ کروڑ روپے کے الکٹرک مشنری آلات و دیگر سامانوں کے الگ الگ پارٹس خریدے ہیں ۔ چین سے کل امپورٹ میں اس کی 29فیصد کی حصہ داری رہی۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر ایٹمی ری ایکٹر، بوائلر اور اس سے متعلق دیگر مشینیں ہیں جنہیں بھارت نے چین سے 17.90ہزار کروڑ روپیوں میں درآمد کیا ہے۔
چائنیز اشیاء کے بائیکاٹ کی سب سے زیادہ سخت مار بھارتی فارماسیوٹیکل صنعت پر پڑے گی جس سے بھارت کی اور دنیا بھر کی دوا کی سپلائی بری طرح متاثر ہوگی۔ تجارتی بائیکاٹ یا پابندی ایک مہنگا عمل ہے جس سے دوا سازی کی صنعت بڑے پیمانے پر متاثر ہوئے بغیر نہیں رہے گی۔ بھارت دنیا کا تیسرا سب سے بڑا دوا سازا ور سپلائر ملک ہے جو زیادہ تر ایکٹیو فارما سیوٹیکل اجزا کی سپلائی کے معاملے میں چین پر منحصر ہے جو دوا سازی کے لیے اہم اجزا ہوتے ہیں۔ 70فیصد اے پی آئی کی ضرورت جو فارما سیوٹیکل صنعت میں ہوتی ہے اسے چین سے ہی منگوایا جاتا ہے مثلاً پاراسیٹامول اور آئی بو بروفین (Ibuprofen) کے انگریڈنٹس (ingredients) کی سپلائی بھی چین ہی کرتا ہے۔ اس طرح بھارت میں یہ دوائیں تیار ہوکر دنیا بھر میں ایکسپورٹ کی جاتی ہیں چونکہ دواؤں کی تیاری بڑی مقدار میں ہوتی ہے اس لیے لاگت کم آتی ہے۔ اگر بائیکاٹ اور پابندی کا معاملہ آتا ہے تو خصوصی طور سے اے پی آئی کے سپلائی میں بڑی رکاوٹ پیدا ہوگی۔ نتیجتاً فارما سیوٹیکل کمپنی کو کافی خسارہ ہوگا۔ فاریکسیل کے مطابق بھارت کو 2018-19 میں 40 بلین(Billion ) ڈالر کی آمدنی ہوئی۔ اس کی سپلائی بند ہونے یا کم ہونے پر خاص طور سے ضرورت مند مریض کو نقصان ہوگا اور 20 بلین ڈالر کا سکڑاو بھی ممکن ہے کیونکہ دونوں ادویات کا ایکسپورٹ نہیں ہوپائے گا جس سے بھارت ہی میں نہیں دنیا بھر میں ان دواؤں کا فقدان ہوگا۔ اس کے اثرات زیادہ تر کم آمدنی والے ممالک پر پڑیں گے جو زیادہ تر بھارتی دواؤں پر منحصر ہوتے ہیں۔ زیادہ تر افریقی ملکوں میں بھارتی دواؤں کی سپلائی 50 فیصد تک ہے۔ چینی اشیاء کے بائیکاٹ کی وجہ سے دوا سازا کمپنیاں مصیبت میں آجائیں گی اور دواؤں کی برآمدات تھم بھی سکتی ہیں۔ دوسرے ممالک بشمول امریکہ چین سے اے پی آئی پر انحصار کم کررہے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ طبی بحران کا اندیشہ پیدا ہوجائے۔ چین پر انحصار کم کرنا آسان نہیں ہے ملک میں مکمل طور سے چینی اشیاء سے علیحدگی کے لیے اچھا خاصہ وقت مطلوب ہے۔ ڈیکسیا میتھاسون (Dexamethasone) جو برطانیہ میں کووڈ۔19سے بچاؤ کے لیے ایک مؤثر دوا ثابت ہوئی ہے۔ اس طرح درد کی دوائیں پارا سیٹا مول اور آئیبو پروفین سابقہ پنسلین کی پیداوار بھی متاثر ہوگی۔ مختصراً بھارتی صنعتوں کے لیے بائیکاٹ اور پابندی بھارتی شہریوں اور دنیا والوں کے لیے بڑے ہی خسارے کا باعث بن جائے گی۔
کسی مفکر نے بہت ٹھیک کہا کہ جنگ میں نقصان صرف دشمن کا نہیں ہوتا ہے۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا ’انتقام کا جذبہ قومی تعمیر میں مدد دینے کے بجائے اسے بربادی کی طرف لے جاتا ہے۔ بھارت کے لیے دوسرا راستہ ہمیشہ کھلا ہوا ہے وہ یہ کہ چین کو مالی نقصان پہنچانے کے لیے درآمد بند کردے تاکہ اس کا دماغ ٹھکانے آجائے۔ مگر بھارت میں الکٹرانکس سے لے کر آٹو موبائل، فارما انڈسٹریز اور مینو فیکچرنگ میں چین اتنا اہم کردار ادا کرتا ہے کہ بھارت میں صرف چین سے تیار شدہ سامان ہی نہیں آتا بلکہ بھارت میں تیار ہونے والی اشیاء میں چین سے امپورٹ کیے جانے والے خام مال، کل پرزے اتنی بڑی مقدار میں مستعمل ہیں کہ ان کی سپلائی کے لیے چین کا نعم البدل تلاش کرنا بھارت کے لیے مشکل ترین امر ہے۔ اس طرح چینی سامان کا بائیکاٹ کرنے سے بھارت کا ہی نقصان ہوگا اور سرحدی تنازعہ بھی جوں کا توں رہ جائے گا اور چین کے رویے میں سختی بھی پیدا ہوگی۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ چین پر انحصار آہستہ آہستہ کم کیا جائے جو ایک طویل مدتی کام ہے اور جو ایک دو سال میں ہونے والا نہیں ہے۔ ایسے میں مودی جی کبھی نہیں چاہیں گے کہ جنگ ہو۔ بھارت کو سفارتی اور فوجی دونوں سطحوں پر کوشش کرنی ہوگی لیکن ہم نے سفارتی میدان میں مات کھائی ہے۔ محض فوجی جوان ہی سرحد پر ڈٹے ہوئے ہیں اور قربانیاں پیش کررہے ہیں۔ اپنے غیر ملکی اسفار کے دوران وزیراعظم نے اپنی ۶ سالہ حکومت میں اپنی شخصیت سازی پر توجہ دی ہے اور اپنی امیج کو اپنے قدسے بڑا بناکر پیش کیا اور اپنے آپ کو بھارت کے مقابلے میں اونچائی پر رکھا۔ خواہ نمستے ٹرمپ ہو، ہاوڈی مودی ہو یا چینی صدر سے دوستی کی پیشکش وغیرہ ہو۔ اگر مودی جی دباو میں آکر چین سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں تو ملک کی امیج کو سخت نقصان پہونچے گا۔ اس لیے سرحدی تنازعہ کا مسئلہ بین الاقوامی ثالثی سے ہی ممکن ہے۔ یا پھر ایسی بات چیت سے چین کو مائل کیا جائے کہ وہ اپنی فوج کو ان علاقوں سے ہٹالے جن پر بھارت کی دعویدرای ہے پھر سرحد کے تعین کا ایک منصوبہ پیش کیا جائے۔ اس سے زیادہ ضروری ہے کہ سرحدی تنازعہ طبی بحران اور چُرمراتی معیشت کی بحالی کے لیے حکومت شفاف منصوبہ بندی کرے اور ایسے بحران کو الیکشن کا موضوع بنانے سے پرہیز کرے۔
***


بھارت میں چین کی اشیاء کی طلب اس لیے بھی زیادہ ہے کیوں کہ دوسرے ممالک کی اشیاء کے مقابلے میں چینی اشیاء ملک کی بڑی آبادی کی مالی حیثیت کے حساب سے دستیاب ہیں۔ اس لیے بھارت اور چین کے درمیان تجارتی پابندیاں لگانے سے سب سے زیادہ خسارہ متوسط طبقہ اور کم آمدنی والے لوگوں کو برداشت کرنا پڑے گا۔ ہمارے ملک میں ایسا کوئی سسٹم تیار نہیں ہوا ہے جو کم قیمت پر غریبوں کو ضرورت کا سامان مہیا کرائے۔ موبائل فون، ٹی وی، کمپیوٹر، فین، اے سی کولر واشنگ مشین، کھلونے، بجلی کے بلب وغیرہ جیسے ڈھیروں چینی اشیاء کی قیمت دوسرے ملکوں کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے۔