اللہ مؤ من عورتوں پر زیادہ مہربان ہے

خواتین کو معاش کے لیے دوڑدھوپ سے استثنیٰ۔ گھرکا محاذ اور بچوں کی تربیت اہم ذمہ داری

ابو فہد، نئی دہلی

 

اسلامی شریعت نے مسلم خواتین کے لیے بہت سی رعایتیں رکھی ہیں اور آخری حد تک انہیں سہولتیں عطا کی ہیں۔ شریعت نے مرد کے لیے مساجد میں نماز پڑھنے کو افضل قرار دیا جبکہ عورتوں کے لیے ان کے گھروں میں ہی نماز ادا کرنے کو بہتر بتایا ہے۔ مردوں کو محنت ومشقت اور دوڑ دھوپ والے کام دیے جبکہ عورتوں کو معاش کی ذمہ داریوں سے متثنیٰ رکھا۔ ان کے سپرد ایسے کام کیے جنہیں وہ موسم کی سختیوں کو جھیلے بغیر اور دوڑ دھوپ کی مشقتوں سے بچتے ہوئے کسی قدر اطمینان اور آرام سے انجام دے سکیں اور کام کاج کے ساتھ ساتھ بچوں کی پرورش پر بھی اچھی طرح توجہ دے سکیں۔ اللہ تعالیٰ نے فطری اور شرعی طور پر مسلم خواتین کے لیے جو آسانیاں فراہم کی ہیں اور جو ذمہ داریاں انہیں دی ہیں ان سب میں عورتوں کے لیے ترحم اور سہولیات کا پہلو نمایاں ہے ان کے مقام ومرتبے کو گھٹانے کا پہلو کسی طرح بھی نہیں نکلتا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے عورتوں کو کمانے (earning money) سے پوری طرح آزاد رکھا ہے اور کمانے کی ساری ذمہ داری مردوں پر ہی رکھی ہے۔ اس کے باوجود انہیں مجبوری کی صورت میں گھر سے نکل کر کمائی کے ذرائع اختیار کرنے کی اجازت دی ہے۔ شریعت نے عورتوں کو ان کے خاندان کے کسی بھی فرد کی کفالت کا ذمہ دار نہیں بنایا ہے نہ وہ اس بات کی مکلف ہیں کہ اپنے بوڑھے والدین کی کفالت کریں اور نہ اس بات کی کہ اپنے نسبتی والدین کو اپنے ذاتی پیسے سے کھلائیں پلائیں، حتیٰ کہ خود اپنی اولاد کی کفالت بھی ان کے ذمے نہیں ہے بلکہ وہ خود اپنے شوہروں کی کفالت میں ہیں۔ یعنی ان کی تمام جائز ضروریات کا پورا کرنا ان کے شوہروں کے ذمے ہے۔ اس سے بھی آگے بڑھ کر شریعت نے ان کے لیے ان کے والدین اور شوہروں کی جائیداد میں ایک متعین حق دیا۔ ان کے والدین اور شوہروں کی یہ جائیداد خواہ ان کی خود کی کمائی ہو یا انہوں نے وراثت میں پائی ہو اس میں بہر حال زیر کفالت عورتوں کا متعین حق ہے۔ جب شریعت نے یہ چاہا کہ عورتیں پیسہ کمانے کی دوڑ دھوپ سے آزاد اور بے فکر ہو کر اپنے گھروں کے کام کاج میں لگے رہیں اور اپنے بچوں کی پرورش کریں تو لازماً شریعت کو انہیں یہ رخصت دینی ہی تھی کہ ان پر کسی بھی فرد کی کفالت کا ذمہ نہ ہو، مزید برآں انہیں گھر کے کاموں کی خدمت کے صلے میں والدین اور شوہروں کی جائیداد میں حصہ بھی ملے۔ جو عورتیں صاحب حیثیت ہیں وہ اپنی خوشی سے اپنے بچوں، والدین، بھائی، بہن اور شوہر پر اپنی مرضی سے جتنا چاہیں خرچ کر سکتی ہیں مگر وہ اس کی مکلف نہیں ہیں جس طرح شوہر اس کا مکلف ہے کہ وہ اپنی بیوی اور بچوں کو کھلائے پلائے اور ان کے علاج معالجے پر پیسہ خرچ کرے۔ لیکن پھر بھی وہ ایسا کرتی ہیں تو یہ ان کی طرف سے احسان ہے۔
جن عورتوں کے خاوند فوت ہو گئے ہیں اور وہ محنت مزدوری کرکے اپنے بچوں کی پرورش کرتی ہیں، انہیں تعلیم دلاتی ہیں، یقیناً ایسی عورتیں اللہ کی نظر میں بڑا درجہ رکھتی ہیں اور ان کے لیے اللہ کے یہاں بڑا اجر ہے۔ ایسی عورتیں معاشرے میں عزت واحترام کی نگاہ سے دیکھی جانے کی مستحق ہیں، بنسبت ان عورتوں کے جو موروثی طور پر صاحب ثروت ہوں اور انہیں اپنے بچوں کی پرورش اور تعلیم کے لیے محنت مزدوری کرنے کی حاجت نہ پڑے۔ بے شک ان کے لیے بھی نیکیاں کمانے کے بہت سے راستے ہیں، ضعیفوں، کمزوروں اور محتاجوں کی مدد اور ان کا مالی تعاون کرنا، موروثی طور پر صاحب ثروت عورتوں کے لیے ایک اضافی موقع ہے۔ جبکہ دیگر کے پاس دو ہی مواقع ہیں، ایک عبادت اور دوسرے خدمت۔ مگر یہ بڑے درجے کی بات ہے کہ کسی عورت کا خاوند فوت ہوگیا ہو یا بیمار ہو یا اور کوئی مجبوری ہو اور وہ عورت شریعت کے بنیادی اور اساسی احکام کی پابندی کرتے ہوئے محنت ومزدوری یا ملازمت کر کے حلال روزی کمائے اور اپنے بچوں کی پرورش کرے۔ ایسی عورت ہر طرح سے انعام واکرام کی مستحق ہے۔ کیونکہ ایسا کر کے وہ نہ صرف اپنے بچوں کو پال پوس رہی ہے اور پڑھا لکھا رہی ہے بلکہ مسلم معاشرے کو معاشی اور علمی سطح پر مستحکم کرنے میں بھی بہت بڑا رول ادا کر رہی ہے۔
بچوں کی پرورش اور گھر گرہستی کے کام کاج بھی اہم اور تھکا دینے والے کام ہیں۔ اگر عورتیں یہ سب کام خوش دلی اور محنت ولگن کے ساتھ کرتی ہیں تو ان کے لیے اللہ کے یہاں بڑا اجر وثواب ہے۔ مرد حضرات اپنی عورتوں کے آرام وراحت کے لیے بھلے ہی زیادہ نہ سوچیں اور بھلے ہی وہ ان کی طرف سے بے پروا بنے رہیں مگر اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی طرف سے بالکل بھی بے پروا نہیں ہے۔ اللہ کو خود ان کا، ان کے کاموں کا اور انسانی معاشرے کی تعمیر وتشکیل میں ان کی بنیادی ذمہ داریوں اور عملداریوں کا، ان کے درد کا اور ضعف کا، پھر ان کے ذمے جو کام ہیں ان کی مشکلات کا اور نزاکتوں کا خوب خوب علم ہے۔ آخر اللہ علیم وخبیر ہے اور اسی کا فرمان ہے ’’ أَلَايَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ ‘‘ جس نے پیدا کیا ہے کیا وہی اپنی تخلیق (انسان) کے بارے میں نہ جانے گا؟ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ (الملک:۱۴)
بے شک اللہ جانتا ہے اور خوب جانتا ہے، اسی لیے اس نے اپنی شریعت میں مسلم خواتین کے لیے بہت ساری رخصتیں رکھی ہیں۔ ان رخصتوں کو مرد حضرات ان کے لیے کمزوری، عیب، بلکہ ان کے لیے بے وقعتی تصور کر رہے ہیں اور ان پر ناقصات العقل والدین کی پھبتی کستے رہتے ہیں یہ جانے بغیر کہ ان الفاظ سے رسول اللہ ﷺ کی واقعی منشا ومراد کیا تھی۔ ناقصات العقل والدِّین والی حدیث کی وضاحت میں شیخ بن باز نے یوں کی:
وہ سمجھتے ہیں کہ دو عورتوں کی گواہی کا ایک مردکی گواہی کے مساوی ہونا، انہیں نمازوں اور روزوں میں رخصتوں کا ملنا، اسی طرح ان کا صاحبِ کفالت نہ ہونا بلکہ خود مردوں کی کفالت میں ہونا، مساجد وعید گاہوں میں جانے کے لیے رخصتوں کا رکھا جانا، یہ سب شرعی احکام عورتوں کی عظمتوں کو گھٹاتے ہیں اور مرد کے مقابلے میں انہیں کم تر ثابت کرنے کے لیے کافی وجہ جواز رکھتے ہیں۔ لیکن فی الواقع ایسا نہیں ہے۔ اللہ نے عورتوں کی عظمتوں میں کچھ کمی نہیں کی ہے البتہ ایسا ضرور ہے کہ اللہ نے یہ کائنات فطری یا تخلیقی فرق کے ساتھ بنائی ہے، یہاں ایک کمزور ہے اور ایک طاقتور ہے، ایک انگلی چھوٹی ہے اور دوسری بڑی ہے۔ دماغ کی ساخت اور اس کے اعمال بالکل الگ ہیں اور دل کی ساخت اور اس کے اعمال بالکل مختلف ہیں۔ یہی فطری یا تخلیقی فرق اللہ نے ہر ایک جنس اور نوع میں رکھا ہے، خواہ وہ جاندار ہو یا غیر جاندار، اسی طرح ایک انسان اور دوسرے انسان کے درمیان فرق رکھا ہے اور جس طرح ایک مرد اور دوسرے مرد اور ایک عورت اور دوسری عورت کے درمیان رکھا ہے اسی طرح اللہ نے یہی فطری وتخلیقی فرق مرد اور عورت کے درمیان بھی رکھا ہے، اور اس سے اللہ کی منشاء کسی کی اہمیت کو گھٹانا اور بڑھانا نہیں ہے بلکہ دنیا کے کاروبار کو احسن طریقے پر چلانا ہے۔ اگر ذمہ داریاں اور عہدے مختلف نہیں ہوں گے تو کوئی بھی کام پائے تکمیل کو نہیں پہنچ سکتا۔ نہ عمارتیں تعمیر ہو سکیں گی، نہ کھیت کھلیانوں میں رونقیں رہیں گی اور نہ ہی نسلیں پروان چڑھیں گی۔ اس کے علاوہ اللہ نے ہر ایک کے ذمے وہی اعمال لگائے ہیں جنہیں وہ بحسن وخوبی انجام دے سکتا ہے اور اپنی بنیادی حیثیت کو متاثر کیے بغیر انجام دے سکتا ہے۔
مرد ہو یا عورت، دونوں میں سے ہر ایک کی کچھ بنیادی ذمہ داریاں ہیں اور کچھ اضافی۔ دنیا کے کاروبار کو مستقل اور مسلسل جاری رکھنے کے لیے خاندان کی سطح پر عورتوں کی بنیادی ذمہ داری بچوں کی پیدائش اور پرورش ہے، جبکہ مردوں کی ذمہ داری گھر کے باہر کے محنت ومشقت والے کام ہیں۔ اسلام کی یہ تقسیم عمومی نوعیت کی ہے نہ کہ کلی نوعیت کی؟ جزوی اعتبار سے اس میں فرق واقع ہو سکتا ہے، جزوی طور پر یہ تقسیم الٹ بھی سکتی ہے، ایک مرد گھر کا کام کاج بھی کر سکتا ہے اور ایک عورت باہر کا کام کاج بھی سنبھال سکتی ہے اور یہ سب وقت اور حالات پر منحصر ہو گا۔ اگر عورتوں کو پرامن ماحول میسر ہو، بطور خاص اسلامی ماحول میسر ہو، ان کی عزت وآبرو محفوظ ہو اور ان کے جان ومال کو کوئی خطرہ نہ ہو تو ان کے لیے باہر کے کام کرنے میں بھی کچھ مضائقہ نہیں ہے بشرطیکہ ان پر دوہری ذمہ داری نہ آن پڑے۔
اس کے علاوہ مرد اور عورت دونوں کی جو اضافی ذمہ داریاں ہیں وہ مختلف اور متنوع ہیں، اور یہ ذمہ داریاں ان کی بنیادی ذمہ داریوں کو سپورٹ کرنے والی ہیں۔ اللہ نے عورتوں کو گھر گرہستی سنبھالنے کی جو اضافی ذمہ داری دی ہے وہ ان کی بنیادی ذمہ داریوں یعنی بچوں کی پیدائش اور پرورش کو پورا کرنے اور بحسن وخوبی ادا کرنے میں معاون ہے۔ بچوں کی پیدائش اور پھر پرورش شاید دنیا کا سب سے مشکل اور نازک کام ہے۔ عورتیں جتنی زیادہ سوجھ والی، پڑھی لکھی اور دیندار ہوں گی وہ اپنے بچوں کی پرورش اتنے ہی زیادہ بہتر طریقے پر کریں گی۔ اگر عورتوں پر انسانی نسل آگے بڑھانے کی بنیادی ذمہ داری نہ ہوتی تو پھر ان کے ساتھ جو فطری امور لگے ہوئے ہیں وہ بھی نہ ہوتے اور پھر ان کے لیے مخصوص شرعی احکام بھی نہ ہوتے اور بھی بہت ساری چیزیں نہ ہوتیں۔ اس کا مطلب یہی ہے کہ ان کی اسی ایک بنیادی ذمہ داری کے اردگرد خاندان کا سارا معاشرتی، معاشی اور اخلاقی سسٹم گھوم رہا ہے اور اسی پر ان کے جسمانی نظام کی بنا ہے۔
عورتوں کا جسمانی نظام، جو تھوڑا بہت مردوں سے مختلف ہے، اللہ نے اسے بھی ان کی اسی ایک بنیادی ذمہ داری کو مد نظر رکھ ہی تخلیق کیا ہے۔اس کے علاوہ ان کی اسی بنیادی ذمہ داری کو سپورٹ دینے کے لیے اللہ نے اسلامی شریعت میں مسلم خواتین کے لیے بہت سی رعایتیں رکھی ہیں اور آخری حد تک انہیں سہولتیں عطا کی ہیں۔ رسول اللہ ﷺ سے جہاد میں عورتوں کی شرکت کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ حج ہی ان کا جہاد ہے۔ اس کی حکمت یہ ہے کہ اللہ عورتوں پر بہت مہربان ہے، اللہ ان کو اضافی مشقتوں میں نہیں ڈالنا چاہتا اور انہیںایسی خدمات پر مأمور نہیں کرنا چاہتا جو فطرتاٌ ان کے لیے موزوں نہ ہوں، اللہ نے ان کے لیے فضیلتوں اور ثواب میں کمی کیے بغیر انہیں یہ سب رخصتیں دی ہیں اور ایسا کرنے میں خود انہیں کی بھلائی اور آسانی اللہ کے پیش نظر ہے۔
مگر بد قسمتی سے ہوا یوں کہ عورتوں کے لیے اسلامی شریعت میں رکھی گئیں سہولتوں کو اپنوں نے بھی اور غیروں نے بھی عورتوں کے خلاف سمجھ لیا اور ان کو ایک طرح سے عورتوں کی حق تلفی قرار دیا۔ یہ رویہ اچھی چیزوں سے برے معانی پیدا کرنے جیسا ہے۔ عورتوں کو گھروں میں رہنے کی اضافی تاکید ہو ان کے لیے پردہ کا حکم ہو، گھروں میں نماز پڑھنے کا جواز بلکہ فضیلت کی بات ہو، غیر محرم اور اجنبی لوگوں سے ملنے سے احتراز اور خاص طور پر تنہائی میں ملنے کی ممانعت ہو، یہ سب ان کے لیے تحفظ، سہولت اور بہتر سے بہتر ماحول فراہم کرنے کے نقطۂ نظر سے ہے۔ اس سے کسی کی فضیلت گھٹانا یا بڑھانا نہیں ہے۔ اسی لیے اللہ نے صاف اعلان فرما دیا۔ إِنَّ أَکْرَمَکُمْ عِندَ اللَّہِ أَتْقَاکُم [الحجرات:۱۳] اللہ کے نزدیک زیادہ معزز ومحترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے، خواہ مرد ہو یا عورت۔
رسول اللہ ﷺ نے آخری خطبے میں عورتوں اور غلاموں کا خاص طور پر ذکر فرمایا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ انسانی معاشرتی زندگی میں یہ دو طبقات سب سے زیادہ کمزور رہے ہیں، ان کا ہمیشہ سے استحصال ہوتا رہا ہے۔ گھریلو تشدد (Domestic Violence) کی شکار زیادہ تر عورتیں ہوتی ہیں یا پھر بچے اور گھروں کے ملازم۔ ہمارے اِس مرد اساسی معاشرے میں جو غالب قوت ہے وہ مرد کی ہے، مرد جسمانی طور پر بھی مضبوط ہوتا ہے، مزید یہ کہ دنیا کا معاشرتی سسٹم بھی مرد ہی کو زیادہ سپورٹ کرتا ہے اور عورت کے مقابلے میں وہ مرد کی طاقت کو زیادہ بڑھاتا ہے۔ کسب معاش انسانی حیات کے لیے اسی طرح ہے جس طرح جسم کے لیے روح۔ اور کسب معاش کے ہر میدان میں مرد کو توفق حاصل ہے، اسی وجہ سے مرد کے لیے یہ کافی آسان ہو جاتا ہے کہ وہ عورتوں کو من چاہے طریقے پر ستائے اور عورتوں کے لیے یہ مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ ظلم وزیادتی سہتی رہیں۔ بس اسی خدشے کے پیش نظر رسول اللہ ﷺ نے اپنی وفات کے قریبی وقت میں بھی خاص طور پر عورتوں کا ذکر کیا اور ان کے ساتھ حسن سلوک کے کرنے کی تلقین کی۔
رسول اللہ ﷺ ظاہر ہے یہ تو نہیں کرسکتے تھے کہ وہ عورت کو مرد بنا دیتے یا اسے بھی اتنا ہی طاقتور بنا دیتے جتنا کہ مرد ہے، یہ تو کوئی بھی نہیں کر سکتا، اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کو دنیا کی کوئی بھی طاقت نہیں بدل سکتی۔ اس لیے رسول اللہ ﷺ نے عورتوں کے معاملات میں مرد کو قانونی اور اخلاقی بندشوں سے باندھ دیا تاکہ وہ ظلم سے باز رہے اور عورتیں مردوں کے گھروں میں محفوظ ومامون رہ سکیں۔
بالکل اسی طرح جس طرح ہر ملک کے اپنے قوانین ہوتے ہیں، حکومتیں ہوتی ہیں، پارلیمنٹ ہوتی ہے اور عدالتیں ہوتی ہیں۔ اب یہ حکومتیں، پارلیمنٹ اور عدالتیں یہ تو نہیں کرسکتیں کہ وہ اپنے ملک کے لوگوں کو یکساں طاقتور بنا دیں، عورتوں کو بھی مردانہ قوت وجاہت دے دیں ،اس لیے انہوں نے قوانین بنا دیے، عدالتوں میں جج بٹھا دیے اور کمزوروں کے لیے ایک متبادل طاقت فراہم کر دی تاکہ وہ کمزوروں کے ساتھ کھڑی رہے۔ اور جب بھی کوئی طاقتور آدمی کسی کمزور آدمی پر ظلم کرے تو کمزور اپنی پشت پر اخلاق اور قانون کی طاقت کھڑی ہوئی محسوس کرے اور ایک کمزور شہری اس طاقتور شہری سے قانون اور عدالت کے سہارے اپنا حق وصول کر لے اور وہ اسے بھی اسی طرح کی تکلیف سے دوچار کر دے جس سے خود اسے گزرنا پڑا تھا۔
یہی عمل شریعت اسلامی نے کیا ہے، اس نے مرد کی ظالمانہ روش اور بے لگام غیض وغضب کو لگام لگانے کے لیے اسے اسلامی اخلاق وقوانین میں باندھ دیا ہے۔ اگر اسلامی قوانین کسی ملک میں پوری طرح نافذ ہوں اور ان کے ساتھ قوت نافذہ بھی ہو تو ظالم سے ظالم مرد بھی بلکہ شیطان بھی ان قوانین کے ہوتے ہوئے، کمزور مردوں، غلاموں اور عورتوں کو ستانے کی سوچ بھی نہیں سکتا۔ اور جو مسلمان مرد اللہ سے ڈرتے ہیں ان کے لیے کسی طرح کی قوت نافذہ اور فوجداری قوانین کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ ان کے لیے اخلاقی قوانین ہی بہت ہیں۔ ان کے لیے ہر طرح کے ظلم سے باز رہنے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اللہ پر یقین رکھتے ہیں اور اس کی پکڑ سے ڈرتے ہیں۔ اسی ضمن میں مردوں کے لیے اللہ کا یہ حکم بھی ہے: وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ [النساء:۱۹] اور نبیﷺ کا یہ فرمان بھی کہ عورتیں مردوں ہی کے مثل ہیں۔ اس کا صاف مطلب ہوا کہ تخلیق میں اور حقوق میں مردو عورت کے دمیان کچھ فرق نہیں، جس طرح دومردوں کی تخلیق اور حقوق میں کچھ فرق نہیں۔ (بخاری)
مرد اور عورت، دونوں کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا گیا ہے، دونوں ہی تخلیق میں برابر سرابر کی اہمیت کے حامل ہیں اور نہ صرف ان کی خود کی تخلیق میں بلکہ روئے زمین پر انسانی نسل کے بقا وتحفظ میں اور پرورش میں بھی دونوں برابر کے حصے دار ہیں، بلکہ اللہ کے تخلیقی پلان کی تکمیل میں برابر سرابر کی ذمہ داری نبھانے والے ہیں۔ چنانچہ قرآن میں ہے: یٰـٓاَیُّهَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّ اُنْثٰی [النساء:۱] اس آیت میں آدم وحوا کی تخلیق کے بعد اللہ نے دنیا میں جو تخلیقی عمل جاری وساری کیا ہے اس کا بیان ہے۔اور اس بیان کی غایت یہ ہے کہ جب تمام انسان مرد وعورت ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا ہوئے ہیں تو ان میں کسی طرح کی کوئی تفریق کیسے روا رکھی جاسکتی ہے؟ دونوں کی تخلیق دونوں کے اجتماعی عمل سے وجود پذیر ہوئی ہے اور دونوں ہی روئے زمین پر اللہ کے تخلیقی منصوبے کو جاری ساری رکھنے میں یکساں عملداری رکھتے ہیں۔
کوئی بھی قانون ہو، اس کا بنیادی مقصد کمزور انسانوں کے حقوق کو پامالی سے بچانا ہے۔ معاشرے میں جو طاقتور فرد ہے وہ تو مخالف کی ناک توڑ کر اپنا حق خود ہی حاصل کر لے گا مگر جو کمزور ہے وہ طاقتور سے اپنے حقوق نہیں لے سکتا۔ دنیا میں اسی لیے قانون بنائے جاتے ہیں، قانون کی بنیادی شق یہی ہے کہ وہ کمزور کے ساتھ کھڑا رہے۔ اللہ کی شریعت بھی اخلاق وقوانین کا مجموعہ ہے۔ قرآن میں تاریخ ،واقعات، حکمت، موعظت، سائنس اور غیب کی باتوں کے علاوہ اخلاق وقوانین بھی ہیں۔ اور قانون کے اساسی ہدف کو سامنے رکھتے ہوئے یہ کہنا مناسب ہے کہ قرآن کمزوروں کے لیے ہے اور ہمیشہ کمزوروں کے ساتھ کھڑا ہے۔ اسی لیے قرآن میں امن اور انصاف قائم کرنے کی بات بار بار دہرائی گئی ہے۔
حضرت ابوبکر صدیقؓ جب خلیفہ بنائے گئے اس وقت انہوں نے جو پہلا خطبہ دیا ذرا اس کے یہ عظیم الشان الفاظ دیکھیں:
’’اے لوگو! مجھے تمہارے معاملات کا ذمہ دار بنایا گیا ہے، حالانکہ میں تم میں سب سے بہتر نہیں ہوں، تو اگر میں اچھا کروں تو میرا تعاون کرو اور اگر میں غلطی کروں تو میری رہنمائی کرو اور مجھے درست کرو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت ہے۔ تم میں جو کمزور ہے وہ میرے نزدیک طاقتور ہے، یہاں تک کہ میں اسے اس کا حق دلا دوں اور جو طاقتور ہے وہ میرے نزدیک کمزور ہے یہاں تک کہ میں اس سے کمزور کا حق لے کر کمزور کو لوٹادوں۔ان شاء اللہ‘‘ (سیرت ابن ہشام)
اس خطبے سے واضح ہوتا ہے کہ اسلامی حکومت کے بنیادی اہداف میں ایک بڑا ہدف اور خلیفة المسلمین کے اساسی ذمہ داریوں میں ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ مسلمان رعایا میں انصاف قائم کیا جائے اور ظالم ومغرور انسانوں سے کمزور وغریب انسانوں کے حقوق دلوائے جائیں۔ اب اگر کسی مسلم معاشرے میں عورتوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں تو اللہ اور اللہ کا قانون یعنی قرآن ہمیشہ ان کے ساتھ کھڑا ہے۔ اب اس کے بعد جو کچھ رہ جاتا ہے وہ اسلامی احکام کو مسلم معاشرے میں نافذ کرنے کی عظیم ذمہ داری ہے۔
***

بچوں کی پرورش اور گھر گرہستی کے کام کاج بھی اہم اور تھکا دینے والے کام ہیں۔ اگر عورتیں یہ سب کام خوش دلی اور محنت ولگن کے ساتھ کرتی ہیں تو ان کے لیے اللہ کے یہاں بڑا اجر وثواب ہے۔ مرد حضرات اپنی عورتوں کے آرام وراحت کے لیے بھلے ہی زیادہ نہ سوچیں اور بھلے ہی وہ ان کی طرف سے بے پروا بنے رہیں مگر اللہ تبارک وتعالیٰ ان کی طرف سے بالکل بھی بے پروا نہیں ہے۔ اللہ کو خود ان کا، ان کے کاموں کا اور انسانی معاشرے کی تعمیر وتشکیل میں ان کی بنیادی ذمہ داریوں اور عملداریوں کا، ان کے درد کا اور ضعف کا، پھر ان کے ذمے جو کام ہیں ان کی مشکلات کا اور نزاکتوں کا خوب خوب علم ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 13 جون تا 19 جون 2021