فاروق طاہر،حیدرآباد
کمال یہ نہیں کہ زندگی بس گزارلی جائے۔ کمال تو یہ ہے کہ زندگی کو اس کی اصل حقیقت کے مطابق شعور ، ادراک واحساس کے ساتھ بسر کیاجائے۔یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے کہ اکثرانسان زندگی محض گزار ر ہے ہیں۔ہم ایک ایسی معاشرتی زندگی کے عادی ہوچکے ہیں جہاں زندگی میں شعور ،ادراک ، احساس اور اصول و ضوابط کو کم ہی اہمیت دی جاتی ہے۔ اگر زندگی کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے تو نہ صرف ہم اپنی زندگی کو بہتر طور پر بسرکر سکتے ہیں بلکہ دوسروں کے لیے بھی فائدہ مند ثابت ہوسکتے ہیں۔ دنیا میں کامیاب زندگی گزارنے کے خواہش مند کروڑوں انسان موجود ہیں۔ لیکن زندگی کو کامیابی کی شاہراہ پر گامزن کرنے والے اصول و حقائق سے کم ہی لوگ واقف ہیں۔ اپنی زندگی میں خوش گوار تبدیلیوں کے متمنی افراد اور شاہراہ کامیابی کے مسافرین کے لیے یہ مضمون یقیناً مددگار ثابت ہوگا۔ کامیاب زندگی بسر کرنے کے چند ایسے زرین اصول اس مضمون میں بیان کیے گئے ہیں جن پر عمل درآمد کرتے ہوئے یقینی طور پر بہت سارے ضروری سوالوں ،شکوک و شبہات کے جواب ازخود مل جائیں گے۔ 90 /10کا اصول کامیاب زندگی بسر کرنے کا ایک ایسا زرین اصول ہے جس پر عمل پیرا ہوکر انسان اپنی زندگی کو خوشی و مسرت سے ہمکنارکرسکتا ہے۔90 /10 کے اصول کے مطابق کسی بھی انسان کی زندگی میں مسائل، پریشانیوں اور دشواریوں کا حصہ صرف دس فیصد ہوتا ہے۔ لیکن ان مصائب اور دشواریوں سے نجات دلانے یا پھر اسے مزید پیچیدہ اور گنجلک بنانے میں 90فیصد حصہ ردعمل کا ہوتا ہے۔دس فیصد مسائل پر قابو پانے کے لیے ردعمل کے نوے فیصد کو بہتر طریقے سے بروئے کار لانا ضروری ہے۔ کسی بھی فرد معاشرے اور قوموں کی مثبت و معکوس ترقی میں ردعمل کی کیفیت کو کلیدی اہمیت حاصل ہے۔90 /10 کا اصول ہمیں بتاتا ہے کہ ہماری زندگی کا 90فیصد حصہ اس بات پر منحصر ہوتا ہے کہ ہم اپنے اطراف و اکناف کے حالات پر کیسے رائے قائم کرتے ہیں اور اس پر کیا ردعمل پیش کرتے ہیں۔محتاط اور شعوری ردعمل کی کیفیت آپ کی زندگی کو بدل دے گی۔آئیے 90 /10 کے اصول کو دریافت کرتے ہیں کہ یہ کیا ہے؟
90 /10 کے اصول سے آگہی حاصل کرتے ہوئے کوئی بھی فرداپنی زندگی میں انقلابی تبدیلیوں کو راہ دے سکتا ہے۔اس اصول کے مطابق، زندگی کا 10فیصد حصہ آپ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر مشتمل ہوتا ہے جب کہ زندگی کا 90فیصد حصہ آپ کے حالات و واقعات پر پیش کیے گئے ردعمل پر منحصر ہوتا ہے۔آپ پوچھیں گے کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ اس کا مطلب یہ ہی ہے کہ ہمارے ساتھ جو بھی حالات و واقعات پیش آتے ہیں اس کے 10فیصد حصے پر ہمارا کوئی کنٹرول یا قابو نہیں ہوتا ۔یہ دس فیصد واقعات ہمارے قابو سے بالکل باہر ہوتے ہیں۔مثلاً آپ جو کچھ بھی اپنی زندگی میں حاصل کرتے ہیں اس کا انحصار مختلف عوامل پر ہوتا ہے جیسے آپ کی اپنی فطری صلاحیتیں،خاندانی پس منظر،وہ طرز معاشرت یا ماحول جس میں آپ پروان چڑھے ہوں،آپ کی بخت آوری وغیرہ وغیرہ اور یہ تمام عوامل آپ کے قابو سے باہر ہیں۔جیسے آپ کسی ٹرین کو تاخیر سے چلنے سے نہیں روک سکتے ،یاجب کسی کام کے لیے آپ کو جلد پہنچنا ہو ،تاخیر سے بچنے کے لیے سڑک پر ٹریفک کے لال سگنل کوگرنے سے نہیں روک سکتے یا پھر جس طرح اپنے اعلیٰ عہدیداروں کو آپ بے وجہ تنقید سے باز نہیں رکھ سکتے۔ ایسے حالات سے پریشان ہونے کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔ بے شک 10 فیصد عوامل بالکل آپ کے قابو سے باہر ہیں اس کے برعکس 90 فیصد عوامل آپ کے قابو میں ہیں اور یہ ہی وہ خوش آئند بات ہے جو انسانوں کی زندگیوں کو خوشیوں سے بھر دیتی ہے۔آپ 90فیصد کا تعین کیسے کریں گے؟جواب نہایت ہی آسان ہے کہ آپ باقی ماندہ 90فیصد عوامل کا تعین اپنے ردعمل سے طئے کریں گے۔آج کی تیز رفتار دنیا میں پائی جانے والی انتہا پسند مسابقت سے زندگی پیچیدگی اور تناؤ کا شکار ہوگئی ہے۔لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم زندگی میں پائے جانے والی مسابقت اور دباؤ کا رونا ہی روتے رہیں۔ جب کسی کاسامنا ایسے ناموافق حالات سے ہو جنہیں وہ اپنا وقت اور لاکھ توانیاں صرف کرتے ہوئے بھی تبدیل نہ کرسکے تو وہ کیا کرے؟ کیا مایوسی اور تناؤ کا شکار ہوجائے؟بالکل نہیں ۔یہ بات بالکل درست نہیں ہے کہ زندگی آپ کے آگے مواقعوں سے زیادہ چیالنجس، مصائب اور ناموافق حالات کا انبار لگاتی ہے۔ اقبال نے بھی اس حقیقت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا ہے ’’بلا رہی ہے تجھے ممکنات کی دنیا‘‘۔اللہ رب العزت فرماتے ہیں’’بندے کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی‘‘۔(سورۃالبقرہ، آیت نمبر286)لیکن اکثر و بیشتر یہی دیکھنے میں آتا ہے کہ انسان خود اپنے ہاتھوں سے مصیبت کو دعوت دیتا ہے۔انسان کو اس بات کا شعوری ادراک ہونا چاہیے کہ وہ ہر چیز کو تبدیل کرنے کی قدرت نہیں رکھتا خواہ اسے وہ ناپسند کیوں نہ ہو اور نہ ہی اس شئے اور حقیقت سے راہ فرار اختیار کرسکتاہے جو اس کے لیے ناموافق ہو۔اس سے ہرگز یہ مراد نہ لیں کہ خود کو تقدیر کے رحم و کرم کے حوالے کرتے ہوئے مایوسی اور نامرادیوں کو گلے سے لگالیں۔ بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ آدمی پریشان ہوئے بغیر اپنی زندگی سے زیادہ سے زیادہ لطف و حظ اٹھائے۔اپنی زندگی کو کارعبث میں تباہ کرنے کے بجائے بہت زیادہ فائدہ مند اور کارآمد بنائے ۔حقیقت سے دور افسانوی کائنات میں سانس نہ لے۔ فضول اور بے کار افعال و افکار میں خود کو ملوث نہ کرے۔ایسے امور جو قانون فطرت ،مشیت خداوندی کے مطابق انجام پارہے ہیں جسے بدلنا انسانی طاقت کے باہر ہیں اس پر اپنی توانیاں صرف کرتے ہوئے مایوسی اور ناکامی کے قعر مذلت میں خود کو نہ گرائے۔انسان اگر دباؤ کے زیر اثر آجاتا ہے تب کوئی بھی طاقت اسے شکست و ریخت کے عمل سے نہیں بچا سکتی۔
ردعمل کی سوچ
ردعمل کی کیفیت میں رہنے والا فرد ہمیشہ ذہنی تناؤ کا شکار رہتا ہے۔ سوشل میڈیا کے فضول استعمال نے ردعمل کی کیفیت میں مبتلا افراد کی تعداد میں غیر معمولی حد تک اضافہ کیا ہے۔ آج پوری قوم سوشل میڈیا، فیس بک وغیرہ پر اپنے مخالفین یا یوں کہیے کہ اختلافی نقطہ نظر رکھنے والوں کا حساب چکانے میں مصروف ہے۔آزادی ہند کے بعد ہندی مسلمانوں بلکہ عالم اسلام کو آج جس صورتحال کا سامنا ہے یہ ناگفتہ بہ حالات ان کے عمل اور ردعمل کی غیر شعوری نفسیاتی ہیجان میں اسیری کی وجہ سے رونما ہوئے ہیں۔مخالف قوتیں دانستہ طور پرہمیں ایسی صورتحال سے دوچار کردیتی ہیں جس پر ہم غیر شعوری طور پر اپنا ردعمل پیش کرتے ہیں اور جس کا خمیازہ ملت کو خوب بھگتنا پڑرہا ہے۔درحقیقت خداوندانِ ظلم و استبداد، انسانی فطرت میں پوشیدہ ردعمل کی کیفیت کو ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کررہے ہیں۔اگر ہم شعور و دانش سے کام لیتے ہوئے کسی بھی واقعہ یا عمل پر اپنا ردعمل پیش کرنے میں احتیاط برتیں تو یہ باطل و طاغوتی طاقتیں اپنی موت آپ مرجائیں گی۔اگر کوئی ہم پر حرف گیری کرتا ہے تو ہم فوراً اپنی دفع میں کود پڑتے ہیں۔ ردعمل کی اسی عجلت پسندی نے ہمیں تعمیری کاموں سے بہت دور کردیا ہے۔ہم سانپ کے بجائے لکیر پر لاٹھی مارتے ہوئے اپنی انا کو تسکین فراہم کرتے ہوئے مطمئن ہوجاتے ہیں۔مسلم معاشرے کی یہ زبوں حالی صرف عوامی دائرے تک محدود نہیں ہے بلکہ علم و دانش کے خود ساختہ رہنما اور حواس باختہ ٹھیکدار قیادت بھی اس کی اسیر ہوچکی ہے۔آج ہم مقامی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اپنے ہر معاملے کو ملک و ملت کے مفاد کے برخلاف مخالف گروہ کی ترجیحات کے مطابق طئے کررہے ہیں۔ ردعمل والی اسی سوچ نے ہم کو محدود کرکے رکھ دیا ہے۔مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اسی ر دعمل والی سوچ میں زندہ رہنے کو ترجیح دے رہا ہے۔اب تو ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر اس قدر ابتزال کا شکار ہوچکا ہے کہ جہاں ہم اچھے کاموں کی مخالفت بھی صرف ردعمل کی سوچ کی وجہ سے کررہے ہیں۔ ہماری سبکی اور ذلت کی وجہ بھی ہماری یہی عقل بند ردعمل کی فکر ہے۔ نوجوان تو دور عمر رسیدہ افراد بھی سوشل میڈیا پر اسی ردعمل کی کیفیت کی وجہ سے پیری کے لیے ذلت کا سبب بنے ہوئے ہیں۔ ہمارا پڑھا لکھا طبقہ کسی بھی مسئلہ یا واقعہ پر بے ڈھنگے پن سے جس طرح اپنا ردعمل پیش کررہا ہے وہ ہمارے اجتماعی ذہنی دیوالیہ پن کی غمازی کرتا ہے۔ سیاسی قائدین نے پیروکاروں کی صورت میں جاہل غلاموں کی ایک ایسی فوج تیار کر رکھی ہے جن کا شیوہ ہر دم صرف اپنے سیاسی آقاؤں کے فیصلوں(چاہے وہ غلط ہی کیوں نہ ہوں) ملت فروشیوں اور غلط بیانیوں (Statements) کو حق بجانب قرار دینا ہے۔ ان کی مخالفت میں اٹھنے والی آوازوں کو خواہ وہ حق پر ہی کیوں نہ ہوں غلط ثابت کرنا اور اپنا فضول ردعمل پیش کرنا ان کا وطیرہ بن چکا ہے۔ اس معاشرتی نفسیاتی عارضے کا مظاہرہ ہمارے اسکولز ،کالجز،بازاروں بلکہ مساجد میں اب ایک عام بات ہے۔ ردعمل کی منفی کیفیت میں گرفتار قوم کبھی بھی نفسیاتی طور پر صحت مند نہیں ہوسکتی۔ایک منظم سازش کی تحت ملت کو اس منفی عمل میں ملوث کیا جارہا ہے۔قوم وملت کے وقار کی بلندی کے لیے ہمیں اس فضول نفسیاتی عارضے سے گلوخلاصی کی اشد ضرورت ہے۔ہم جب اپنے ردعمل میں محتاط ہوجائیں گے ،مسائل کی ایک بڑی تعداد اپنے آپ ہی دم توڑ دے گی۔90 /10کا اصول ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ غیر متوقع سر اٹھانے والے 10فیصد واقعات و مسائل پر ہم اپنے ردعمل سے بخوبی قابو پاسکتے ہیں۔اپنی توانائیوں کو بے سود ضائع کرنے سے اجتناب ضروری ہے تاکہ ملت کی شیرازہ بندی اور تعمیری کاموں پر توجہ مرکوز کی جاسکے۔
آزمائشوں کے اس دورابتلاء میں ردعمل اور عدم برداشت کو تج کر اسلام کے محبت اور عدم تشدد کے مشرب کو عام کرنے کی ضرورت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت طیبہ ہمیں انسانوں سے محبت صلہ رحمی ،عفو ودرگزر اور صبر وتحمل کا برتاؤ روا رکھنے کی تلقین کرتی ہے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمام عالموں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا۔دعوت اور حکمت کی تعلیم صبر و رضا کی تربیت رسول پاک کے اسوہ حسنہ میں ہمیں بدرجہ اتم ملتی ہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی زندگی جو کشمکش مصائب اور آزمائش سے عبارت ہے ،ہمیں سخت اور مشکل حالات میں بھی جینے کا ہنر و سلیقہ بخشتی ہے۔ مشرکین مکہ کی جانب سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اور آپ کے ساتھیوں پر ظلم کے گوہ گراں ڈھائے گئے،کسی کو کوڑوں سے مارا جاتاتوکسی کو تپتی ریت پر گھسیٹا جاتا تو کسی کو آگ کے انگاروں پر لٹایا جاتا۔طائف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بد بختوں نے پتھرمارمارکر لہولہان کردیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معاشرتی و سماجی مقاطعہ بھی کیاگیا۔ظلم و ستم کے ایسے خوفناک ماحول میں جب صحابہ کرام نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے ظالموں اور مشرکین کے حق میں بددعا کی درخواست کی تو آپ صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا مجھے لعنت کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں کیا گیا ،مجھے تو سراپا رحمت اور صرف رحمت بناکر بھیجا گیا ہے۔ایسے سخت حالات میں بھی رسول اللہ علیہ و سلم نے ردعمل کا مظاہر ہ نہیں کیا ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت دوستی ،خدمت خلق ،اعلیٰ اخلاق اور صلہ رحمی سے کام لیا۔سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ مبارک ہمیں منفی ردعمل کی فکر سے مانع رکھتا ہے۔قرآن وسیرت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کا صدق دل سے مطالعہ کرنے والوں کے دل میں کبھی بھی منفی ردعمل والی سوچ اور نفرت گھر نہیں بنا سکتی۔قرآن اور سیرت کے حاملین انسانوں سے نفرت کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ہمارے رویوں میں انتہاپسندی اور شدید ردعمل کی بڑی وجہ اسلامی تعلیمات سے دوری ہے۔ہماری دانش گاہیں جہاں کاروبار علم کا بڑا چرچاہے تربیت کے جوہر خاص سے عاری ہیں۔مہذب معاشرے کی تعمیر و تشکیل کے لیے سب سے پہلے ہم کو احتسابی عمل سے گزرنے کی سخت ضرورت ہے۔
***
آج ہم مقامی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک اپنے ہر معاملے کو ملک و ملت کے مفاد کے برخلاف مخالف گروہ کی ترجیحات کے مطابق طئے کررہے ہیں۔ ردعمل والی اسی سوچ نے ہم کو محدود کرکے رکھ دیا ہے۔مسلمانوں کا ایک بہت بڑا طبقہ اسی ر دعمل والی سوچ میں زندہ رہنے کو ترجیح دے رہا ہے۔اب تو ہمارا معاشرہ اخلاقی طور پر اس قدر ابتزال کا شکار ہوچکا ہے کہ جہاں ہم اچھے کاموں کی مخالفت بھی صرف ردعمل کی سوچ کی وجہ سے کررہے ہیں۔ ہماری سبکی اور ذلت کی وجہ بھی ہماری یہی عقل بند ردعمل کی فکر ہے۔