تعلیمی پسماندگی کیسے دور کریں؟

تعلیمی پسماندگی کے اس پر آشوب دور میں بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت اور ان کے روشن مستقبل کے حوالے سے غور و فکر کرنا وقت کا اہم تقاضہ ہے ۔جہاں آج پوری دنیا تعلیم و تعلم کے ذریعہ حیرت انگیز طور پر بڑی بڑی کامیابیاں حاصل کر رہی ہے، وہیں مسلمانوں کی شرح خواندگی کی رپورٹ دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ 2011 کی مردم شماری کے مطابق تعلیم میں’’جین‘‘ مذہب سب سے ترقی یافتہ ہے جب کہ قوم مسلم تمام مذاہب میں سب سے پسماندہ ہے یہاں تک کہ دلت قوم بھی تعلیم میں مسلمانوں سے آگے ہے۔ قوم مسلم میں ۲۴ فی صد یعنی ایک سو میں بیالیس لوگوں نے کالج کا منہ تک نہیں دیکھا۔ سب سے کم تعداد میں اسکولوں میں داخلہ لینے والے مسلم بچے ہیں اور سب سے زیادہ بیچ میں پڑھائی چھوڑنے والے بھی مسلمانوں کےبچے ہیں۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ کے مطابق ایک سو مسلم بچوں میں صرف پانچ بچے ہی گریجویشن مکمل کر پاتے ہیں۔ 513 اعلیٰ پی، ایچ، ڈی میں صرف ایک مسلم ہوتا ہے۔ جس قوم کے اندر اتنی تعداد میں لوگ ناخواندگی کی زندگی بسر کر رہی ہو تو وہ قوم دنیا میں کس طرح بلند مقام حاصل کر سکتی ہے؟
تجزیہ کے بعد مسلم قوم کی اس پسماندگی کے پیچھے درج ذیل چند خاص اسباب نظر آتے ہیں۔ اصل وجہ والدین کی ناداری و مفلسی ہے جو اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورا کرنے سے قاصر ہیں۔ حکومتی غیر معیاری تعلیم کی وجہ سے عوام کا اعتماد پرائیویٹ اسکولوں پر ہوتا ہے۔ مفلس اور نادار طبقہ اپنے بچوں کو معیاری اسکولوں میں نہیں پڑھا سکتا۔ بلکہ والدین گھریلو بجٹ پورا کرنے کے لیے بچوں کو نوکری پر لگا دیتے ہیں۔ مستزاد یہ کہ عوام کے پیش نظر تعلیم کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ دوسری اہم وجہ ماں باپ کا ناخواندہ ہونا ہے۔ انھیں معلوم ہی نہیں ہوتا کہ وہ اپنے بچوں کی تعلیم کیسے اور کہاں تک کرائیں؟ تعلیمی حوالہ سے ان بچوں کو کوئی راستہ دکھانے والا نہیں ہوتا۔ نتیجتاً ایسے بچوں کا مستقبل خراب ہو جاتا ہے۔ ایک بڑی پریشانی کا سامنا یہ ہے کہ اگر بچوں کو مدرسے میں شریک کرواتے ہیں تو دنیا کی تعلیم سے محروم ہو جاتے ہیں اور اگر اسکول میں داخلہ دلاتے ہیں تو وہ دین کی تعلیم، نماز و طہارت وغیرہ اور زندگی کے اہم مسائل میں شرعی رہنمائی سے نا واقف رہ جاتے ہیں۔ حد تو یہ ہے ماں باپ گزر جائیں تو انہیں نماز جنازہ تک پڑھنا نہیں آتا۔ بس لوگوں کو دیکھ کر فرض اتارتے ہیں۔
لہٰذا ہر جگہ ایک ایسی تنظیم (Organization) کی سخت ضرورت ہے جو باہمی امدادکے تصور کے تحت معاشرے کے خوشحال طبقے کے ساتھ مل کر معاشرے کے پسماندہ افراد کی مدد کرکے خصوصاً انھیں جہالت، بیماری، غربت، بے روزگاری، محرومی اور قدرتی آفات و بلیات سے نکال کر خوش حال زندگی کی راہ پر گامزن کرے۔ جس کی پہلی ترجیح سب کے لیے تعلیم "Education For All” کے نعرہ کے ساتھ علاقہ بھر میں ایک عظیم تعلیمی انقلاب کے لیے کام کرے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ہر جگہ ایسے ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے جو صحیح دینی و دنیاوی تعلیم کے ذریعے قوم کے نونہالوں کے مستقبل کو سنوارے اور وہ درج ذیل خصوصیات کا حامل ہو۔
ایک استاذ کے تحت صرف بیس سے پچیس بچے ہوتے ہیں تاکہ اچھی طرح بچوں کو پڑھایا جا سکے۔ پانچ چھ سال تک کے بچوں کو ایک سال کے اندر قاعدہ سے ناظرۂ قرآن تک کی مکمل تعلیم مکمل کی جائے اور اس کے ساتھ ساتھ نرسری،۔ایل کے جی اور یو کے جی کی پوری تعلیم دی جائے۔ ناظرۂ قرآن کے بعد جب بچہ حفظ کی کلاس میں داخل ہو تو ایک سال میں 10 پارے حفظ کرانے کا ہدف حاصل کیا جائے۔ حفظ مکمل کرنے تک اردو و نقل واملا، اہم احادیث و دعائیں حفظ کرانا، فرائض غسل و وضو اور اس کا عملی طریقہ، مکمل نماز، سلام و مصافحہ و معانقہ، کھانے پینے، سونے جاگنے، ماں باپ، بھائی بہن کے آداب، پڑوسی اور چھوٹوں بڑوں کے ساتھ حسن سلوک، اس طرح کے دیگر روز مرہ مسائل سے متعلق اہم تعلیمات سکھلائی جائیں۔ نیز تحریری و تقریری صلاحیت پیدا کی جائے۔ ساتھ ہی انگلش، ہندی اور حساب بھی لازماً سکھایا جائے۔ یوں ان شاء اللہ پانچ سال کے اندر اندر گیارہ بارہ سال کی عمر تک بچہ حفظ مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ پانچویں کلاس تک کی تعلیم بھی مکمل کر لے گا۔
اب آگے بچہ کہاں اور کس ادارے میں پڑھے؟ بچے کے ذہنی وسعت اور دلچسپی کے مطابق اسے بہترین عالم و مفتی یا ڈاکٹر، پروفیسر، انجینئر و غیرہ اعلیٰ تعلیم کے لیے بڑی بڑی دانش گاہوں اور جامعات میں داخلہ کے وسائل فراہم کیے جائیں۔اگر کوئی بچہ غریب گھر سے تعلق رکھتا ہے تو حتی الوسع اس کی تعلیم و تربیت کے اخراجات علاقائی تنظیم برداشت کرے۔
نیز وہ علاقائی تنظیموں کے تحت گاؤں دیہات کے مکاتب ومدارس کا جائزہ لے کر صحیح تعلیمی نظام و نصاب کے نفاذ کی کوشش کی جائے۔ بہت سے بچے غریبی اور بہت سے امیروں کے بچے بھی غفلت کے سبب اسکول نہیں جاتے۔ لہٰذا ہر گاؤں میں تعلیمی بیداری کے لیے (Parents Workshop) کا اہتمام کیا جائے جس میں والدین سے ملاقات کرکے ان کے بچوں کے روشن مستقبل اور ان کی صحیح تعلیم وتربیت کے حوالے سے گفت وشنید کی جائے ونیز ان بچوں کو پرائمری اسکولوں یا خواندگی سنٹر میں داخل کرانے کے لیے ان کے ماں باپ کو شعور دلایا جائے۔ نوجوان لڑکے لڑکیاں جو کسی وجہ سے دین کا علم حاصل نہ کرسکے ہوں ان کے لیے گاؤں گاؤں میں خصوصی پروگرامز منعقد کیے جائیں ۔