ترکی کا قائدانہ کردار، بحران کے وقت حریف ممالک کی مدد

کورناوائرس کے نقصان کو کم سے کم رکھنے میں کامیابی۔۔نگہداشت صحت کا بے مثال نظام۔ ناقدین بھی تعریف پر مجبور

ڈاکٹر عمیر انس

قارئین دعوت کی خدمت میں احوال ترکی پر ایک مختصر کالم پیش کرنے کا موقع مل رہا ہے، قارئین دعوت دیار عثمانی کی تاریخی، اور موجود حالات میں بیحد دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن ان حالات کے وہ پہلو جو ہمارے ملک کے لیے بھی بہت مفید سبق فراہم کر سکتے ہیں میرے کالم میں خاص توجہ کا مرکز ہونگے، ہر کالم میں موضوع سے متعلق مشہور ٹرکش الفاظ بھی متعارف کرائے جائیں گے۔

ترکی میں کرونا وائرس سے متاثر افراد کی تعداد ڈیڑھ لاکھ پہنچ کر اب مسلسل کم ہو رہی ہے، اُمید ہےکہ عید کے پہلے ہفتے میں اس وبا کے پھیلنے پر مکمل کنٹرول ہو جائیگا، اس دوران ترکی نے اسی سے زائد ممالک کو طبی امداد سپلائی کی، کئی ممالک کو طبی سامان کے ساتھ پی پی ای کِٹس بھی فراہم کیے لیکن جو بات ترکی کو سبھی ممالک میں بطورِ خاص مغربی ممالک میں ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہےکہ ترکی میں اتنی بڑی تعداد کے متاثر ہونے کے باوجود کوئی بحرانی کیفیت، لاک ڈاؤن کی نوبت، یا غذا اور ادویہ کی قلت کی صورتحال پیدا ہی نہیں ہوئی، ترکی کے کرونا رسپانس سے چند باتیں ہمارے ملک کے اہل سیاست سیکھ سکتے ہیں:

اول، ترکی کی حکومت نے گزشتہ پندرہ سالوں میں سب سے انقلابی کام ٹرانسپورٹیشن اور نگہداشت صحت کے میدان میں برپا کیا ہے ہر دو کلو میٹر پر ایک فیملی کلینک قائم ہے، ہر شہر میں پانچ بڑے سرکاری اسپتال ہیں اور نجی اسپتال انکے علاوہ، اسکولوں میں بچوں کا باقاعدہ چیک اپ ہوتا ہے، سبھی شہریوں کے پاس ہیلتھ انشورنس ہے، بڑے امراض جیسے کینسر کا علاج بالکل مفت ہے، ڈاکٹرز اور نرس کی تعداد یورپ میں سب سے زیادہ ہے، اردوغان حکومت کی ایک سخت ناقد خاتون نے ٹویٹ کرکے لکھا کہ شکر ہے کہ میں ان حالات میں یوروپ میں نہیں بلکہ اپنے ملک میں ہوں، جہاں حکومت نے فری ٹیسٹ، فری ماسک کا اعلان پہلے دن ہی کر دیا تھا۔

ترکی کی کرونا حکمت عملی میں ٹیسٹنگ، ٹریسنگ، ہوٹ اسپاٹ کی شناخت، ڈستنسنگ، پیشگی شناخت اور سلو ڈاؤن اہم ہیں، روزآنہ تیس ہزار سے زائد ٹیسٹ کرکے اب تک سولہ لاکھ ٹیسٹ کیے گئے، جو لوگ مثبت پائے گئے انکے آمدو رفت کے تین دنوں کے ریکارڈ اور ساری ملاقاتوں کا ڈیٹا لے کر سبھی ممکنہ متاثر افراد کو انکے گھروں میں جبراً روکا گیا اور انکا ٹیسٹ ہوا، رینڈم ٹیسٹ ہوئے، پورے شہر کو لاک ڈاؤن کرنے کی بجائے متاثرہ محلے یا گاؤں کی شناخت کی گئی، پہلے مرحلے میں تقریباً پانچ سو علاقے شناخت کر لیے گئے تھے چنانچہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ترکی میں وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے اس کا پوری طرح سے تعاقب کرنے میں کامیابی ملی ہہے۔ غیر متوقع طور پر وائرس کو پھیلنے سے روکنا بہت بڑی کامیابی ہے جس میں امریکہ اور اٹلی ناکام ہوئے لیکن جرمنی اور ترکی کامیاب رہے، پھر بیشتر متاثرین کی شناخت مرض کے پہلے اسٹیج میں ہی کر لی گئی جس سے انکو نازک حالت سے دوچار ہونے اور مرنے سے بچایا جا سکا اور انکے ذریعے سے انفیکشن کو دوسروں تک پھیلنے سے روکا جا سکا۔

دوم، پہلا کیس گیارہ مارچ کو آنے کے بعد ہی حکومت کی اعلیٰ سطحی نشستیں کم از کم ہر ہفتے منعقد ہوئیں، وزیر صحت فخرالدین کوجا نے تقریبا ہر روز پریس کانفرنس کی، کرونا سے کیسے نمٹیں اسکا واضح روڈ میپ بنالیا گیا تھا، لاک ڈاؤن کے بجائے سلو ڈاؤن کیا گیا، سارے بڑے شہرون کے درمیان سفر روکا گیا، بوڑھوں اور بچوں کے گھر سے باہر نکلنے پر پابندی لگائی، سبھی ہوٹل چائے خانے صرف ہوم ڈیلیوری اور پیک کے لیے محدود کیے گئے، یونیورسٹی، اسکولز آن لائن کیے گئے، مساجد مکمل طور پر بند کی گئیں، البتہ ازان اور ذکر ازکار کا مائیک پر سلسلہ جاری رہا، سرکاری دفاتر میں سبھی بوڑھے ملازمین کو رخصت دی گئی، شفٹ بڑھائی گئیں، ایک شفٹ میں کام کرنے والوں کی تعداد بہت گھٹا دی گئی، پھر ہفتے اور اتوار کے مکمل کرفیو نافذ ہوئے، لیکن بغیر پولیس کے اور سب۔سے بڑی بات ملک کے ٹی وی چینلز پر ڈاکٹرز ہی ڈاکٹرز نظر آنے لگے، ہر وقت بیداری کے پروگرام چلائے گئے، عوام وائرس سے لڑنے کے لیے پوری طرح سے تیار تھی، حکومت کی سنجیدگی کا عالم یہ تھا کہ بغیر پیشگی اعلان کے پہلے ویکنڈ کرفیو کا اعلان کرنے سے بازاروں میں بھیڑ ہوگئی، جس پر سخت تنقید کی گئ اور وزیر داخلہ سلیمان سویلو نے اخلاقاً استعفیٰ دے دیا، لیکن صدر اردوغان نے انہیں معاف کیا اور آئندہ منصوبہ بندی اور تال میل کی تاکید کی۔

سوم، ترکی ایک بڑی اقتصادی طاقت ہے لیکن ایک بڑا حصہ ٹورزم سے آتا ہے، چھوٹے بزنس ٹورزم پر منحصر ہیں، ٹورزم کے کم از کم چار مہینے خراب ہوگئے، اس لیے حکومت نے طے کیا کہ احتیاطی تدابیر سے جتنی معاشی سرگرمی جاری رہ سکتی ہے اسے جاری رکھا جائے، پہلے ہی مرحلے میں امداد اور ۲۸ بلین ڈالر کے معاشی پیکیج کا اعلان کردیا گیا، اس دوران وینٹیلیٹر بنائے گئے، بھیجے گئے، ماسک بیچنا ممنوع ہوا، پوسٹ آفس کے ذریعے انکی فری ہوم ڈیلیوری کرائی گئی، تقریباً اہم ضرورتوں کی ساری دکانیں کھلی رہیں، خوف وہراس کا کوئی امکان ہی نہیں رہا، میرا خیال ہے کہ دو مہینوں کے سلو ڈاؤن میں بھی ترکی کی تیس فیصد معاشی سرگرمی جاری رہی، جن کاموں میں بھیڑ ہونے کا امکان نہیں تھا وہ سیکٹرز بدستورسرگرم رہے، میرے دوست کیمال کا مشروم کا فارم ہے، بہت پریشان تھے اب کیا ہوگا لیکن انکے سارے مشروم مارکیٹ میں سپلائی بھی ہوئے اور نئے مشروم پلانٹ بھی کر لیے گئے لیکن سب سے حیران کن خوشی تھی کہ مارچ کے تیسرے ہفتے میں ہی آن لائن اسکول کا آغاز ہو گیا، بچوں کے دو چینلز پر لائیو کلاسز ہوئیں اور وہٹساپ کے ذریعے ہوم ورک دیے گئے، یونیورسٹی کے استاذہ نے زوم سے لیکچرز دیے، تعلیمی سلسلہ کہیں بھی معطل نہیں ہوا۔

چہارم، امریکہ، برطانیہ، اٹلی، فرانس، اسپین، جرمنی اور بیلجیئم میں کرونا وبا نے مغربی ممالک کے ہیلتھ کیئر کی پول کھول دی ہے ترکی نے ان ممالک میں اور دوسرے ممالک کو مدد بھیج کر اپنی لیڈرشپ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہی وہ مواقع ہوتے ہیں جب ممالک کے تعلقات اور انکی حسن نیت کا امتحان ہوتا ہے ترکی نے اپنے سبھی مخالف ممالک اٹلی، اور اسرائیل کو بھی طبی امداد بھیجنے سے گریز نہیں کیا۔ یہ قیاس کرنا مشکل نہیں ہے کہ کئی ممالک سے بزنس ترکی کی طرف منتقل ہو سکتے ہیں۔ پرسکون اور صحت مند زندگی کی تلاش کرنے والے امراء بھی اب یورپ کی بجائے ترکی کی طرف رخ کر سکتے ہیں۔ اسکے ساتھ ہی کئی مسلم ممالک میں ترقیاتی اور بنیادی سہولتوں کی فراہمی کے معاملے میں ترکی ایک رول ماڈل کے طور پر ابھر رہا ہے۔ مسلم ممالک بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی ترکی کی ترقیاتی اور بنیادی انسانی خدمات کی کامیابیاں سرخیوں میں ہے بلکہ ہندوستان میں بھی کوئی مسلم سیاستدان کامیاب ہونا چاہتے ہیں انہیں بھی اپنے علاقوں میں ترقیاتی کاموں کی ایسی ہی سیاست کرنے کی تحریک مل رہی ہے۔

پنجم، ترکی میں صفائی ستھرائی اور حفظان صحت دنیا میں سب سے بہتر معیار پر تسلیم کیا جاتا ہے بلکہ کئی دفعہ یہ سنک کی حد تک ہے۔ یہاں عام دنوں میں بھی مہمانوں کا استقبال کرتے وقت سنیٹائزس پیش کرنے کی روایت ہے۔ مساجد کے باہر نوٹس لگے ہوتے ہیں کہ جراب پہنے بغیر داخل نہ ہوں۔ سیلف ڈسپلن بہت بہتر ہے۔ پھر عام اسلامی اخلاق جیسے غریب پروری عام ہے۔ مساجد صرف عبادت ہی نہیں بلکہ تعلیم اور بیداری کا مرکز بن رہی ہیں، مساجد کی صفائی ستھرائی میں کسی بھی قسم کی کوتاہی ممکن نہیں ہے بلکہ یہ کہنا مناسب ہوگا کہ ترکی کی مساجد ترکی کی عام معاشرتی زندگی کی عکاس ہیں علماء کو اس بات۔کی اجازت نہیں ہے کہ وہ سائنس اور طبی امور میں ثابت شدہ مسائل میں حکومت کے خلاف کوئی فیصلہ لیں، عوامی صحت اور سلامتی کے معاملات میں علماء بے حد حساس ہیں اور اپنی حکومت پر بہت اعتماد رکھتے ہیں۔

اب دو مہینے کے بعد صورتحال یہ ہےکہ ترکی میں وائرس اپنی حد کو پہنچ کر کم ہو رہا ہے اور آہستہ آہستہ پابندیاں ہٹائ جارہی ہیں اور زندگی معمول کی طرف لوٹ رہی ہے۔ اندازہ ہے کہ عید کے بعد بین الاقوامی پروازوں کا آغاز بھی ہو جائےگا، اس بڑے عالمی بحران سے نکلنے کے بعد جب لوگ مختلف ممالک کا جائزہ لیں گے تو انہیں ترکی کے ہیلتھ کیئر سسٹم اور عوامی بہبود کو ترجیح دینے والی سیاست کو نظر انداز کرنا بہت مشکل ہوگا۔ ترکی میں ڈیڑھ لاکھ ڈاکٹرز، تیس ہزار ڈنٹست، دو لاکھ نرس ہیں، چھ سو پرائیویٹ، ایک ہزار حکومتی، اور 68 یونیورسٹی میڈیکل کالج موجود ہیں، یورپ کا سب سے بڑا اسپتال انقرہ میں ایک سال پہلے ہی شروع ہوا ہے، میڈیکل ٹورزم میں ترکی دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے اور اس وائرس کے بعد سات لاکھ سے بڑھ کر دس لاکھ مریض اپنا علاج کرانے ترکی آ سکتے ہیں، بہر حال، مسلم سیاست میں صحت سب سے ہم ایجنڈا ہوتی ہے یہ سبق ترکی کے مذہب پسند سیاستدانوں نے مسلم دنیا کے سیاستدانوں کو دیا ہے!۔

(عمیر انس جواہر لعل یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی ہیں اور ترکی کی ایک یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں، انہیں omairanas@ پر فالو کیا جا سکتا ہے۔)

ہندوستان میں بھی کو ئی مسلم سیاستدان کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو انہیں بھی اپنے علاقوں میں ترکی کے ترقیاتی کاموں کی ایسی ہی سیاست کرنے کی تحریک مل رہی ہے۔