ترکی پر قدرت مہربان ،بحر اسود میں گیس کےبڑے ذخائر دریافت

مصر، امارات اور سعودی عرب کا وزن یونان و اسرائیل کے پلڑے میں ۔نئی صف بندی طیب ایردوان کے لیے چیلنج

مسعود ابدالی

 

ترکی نے بحر اسود میں گیس کا ایک بڑا ذخیرہ دریافت کیا ہے۔ تیونا ایک (Tuna1#) نامی کنواں دنیوب (Danube) بلاک میں کھودا گیا۔ یہ بلاک مغربی بحر اسود میں بلغاریہ اور رومانیہ کی بحری سرحدوں پر واقع ہے۔ آسٹرین تیل کمپنی او ایم وی (OMV) دنیوب بلاک کے قریب رومانیہ کے پانیوں سے گیس نکال رہی ہے۔ بلغاریہ بھی اس علاقے سے پیداوار حاصل کر رہا ہے۔ تیونا ترک صوبے زونگو لادک (Zonguladak) کے ساحل سے 100 کلومیٹر دور شمال میں واقع ہے۔ یہ صوبہ لوہے کی کانوں کے لیے مشہور ہے اسی لیے اس شہر کے فرانسیسی آبادکاروں نے اسے زنک (Zink) کا شہر قرار دیا جو بعد میں زونگولادک بن گیا۔ کامیاب تجربے کے بعد گیس کے اس میدان کو ساحلی شہر کی مناسبت سے زکریا فیلڈ (Sakarya) کا نام دیا گیا ہے۔
اس کنویں کے بارے میں سب سے پہلے 19اگست کو آن لائن رسالے مڈل ایسٹ آئی (MEE) نے ترک وزیر توانائی و قدرتی وسائل فاتح تمیز کے حوالے سے انکشاف کیا تھا۔ رسالے کے مطابق فاتح تمیز نے بتایا کہ رگ بردار جہاز ’فاتح‘ نے (Tuna1#) کی کھدائی 26جون سے شروع کی تھی۔ یہاں پانی کی گہرائی 2000میٹر ہے جبکہ کنواں سطح سمندر سے 3500 میٹر نیچے تک کھودا گیا ہے یا یوں سمجھئے کہ سمندر کی تہہ سے گیس کے ذخیرے کی گہرائی 1500میٹر کے قریب ہے۔ وزیر باتدبیر کی گفتگو کے بعد جب صحافیوں نے ترک صدر طیب ایردوان سے اس بارے میں دریافت کیا تو موصوف نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ‘مثبت خبریں آرہی ہیں، دعا کرتے رہیں شائد جمعہ کے مبارک دن اعلان ہوجائے’۔ غالباً اس وقت تک آزمائش و پیمائش کا کام مکمل نہیں ہوا جسے تکنیکی اصطلاح میں Logging and Testing کہتے ہیں۔21 اگست کو نماز جمعہ کے بعد ترک صدر جب صحافیوں سے گفتگو کرنے آئے تو جناب ایردوان کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا اور وہ الحمداللہ کا ورد کر رہے تھے۔ جناب ایردوان حافظ اور عمدہ قاری ہیں۔ پریس کانفرنس کے آغاز سے پہلے انہوں نے بہت ہی خوبصورت لحن میں اللہ کی حمد بیان کی اور درود کے بعد جذبات سے رندھی آواز میں کہا کہ ’میرے مالک نے اپنی مہربانی سے ہم پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ ذخیرے کا ابتدائی تخمینہ 11300 ارب مکعب فٹ یا 11.3tcfہے۔ انہوں نے دعا کے انداز میں ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا ’انشااللہ ہمارا رب ہمیں مزید نوازے گا‘۔ ایک سوال کے جواب میں جناب ایردوان نے کہا کہ اس میدان سے گیس کی پیداوار 2023 تک شروع ہو جائے گی۔ حسن اتفاق کہ یہ وہی وقت ہے جب ترک ملت اپنی آزادی و خود مختاری کی سو سالہ سالگرہ منائے گی۔ اس مرحلے پر یہ وضاحت بہت ضروری ہے کہ کسی بھی بلاک کے پہلے کنویں سے حاصل ہونے والی معلومات کی بنیاد پر ذخیرے اور متوقع پیداوار کے حجم کا اندازہ قیاس سے زیادہ کچھ نہیں۔ مزید کنوؤں کی کھدائی کے بعد جب زیر زمین چٹانوں کی ماہیت، ساخت، تہوں اور طبقات کی ترتیب وغیرہ کے بارے میں مستند معلومات حاصل ہو جائیں گی تب ہی اس میدان کا حقیقی اور حتمی تجزیہ ممکن ہوگا۔ ترک حکام نے تصدیق نہیں کی لیکن امریکی نشریاتی ادارے بلومبرگ کا کہنا ہے کہ دنیوب کے ساتھ شمال مغربی ساحل پر ترک شہر کیوکّے (Kiyikoy) کے قریب اتھلے پانیوں میں بھی گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔
اسی ضمن میں ایک اور اہم خبر یہ ہے کہ بحر اسود کی اقصائے خواجہ فیلڈ (SASB) سے گیس کی پیدوار دگنی کردی گئی ہے اور اب یہاں سے یومیہ پیدوار کا حجم ڈیڑھ ارب مکعب فٹ گیس ہوگیا ہے۔ بحر اسود کے ساحلی شہر اقصی خواجہ سے متصل 100میٹر گہرے پانیوں میں گیس کی تلاش کا کام 2004میں کینیڈا کی ٹرلین انرجی نے ترک قومی تیل کمپنی کی شراکت سے شروع کیا تھا۔ ابتدائی مساحت اور مطالعے پر 17کروڑ ڈالر خرچ ہوئے۔ ترکوں پر قدرت مہربان تھی چنانچہ 2008میں پہلا کنواں ہی کامیاب ثابت ہوا۔ اب تک یہاں 23کنویں کھودے گئے ہیں اور یہاں کامیابی کا تناسب 81 فیصد ہے
ترکی تیل، گیس اور ایل این جی کی درآمد پر 50 ارب ڈالر سالانہ خرچ کرتا ہے۔ 2019 میں وزارت قدرتی وسائل کو 2022 تک تیل و گیس میں خود کفالت کا ہدف دیا گیا تھا جس کے بعد سے ترکی کی قومی تیل کمپنی TPAO نے خشکی کے ساتھ اپنے سیاہ و سفید دونوں سمندروں کا کھنگھالنا شروع کر دیا۔ ساحلوں پر پھیلی خوبصورت سفید ریت کی مناسبت سے عرب جغرافیہ داں ترکی کے جنوب میں واقع سمندر کو بحر الابیض المتوسط کہا کرتے تھے۔ بعد میں اسے بحر روم کا نام دیا گیا۔ یورپ کے ماہرینِ جغرافیہ نے ابیض نکال کر المتوسط کے بجائے اسے Mediterranean کہنا شروع کر دیا۔ ترک وزارت توانائی نے گزشتہ چند سالوں کے دوران تیل و گیس کے لیے بھاری سرمایہ کاری کی ہے۔ گہرے پانیوں میں کھدائی کے لیے جنوبی کوریا سے دو رگ بردار جہاز خریدے گئے جنہیں فاتح اور یاور (Yavuz) کا نام دیا گیا۔ اسی کے ساتھ زمینی ارتعاشات کے اخراج و نمو (Seismic) کا جائزہ لینے والی دو جدید ترین کشتیاں تیار کی گئیں۔ ارضیات کی اصطلاح میں اس جائزے کا نام مساحتِ ارضیاتی طبعیات یا Geophysical Survey ہے۔
بحر اسود جغرافیہ کی اصطلاح میں بحر اوقیانوس کا حاشیائی یا marginal سمندر ہے جس کے بیچ میں ترکی حائل ہو گیا ہے۔ اس سمندر کی زیادہ سے زیادہ گہرائی 2212 میٹر ہے۔ بحر اسود، یوکرین، رومانیہ، بلغاریہ، ترکی اور روس سے گھر ہوا ہے، گویا کھلے سمندروں تک اس کی رسائی نہیں۔ تنگ سی تیس کلومیٹر طویل آبنائے باسفورس اسے بحیرہ مرمرا سے ملاتی ہے۔ مرمرا بھی خشکی سے گھرا ایک سمندر ہے جس کی اوسط گہرائی پانچ سو میٹر سے بھی کم ہے۔ بعض ماہرینِ بحریات (Oceanographers) اسے نہر قرار دیتے ہیں اور جغرافیہ کی قدیم کتابوں میں اسے نہر استنبول کہا گیا ہے۔ 60کلومیٹر لمبی اور سوا کلو میٹر چوڑی آبنائے ڈارڈینیلس (Dardanelles) بحیرہ مرمرا کو خلیج یونان سے ملاتی ہے جو بحر روم کا حصہ ہے۔ یعنی بحر اسود سے آنے والے جہاز باسفورس سے گزر کر بحیرہ مرمرہ میں داخل ہوتے ہیں اور پھر آبنائے ڈارڈینیلس سے گزر کر بحر روم آتے ہیں۔ بحر روم سے بحر اقیانوس کا راستہ مل جاتا ہے جبکہ جنوب ایشیا کی طرف محو سفر جہاز نہر سوئز سے گزر کر بحر احمر سے ہوتے ہوئے بحر عرب اور بحر ہند میں داخل ہو سکتے ہیں۔ باسفورس، بحیرہ مرمرا اور ڈارڈینیلس تینوں ہی ترکی کی حدود میں واقع ہیں۔ ترکی کے جنوب میں واقع 9 لاکھ 70 ہزار مربع میل رقبے پر مشتمل بحر روم کی کھلے سمندروں تک رسائی بھی محدود ہے یعنی ایک تو نہر سوئز کے راستے بحر احمر اور دوسرا ہسپانیہ اور مراقش کے درمیان واقع آبنائے جبل الطارق ہے جو اسے بحر اوقیانوس تک رسائی دیتا ہے۔
بحر روم اور بحر اسود کے جغرافیہ کو دیکھ کر قارئین کے لیے یہ اندازہ مشکل نہیں کہ ان دونوں اہم سمندروں اور یورپ کی کلیدی شاہراہ پر ترکی کی گرفت خاصی مضبوط ہے اور یہی بات کچھ حلقوں کو پسند نہیں۔ حالیہ کشیدگی کی وجہ جہاز رانی و مواصلات سے زیادہ معدنیات ہیں۔ بحر اسود و بحرروم کی تہوں کے نیچے گیس کے چشمے موجزن ہیں جن پر قبضے کے لیے علاقے کے تمام ممالک اپنی قوت کا بھرپور مظاہرہ کر رہے ہیں۔ بحر اسود کی حد بندی کسی حد تک واضح ہے اس لیے وہاں فی الحال کوئی تنازعہ نہیں۔ لیکن بحر روم میں یونان اور اسرائیل اپنی اپنی بالا دستی قائم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں اور ان دونوں کو یورپی یونین اور امریکہ کا آشیرواد حاصل ہے۔ ادھر کچھ عرصے سے صدر ایردوان کی نفرت میں جنرل السیسی اور اماراتی و سعودی شیوخ و ملوک نے بھی اپنا وزن یونان و اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ ستم ظریفی کہ ان تینوں عرب ممالک کو ترکی سے الجھا کر اسرائیل، فلسطین اور لبنان کے خزانوں پر بہت بے شرمی سے ہاتھ صاف کر رہا ہے۔ غزہ اور لبنان کے ساحلوں کے قریب اسرائیلی کی نجی تیل کمپنی دالیک اور امریکہ کی نوبل انرجی نے لیویاتن، تامر، ماری، میرا، میرین 1 اور 2 کے نام سے گیس کے میدان دریافت کئے ہیں جبکہ کئی مقامات پر گیس کی تلاش و ترقی کے لیے کھدائی کا کام جاری ہے۔ معاملہ صرف غزہ اور لبنان کے وسائل کی چوری تک محدود نہیں۔ جس دلیری سے مصر کی دولت پر شب خون مارا جا رہا ہے وہ اس سے کہیں زیادہ درد ناک ہے۔ مصر کے ساحل سے متصل سمندر میں ہالینڈ کی شیل کمپنی ایک عرصے سے قسمت آزمائی کر رہی تھی۔ حسنی مبارک کے دورِ نامبارک میں فوجی جنتا اور کمیشن مافیا کا گٹھ جوڑ عدم دلچسپی اور ناکامی کے باوجود شیل کے ٹھیکے کی بار بار تجدید کر کے مال بٹور رہا تھا۔ 2012 کے وسط میں اقتدار سنبھالتے ہی صدر محمد مرسی نے وزارت پٹرولیم کی تنظیم نو کرتے ہوئے انہیں بحر روم میں گیس کی تلاش تیز کرنے کا ہدف دیا تھا۔ نئی انتظامیہ نے شیل کا ٹھیکہ منسوخ کر کے دنیا بھر کی تیل کمپنیوں کو تلاش و ترقی کے کام میں حصہ لینے کی دعوت دی۔ بحر روم کا یہ علاقہ بے حد پرکشش ہے چنانچہ اطالوی کمپنی eni نے بھاری بولی لگا کر شروق بلاک میں تلاش کے حقوق اپنے نام کر لیے۔ ٹھیکہ ملتے ہی ای این آئی نے کھدائی کا آغاز کیا اور پے در پے 7 کنویں کھود کر 30 ہزار ارب مکعب فٹ گیس کا عظیم الشان ذخیرہ دریافت کرلیا جسے ظہر کا نام دیا گیا۔ ظہر سے یومیہ پیداوار کا حجم 2 ارب 70 کروڑ مکعب فٹ ہے۔ صرف 12ماہ بعد ہی صدر مرسی معزول کر کے عقوبت کدے کی زینت بنا دیے گئے اور کمیشن مافیا کو سونے کی ایک نئی چڑیا ہاتھ لگ گئی۔ ظہر کی ترقی اور مزید دریافت کا کام سست کر دیا گیا۔ دوسری طرف اسرائیل کو اونے پونے گیس کی فروخت شروع ہوئی لیکن کچھ ہی ماہ بعد یہ کہہ کر معاہدہ منسوخ کر دیا گیا کہ مصر قومی دولت صرف اپنے لیے استعمال کرے گا چنانچہ ظہر سے نکلنے والی گیس فروخت نہیں ہوگی۔ بظاہر یہ بڑی عمدہ بات تھی لیکن سیاسی ہاتھیوں کے کھانے اور دکھانے کے دانت مختلف ہوتے ہیں۔ ظہر گیس کی برآمد پر پابندی کا اصل محرک لیویاتن سے نکلنے والی گیس کے لیے خریدار کی تلاش تھا۔ لبنان، ترکی، شام اور یونان اسرائیلی گیس خریدنے کے لیے تیار نہیں اور لیبیا تیل و گیس میں خود کفیل ہے۔ اسرائیل کے پاس اس کی فروخت کا واحد طریقہ یہ تھا کہ گیس کو ایل این جی میں تبدیل کرکے اسے ٹینکروں کے ذریعے یورپ برآمد کر دیا جائے۔ لیکن LNG پلانٹ لگانے کا خرچ بہت زیادہ تھا چنانچہ 2010 میں دریافت ہونے والی یہ گیس فیلڈ گزشتہ 9 سال سے بند پڑی تھی۔ گزشتہ سال دسمبر کے دوسرے ہفتے میں اسرائیل اور مصر کے درمیان گیس فروخت کے ایک معاہدے (GSA) کی خبر شائع ہوئی۔معاہدے کے تحت مصر لیویاتن سے 54 کروڑ 80 لاکھ مکعب فٹ (548mmcfd) گیس یومیہ خریدے گا۔ یہ معاہدہ 15 سال کے لیے ہے یعنی ان پندرہ برسوں کے 3 ہزار ارب مکعب فٹ (3tcf) گیس فروخت کی جائے گی۔ اب اسرائیل، مصر اور یونان مل کر یورپ کو گیس فروخت کرنے کے لیے مشرقی بحر روم سے اٹلی تک گیس پائپ لائن ٖڈالنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ لیکن ان تینوں میں سے کسی بھی ملک کے پاس فروخت کے لیے اضافی گیس نہیں اور اسی لیے انقرہ کو دیوار سے لگا کر لیبیا، شمالی قبرص، لبنان اور ترکی کے ذخائر لوٹنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ بحر روم میں ترکی کی جانب سے تلاش و ترقی کے منصوبے اور لیبیا سے اسی نوعیت کے معاہدوں پر ان ممالک کو سخت اعتراض ہے۔
صدر ایردوان کو اس سازش کا کافی پہلے علم ہو چکا تھا چنانچہ انہوں نے اپنی سرحدوں سے جزیرہ قبرص تک کے علاقے کو مخصوص اقتصادی زون یا EEZ قرار دے دیا۔ گزشتہ برس کے آغاز میں eni نے قبرص کے قریب تیل و گیس کی تلاش کے لیے Saipem 12000 نامی رگ بردار جہاز (Drillship) بھیجا جسے وہاں پہنچتے ہی ترک بحریہ نے گھیر لیا اور ڈبونے کی دھمکی دے کر وہاں سے چلے جانے پر مجبور کر دیا۔ اس رگ بردار جہاز نے بعد میں کراچی کے قریب مشہور زمانہ کیکڑا ون کی کھدائی کی۔ یونان اس علاقے پر ترکی کا حق قبول نہیں کرتا اور وہ یونانی قبرص سے مل کر علاقے میں قسمت آزمائی کرنا چاہتا ہے۔ کئی مرتبہ دونوں کی بحریہ آمنے سامنے آچکی ہیں لیکن صدر ایردوان کے دوٹوک رویے کی بنا پر یونانیوں نے پسپائی اختیار کر لی۔ ترکی و یونان دونوں ہی نیٹو (NATO) کے رکن ہیں۔ نیٹو سربراہ کانفرنس میں بھی یہ مسئلہ اٹھا۔ فرانس، برطانیہ اور جرمنی سمیت تمام یورپی ممالک نے یونان کی حمایت کی۔ صدر ایردوان نے صاف صاف کہدیا کہ ترکی نیٹو چھوڑ سکتا ہے لیکن وہ اپنی اقتصادی شہ رگ سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔
دوسری طرف اپنے خلاف صف بندی کے جواب میں ترکی بحیرہ روم کے جنوبی ساحل پر شمالی افریقہ کے ممالک لیبیا، تیونس، الجزائر اور مراقش سے قریبی تعلقات استوار کر رہا ہے۔ ان تمام ممالک کو بحر روم میں اسرائیلی بحریہ کی بڑھتی ہوئی قوت پر تشویش ہے۔ جواب میں مصر اور متحدہ عرب امارات نے لیبیا میں بدامنی کی آگ بھڑکا دی ہے جس سے تیونس بھی متاثر ہو رہا ہے۔ نومبر میں ترکی اور لیبیا نے ‘مشترکہ آبی حدود’ کے عنوان سے مفاہمت کی ایک یادداشت یا MOU پر دستخط کر دیے۔ استنبول میں صدر ایردوان اور لیبیا کے وزیر اعظم فیض السراج کے درمیان طئے پائے والے معاہدے کے مطابق ترکی اور لیبیا کے درمیان واقع سمندر کے جملہ معدنی اور قدرتی وسائل ان دونوں ممالک کی مشترکہ ملکیت ہیں جنکی حفاظت کو یقینی بنانا ترک بحریہ کی ذمہ داری ہوگی۔ ادھر کچھ عرصے سے قطر بھی ترک لیبیا تعاون کا غیر اعلانیہ حصہ بن چکا ہے۔
زبانی گولہ باری اور دھمکیوں کے باوجود اب تک یونان، اسرائیل یا ان کے حاشیہ برداروں کی جانب سے ترکی کے کسی جہاز یا تیل کی تلاش میں مصروف کشتیوں سے سنجیدہ قسم کی کسی چھیڑ چھاڑ کا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ تاہم یوروپی یونین کی جانب سے ترکی کے خلاف پابندیوں کا امکان خارج از امکان نہیں ہے۔ امریکہ صدارتی انتخاب میں صدر ٹرمپ کے حریف جو بائیڈن صدر ایردوان کے سخت مخالف ہیں۔ ترکوں کا خیال ہے کہ 2016 میں ترک فوج کی ناکام بغاوت کے پیچھے جو بائیڈن کا ہاتھ تھا جو اس وقت امریکہ کے نائب صدر تھے۔ عینی شاہدین کے مطابق استنبول پر حملہ کرنے والے باغی طیاروں کی ہراول ٹکڑی نے بحیرہ روم کے ساحلی شہر انجیرلیک Incirlik کے امریکی اڈے سے ہی اڑان بھری تھی۔ گزشتہ ہفتے جو بائیڈن نے صاف صاف کہا ہے کہ اگر وہ انتخاب جیت گئے تو اقتدار میں آکر ترکی میں تبدیلیِ اقتدار (Regime Change) کی کوشش کریں گے۔ صدر ٹرمپ نے بائیڈن کے اس منصوبے کو پراگندہ خواب قرار دیتے ہوئے کہا کہ کوڑھ مغز اور نالائق بائیڈن ذہین و بابصیرت ایردوان کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ اخوانیوں کو یقین ہے کہ 2013میں مصری جمہوریت کے خلاف شب خون میں بھی جناب بائیڈن اور صدر اوباما ملوث تھے۔
اگست کے آخری ہفتے میں بحر روم کے جزیرے Crete کے قریب یونان بحری و فضائی مشق کرے گا۔ مصر اپنی بحریہ اس مشق کے لیے بھیج رہا ہے جبکہ متحدہ عرب امارت نے اعلان کیا ہے کہ اسکے جنگی طیارے ان مشقوں میں یونان کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ اس کے لیے فرانس بھی اپنے بحری جہاز بھیج رہا ہے۔ ترکی نےمرعوب ہونے کے بجائے ہفتے کو بحر یونان میں بحری و فضائی فوج کی زبردست مشق کر ڈالی۔ جس میں ایف 16طیاروں، راکٹ بردار ڈرون، سمندر سے زمین پر مار کرنے والے میزائلوں سے لیس آبدوزوں کے ساتھ ترک بحریہ کے نئے غیر مرئی تباہ کن جہازوں نے حصہ لیا۔ اسی کے ساتھ گیس کی تلاش میں مصروف سائزمک کشتی عروج رئیس کا علاقے میں قیام بھی ایک ہفتہ بڑھا دیا گیا۔ پہلے کہا گیا تھا کہ سروے 23 اگست تک مکمل کر لیا جائے گا۔ ترکی نے جزیرہ کریٹ کے اردگرد اپنی بحریہ کو چوکس کر دیا ہے اور وزارت دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ اگر ترک تنصیبات اور سائزمک شپ سمیت اسکے اثاثوں کے خلاف مہم جوئی کی گئی تو بحر روم کو آگ کے سمندر میں تبدیل کر دیا جائے گا۔ ترک وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ ان کا ملک تنازعے کے پر امن حل کے لیے بات چیت کا خواہشمند ہے لیکن انقرہ‘ اپنے سمندر’ پر کسی کی بالا دستی قبول نہیں کرے گا۔ صدر ایردوان کا کہنا ہے کہ عظیم ترکی کو اس کے ساحلوں پر محدود کر دینے کا خواب دیکھنے والوں کو اپنی حقیقت بہت جلد معلوم ہو جائے گی۔ اتفاق سے اسی دوران امریکی بحریہ کا جہاز ہرشل ووڈی بھی کریٹ کے قریب پہنچ گیا ہے جبکہ یورپی یونین اور روسی بحریہ کے جہاز علاقے میں پہلے سے موجود ہیں۔ ایک ہفتہ قبل علاقے میں یونانی اور ترک جہاز میں ٹکر بھی ہو چکی ہے۔ تاہم یہ ایک حادثہ تھا جس میں کسی قسم کا نقصان نہیں ہوا۔ شدید کشیدگی کے ماحول میں جنگ و جدل کے سامان سے آراستہ اتنی بڑی تعداد میں عسکری اثاثوں کی موجوگی علاقائی بلکہ عالمی امن کے لیے کوئی اچھی خبر نہیں ہے۔
مسعود ابدالی کی پوسٹ اور اخباری کالم
masoodabdali.blogspot.com اور ٹویٹر @MasoodAbdali پر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔
***

’میرے مالک نے اپنی مہربانی سے ہم پر اپنی رحمتوں کے دروازے کھول دیے ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ ذخیرے کا ابتدائی تخمینہ 11300 ارب مکعب فٹ یا 11.3tcfہے۔ انہوں نے دعا کے انداز میں ہاتھ بلند کرتے ہوئے کہا ’اِن شاء اللہ ہمارا رب ہمیں مزید نوازے گا‘