تخلیق انسانی :قدرت کا کرشمہ

سائنس کے ذریعہ انسان اپنے خالق حقیقی کو پہچان سکتا ہے

حمیراعلیم

کائنات کی ہر چیز قدرت کا ایک کرشمہ ہے ۔اللہ تعالیٰ نے ہر چیز اس قدر کامل اور خوبصورت بنائی ہے کہ اس کی کوئی نظیر نہیں ملتی ۔ہم بیسویں صدی میں رہ رہے ہیں اور انسان اتنی ترقی کر چکا ہے کہ دوسرے سیاروں تک پہنچ گیا ہے مگر ابھی تک وہ اپنی دنیا کا کچھ فیصد ہی دریافت کر پایا ہے۔ کائنات کے اسرار نہیں جان پایا۔
آج ہم اللہ تعالیٰ کی کچھ تخلیقات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں ۔قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے بہت سی چیزوں کا ذکر کیا ہے جیسے مکھی، مچھر، مچھلی، شہد کی مکھی، اونٹ، چیونٹی اور انسان وغیرہ
اللہ تعالیٰ کا سب سے بڑا کرشمہ ہے تخلیق انسانی ۔اگر ہم اپنی پیدائش کے عمل کو دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے۔کیسے ایک بوند پانی سے ایک نہایت خوبصورت انسان پیدا ہوتا ہے۔آئیے قرآن مجید کی روشنی میں انسانی تخلیق کا جائزہ لیتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ سورہ مریم میں فرماتےہیں
’’کیا انسان کو یاد نہیں کہ ہم پہلے اس کو پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا ۔‘‘
انسان ،عورت اور مرد کے جسموں میں موجود مادے کے یکجا ہونے سے زندگی پاتا ہے۔دونوں الگ مگر مکمل طور پر ہم آہنگ ہیں ۔یہ بات تو یقینی ہے کہ مرد کا نطفہ اس کی مرضی اور اختیار سے پیدا نہیں ہوتا ۔نہ ہی عورت کے جسم میں بیضہ اس کی مرضی سے داخل ہوتا ہے۔بلکہ انہیں اس سارے عمل کی خبر بھی نہیں ہوتی ۔(سورہ الواقعہ آیت 57-59)
نطفہ’’ہم نے تمہیں پیدا کیا ہے پھر تم تصدیق کیوں نہیں کرتے؟ کبھی تم نے غور کیا یہ نطفہ جو تم ڈالتے ہو اس سے بچہ تم بناتے ہو یا اس کے بنانے والے ہم ہیں ۔‘‘
مرد کے جسم سے باہر پیدا ہوتا ہے اور یہ صرف اس وقت ممکن ہوتا ہے جب جسم کو عام درجہ حرارت سے دو درجے زیادہ سرد ماحول میسر ہو ۔اس درجہ حرارت کو قائم رکھنے کے لیے testicles کے اوپر ایک خاص قسم کی کھال ہوتی ہے۔یہ سرد موسم میں سکڑتی ہے اور گرمی میں پھیلتی ہے۔یہ کسی انسان کے بس کی بات نہیں ہے ۔
نطفہ testicles میں 1000 فی منٹ کی شرح سے پیدا ہوتا ہے ۔اور عورت کے بیضہ دان میں پہنچنے کے لیے اسے خاص شکل دی جاتی ہے ۔اس کا ایک سر، گردن اور دم ہوتی ہے ۔دم رحم مادر میں داخل ہونے میں مچھلی کی طرح مدد کرتی ہے ۔اس کے سر میں بچے کے جینی کوڈ کا ایک حصہ ہوتا ہے ۔اسے ایک خاص حفاظتی ڈھال سے ڈھانپ دیا جاتا ہے ۔رحم مادر میں داخل ہونے والے راستے پر تیزابی ماحول ہوتا ہے ۔اس ڈھال کی وجہ سے اس کی حفاظت ہوتی ہے
سورہ دہر آیت 2میں ہے۔
’’ہم نے انسان کو ایک مخلوط نطفے سے پیدا کیا تاکہ اس کا امتحان لیں۔‘‘
نطفہ کے اندر سیال مادوں میں شکر اسے توانائی فراہم کرتی ہے ۔
بیضہ رحم مادر میں فیلوپی نالیوں کے ذریعے، جو دو بازوں کی شکل میں موجود ہیں، پکڑ لیا جاتا ہے اور ان نالیوں کے اندر ایک باریک بال Cilia کے ذریعے حرکت کرتا ہے یہ بیضہ نمک کے نصف ذرے کے برابر ہوتا ہے ۔
قرآن پاک اس عمل کو ایسے بیان کرتا ہے ۔
’’ پھر اس کی نسل ایک ایسے ست سے چلائی جو حقیر پانی کی طرح کا ہے۔ ‘‘السجدہ 8
منی میں مرد کے ڈی این ۔اے اور عورت کے ڈی ۔ابن ۔اے بیضے میں یکجا ہو جاتے ہیں ۔یہ پہلا خلیہ جو رحم مادر میں ہے اسے جفتہ Zygote کہتے ہیں ۔
یہ جفتہ رحم مادر سے ایک جڑ کی طرح چمٹ جاتا ہے اور ماں کے جسم سے وہ مادے حاصل کرتا ہے جو اس کی نشوونماکے لیے ضروری ہیں ۔اسی کو اللہ تعالیٰ نے سورہ العلق میں ” جمے ہوئے خون کے ایک لوتھڑے ” کا نام دیا ہے ۔عربی زبان میں خون کے لوتھڑے کے معنی ایک ایسی چیز ہے جو کسی جگہ سے چمٹ جائے۔جیسے جونک۔اب رحم مادر ایک سیال مادے سے بھر جاتا ہے جو بچے کو باہر کی چوٹوں سے محفوظ رکھتا ہے ۔سورہ المرسلٰت میں اسے ایسے بیان کیا گیا ہے ۔
’’ کیا ہم نے تمہیں ایک حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا اور ایک مقرر مدت تک اسے ایک محفوظ جگہ ٹھیرائے رکھا۔‘‘
جنین جو جیلی کے مانند تھا اب ایک شکل اختیار کر لیتا ہے ہڈیاں بننے لگتی ہیں ۔آنکھیں بننے لگتی ہے ۔جب یہ بچہ پیدا ہوتا ہے تو آغاز کے مقابلے میں 100 ملین بڑا اور 6 بلین مرتبہ بھاری ہوتا ہے ۔
اب ذرا مختصر جائزہ لیتے ہیں ہمارے اندر لگی مشینری کا۔(مختصر اس لیے کہ اگرہم تفصیلاً جائزہ لینے لگیںتو کئی کتابیں بھی کم پڑ جائیں گی )۔انسانی جسم تقریبا 60-70 کلو گوشت اور ہڈیوں کا مجموعہ ہے اور کھال اور خون اسکی حفاظت اور خوراک ہیں ۔
پانچ حواس میں سے ہر ایک اپنی جگہ ایک معجزہ ہے ۔قوت باصرہ؛، لامسہ، سماعت، اور ذائقہ سب کی بناوٹ بے نقص ہے۔تمام نظام ، نظام ہضم، تنفس، تولید، دورہ خون اور اعصابی نظام۔سب بہترین تنظیم کی مثالیں ہیں ۔اگر کوئی ایک بھی کام ہمیں خود سے چلانا پڑے تو اس کے لیے ہمیں نہ صرف افرادی قوت درکار ہو گی بلکہ بہت سا وقت اور پیسہ بھی لگے گا۔
بالوں کی مثال لے لیں ۔سر اور پلکوں کے بال یکساں رفتار سے نہیں بڑھتے -اگر ایسا ہوتا تو آنکھیں زخمی ہو جاتیں ۔پلکوں کے بال اوپر کی طرف مڑے ہوئے ہوتے ہیں ۔جو آنکھوں کو خوبصورت بناتے ہیں اگر یہ بہت لمبی ہو جائیں تو انہیں ایک خاص تیل ڈھانپ لیتا ہے جو انہیں خشک اور سیدھا نہیں ہونے دیتا۔
انسانی جسم کا ہر حصہ ہر مقام نہایت بہترین طریقے سے اپنی جگہ پر بنایا گیا ہے ۔مثلا نوزائیدہ بچے کی کھوپڑی کی ہڈیاں بہت نرم ہوتی ہیں ۔یہ لچک اسے رحم مادر سے باہر آتے ہوئے سر کے نقصان سے محفوظ رکھتی ہے ۔اگر یہ ہڈیاں سخت ہوتیں تو پیدائش کے وقت ٹوٹ بھی سکتی ہیں ۔
ہمارا لعاب کیمیائی عناصر کی مدد سے نشاستے کو شکر میں تبدیل کر دیتا ہے ۔خوراک گیلی ہو کر آسانی سے چبانے کے قابل ہو جاتی ہے۔اور آسانی Oesophagus میں چلی جاتی ہے ۔اگر منہ میں لعاب پیدا نہ ہو تو کیا ہم کوئی چیز نگل سکیں گے؟ معدے کے اندر موجود نمک کا تیزاب جو کہ خوراک کو ہضم کرتا ہے اس قدر تیز ہوتا ہے کہ معدے کی دیواروں کو بھی کھا سکتا ہے۔مگر اللہ تعالیٰ نے اس کا حل یہ دیا ہے کہ ایک لعاب معدے کی دیواروں پر پلستر سا کر دیتا ہے۔اگر ایسا نہ ہو تو معدہ شدید درد کے ساتھ تباہ ہو جائے گا ۔
جب خوراک ہضم ہو جاتی ہے تو چھوٹی آنت کا استر اسے جذب کر کے خون کے ذریعے حل کر دیتا ہے ۔اس آنت پر سلوٹوں کا غلاف چڑھا ہوتا ہے ہر سلوٹ پر ایک چھوٹی سلوٹ ہوتی ہے۔انہیں خملے Villus کہتے ہیں ۔یہ پمپ کی طرح کام کرتا ہے ایک مربع ملی میٹر میں اس قسم کے 200 ملین پمپ نصب ہوتے ہیں ۔سوچیے اگر ہم ایسے 200 ملین پمپ کہیں نصب کریں تو کتنی جگہ گھیریں گے۔
ہماری ناک کے بال اور لعاب جو کی نتھنوں کی دیواروں کے ساتھ ریتا ہے ہوا کو چھان کر خاک کے ذرات الگ کر دیتے ہیں ۔اور ہوا گرم کر دی جاتی ہے تاکہ سرد ہوا ہماری صحت پر منفی اثر نہ ڈالے۔ ناک کی ہڈیوں کی خاص ساخت کی وجہ سے ہوا ناک کے اندر چکر لگا کر گرم ہو جاتی ہے اور یہ سب کچھ چند ملی سیکنڈز میں اور مستقل ہو رہا ہوتا ہے ۔جب کسی کو سانس کا مسئلہ ہو تو آکسیجن سلنڈر کے ساتھ ساتھ پورا ایک سسٹم لے کر چلنا پڑتاہے۔
انسانی ڈھانچہ صناعی کی بہترین مثال ہے ۔یہ جسم کے نازک اعضاء : دل، پھیپھڑے اور دماغ وغیرہ کی حفاظت کرتا ہے ۔اسی کی وجہ سے انسان حرکت کرتا ہے ۔ہڈی کے ٹشو نامیاتی نہیں ہیں بلکہ جسم کے لیے معدنیاتی ذخیرہ ہیں ۔اور یہ خون کے سرخ خلیے بھی بناتی ہیں ۔ران کی ہڈی جب بالکل سیدھی ہو تو 1 ٹن وزن اٹھا سکتی ہے ۔ہڈیاں جسم کے مختلف حصوں میں لچک دار ہوتی ہیں اور یہ لچک وقت کے ساتھ ساتھ تبدیل بھی ہوتی رہتی ہے ۔جیسے حمل کے آخری دنوں میں عورت کی کولہے کی ہڈیاں پھیل جاتی ہیں ۔
ریڑھ کی ہڈی کے مہرےایک دوسرے پر حرکت کرتے ہیں جس کی وجہ سے انہیں گھس جانا چاہیے ۔مگر ان کو بچانے کے لیے ہر مہرے کے درمیان مزاحمتی مرمری ہڈی رکھ دی گئی ہے جسے ڈسک کہتے ہیں ۔اگر یہ ڈسک نہ ہوں تو جھٹکوں کی قوت کی وجہ سے ریڑھ کی ہڈی کا اوپری سرا اسے توڑ کر دماغ میں گھس جاتا ۔
ہڈیوں کے جوڑوں کی جو سطح رگڑ والی سمت میں ہوتی ہے اس پر ایک پتلی مسام دار چپٹی ہڈی کی تہ رکھ کر اسے ڈھانپ دیا گیا ہے۔اسکے نیچے چکناہٹ ہوتی ہے جب کبھی ہڈی جوڑ پر زور ڈالتی ہے تو یہ چکناہٹ جوڑ کی سطح پر پھیل جاتی ہے ۔اللہ تعالیٰ سورہ البقرہ میں فرماتےہیں
” پھر دیکھو ہڈیوں کے اس پنجر کو ہم کس طرح اٹھا کر گوشت پوست اس پر چڑھاتے ہیں ۔”
انسان کا جسم اسے زندہ رکھنے کے لیے ہم ربطگی سے کام کرتا ہے ۔اس مقصد کے لیے جسم کے اندر خفیہ اطلاعات کا ایک نہایت ترقی یافتہ جال بچھا ہوا ہے ۔ہر ایک سیکنڈ کے اندر کئی بلین معلومات کی جانچ پڑتال ہوتی ہے ۔ہلکی سی مسکراہٹ کے لیے سترہ پٹھوں کو بیک وقت مل کر کام کرنا پڑتا ہے ۔اگر ایک بھی پٹھا کام نہ کرے تو تاثرات بدل جاتے ہیں ۔پٹھوں اور جوڑوں میں کئ بلین خورد بینی درآور عصبیے Receptors ہوتےہیں جو جسم کو اطلاعات فراہم کرتے ہیں ۔جیسے کب ہاتھ اٹھانا ہے۔اور کس عضو کو اگلا قدم کیا لینا ہے ۔
ہمیں بولنے کے لیے بھی کوشش نہیں کرنی پڑتی ۔انسان یہ منصوبہ بندی نہیں کرتا کہ صوتی ڈوریاں Vocal Cords کتنی دور ہوں منی کے اندر کتنے پٹھوں کو سکڑنا یا پھیلنا ہے۔
انسان کی خوبصورتی یا توانائی اسکا اپنا کام نہیں ہے بلکہ اللہ کا انعام ہے۔جگر انسان کے پیٹ کی اوپر والی جوف کے دائیں طرف ہوتا ہے ۔یہ دوران خون کے نظام میں چھلنی یا Filter کا کام کرتا ہے ۔گردے پانی میں حل شدہ چیزوں اود فالتو انسانی مواد کو فلٹر کرتے ہیں ۔
جگر لحمیات اور خامرے بھی بناتا ہے جو نسوں کی حفاظت بھی کرتے ہیں ۔Kupffer Cells جگر میں سے گزرنے والے خون سے جرثومے صاف کرتے ہیں ۔جگر گلوکوز پیدا کرتا ہے ۔یہ سکڑتا اور پھیلتا بھی ہے اور پورے جسم کا 10% خون ذخیرہ کر سکتا ہے۔یہ نئے سرخ خلیے بھی پیدا کرتا ہے ۔لوہا بھی ذخیرہ کرتا ہے ۔اس میں یہ صلاحیت ہوتی ہے کہ اگر کوئی حصہ خراب ہو جائے تو خود ہی ٹھیک کر لے۔اسی لیے اگر جگر کا 2/3 حصہ کاٹ بھی دیا جائے تو بھ یہ کام کرتا رہتا ہے ۔
جلد یا کھال نہایت پیچیدہ عضو ہے ۔جس کی کئی تہیں ہوتی ہیں جن میں درآور عصبیے، دوران خون کے راستے، ہوا کے اندر آنے جانے کا نظام، حرارت اور نمی کو باقاعدہ رکھنے کا نظام ہوتا ہے ۔اسکے ٹشوز میں بیک وقت ٹھنڈا اور گرم رکھنے کی صلاحیت ہوتی ہے ( یعنی مفت کا قدرتی اے-سی ہے ) ۔اس کے بغیر انسانی زندگی خطرے میں پڑ جاتی ہے ۔اسکے کسی حصے پر کٹ لگ جائے اور پانی کافی مقدار میں ضائع ہو جائے تو موت بھی واقع ہو سکتی ہے ۔کھال کے نیچے مختلف عضویاتی ساختیات روغنیات سے بنی ہوتی ہے جو گرمی سے بچاتی ہے ۔اس تہ کے اوپر لحمیات کھال میں لچک پیدا کرتے ہیں ۔یہ جسم میں موجود پانی کے توازن کو خراب ہونے سے بچاتی ہے۔اگر خارجی جلد کے خلیے اپنی صفات کھو دیں تو جلد دبیز اور سخت ہو جائے گی ۔
انسانی جسم میں بے شمار چھوٹے چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں جو مسام کہلاتے ہیں ۔ان کے نیچے پسینے کے غدود ہوتےہیں جو خون میں سے پانی حاصل کر کے ان مساموں میں سے گزارتے ہیں جسے جسم باہر پھینک دیتا ہے اور یہ پانی بخارات بن کرٹھنڈک دیتا ہے۔ سرد موسم میں پسینے کے غدود سست پڑ جاتے ہیں جس سے جلد کے نیچے دوران خون میں کمی آ جاتی ہے اور جسم کی حرارت کو خارج ہونے سے بچاتی ہے۔
دل دوران خون کے نظام کا ایک اہم حصہ ہے جو ٹریلین خلیوں کو جوڑتا ہے۔اسکے چار خانے آکسیجن اور آکسیجن کے بغیر خون کو جسم کے مختلف حصوں میں یوں پمپ کر کے بھیجتے ہیں کہ وہ آپس میں گڈ مڈ نہیں ہوتے ۔دل ایک منٹ میں 70-100 بار دھڑکتا ہے ہر دھڑکن کے درمیان ایک سکینڈ کے لیے رکتا ہے اور دن میں تقریبا 10000 دھڑکتا ہے ۔اسے پسلیوں کی حفاظت میں رکھا گیا ہے ۔دل کے اوپر والے حصے دایاں اور بایاں حصہ خون بھرتے ہیں اور اسے پیٹ میں نہیں جانے دیتے ۔دایاں حصہ کم دباؤ کے ساتھ خون پھیپھڑوں میں اور بایاں حصہ زیادہ دباؤ کے ساتھ پورے جسم میں خون پمپ کرتے ہیں ۔پھیپھڑے زیادہ دباؤ کی وجہ سے پھٹ سکتے ہیں ۔
رگیں صاف خون ٹشوز میں منتقل کر دیتی ہیں اور وریدیں آکسیجن کو ٹشوز میں پہنچاتی ہیں جو تمام خلیوں تک پہنچتی ہے ۔اس کے ہر خانے کے منہ پر والو خون کے مخالف سمت میں بہاؤ کو روکتے ہیں یہ والو Atria اور دل کے جوفوں کے درمیان ہوتے ہیں جو ریشے دار ٹشو سے بنتے ہیں جنہیں بہت پتلے پٹھوں نے تھاما ہوتا ہے اگر ان میں سے ایک بھی کام کرنا چھوڑ دے تو فالتو خون دل کے خانوں کی طرف بہنے لگے گا ۔جس دل کی بیماریاں پیدا ہو سکتی ہیں ۔خون کی مقدار جسم کی ضرورت کے مطابق بدلتی رہتی ہے ۔ورزش کے دوران دل180 فی منٹ دھڑکتا ہے کیونکہ زیادہ توانائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔
خون پمپ کرنے کی مقدار کو ایک خاص نظام کنٹرول کرتا ہے ۔دل کا پٹھہ باقی جسم کے پٹھوں سے مختلف ہے۔اس کے خلیے تحریک پر خودبخود سکڑ جاتے ہیںجس سے دل کے نظام میں خلل نہیں پڑتا ۔اسکی تخلیق کسی خالق کی محتاج ہے ۔سورہ الانعام میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
"یہ ہے اللہ تمھارا رب، کوئی اس کے سوا خدا نہیں، ہر چیز کا خالق ۔لہذا تم اسی کی بندگی کرو وہ ہر چیز کا کفیل ہے ۔”
ہاتھ مختلف قسم کے کام کرتے ہیں ان میں بہت سے پٹھے اور وریدیں ہوتی ہیں ۔ہاتھ جب مٹھی کی شکل میں ہو تو تھپڑ نہیں مار سکتا ۔کسی شے پر اسکی ضرب 45 کلو گرام وزنی ہوتی ہے ۔ہمارا انگوٹھا اور انگشت شہادت ایک کاغذ کی شیٹ پکڑ سکتے ہیں جو ایک ملی میٹر کا 1/10 حصہ موٹی ہوتی ہے ۔اور یہ سب کام ہم بغیر سوچے کرتے ہیں ۔
ناخن بھی اہم ہیں یہ چیزوں کو اٹھانے میں مدد دیتے ہیں ۔ہاتھ کام سے تھکتا نہیں ۔مصنوعی ہاتھ میں چھونے کی حس نہیں ہوتی۔ Hans J.Schnrebeli نے روبوٹک ہاتھ بنایا ہے جو The Karlstruhe Hand کہلاتا ہے اسکا کہنا ہے جوں جوں وہ یہ ہاتھ بناتا گیا انسانی ہاتھ کی تخلیق کو زیادہ سراہتا گیا۔
ہاتھ عموما آنکھ کے ساتھ ملکر کام کرتا ہے ۔اشارات آنکھ کے ذریعے دماغ میں منتقل کوتے ہیں اور ہاتھ دماغ کے حکم پر عمل کرتے ہیں ۔مزید برآں دونوں ہاتھ مکمل ہم آہنگی سے کام کرتے ہیں ۔
دفاعی نظام میں انسانی جسم کی ایک بہترین فوج ہے۔جو ہر روز موزوں ہتھیاروں سے اپنے حریف کو تباہ کرتی ہے ۔انسانی جسم قلعہ کی مانند ہے جس کی دیوار جلد ہے۔اسکے خلیوں میں قراتن ہے جو بالوں، سینگوں اور ناخنوں میں حل نہیں ہوتا ۔یہ مادہ جراثیم اور پھپھوندی کے لیے رکاوٹ بن جاتا ہے ۔اگر قراتن والی جلد کو رگڑا جائے تو نیچے سے نئی جلد نکل آتی ہے اور مردہ جلد کے ساتھ جراثیم بھی نکل جاتے ہیں ۔ناک ہوا کے ذریعے وائرس کو جسم میں جانے نہیں دیتی ۔اور اگر کچھ جراثیم داخل ہو ہی جائیں تو پھیپھڑے اور معدے کے خلیے اور خامرے اور چھوٹی آنت انکو خارج کر دیتی ہیں ۔کچھ خوردبینی جرثومے آنکھ ، جلد کی جھریوں، ناک، تنفس والی بالائی نالیوں اور تولیدی اعضا پر مسکن بنا لیتے ہیں اور جب کوئ بیرونی جرثومہ حملہ کرتاہے تو یہ جرثومے اس سے لڑ کر جسم کی حفاظت کرتے ہیں ۔اگر یہ جراثیم کسی طرح جسم میں داخل ہو ہی جائیں تو Macrophages اسے گھیر کر مار دیتے ہیں ۔اگر دشمن کی تعداد زیادہ ہو تواکال خلیے آتشی زہر Pyrogen خارج کرتے جو طویل سفر کے بعد دماغ تک پہنچ کر بیماری میں اضافہ کرنے والے مرکز کو متحرک کر دیتا ہے جس سے دماغ جسم میں خطرے کی گھنٹیاں بجا دیتا ہے اور بخار تیز ہو جاتا ہے اور مریض آرام پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
اب لمفی غدود ٹی اور بی خلیے Cytotoxic کام کرتے ہیں ۔اور ان جراثیم کو تباہ کر دیتے ہیں ۔اور بہت سے ٹی بی خلیے اپنی زندگی پوری کر کے مر جاتے ہیں ۔
سوال یہ ہے کہ کیا یہ نظام اور منصوبہ بندی خود بخود ہو گئی یا اسکا کوئی خالق بھی ہے؟ کوئی انسان خود سے تو یہ سب کر نہیں سکتا اور کوئی اور مخلوق اتنی عقلمند یا فعال نہیں ہو سکتی۔اسقدر جامع نظام ہمیں یقینی موت سے تحفظ دیتا ہے ۔تو صرف اللہ تعالیٰ ہی اتنا مامون و محفوظ نظام تخلیق کر سکتا ہے۔کیا واقعی یہ قدرت کا ایک کرشمہ نہیں ہے؟ ؟؟
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  15 تا 21 مئی  2022