تحریک اسلامی ہند کے لٹریچر کے مسائل

ڈاکٹر عمیر انس

(اسلامی تحریک کے سفر کو بہتر طریقے سے جاری وساری رکھنے کے لیے بے لاگ تنقیدوں اور بے لوث تجاویز کی بے انتہا اہمیت ہے، زندگی نو کے صفحات میں تنقیدوں اور تجویزوں کے لیے اصرار کے ساتھ دعوت دی جاتی رہی ہے۔ یہ مضمون بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، اہل علم و دانش سے اس سلسلے کو جاری رکھنے کی گزارش ہے۔ ادارہ )
گذشتہ کئی برسوں سے تحریکی حلقوں میں اس بات پر ایک اتفاق قائم ہوتا نظر آرہا ہے کہ تحریک اسلامی کو بر صغیر میں اسلام کی دعوت اور مسلمانوں کے تزکیہ اور تربیت کے لیے نئے لٹریچر کی ضرورت ہے، پرانا لٹریچر جسے برطانوی استعمار کے خلاف جد و جہد اور تقسیم ملک کے ہنگامہ خیز ماحول میں تیار کیا گیا تھا اس کی اہمیت تقسیم کی پہلی دوسری دہائی میں ہی ختم ہونے لگی تھی اور اس کی حیثیت تاریخ فہمی کے مصادر کی ہوگئی تھی، عبادت، علوم اسلامی اور اعمال کی اصلاح کی ضرورت تو ایسی ہے جس کے لیے اگر لٹریچر نہ بھی ہوتا تو صوفیااور علماکا روایتی تربیتی منہج کسی نہ کسی حد تک اپنی افادیت جاری رکھتا، بلکہ مدارس کے نظام اور کتابی وسائلِ تربیت کی دیگر خوبیوں کے باوجود ان کی ایک کمی یہ ہےکہ وہ معلومات فراہم کرتے ہیں لیکن اعمال اور جذبات کی تہذیب کرنے سے قاصر ہیں، لیکن تربیتی نصاب کی تیاری میں اس نصاب کو عملا عام کرنے کے لیے مربیوں کی تیاری پر توجہ ختم ہوگئی، یہ خیال کہ کتابیں کافی ہیں اس نے کتابیں تقسیم کرنے کو کافی جانا، لیکن قارئین سے انسانی ربط ضبط رکھنے اور ان کے روز مرہ کے اشکالات کو سننے اور سمجھنے والا کوئی نہیں تھا، اگرچہ اجتماعات نے اس ضرورت کو پورا کرنے میں ایک متبادل بننے کی کوشش کی ہے، لیکن یہ ون وے پراسیس تھا، بعد کے دنوں میں تو ویڈیو، سی ڈی اور اب یوٹیوب نے تربیت کو مکمل طور پر ایک ون وے پراسیس بنا کر رکھ دیا ہے، اور اس نئے کلچر نے تربیتی نصاب کو تیار کرنے والے حضرات پر ایک الگ قسم کا ہی پریشر پیدا کر دیا ہے، انھیں انسان کی فکری اور جذباتی ضرورتوں سے زیادہ میڈیا اور ویڈیو میں مقبول ہونے کے طریقوں کی فکر کرنی پڑ رہی ہے۔
لیکن لٹریچر کا دوسرا بڑا کام یہ ہے کہ وہ تحریکی کارکنوں کو سیاسی اور سماجی مسائل کا درست اور معقول فہم فراہم کرے، تاکہ کارکنان میں اپنے معاشرے اور اپنی سیاست کے سلسلے میں بہتر تنقیدی صلاحیت کا نشوونما ہو، جو جذبات اور غیر حقیقی توقعات اختیار کرنے سے پرہیز کریں، ون وے تربیتی وسائل نے معلومات تو فراہم کی ہیں، لیکن تنقید کرنے اور تنقید سیکھنے کے ضروری مواقع فراہم نہیں کیے ہیں، جو تحریکی کارکنان اسی ون وے تربیتی پوپولزم کے راستے اختیار کر رہے ہیں، وہ بھی زیادہ افراد تک مقبول ہونا، زیادہ تعداد میں ایونٹس کرنا اور زیادہ مقبولیت حاصل ہونا ہی موثر ہونے کی علامت سمجھنے کی بھول کرنے لگے ہیں، اور سوالات کرنے والے اور تنقیدی طریقہ گفتگو سے وہ اس لیے بچتے ہیں کیونکہ تنقید کے لیے ان کے پاس یا تو صلاحیت نہیں ہے یا اختصاص نہیں ہے، اسی لیے آج کل تحریک میں ماہرین اور متخصصین کی تعداد گھٹ رہی ہے اور آل راؤنڈر اسپیکر ہر جگہ غالب ہیں۔
تحریکی لٹریچر کی بنیادیں
تحریک اسلامی بنیادی طور پر تین طرح کے اعمال کا مجموعہ ہے، پہلا نظریاتی عمل جس کے تحت تحریکی مفکرین اور تنظیم اپنے ماننے والوں اور عام عوام کو ان کے معاشرے میں واقع ہونے والے سماجی سیاسی اور معاشی واقعات کی نظریاتی تشریح اور تنظیر کرتی ہیں، مثلا مولانا مودودی نے تقسیم ہندوپاک کے واقع کی اسلامی نقطۂ نظر سے تفہیم کرانے کے لیے قوم پرستی، وطن پرستی اور قومی وطن کے نظریات کی تشریح کی۔ اس تشریحی عمل میں ان کا اختلاف ملک کے اہم دینی رہ نماؤں سے بھی ہوا اور اس کے ذریعے اور وضاحت ہوتی چلی گئی، اس کے بعد قیام پاکستان کی حقیقت پیش آنے کے بعد انھوں نے اسلامی دستور کا نقشہ پیش کیا، اسی طرح اسلامی تحریک ہمیشہ ہر واقعہ میں اپنے نظریات کی تطبیق کے ساتھ تجزیہ کرتی ہے۔
تحریک اسلامی دوسرا کام یہ کرتی ہے کہ اس کے نظریے کی تائید کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو اور ان کی نظریاتی صلاحیت اور پختگی بھی مسلسل بڑھتی رہے، اس کام کے لیے عموما تربیتی نظام کا ایسا نقشہ بناتی ہے جن سےگزرنے کے بعد کوئی بھی کارکن جو ان کے نظم میں کبھی بھی شامل ہو جائے تو وہ اسی وقت آگے بڑھ سکتا ہے جب وہ تربیتی مراحل کو عبور کرتا جائے، اجتماعات کا سلسلہ، مطالعہ کے متعدد نصاب اور اسی قسم کے کئی کام تحریکات اپنے نظریات کی ٹریننگ کے لیے استعمال کرتی ہیں۔
تیسرا سب سے اہم کام جو تحریکات اسلامی عموما کرناچاہتی ہیں، وہ یہ ہےکہ ان کےنظریات کو ماننے والوں میں نئےلوگوں کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جائے، اس کے لیے وہ نئے نئے طریقوں سے نئے نئے شعبہ ہائے حیات میں اپنے نظریات کی تبلیغ اور اشاعت کرنے والوں کو بھیجتی ہیں، یونیورسٹیوں اور مدارس میں ان کی توجہ خصوصی ہوتی ہے، لیکن مساجد اور معاشرے کے دوسرے مراکز بھی ان کی توجہ کا مرکز ہوتے ہیں، اسلامی تحریکات مراکز سے نئےافراد کو اپنی تحریکات میں شامل کرتی ہیں، ان میں عموما مدارس، جامعات، مساجد ہی سب سے اہم ہوتے ہیں۔ کارخانوں، سیاسی جماعتوں، پروفیشنل تنظیموں، معاشی یا مزدور یونینوں سے آکر تحریک میں شامل ہونے والوں کی تعداد عموما بہت محدود ہوتی ہے، اس کے بہت سے اسباب ہو سکتے ہیں۔
آزادی کے بعد تحریک اسلامی نے جو لٹریچر تیار کیا ہے وہ حسب ذیل ضرورتوں کو پوری کرتا ہے:
• بڑا حصہ اسلام فہمی اور اسلامی علوم سے متعلق ہے۔
• وہ لٹریچر جو راست تربیتی امور کی ضرورت پوری کرتا ہے۔
• وہ لٹریچرجو غیر مسلمین کو اسلام کی بنیادی تعلیمات سے واقف کرانے کے مقصد سے لکھا گیا ہے۔
• بہت مختصر وہ لٹریچر ہے جو سیاسی اور سماجی مسائل کی تفہیم اور تشریح کے لیے لکھا گیا ہے۔
• جنڈر جسٹس، ماحولیات، بچوں کے مسائل، روزگار، معاشی مسائل، ادب اور فن پر توجہ باقی مسائل میں سب سے کم دی گئی ہے۔
اب جب کہ اس بات پر اتفاق عام ہو رہا ہے کہ تحریک اسلامی کو لٹریچر تیار کرنا ضروری ہے تو سوال یہ ہے کہ یہ لٹریچر کون لکھے گا اور تحریک یہ کام کیسے کرائے گی؟ اس سوال کے جواب میں چند نکات اہم ہوں گے۔
اول، تحریک اسلامی کی اصل حیثیت کیا ہے؟ تحریک اسلامی کی اصل حیثیت دراصل گذشتہ صدیوں میں انفرادی تجدید کی کوششوں کے اجتماعی عمل کی ہے۔ تحریک اسلامی محض اس مقصد کا نام نہیں ہے کہ اسلامی تبلیغ کے ادارے قائم ہوں، پارٹیاں بنیں، کہیں کہیں حکومتیں بھی قائم ہو جائیں اور بلکہ کہیں اقامت دین کی منزل بھی حاصل ہو جائے۔تحریک اسلامی کسی خاص دوری کو طے کرنے والی منزل نہیں ہے بلکہ یہ خود ایک کبھی نہ ختم ہونے والا سفر ہے۔ جب دنیا اپنے سب سے مثالی دور میں بھی پہنچ جائے تب بھی تحریک اسلامی کا سفر ختم نہیں ہو سکتا۔ لہٰذا یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ نیا لٹریچر تیار کرنا کسی خاص زمانے میں کسی خاص مقام کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جب تک تحریک اسلامی کا باقی رہنا ضروری ہے اس وقت تک مسلسل افکار کی تہذیب اور تنقیح کی ضرورت باقی رہے گی۔ یعنی یہ اصول تسلیم کر لیا جائے کہ تحریک اسلامی میں لٹریچر کی تیاری ایک مستقل عمل اور مستقل نظام کا محتاج ہے۔
دوسری بات یہ ہےکہ تحریک اسلامی کا کام صرف ہنگامی ضرورتوں کی تکمیل نہیں ہے، یہ صحیح ہے کہ تحریک آزادی ہند میں ایک ہنگامی کیفیت ہونے کی وجہ سے اس وقت کی ضرورت کا لٹریچر پیدا ہو گیا تھا، لیکن تقسیم کے بعد کے حالات میں تحریکات کا اپنے اپنے ممالک کی ضرورتوں کے لحاظ سے نئے لٹریچر کی تیاری کی طرف متوجہ نہ ہونا ایک صریح غلطی تھی جو ابھی تک جاری ہے۔یہ اصول کہ تحریکی لٹریچر صرف ہنگامی ضرورتوں کے لیے نہیں بلکہ مستقل سوشل اور سیاسی مسائل کی شناخت کے لیے ضروری ہے تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ لٹریچر کی تیاری ایک منہج اور علمی صلاحیتوں اور بہتر سے بہتر طریقہ کار کی محتاج ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ لٹریچر کی تیاری ہمیشہ انفرادی کوششوں سے ہو بلکہ اجتماعی عمل سے بھی ممکن ہے بلکہ اب ضروری بھی ہے۔
تیسری بات یہ ہےکہ تحریک اسلامی کے مقاصد کے منافی سب سے بڑا قیاس یہ ہے کہ لٹریچر کی تیاری کا اصل مقصد تنظیم کو مقبول بنانا، نظم کو سپورٹ کرنا یا تنظیم کی فکر کرنا ہے۔ اس کے بر عکس بات یہ ہےکہ لٹریچر کی تیاری کا عمل تحریک کی ضرورت ہے لیکن تنظیم کے ماتحت شعبہ نہیں! یعنی یہ کہ لٹریچر کی تیاری کرنے والے عمل میں پیدا ہونے والی ہر فکر سے، اس کی باریکیوں سے نظم جماعت کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔یہ سب سے غلط توقع ہے! جماعت اور افراد جماعت کا کام لٹریچر سے اتفاق کرنا نہیں ہے بلکہ لٹریچر کی روشنی میں اپنے لیے نئے راستے تلاش کرنا ہے۔ گذشتہ ستر برسوں میں لٹریچر کی تیاری کو جماعت کا شعبہ بنادینا سب سے صریح غلطی تھی، بلکہ کئی بار تو لٹریچر کی تیاری کا کام جماعت کی امارت کا ذاتی مشغلہ بنا دیا گیا تھا۔ لٹریچر کی تیاری کا کام جماعت کے نظم کے ماتحت صرف اسی مفہوم میں ہے جیسے حکومتوں کے ماتحت تھنک ٹینکس یا جرنلز ہوتے ہیں۔
چوتھی بات یہ ہےکہ جب لٹریچر کی تیاری کا کام مستقل عمل ہوتا ہے تو اس کا فطری رخ یہ ہےکہ عمومی موضوعات سے اختصاص کی طرف بڑھتے جائیں گے۔یعنی یہ کہ آزادی کے شروعاتی برسوں میں اگر تحریکی لٹریچر میں معاشی مسائل پر عمومی گفتگو کا آغاز کیا جا چکا ہوتا تو آج تحریکی حلقوں میں اس موضوع پر اختصاص کا عمل بہت پہلے ہی شروع ہو چکا ہوتا! یہ بات طے ہے کہ تحریکیں اختصاص کی ضرورت مند ہوتی ہیں، محض عمومی تبصروں کی نہیں! اختصاص کا مرحلہ جتنی جلدی آئے گا تحریکی فکر کے عام ہونے کا مرحلہ بھی اتنا ہی آسان ہوگا۔
پانچویں بات یہ ہےکہ لٹریچر کی تیاری کا آڈیئنس کون ہے؟ کس کے لیے لکھا جائے گا؟ تحریک ہونے کی وجہ سے ظاہر ہے کہ ان کارکنوں کے لیے لٹریچر لکھا جائے گا جو ملک میں عوام کے درمیان کام کرنے جائیں گے، اور جو لوگ عوام میں کام کرنے جائیں گے وہاں انھیں پہلے ہی سے پڑھے لکھے افراد سے سامنا ہوگا، اس لیے تحریکی افراد کے لیے لٹریچر اس نیت اور نقطۂ نظر سے تیار کیا جاتا ہے کہ وہ میدان عمل میں اس موضوع سے متعلق پہلے سے چل رہی بحث میں مفید اضافے کر سکے اور نئی رہ نمائی بھی کر سکے۔ لٹریچر کی تیاری کا مقصد قطعا یہ نہیں ہوسکتا کہ یہ کوئی پنج سورہ اور میلاد کی کتاب کی تیاری کا کام ہے جس کا قاری اسے زمان ومکان کی قید سے آزاد ہوکر پڑھتا ہے۔ اگر یہ لٹریچر میدان عمل میں رائج سوالات کے جوابات اور نئی رہ نمائی پیش نہیں کرتا تو اس کو پڑھنے والا قاری بے اعتمادی کا شکار ہو جائے گا اور میدان عمل سے فرار کے نئے راستے تلاش کرے گا۔
چھٹی اور آخری بات یہ ہےکہ لٹریچر کی تیاری کا عمل اپنے زمانے کے نظام استدلال اور اس کے معیار کی تکمیل کرتے ہوئے ہی ہوگا۔ مثلا علم سیاست پر کوئی کتاب ایسی لکھی جائے جسے اس زمانے کے ماہرین سیاست اصول تحقیق پر ہی مسترد کر دیں، تو یہ لٹریچر علمی دنیا میں زیادہ دن نہیں ٹھہرے گا، خواہ تحریک کا کارکن اسے عقیدت میں سو برسوں تک کیوں نہ پڑھتا رہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ لٹریچر کی تیاری میں اس زمانے اور اس موضوع کے رائج الوقت اصول تحقیق اور منہج تحقیق کی کسوٹی پر بھی زیادہ سے زیادہ پورے اتر سکیں۔ ہو سکتا ہے کہ ساری باتیں ان کے معیار پر ثابت کرنا ممکن نہیں ہو لیکن بہت سی باتیں ہیں جنھیں ثابت کیا جانا ممکن بھی ہے اور ضروری بھی۔اس میں یہ اصول بھی شامل ہے کہ کسی بھی موضوع پر لکھنے والا شخص بجائے خود اس موضوع کا اختصاص رکھتا ہے یا نہیں؟ یہ بات کہ شائع کرنے والے ادارے نے اشاعت سے قبل کوالٹی کے سارے مراحل پورے کیے ہیں یا نہیں؟ یہ بات کہ زبان اور بیان کے اعتبار سے بھی اس کی کوالٹی چیک کی گئی ہے یا نہیں؟
لٹریچر اور فکری نشوونما کا اسلامی نقطۂ نظر
ایک اسلامی معاشرے میں یا ان افراد اور جماعتوں کے درمیان جو اسلامی معاشرہ قائم کرنا چاہتے ہیں فکر اسلامی کا عمل اور لٹریچر کی تیاری کی کچھ نہ کچھ بنیادی رہ نمائی ضرور ہوگی۔ ان اصولوں میں تدبر اور تفکر کے ضمن میں آنے والی آیات قرآنی کا تذکرہ کرنا عام بات ہے، لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ جماعتوں اور ریاستوں کے نقطۂ نظر سے دیکھیں تو لٹریچر کی تیاری کا بنیادی مقصد جماعت کے نظریات، افکار کا فروغ، یا مسلک اور مذہب کا conformistفروغ یا ریاست کے اقتدار اعلیٰ کو مزید تقویت دینے والے نظریے کا فروغ ہی تفکر اور تدبر کا مقصد ہے۔اس کو عام اصطلاح میں رویہ کہتے ہیں کیونکہ اس مفکر کی بنیادی تلاش اپنے نظریےکے لیے دلائل کی تلاش ہے۔ اس طرز فکر کی بنیادی کم زوری یہ ہےکہ اگر جماعت، مسلک یا ریاست کسی خطرے اور چیلنج کے نشانے پر ہیں تو ان کا تفکر اور تدبر سرگرم رہتا ہے اور اگر وہ غلبہ اور مقبولیت کی حالت میں ہیں تو انھیں مزید فکری عمل کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی اور نہ ہی اس کی تحریک ہوتی ہے۔لٹریچر تیار کرنا ایک مستقل کام ہے اور اس کام کو کرنے والوں پر کسی قسم کا دباؤ نہیں ہونا چاہیے، یہ ضروری نہیں کہ تحریکیں اپنے مفکرین کی سبھی رایوں اور نظریات کو اپنا تحریکی نقطۂ نظر بھی بنا لیں، لیکن اگر لٹریچر تیار کرنے والے مفکرین، محققین اور اصحاب قلم تحریکی موقف اور نقطۂ نظر کو درست ثابت کرنا اپنی ذمہ داری سمجھ لیں تو ان میں اور دور زوال کے ان علما میں کوئی فرق نہیں رہ جاتا جو اپنے مسلک کے اثبات کو ہی اپنا کام بنا بیٹھے تھے، تحریکات اسلامی کو ماضی کی غلطیاں نہیں دہرانی چاہئیں، بلکہ فکر اور عقل کو بھرپور مواقع فراہم کرنے چاہئیں اور ان کی حوصلہ افزائی ہونی چاہیے اور جہاں ان کو اختلاف ہو وہاں بصد احترام اختلاف بھی کرنا چاہیے، مفکرین کا کام تحریکوں کی پریس ریلیز لکھنا نہیں بلکہ تحریک کے سامنے سبھی طرح کے مسائل اور ان کی مختلف جہات کو مکمل تحقیق کے ساتھ پیش کر دیناچاہیے، یہاں تک کہ اس میں اپنے ذاتی موقف کو بھی رکھنا چاہیے، تحریکی قارئین کوبھی ان کی تحریروں کو تحریک کے آفییشل لٹریچر کی طرح نہیں بلکہ موضوعات پر ایکسپرٹ تحقیق کی طرح مطالعہ کرنا چاہیے، یہ خوف رکھنا کہ اگر مختلف افکار کو پڑھا جائےگا اور ان کو شائع کیا جائےگا تو اس سے تحریکی افراد فکری گمرہی میں مبتلا ہو سکتے ہیں، ایک غیر حقیقی خوف ہے۔ افراد تحریک کا تنقیدی نقطۂ نظر رکھنا اور اختلاف راے میں مبتلا ہونا فکری جمود سے ہزار گنا افضل اور قابل ترجیح حالت ہے۔
دوسرا نقطۂ نظر یہ ہےکہ مارکیٹ اور انڈسٹری کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے تحقیقی عمل، تنوع اور ایکشن ہوتا ہے۔ آج کل بڑی بڑی کمپنیاں خود اپنے تجارتی ماڈل کو مزید مفید اور نفع بخش بنانے کے لیے کام کرتے ہیں بلکہ حکومت کی طرف سے لازمی سماجی ذمہ داری کے اخراجات کے لیے کافی رقم تحقیق پر خرچ ہو رہی ہے۔
ایک تیسری تحقیق تھنک ٹینکس کی رائج ہوئی ہے جس کا مقصد پروپیگنڈ۱ نہیں بلکہ اپنے کلائنٹس کے لیے مختلف زاویوں اور مختلف پس منظر اور مختلف ممکنہ نتائج والے مطالعات پیش کرتے ہیں۔
تحریکی لٹریچر ساری دنیا میں ایک جیسا ہے، اخوانی، جماعتی، تبلیغی، اہل حدیث، یا دیوبند یہاں تک کہ سید احمد شہیدؒ کی اسلامی تحریک کا لٹریچر اسی نہج کا تھا، اس لٹریچر کی مشترکہ کم زوریاں حسب ذیل ہیں :
یہ لٹریچر اس قیاس پر تیار کیا گیا ہے کہ اسلامی فکر نام کا کوئی نظریہ اپنی ایڈوانس شکل میں پہلے ہی سے موجود ہے، وہ اسلامی فکر ایسی ہے جو تمام مسائل کے حل کے لیے پوری مشق کر چکی ہے اور بس صرف اس فکر کو اقتدار میں لاتے ہی وہ اپنے آپ اقتدار کی سطح کے سارے مسائل حل کر دےگی، یعنی اسلام پبلک پالیسی کے لیے پوری طرح سے تیار ہے، تبلیغ اور دعوت کی حد تک تو یہ قیاس ٹھیک تھا لیکن اس کی بنیاد پر سیاسی تحریک برپا کی جاتی اور اقتدار کی جد و جہد کی جاتی اس کے لیےیہ لٹریچر ناکافی تھا، اس کی وجہ یہ ہےکہ جدید طرز سیاست اور حکومت خاندانی سیاست، روحانی قیادت، قبائلی وفاداری یا محض قوت کے زور پر کام نہیں کرتی، کسی بھی اسلامی خلافت کے زمانے میں عوام کا رول آج کے عوام کی طرح نہیں تھا، آج کے عوام کارخانوں میں جاتے ہیں، اسکولوں میں جاتے ہیں، پیسہ کماتے ہیں، ٹیکس دیتے ہیں، اخبار اور ٹی وی دیکھتے ہیں، یعنی اقتدار کے گلیاروں سے الگ عوامی اسپیس ہے جسے پبلک سفیر بھی کہتے ہیں، اس اسپیس میں مذاکرہ، مناقشہ، مجادلہ، محاکمہ اور منافسہ ہوتا ہے، کیا تحریکی لٹریچر اس میں حصہ لینے اور عوامی رائے کو اپنی آراء سے متاثر کرنے کی سطح کا معیاری ہے اور کیا اسے اس معیار کا بنانے کی فکر بھی کی گئی يا ضروری بھی سمجھا گیا؟ غالبا نہیں۔ کیا تحریکی لٹریچر کو اس پبلک اسپیس کے لیے تیار کرنا چاہیے تھا یا نہیں؟ اس بات کے لیے شاید کسی گفتگو کی ضرورت ہی نہیں ہے، کمیونسٹ تحریکوں کی مثال کافی ہے کہ انھِوں نے اگرچہ اقتدار حاصل نہیں کیا لیکن اقتدار کی ہر آرزو میں ان کے نعرے، ان کے ایجنڈے، ان کی کتابوں کا اثر بہت صاف محسوس کیا جاسکتا ہے، ماسکو تو پوری دنیا کی زبانوں میں مارکسی لٹریچر پھیلانے کامرکز تھا، آپ مزدور تحریک، خواتین کے اختیارات، زراعت، انڈسٹری اور سوشل انصاف وغیرہ کسی بھی موضوع پر گفتگو کرنا چاہیں آپ کے سامنے مارکسی نقطۂ نظر کا ایک وسیع اور مقبول مدرسہ فکر موجود ہے، کیا انھی مسائل پر کوئی اسلامی مکتب فکر یا تحریکی مکتب فکر وجود میں آسکا؟
کیا اسلامی تحریکیں یہ کہنے کی متحمل ہیں کہ عصرحاضر میں تحقیق کا صرف وہی طریقہ قابل قبول ہے جسے وہ کافی برسوں سے عمل میں لاتے رہے ہیں؟ اور کیا اپنے طریقہ تحقیق کو ہی سب سےبہتر اور کارگر تحقیق قرار دینے کی ان کے پاس کوئی خاص وجہ ہے؟ بلکہ عمومی لٹریچر کی تیاری میں بھی کیا ان کا طرز فکر کسی دلیل اور مستند استدلال پر مبنی ہے؟ بظاہر کہا جا سکتا ہے کہ تحریکی لٹریچر بنیادی طور پر اسی فکری بنیاد پر تیار کیا جارہا ہے اور تحریکی مفکرین اسی بنیادی فکر پر تیار کیے جاتے رہے ہیں جو دور زوال سے ہی ہند و پاک کے مدارس اسلامیہ، صوفیا اور علما نے اختیار کی تھی، یعنی علم کلام کی بنیاد پر علمی گفتگو کی جائے۔ اگرچہ علم کلام کسی زمانے کا سب سے قابل اعتماد طرز استدلال تھا لیکن اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ یہی ایک طریقہ استدلال ہے جو اسلام کے اثبات اور کفر کے ابطال کے لیے متعین کر دیا گیا ہے۔
لٹریچر کی تیاری کے عملی اقدامات
تحریکیں عموماً دو طرح کے لٹریچر تیار کرتی ہیں۔
پالیسی پیپرز: ایسے موضوعات جن کے قارئین تحریک کے اعلیٰ ترین دماغ ہیں۔یہ وہ لوگ ہیں جو اس موضوع کے اعلیٰ سطحی مباحث سے واقف ہیں۔ اور ان کے لیے تعارفی اور ابتدائی استدلال کی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے قارئین کا طبقہ محدود ہوتا ہے۔ عموماً ان کی تعداد دو چار سو ہی ہوتی ہے۔ ان کے لیے لکھنے والے اور ان کے موضوعات اور ان کا منہج قدرے مختلف ہوگا اور طرز استدلال کے معیار پر زیادہ سختی سے گزارا جائے گا۔ لیکن عموما اس طرح کے مقالات اندرونی مطالعہ کے لیے ہوتے ہیں اور انھیں عام کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ایسا لٹریچر جہاں آڈینس تحریکی کارکن ہوتے ہیں اور ان کے جیسے ملت اسلامیہ کے سبھی افراد۔ یا پھر وہ افراد جو تحریکی حلقے کے باہر ہیں وہ مسلمان بھی ہیں اور غیر مسلمان بھی۔ ان سبھی کے لیے عملی تجاویز حسب ذیل ہیں :
تحریک اسلامی کے اپنے ترجمان کے علاوہ لٹریچر کی تیاری کے لیے ایک مستقل شعبہ کا قیام جسکا نظم اور انتظام جماعت براہ راست نہیں بلکہ بالواسطہ اور محدود پیمانے پر کرے گی۔
یہ شعبہ تین کام لازمی طور پر کرے گا:
اول: تحریکی حلقے میں اور عام مسلمانوں میں ایسے افرادکی شناخت کرنا جو لٹریچر کی تیاری کے لیے علمی ذوق اور اختصاص کے حامل ہیں۔
دوم: ہر حال میں تحریکی حلقہ اور عام مسلمانوں میں باصلاحیت افرادکی تلاش ہمیشہ جاری رہے۔ اور نوخیز صلاحیتوں کو پروان چڑھانے کے لیے پہلے ہی سے سپورٹ پروگرام ہو۔
سوم:  ملت کے باہر عام برادران وطن اور صاحبان اختصاص سے مستقل ربط وضبط۔
ایک ایسے رسالہ کا اجراء جو خالص تحقیق معیار پر شائع کیا جائے۔ یعنی کوئی بھی مقالہ بغیر بلائنڈ ریویو کے شائع نہ کیا جائے۔ اور ریویو کرنے والے افراد کا تعین محض علمی اور اختصاص کی بنیاد پر ہی ہو۔
کتابوں کی اشاعت کے لیے موضوعات کمیشن کیے جائیں۔ ملت کے عام افراد کو اور برادران وطن کو کتاب لکھنے کے لیے فیلو شپ دی جائیں جس کا موضوع، معیار، اور ریویو سخت علمی اور ادارے کی طرف سے ہو۔
تحریک کے داخلی اشاعتی اداروں میں داخلی ریویو کا نظم ہو اور تحریک کے داخلی اشاعتی اداروں میں اس ادارے سے ایک نمائندہ مقرر ہو۔
تحریک کے افراد کے علمی اور ادبی کاوشوں اور تحریک کے سبھی سطح کے مقررین کی گفتگو کو مانیٹر کرنے والا اور اس کی بنیاد پر اپنا ریویو دینے کا کام کرے۔
تحریک کے نظم کے باہر ہم خیال اور ہم فکر محققین اور مصنفین سے ربط رکھنا اور ان کی خدمت لینا۔
مضامین اور موضوعات
کون سے موضوعات اہم ہیں؟ اور کون سے ضروری ہیں؟ اس کا انتخاب کرنے میں تحریکی حلقوں میں عمومی گفتگو کا رواج تو ہے لیکن اختصاص کا رواج ابھی عام نہیں ہوسکا ہے۔ لیکن حال کے برسوں میں اس سلسلے میں یہ جلدبازی دیکھنے میں آئی ہے کہ بعض افراد سے جیسے تیسے اہم موضوعات پر کتابچے تیار کراکر انھیں عام کیا جارہا ہے۔ ان کتابچوں کے مطالعے سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ یہ کتابچے ایک مستقل تفکر کے نتیجے میں نہیں بلکہ ایک فوری ضرورت پوری کرنے کے لیے جلدبازی میں کی گئی تدوین کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں۔ جن افراد نے یہ کتابچے لکھے وہ ان موضوعات کے نہ پہلے کبھی ماہر رہے اور نہ کتابچہ تیار کرنے کے بعد وہ ان موضوعات پر کوئی کام کر رہے ہیں۔ یہ ایڈہاک اور ویکی پیڈیا سٹائل کو تحریکوں میں عام نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر ان کی ضرورت ہو تو ان کا تعارف اسی حیثیت سے ہی کرایا جاتا رہے۔ یقیناً ان کتابچوں کو ماہرین کے ریویو سے نہیں گزارا گیا۔ جیسا کہ عرض کیا گیا کہ لٹریچر کی تیاری کا عمل ایک مسلسل فکری عمل کا طالب ہے۔ اور اس عمل میں مستقل طور پر کام کرنے والے ماہرین کا بنے رہنا ضروری ہے۔ اس لیے ذیل کی گفتگو میں یہ بات واضح کرنے کی کوشش کی جائے گی کہ تحریکوں کا فکری عمل اپنے موضوعات اور مضامین کا انتخاب کیسے کرتا ہے؟ مثال کے طور پر ہندوستان میں اسلامی تحریک ایک بہتر معاشرے کے قیام کی کوشش کرنا چاہتی ہے تو اس طرح سے اگر ان کے درمیان تفکر کا مستقل عمل جاری ہوتا تو کس طرح کے موضوعات پر کام ہوتا؟
ہندوستانی معاشرے میں انسانوں کے درمیان امتیاز اور ان امتیازات کا سیاسی استحصال کرنے والے کئی محرکات ہیں۔ قوم پرستی کا سنگھ پریوار کا تصور، ورن ویوستھا، ہندی زبان کا دبدبہ، بڑھتی مرکزیت، پرائیویٹ سیکٹر کی بڑھتی طاقت، خواتین کا استحصال، شہری اور دیہاتی علاقوں میں ترقی کے فاصلے، اور امیر و غریب کے درمیان فرق۔ ان سبھی فالٹ لائنز کا انتخابی سیاست میں مفید اور غیر مفید ہونے کا پہلو شامل ہے۔ اور سیاسی نظریہ سازی، ایجنڈا سازی، نعرہ بازی اور میڈیا بازی انھی کے سہارے کی جاتی ہے۔ مذہب اسلام اور مسلمانوں کے مسائل ہندوستان کے سبھی مسائل میں کوئی بہت ہی جداگانہ حیثیت کے حامل نہیں ہیں بلکہ وہ انھی مسائل سے راست طور پر متعلق ہیں، کبھی ان کو اچھی نگاہ سے دیکھ لیا جاتا ہے اور کبھی خراب۔ غالبا تحریکی مفکرین کی بیشتر تحریروں اور تقریروں سے آپ کو لگے گا کہ شاید اسلام اور مسلمانوں کے سلسلے میں ہونے والی گفتگو مذکورہ بالا انتخابی سیاست کے محرکات سے جدا اور لا تعلق ہے۔ اور شایدیہی وجہ ہے کہ دعوتی، اصلاحی اور سماجی تحریروں اور گفتگو میں ہندوستان کے مسائل کا کانٹیکٹس بمشکل ہی نظر آتا ہے۔
‌لٹریچر کی تیاری میں دوسرا رہ نما اصول یہ ہےکہ آپ کو یہ معلوم ہو کہ آپ اس معاشرے کو کیسا دیکھنا چاہتے ہیں؟ آپ اس معاشرے کو کیا دینا چاہتے ہیں؟ آپ اس معاشرے کے مسائل کو حل کرنے کا کوئی نہ کوئی واضح خیال رکھتے ہیں۔ جو تحریک دنیا کو نئی سمت دینے کا خواب رکھتی ہے تو وہ دنیا کو اس خواب پر یقین کرنے کی وجہ بھی بتاتی ہے۔ اور اپنے خواب کو حاصل کرنے کے راستے بھی سجھاتی ہے۔ اس کے موضوعات کا تعین بھی ایسے ہی ہوتا ہے۔ ایسا نا ممکن ہے کہ دنیا میں ایک معاشی نظام کی یا نئی ٹکنالوجی کے غلبہ کی بحث ہو رہی ہو اور تحریکی مفکرین اس بحث میں سامعین کی صف میں بھی نظر نہ آئیں۔ دنیا میں کسی ناول یا فلم نے غیر معمولی سیاسی یا سماجی بحث برپا کر رکھی ہو اور تحریکی مفکرین کو ان مباحث سے کوئی دل چسپی ہی نہ ظاہر ہو، ممکن نہیں ہے! تحریکوں کے سامنے یہ متبادل ہی نہیں ہوتا کہ وہ افکار کی دنیا میں بیک سیٹ پر ہوں یا غائب ہوں۔ ہمہ گیر تبدیلی کا عزم رکھنے والی کسی تحریک کے لیے معاشرے اور سیاست پر تنقیدی نظر رکھنا کوئی تقریب یا ایوینٹ نہیں ہے بلکہ ایک مستقل ضرورت ہے۔ اور اسی لیے مسائل حیات میں تحریکی فکر سے تنقید کرنے والے نظر نہ آئیں تو حیرت کا مقام ہے۔ سوشل میڈیا سے تحریک غائب ہے۔ پبلشنگ دنیا میں ان کی موجودگی ناقابل محسوس ہے۔ سیمینار اور علمی کانفرنسوں میں ان کی گفتگو اور ان کے مفکرین غائب ہیں، لٹریچر کی تیاری کا شعبہ قائم کرنے سے بہت پہلے لٹریچر تیار کرنے کے نظریہ اور خیال سے آراستہ ہونا لازمی ہے۔ ورنہ لٹریچر بھی ایڈہاک جیسا برآمد ہوگا۔
‌‌اب اگر آپ نے لٹریچر تیار کرنے کی ضرورت پر یقین کر لیا ہے تو اس کی تیاری کے بنیادی فرائض سے بھی واقف ہوناچاہیے!
دنیا کا کوئی انسان اور کوئی خیال علمی تنقید سے بالاتر نہیں ہے۔ سب سے پہلے اس کلچر کو عام کیا جائے کہ لوگ اپنے خیالات اور تحریروں اور بلکہ تقریروں کو بھی ماہرین کی نظر سے گذارنے کا اہتمام کریں۔ لیکن لٹریچر کی تیاری کا شعبہ اگر آپ نے قائم کیا ہے تو یہ فرض عین ہے کہ پروفیسرز اور سائنٹیفک منہج سے شائع ہونے جرنلز میں شائع ہو چکے اساتذہ آپ کے ادارتی پینل کا حصہ ہوں۔ جتنی سخت ادارتی تحقیق اور تنقیح ہوگی افکار اتنے ہی زیادہ قابل قبول شکل میں سامنے آئیں گے۔
یہ ٹھیک ہے کہ تحریکیں اشاعت کے معاملے میں تجارتی اشاعتی اداروں کی طرح کام نہیں کر سکتیں لیکن یہ اصول ضرور قائم کیا جا سکتا ہے کہ لکھنے والا شخص اپنی علمی صلاحیت اور بیک گراؤنڈ میں اپنے موضوع کا ماہر قبول کیا جا سکے۔
نئے لکھنے والوں کا استقبال کیا جائے۔ لکھنے کی خواہش رکھنے والے کسی بھی فرد کے لیے آپ کے دروازہ ہمیشہ کھلے ہوں۔ بار بار اس وسعت قلبی کا باقاعدہ اعلان کیا جائے کہ آپ کے ادارے ہر قسم کے افراد اور افکار پر کتابیں لکھنے والوں کا استقبال کرتے ہیں۔ پروپوزل جمع کرنے کا حق ہر شخص کو ہو۔ اور ادارتی عملہ یہ طے کرے کہ وہ پروپوزل قابل غور ہے یا نہیں!
تحریکی نقطۂ نظر اور تحریک کے نزدیک اہم موضوعات کا اعلان کیا جاتا رہے اور لکھنے والوں سے ان کی تحریروں کی گزارش کی جاتی رہے۔ بلکہ اچھے پروپوزل مالی امداد اور انعامات کے بھی مستحق ہوں۔ مستقل فیلوشپ کے ذریعے بہترین پروپوزل کا مقابلہ ہمیشہ اوپن رہے۔
اس شعبہ کا سب سے اہم فریضہ یہ ہو کہ مسلم معاشرے کا اور مخلص برادران وطن کا کوئی بھی صاحب علم، محقق اور ناقد اس کے تعارف سے باہر نہ ہو۔ مختلف مواقع بنائے جائیں جہاں ان کی علمی کاوشیں پیش کرنے کے لیے بلائی جاتی رہیں۔ ممکن ہے پچاس مقالات میں سےصرف پانچ مقالات ہی مفید ثابت ہوں لیکن پانچ اچھے مقالات کی تلاش کے لیے یہ کوئی نقصان کا سودا نہیں ہے۔
خلاصہ کلام
اس تحریر سے حسب ذیل امور پر توجہ دلانا مقصود ہے اور اگر تفصیلی بحث میں یہ مشاہدات کہیں دب گئے ہوں تو دوبارہ پیش خدمت ہیں۔
لٹریچر کی تیاری کوئی مصنوعی، وقتی یا ایڈ ہاک کوششوں کا کام نہیں ہے۔ یہ ایک مستقل فکری عمل میں مشغول رہنے کا کام ہے اور اس کام میں مشغول ہونے والے افراد کی حوصلہ افزائی، ان کو ہر ممکنہ سپورٹ اور "الحکمۃ ضالۃ المومن” کے اصول پر فکری عمل میں مشغول رہنے والا شخص جہاں بھی ہو جیسے بھی ہو جس فرقہ اور فکر میں ہو اسے فکر اسلامی کے وسیع ترین انقلابی فکر میں کہیں نہ کہیں جگہ ملنا چاہیے۔ فکری عمل میں خود کو مشغول رکھنے والے افراد کو کسی بھی طرح سے نظر انداز نہیں رکھا جا سکتا ہےخواہ وہ تحریک کے اندر ہوں یا باہر۔
فکری اور تحقیقی عمل ایک مسلسل ترقی پذیر اور تغیر پذیر عمل ہے اسکو کسی بھی دور کے سوالوں اور اصول تحقیق میں محدود نہیں رکھا جا سکتا ہے۔ نئے تحقیقی منہج اور وسائل خواہ کتنے بھی ناپسند اور بظاہر غلط نظر آرہے ہوں ان کوبغیر مضبوط دلیلوں کے محض چندتقریروں سےمستردنہیں کیا جاسکتا۔ تحریک میں فکری عمل میں مصروف رہنے والے افرادکا جدیدترین طرز استدلال سے صرف واقف ہونا کافی نہیں بلکہ اس طرز استدلال کی اصلاح اور اگر وہ بہتر ہے تو اسے اختیار کرنے والا بھی ہونا چاہیے۔ یہ ناقابل قبول ہے کہ باطل نظریات استدلال کی قوت پر غالب رہیں اور اسلامی فکر زمان اور مکان کی قیامت خیز تبدیلیوں کا اعتراف ہی نہ کرے۔
فکری عمل میں خود کو وقف کرنے والے تحریکی افراد کے لیے صرف خود کو وقف کرنا ہی کافی نہیں ہے بلکہ جدید ترین فکری مکالمات اور ان کے منہج استدلال سے ان کا واقف رہنا اور اس منہج سے آنے والے دعووں کا جواب دینا بھی ضروری ہے۔ لہٰذا تحریک کے فکری عمل میں خدمت کرنے والے افراد کا ہر ممکنہ ٹریننگ اور صلاحیتوں سے لیس ہونا بنیادی ضرورت ہے۔ یہ محض ایک مزاح ہوگا کہ کسی یونیورسٹی کے پروفیسر کی بین الاقوامی سطح پر معترف گفتگو کو کوئی تحریکی مقرر محض دو دن کے سرسری مطالعے سے رد کردینے کا دعوا کردے۔
تحقیق اور تصنیف اب محض ذاتی شغف سے ممکن نہیں ہے اس کے لیے ادارہ جاتی عمل کی ضرورت ہے۔ محقق کی تحقیق کو اس کے پروپوزل سے اشاعت کے مرحلے تک اس سپورٹ سسٹم کا قائم کرنا فرض ہے جس کے ذریعے تحقیق کے درست ہونے اور اس کی کوالٹی کو دنیا بھر میں قابل اعتبار سمجھا جا سکے۔ اگرچہ پرانے زمانے میں اعتبار اور ثقاہت محض بڑے بزرگوں سے مقدمات لکھوا کر حاصل کر لیے جاتے تھے لیکن خود اسلامی نقطۂ نظر سے کسی تحقیق کی ثقاہت محض ایک بزرگ کے مقدمے پر طے نہیں کی جا سکتی۔
اسلامی تہذیب کا ارتقا کسی ایک وقت اور کسی ایک مقام کی ضرورت نہیں ہے بلکہ ہر زمان اور ہر مکان کی الگ الگ اور مسلسل ضرورت ہے۔ یہ فکری عمل اسلامی تہذیب کا اور اسلامی زندگی کا اور اسلامی تحریک کا کبھی نہ ختم ہونے والا عمل ہے۔ اس کام کو حالت عروج میں بھی کرتے رہنا اتنا ہی ضروری ہے جتنا حالت زوال میں۔ اس کام کے لیے معاشرے میں لازمی ماحول کا استوار کرنا مسلمانوں کی اجتماعی ذمہ داری ہے اور تحریکوں کی اور ریاستوں کی خصوصی ذمہ داری ہے۔ اس عمل کو کرنے والے اپنے تمام اختلافات کے باوجود، اپنی تمام کمیوں کے باوجود اور اپنی تمام ناکامیوں اور غلط تحقیقات کے باوجود احترام اور سپورٹ کے حق دار رہتے ہیں۔■