تبلیغی جماعت کے ممبر نے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ روابط کے الزامات لگانے پر Times Nowکو قانونی نوٹس بھیجا

بنگلور، 6 اپریل:- اسلامی تنظیم تبلیغی جماعت کے ایک رکن نے بینیٹ کولیمن اینڈ کمپنی لمیٹڈ، اس کے منیجنگ ڈائرکٹر ونیت جین اور دیگر کو ایک "انتہائی بدنامی اور اشتعال انگیز” مضمون شائع کرنے پر قانونی نوٹس بھجوایا ہے، جس میں یہ الزام لگایا گیا ہے کہ جماعت کے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ رابطے ہیں۔ پرائم لاء ایسوسی ایٹس کے ذریعہ بھیجے گئے قانونی نوٹس میں تبلیغی جماعت کے رکن حفیظ اللہ خان نے اس مضمون کی وجہ سے ان کو پہنچنے والی ذہنی اذیت کے لیے ایک کروڑ روپیے کی رقم طلب کی ہے۔ اس مضمون کو ٹائمس ناؤ نے یکم اپریل کو شائع کیا تھا۔

قانونی نوٹس میں کہا گیا ہے کہ تبلیغی جماعت دنیا کی ایک سب سے بڑی اسلامی تحریک ہے، جو مسلم برادری کے ساتھ اسلام کے بنیادی اصولوں اور پیغمبرانہ روایات کے بارے میں آگاہی بڑھانے کے لیے کام کرتی ہے کہ تاکہ مسلمانوں کو اس قابل بنائے کہ وہ ممالک جن میں وہ رہتے ہیں، وہاں وہ ایماندار اور ذمہ دار شہریوں کی طرح زندگی گزار سکیں۔

اس بات پر زور دیتے ہوئے کہ اس کے سارے پروگرام منظم اور خوشگوار ماحول میں متعلقہ حکام کی مناسب اجازت کے ساتھ چلائے جاتے ہیں، بیان کیا گیا ہے ’’تنظیم نے ہمیشہ حکام کے ساتھ تعاون کیا ہے اور 100 سالوں سے زیادہ عرصے میں اس نے کوئی بھی غیر قانونی کام نہیں کیا ہے۔ اس کے تمام ارکان قانون کی پاسداری کرنے والے شہری ہیں اور جماعت نے کبھی بھی کسی قانون توڑنے والے شخص کی نہ تو حوصلہ افزائی کی ہے اور نہ ہی اس کی حمایت کی ہے۔‘‘

نوٹس میں کہا گیا ہے کہ ٹائمز ناؤ کے آرٹیکل میں شامل الزامات کہ جماعت اسلامی کی پاکستان

میں مقیم حرکت المجاہدین (ایچ ایم) جیسی تنظیموں سے وابستگی کی ایک طویل تاریخ ہے، "بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی ہیں”۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’یہ ایک بے بنیاد اور مکروہ الزام ہے کیونکہ تبلیغی جماعت دہشت گردانہ کارروائیوں سے متعلق کسی بھی تفتیش کا موضوع نہیں رہی ہے۔ یہ ایک بار پھر تبلیغی جماعت کو ایچ ایم سے منسلک کرنے کی بدنیتی پر مبنی کوشش ہے .. تبلیغی جماعت کا کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ تنظیم کے ذریعے پوری دنیا میں دہشت گردی کی تمام کارروائیوں کی سخت الفاظ میں مذمت کی جاتی ہے۔‘‘

اس دعوے کے جواب میں کہ جماعت کے ممبروں کو بلیک لسٹ کیا گیا تھا اور اس کے مبلغین کو ویزا دینے سے انکار کردیا گیا تھا، کہا ’’… مذکورہ دعوے تبلیغی جماعت کو مزید بدنام کرنے اور تبلیغی جماعت کے تمام ممبروں کے ساتھ نفرت اور دشمنی کو فروغ دینے کے لیے ہیں اور ہمارے مؤکل کو بے حد خطرہ میں ڈال رہے ہیں۔‘‘