تبلیغی جماعت: کانفرنس میں شرکت کرنے والے غیر ملکیوں کو اپنے گھرمیں رکھنا جرم کیوں؟ دہلی ہائی کورٹ نے پولیس سے پوچھا

نئی دہلی، نومبر 13: لائیو لاء کی خبر کے مطابق دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو ان ہندوستانیوں کے خلاف پہلی معلوماتی رپورٹس درج کرنے پر پولیس کی کھنچائی کی جنھوں نے گذشتہ سال مارچ میں شہر میں تبلیغی جماعت کی کانفرنس میں شرکت کرنے والے غیر ملکیوں کو پناہ دی تھی۔

یہ مذہبی کانفرنس 9 اور 10 مارچ کو دہلی کے نظام الدین علاقے میں ہوئی تھی۔ 25 مارچ کو ہندوستان میں کورونا وائرس پھیلنے سے نمٹنے کے لیے ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا تھا۔

تبلیغی جماعت کے اجتماع کو لاک ڈاؤن کے ابتدائی ہفتوں میں ملک بھر میں ہزاروں کورونا وائرس کے انفیکشن کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تھا۔ اس تقریب نے مسلمانوں کے خلاف اشتعال انگیزی کو جنم دیا تھا اور ان کے کاروباری بائیکاٹ اور ان کے خلاف نفرت انگیز تقاریر کی لہر شروع ہوئی۔

دہلی ہائی کورٹ غیر ملکیوں کی میزبانی کرنے والوں کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی، جس میں ان کے خلاف درج ایف آئی آر کو منسوخ کرنے کی مانگ کی گئی تھی۔

ہندوستان ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق سماعت کے موقع پر جسٹس مکتا گپتا نے نوٹ کیا کہ جو غیر ملکی تقریب کے لیے ہندوستان آئے تھے وہ گھروں اور مساجد میں ہی رہے اور جب لاک ڈاؤن نافذ ہوا تو وہ کہیں اور نہیں جاسکتے تھے۔

جج نے کہا ’’جہاں بھی کوئی رہ رہا تھا، اس شخص کو وہیں رکھنے کی ضرورت تھی۔ کوئی شخص شفٹ بھی نہیں ہو سکتا اگر وہ اپنے دادا دادی، والدین کے ساتھ ہو۔ کوئی گھر سے باہر نہیں نکل سکتا تھا۔ وہ جہاں بھی تھے، بس اچانک ساکت ہو گئے۔ اس لیے اس وقت جگہ بدلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‘‘

جج نے پولیس سے پوچھا کہ آخر ان میزبانوں نے کیا جرم کیا ہے؟

گپتا نے مزید کہا ’’کیا مدھیہ پردیش کے باشندوں پر دہلی میں کسی مسجد، مندر یا گرودوارہ میں رہنے پر کوئی پابندی ہے؟ وہ جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں۔ کیا کوئی ایسا نوٹس تھا کہ ہر کوئی اس کو نکال دے گا جو ان کے ساتھ رہ رہا تھا؟‘‘

پی ٹی آئی کی خبر کے مطابق کیس میں درخواست گزاروں نے عدالت کو بتایا کہ ایف آئی آر میں ان پر بیماری پھیلانے کا غلط الزام لگایا گیا ہے۔ لائیو لاء کے مطابق انھوں نے دعوی کیا کہ ان کے خلاف الزامات ’’غیرضروری، من گھڑت اور قانوناً ناقابل قبول‘‘ ہیں۔

دہلی ہائی کورٹ نے پولیس کو اس معاملے پر تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کے لیے کہا اور سماعت کی اگلی تاریخ 6 دسمبر مقرر کی۔

معلوم ہو کی ان لوگوں کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے گئے تھے جنھوں نے جماعت میں شرکت کی تھی۔ لیکن عدالتوں نے زیادہ تر ایف آئی آرز کو رد کر دیا اور ممبران کو بری کر دیا۔