بین مذہبی شادیاں، سیلیبریٹیز کا دام فریب

’لوجہاد‘ کا ہوّا اور گھر واپسی کا دھوکا ۔۔ مسئلہ کا حل کیا ہے؟

ابو نقیب

سمیر وانکھیڈے آج کل شاہ رخ خان کے بیٹے آرین خان کو ڈرگس معاملے میں گرفتار کرنے کی وجہ سے میڈیا میں چھائے ہوئےہیں ۔اب یہ سارا معاملہ سیاسی رنگ بھی اختیار کر گیا ہے ۔اسی دوران ایک سنسنی خیز خبر سامنے آئی ہے کہ سمیر وانکھیڈے نے ایک مسلمان لڑکی سے شادی کی تھی جس کے لیے انہوں نے باقاعدہ اپنا مذہب اور نام بھی تبدیل کیا تھا ۔وہ پہلے مسلمان ہوئے اور اس کے بعد شبانہ قریشی سے شادی کی جو بعد میں طلاق کی صورت میں ختم ہوئی ۔اس خبر کے آتے ہی بین مذہبی شادی اور دھرم پریورتن کا مسئلہ دوبارہ گرم ہوگیا ۔
بین مذہبی شادی کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے ۔یہ صدیوں سے جاری ہے ۔ملک کے قانون میں بھی اس کی اجازت ہے ۔ہمارے ملک کا دستور ہر انسان کے بنیادی حقوق کی ضمانت دیتا ہے جس میں خاص طور پر مذہب کو اختیار کرنے اور بالغ ہونے کے بعد اپنی مرضی سے اپنے یا کسی اور مذہب کے ماننے والے سے شادی کرنے کی اجازت ہے ۔
لیکن ہمارے ملک کی عوام کی رائے بین مذہبی شادی کے حق میں نہیں ہے ۔پیو ریسرچ فاونڈیشن کے سروے کے مطابق بھارت میں جب یہ سوال کیا گیا کہ بین مذہبی شادی کو قبول کیا جائے یا نہیں تو تقریباً 80 فیصد لوگوں نے بین مذہبی شادی کے خلاف رائے دی ۔ان کا ماننا ہے کہ مذہب ان کے پاس سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے ۔لوگوں کی رائے اگر معلوم کی جائے تو واضح ہوتا ہے کہ بین مذہبی شادیاں ، شادی شدہ زندگی کے لیے غیر مناسب ہے ۔بھارت ایک ایسا ملک ہے جو ذات پات کے بندھنوں میں ابھی بھی جکڑا ہوا ہے ۔اپنے آپ کو اعلیٰ ذات کے کہنے والے آج بھی نچلی ذات کی لڑکی کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے ہیں ۔جو کوئی اس طرح کی شادی کرتا ہے اسے سماجی بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔بین مذہبی شادی محبت سے مغلوب ہوکر کیا ہوا ایک جذباتی فیصلہ ہوتاہے لیکن یہ رشتہ بعد میں کئی مسائل سے گھر جاتا ہے ۔سب سے بڑا مسئلہ خاندان کی طرف سے قبولیت کا ہے ۔اس کے بعد برادری اور سماج کی مخالفت بھی جھیلنی پڑتی ہے ۔اکثر اوقات برادری اور خاندان کی دشمنی ایک دوسرے کے خاندانوں پر ظلم و تشدد پر ختم ہوتی ہے ۔انسان کے لیے خاندان اور برادری کا تعاون ایک فطری ضرورت ہے ۔ ایک دوسرے کا کلچر ،رہن سہن کا فرق بھی اہمیت رکھتا ہے ۔اس کے راست اثرات بچوں کی پرورش پر ہوتے ہیں ۔اس طرح بین مذہبی شادی ایک غیر فطری طریقہ ہے ۔عوام میں بھی اس تعلق سے مثبت خیال ناپید ہے ۔
اس مسئلہ کو صرف ہمارے ملک کے سلیبریٹیز زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔سیلیبریٹیز کی زندگی سماج اور برادریوں کی ضرورت سے آزاد ہوتی ہے جبکہ عام آدمی کے لیے یہ ناممکن ہے ۔خیالی اوررنگین دنیا کے یہ ہیروز ہماری حقیقی دنیا کے ہیروز نہیں ہوسکتے ہیں ۔بین مذہبی شادی ان کے نزدیک ایک فیشن ہے ۔بہت سی ایسی شادیاں ہیں جس میں ہیروئنوں نے ہیروز کے مذہب کو اپنا لیا ہے۔ بعض صورتوں میں ہیروز نے ہیروئنوں کا مذہب قبول کرلیا ہے اور بعض اس بات پر راضی ہوگئے کہ دونوں اپنے مذہب کو مانتے رہیں گے ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ سیلیبریٹیز کی زندگیاں کامیاب بین مذہبی شادیوں کی مثالوں سے خالی ہیں ۔
ہم جس دور میں زندگی گزار رہے ہیں اس میں انسان کے لیے مذہب اور نظریہ کو کوئی اہمیت نہیں دی جارہی ہے ۔ لیکن شادی صرف دو جسموں کے تعلق کا نام نہیں ہے بلکہ دو روحوں اور ان کےعقائد کے ملن کا نام ہے ۔اس طرح بین مذہبی شادیاں محض جسمانی خواہش کی تکمیل کی حد پر آکر رک جاتی ہیں ۔
بین مذہبی شادیوں میں اب ایک نیا رنگ آگیا ہے ۔ملک کے فرقہ پرست عناصر اس کو ’لو جہاد‘ کا نام دے کر ملک میں نفرت کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں ۔پچھلے کچھ سالوں میں غیر مسلم لڑکیاں اسلام سے متاثر ہوکر یا کسی مسلم نوجوان کی محبت میں گرفتار ہوکر شادیاں کرنے لگی ہیں ۔لیکن اس کی تعداد کتنی ہے اس کے بارے میں صحیح اعداد وشمار ملنا مشکل یے ۔میڈیا جب چاہے اور جتنا چاہے اس کی شدت کو نمایاں کرتا ہے ۔
اس کے علاوہ یہ خبریں بھی گرم ہیں کہ ’لو جہاد‘ کی مخالفت کے نام پر اب غیر مسلم لڑکے مسلم لڑکیوں کو نشانہ بنارہے ہیں ۔ ان کو اسلام چھوڑنے اور ہندو مذہب قبول کرتے ہوئے غیر مسلم لڑکوں سے شادی کے لیے تیار کیا جارہا ہے ۔اس کے لیے غیر مسلم لڑکوں کو ترغیب اور انعامات بھی دیے جارہے ہیں ۔ہماری مجلسوں میں اور خصوصیت سے نکاح کی مجلسوں میں خطیب حضرات اس مسئلہ کو بڑی گرمجوشی کے ساتھ پیش کر رہے ہیں ۔ لیکن ہمارے ہی بُنے ہوئے خرچیلی شادیوں کے جال کو توڑنے میں یہ واعظین ناکام نظر آتے ہیں ۔
حقیقت میں کسی کے پاس لڑکیوں کے ارتداد کے اعداد وشمار نہیں ہیں ۔لیکن اس مسئلہ کی شدت سے کسی بھی طرح صرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ مسئلہ دو طرفہ ہے، ایک طرف بے راہ روی کے شکار مسلم لڑکے حدود پھلانگ رہے ہیں اور دوسری طرف گھر واپسی کے نام پر مسلم لڑکیاں فریب کا شکار ہورہی ہیں ۔ان سب کے لیے تحریک سلور اسکرین کی کہانیاں اور اس کے نام نہاد کرداروں کی نجی زندگیاں نمونہ ہیں ۔
مسئلہ کہاں ہے اور کیا کرنا ہے ؟
اس مسئلہ کے کچھ اہم پہلو ہیں ۔ شاہ رخ خاں ، عامر خان،سیف علی خان ، شاہنواز حسین ، مختار عباس نقوی اور کھیلوں کی دنیا سے اظہر الدین اور ظہیر خان کی بین مذہبی شادیوں کو لبرل اسلام کی صورت میں دیکھا جاتا ہے اوران لوگوں کو لبرل اسلام کے نمائندہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جو ہمارے ملک میں آزاد خیال لوگوں کو مسلمانوں سے عین مطلوب ہے ۔
دوسری طرف ہمارے نوجوان ان نام نہاد ہیروز کے دام فریب میں گرفتار ہوکرحدود اللہ کو توڑ رہے ہیں ۔ ان کے نزدیک شادی کی غرض سے کسی لڑکی کو اسلام کی طرف راغب کرنا نیکی کا کام بن جائے گا ۔
اسکرین اور انٹرنیٹ کی دنیا نے مسلم لڑکیوں میں بھی آزادی سے جینے کے تصور کو پروان چڑھایا ہے ۔اس میں تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ دونوں شامل ہیں ۔اسی آزادی فکر نے ارتداد کی راہوں کو آسان کردیا ہے اور دشمن عناصر تو اس کی تاک میں بیٹھے ہی ہیں ۔
سب سے پہلے سیلیبریٹیز کی زندگیوں سے دور حقیقی زندگی سے نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کو متعارف کروانا پڑے گا ۔اسلام کی تعلیمات اور اس کےطے شدہ حدود سے واقف کروانا ہوگا ۔ہمارے خاندانی نظام کی بنیادیں بری طرح برباد ہورہی ہیں، ان کی حفاظت بہت ضروری ہے ۔ہم نے نظام شادی کو اس درجہ پیچیدہ اور مشکل بنا دیا ہے کہ وہاں سے کسی لڑکی کا ارتداد کی طرف بھاگنا غیر ممکن محسوس نہیں ہوتا ۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر اس ملک کے تمام انسانوں کے سامنے پر زور طریقے سے یہ بات رکھنی پڑے گی کہ اسلام میں شادی کوئی کھیل تماشا نہیں ہے کہ کوئی بھی محبت کی شادی، دوسری شادی اور بین مذہبی شادی کے لیے اسلام کا ناجائز استعمال اور اس کے تقدس کو پامال کرنے لگے۔ لوگوں کو یہ بتانا پڑے گا کہ جو کوئی شادی کی غرض سے مسلمان ہوا وہ صرف شادی کے لیے ہوا ۔اسلام سے اسے کوئی واسطہ نہیں ۔اگر کوئی اسلام قبول کرنا چاہتا ہے تو اسے پورے کا پورا اسلام میں داخل ہونا ہوگا ورنہ دنیا و آخرت کی تباہی اس کا مقدر بنے گی ۔یہ بھی بتانا پڑے گا کہ اسلام میں خاندانی نظام اور شادی کا نظام کتنا فطری اور پاکیزہ ہے ۔
دنیا کو یہ سمجھ میں آجانا چاہیے کہ سمیر وانکھیڑے ہوں یا شارخ خان و عامر خان کوئی بھی اس مقدس نظام کو بدنام کرنے کا سبب نہیں بن سکتا۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  7 نومبر تا 13 نومبر 2021