بھارتی مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلانے میں فیس بک کا رول

متعدد انکشافات کے باوجود کمپنی کا روک تھام سے گریز۔حکامِ مجاز حرکت میں آئیں۔ انڈین امریکن مسلم کونسل کی اپیل

واشنگٹن ڈی سی:انڈین امریکن مسلم کونسل (آئی اے ایم سی) نے فیس بک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ہندوستان میں نفرت کی وبا کے خلاف فوری اقدام کرے جو ماضی میں براہ راست تشدد کا سبب بن چکی ہے اور اگر اسے یوں ہی بے لگام چھوڑدیا جائے تو اس کے ہلاکت خیز نتائج کا سسلسلہ جاری رہے گا۔ فیس بک کی سابق پروڈیوس مینیجر فرانسس ہیگن نے نفرت انگیز تقریر روکنے میں کمپنی کی ناکامی کو بے نقاب کیا ہے جو کئی ممالک بشمول بھارت میں خطرہ کی زد میں موجود آبادیوں کے خلاف سماجی تفریق اور تشدد کا سبب بنی ہے۔ فیس بک گروپوں اور واٹس ایپ چاٹس کے اندر فیک نیوز، نفرت پھیلانے والا پروپیگنڈا، ہجومی تشدد کے ویڈیوز اور نفرت انگیز مواد سے بھرا پڑا ہے جو کسی روک ٹوک کے بغیر آزادی سے گشت کرتا رہتا ہے۔ بھارت فیس بُک کی سب سے بڑی مارکٹ ہے جہاں 34کروڑ فعال صارفین ہیں لیکن پھر بھی کمپنی بھارت میں نفرت انگیز تقریروں اور گمراہ کن خبروں پر نگرانی کے لیے قلیل وقت اور وسائل ہی مختص کرتی ہے۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ اس طرح کا مواد بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے لیے حقیقت میں ضرر رساں ثابت ہورہا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ دی ہے کہ دسمبر 2019 کے بعد کے مہینوں کے دوران جب مذہبی مظاہرے عروج پر تھے فیس بک پر اشتعال انگیز مواد میں سابقہ سطحوں سے 300 فیصد کا اضافہ ہوا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل کی جائزہ رپورٹ کے مطابق مسلم مخالف نفرت انگیزی کا حجم 2020کے ’’دلی پروگرام‘‘ میں اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ وال اسٹریٹ جرنل نے لکھا کہ تشدد کے لیے افواہیں اور اپیلیں بڑے پیمانے پر پھیلائی گئیں جو جھڑپوں کا سبب بنیں جس میں 53افراد ہلاک ہوگئے ۔ نشانہ بننے والوں میں زیادہ تر مسلمان تھے جنہیں ہندووں کے گروپوں نے مارا پیٹا اور لنچنگ کی۔ ہیگن کے مطابق بھارتی فیس بُک، مسلمانوں کا خنزیروں اور کتوں سے تقابل کرتے ہوئے غیر انسانی پوسٹس کا ذریعہ بنا ہے اور گمراہ کن معلومات کے ذریعہ دعویٰ کیا جارہا ہے کہ قرآن مسلمانوں کو ان کے خاندان کی خواتین کی عصمت ریزی پرابھارتا ہے نیز ’’ہندو خطرے میں ہیں‘‘ جیسی افواہیں بہت عام ہیں۔ اسی طرح مسلمانوں کو کووڈ-۱۹ پھیلانے کا ذمہ دار قرار دیتے ہوئے گمراہ کن دعوے کیے گئے اور یہ الزام بھی عاید کیا گیا کہ مسلمان، ہندو خواتین کو رجھانے اور انہیں اسلام قبول کروانے کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔ اس تاثر کو بھی پھیلایا جارہا ہے کہ مسلمان عام طور پر قوم دشمن ہوتے ہیں جو تمام ہندووں سے نفرت رکھتے ہیں۔ آئی اے ایم سی کے اگزیکٹیو ایڈیٹر رشید احمد نے کہا کہ فیس بک اس بات کے زبردست شواہد ہونے کے باوجود کہ اس کا پلیٹ فارم تشدد و نسل کشی میں سہولت کار بن رہا ہے، اپنا فرض ادا کرنے میں لاپروائی برت رہا ہے جو ان سب کے لیے خطرہ کی گھنٹی ہے جو انسانی حقوق اور جمہوریت کی فکر رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا چونکہ متعدد انکشافات کے باوجود فیس بک خود کو پاک صاف کرنے میں ناکام ہوگیا ہے اس لیے نگران کار ادارو ں کے لیے یہ وقت ہے کہ وہ حرکت میں آئیں۔ ہیومن رائٹس واچ کے ڈائرکٹر برائے ایشیا جان سفٹان لکھتے ہیں: ’’بھارت میں تفرقہ پرداز سیاسی عمل اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف تشدد کو ایک معمول بنانے کا باعث ہے۔ حکومت کے اندر رچی بسی عداوتیں آزاد اداروں، جیسے پولیس میں دَر آئی ہیں جو قوم پرست گروپوں کو رعایت کے ساتھ مذہبی اقلیتوں کو ڈرانے دھمکانے، ہراساں کرنے اور حملہ کرنے کی چھوٹ دے رہے ہیں۔ وضح رہے کہ انڈین امریکن مسلم کونسل امریکہ اور بھارت میں انڈیا کی تکثریت اور تمام عقائد کے لوگوں کی مذہبی آزادی کے لیے کام کرنے والی ایک تنظیم ہے جس کا مقصد انسانی حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  7 نومبر تا 13 نومبر 2021