بڑھتے ہوئے مالیاتی خسارہ پر کنٹرول ضروری

پکوان گیس کی قیمت میں اضافہ کا رسوئی کے بجٹ پر اثر

پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا

 

آن لائن تعلیم کا خرچ آدھی سے زائد آبادی کے لیے ناقابل برداشت
کورونا قہر کی پہلی اور دوسری لہر نے معیشت کو پٹری سے اتار کر پورے ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ سماج کے ہر طبقہ خصوصاً غریب اور حاشیے پر پڑے مفلسوں کو اس کی مار زیادہ ہی جھیلنی پڑ رہی ہے۔ ایسے حالات میں مہنگائی کو بے لگام ہونے کے لیے چھوڑ دیا گیا تو معیشت کو تحریک دینا انتہائی مشکل ہے۔ بغیر منصوبے کے چند گھنٹوں کے اندر جلد بازی میں لگائے گئے سخت ترین لاک ڈاون کی وجہ سے صنعتوں کا چکا جام ہو گیا اور کاروباری سرگرمیاں تھم سی گئی تھیں مگر اچھے مانسون اور اچھی فصل سے بہت راحت ملی جس کے نتیجے میں اکتوبر تک مالی خسارہ کا اثر بہت حد تک محدود رہا تھا۔ عالمی سطح پر غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کے باوجود گھریلو بازار پر اس کا اثر کم رہا اور کسی حد تک تشفی بخش رہا۔ لیکن اس کے بعد مہنگائی کو پر لگ گئے۔ مہنگائی اور بے روزگاری میں بے تحاشہ اضافہ ایک کڑوی حقیقت ہے۔ اس میں کب اور کیسے کمی آئے گی کسی کو معلوم نہیں۔ تیل ،ڈیزل اور رسوئی گیس کی سلنڈر کی قیمتیں آسمان چھورہی ہیں۔ ابھی ملک میں پٹرول 99 روپے سے 110روپے فی لیٹر فروخت ہورہا ہے تو ڈیزل بھی اسی مناسبت سے 91 روپے سے 102 روپے فی لیٹر ہو گیا ہے۔ کیونکہ پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ جاریہ سال جنوری تا جون 52 بار ہو چکا ہے۔ رسوئی گیس تو تقریباً 900 روپے فی سلنڈر فروخت ہورہی ہے۔ متوسط طبقہ اور غریبوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ غربت وافلاس کے مارے اس ملک میں سرکار اور اپوزیشن دونوں غائب ہیں۔ ویسے مودی حکومت نے 2020-2014 کے درمیان پٹرول اور ڈیزل پر ٹیکس لگا کر 17.80 لاکھ کروڑ روپے کی زبردست کمائی کی تھی۔ لوگوں کو لوٹ کر حکومت نے خزانہ خوب بھرا تھا۔ کریڈٹ انفارمیشن کمیٹی (سی آئی سی) کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ملک کی چالیس کروڑ محنت کش آبادی میں تقریباً آدھے لوگ مقروض ہوگئے ہیں۔ اسی مدت میں پچیس کروڑ افراد خط افلاس سے نیچے آگئے۔ پٹرول اور ڈیزل نے اگر سنچری لگائی ہے تو خوردنی اشیا اور خوردنی تیلوں کی قیمتیں کیسے پیچھے رہ سکتی ہیں۔ سرسوں اور ریفائنڈ تیل کی قیمتیں بھی ڈبل سنچری کی راہ پر گامزن ہیں۔ عام لوگوں سے یہ سب اشیا دور ہو رہی ہیں۔ اس کی مار سے باورچی خانہ کا بجٹ کمزور ہو گیا ہے۔ بچوں کی فیس کی ادائیگی انتہائی مشکل ہو گئی ہے جس کی وجہ سے عوام کا بڑا طبقہ اسکولوں سے اپنے بچوں کو نکال چکا ہے۔ جو کچھ آن لائن پڑھائی ہو رہی تھی اس کے خرچ کا بوجھ بھی آدھی سے زیادہ آبادی کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا ہے جس سے شرح خواندگی میں بڑی کمی آرہی ہے۔ مانسون کی بہتری کی وجہ سے لوگوں نے راحت کی سانس لی تھی مگر ملک کے کئی حصوں میں زیادہ بارش اور کمزور مانسون کے اثر سے کاشت کاری اور خریف کی بوائی پر برا اثر پڑا ہے۔ اس لیے اب اسی رفتار سے مہنگائی کا سلسلہ جاری ہے۔ حکومت گزشتہ سال سے ہی لوگوں کو مفت اور اضافی راشن بھی فراہم کر رہی ہے۔ لوگوں کے ہاتھوں میں نقدی نہ رہنے کی وجہ سے بازار میں طلب ندارد۔ کیونکہ ملک طبی اور معاشی بد انتظامی کے بدترین دور سے گزر رہا ہے۔ حکومت گزشتہ سال 20 لاکھ کروڑ روپے اور امسال 6.28 لاکھ کروڑ روپے کا راحتی قرض گارنٹی اسکیم کی خوراک دے رہی ہے۔ اس طرح حکومت نے موجودہ راحتی معاشی پیکیج سے تباہ حال معیشت کو لون کے حوالے کر دیا ہے۔ یہ حکومت کا کریڈٹ گارنٹی اسکیم خط افلاس کے قریب رہنے والے غربا کے لیے معاشی پیکیج نہیں ہے۔ اس سے کاروباری اور کچھ صنعت کاروں کو تو فوری سہارا مل جائے گا مگر ان کو قرض کے ساتھ سودا ادا کرنے کی فکر بھی ہو گی۔ اس لیے تو حکومت اس قرض کو دینے کے ساتھ گارنٹی بھی دے رہی ہے جس میں شرح سود بھی کم ہی ہے۔ کاروباری اور صنعت کار ایسے قرض کو لے کر کیا کریں گے جب کہ بازار میں قوت خرید ناپید ہے۔ قرض تو لیا جاتا ہے بازار میں طلب کو دیکھ کر۔ کیونکہ کاروباریوں کو مال کی خریداری اور سپلائی چین کی تشکیل کے لیے قرض کی حاجت ہوتی ہے۔ کورونا کی پہلی اور دوسری لہروں کی مار سے کل کارخانے بند پڑے ہیں۔ غیر یقینیت کا ماحول ہے۔ اس میں حکومت لون بانٹنے پر متوجہ ہے۔ حکومت کا رویہ بھی عجیب ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری اور ٹیکس بڑھا کر لوگوں کی جیبیں خالی کرچکی ہے اور اب قرض تقسیم کر رہی ہے۔ حکومت کو مالی خسارہ کو کنٹرول کرنے کے لیے بھرپور توجہ دینا ہوگا۔ لوگوں کو نقدی فراہم کرنی ہوگی۔ معاشی عدم مساوات کی خلیج کو پاٹنے اور مہنگائی وبے روزگاری کو دور کرنے کے لیے فوری اور طویل مدتی منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔
واضح رہے کہ موجودہ لون گارنٹی اسکیم گزشتہ سال کے راحتی پیکیج کا ضمیمہ ہے۔ سرکاری اخراجات پر اس گارنٹی اسکیم سے تو اضافہ نہیں ہوگا مگر مفلسوں کو مفت اناج فراہم کرنے کے منصوبے کو بڑھا کر دیوالی تک کرنے سے اس کے اخراجات فوری بڑھ جائیں گے۔ اس سے ماہرین اقتصادیات مانتے ہیں کہ سرکار کی خزانہ پر دباو بڑھ جائے گا۔ نومورا کے مطابق حکومت نے مالی سال 2022 کے لیے 6.28 لاکھ کروڑ روپے کے راحتی پیکیج کا اعلان کیا ہے جو جی ڈی پی کے 2.8 فیصد کے برابر ہے۔ اس سے سرکاری خزانہ سے 1.3 لاکھ کروڑ روپے کی نقدی نکلے گی۔ جو جی ڈی پی کے 0.6 فیصد کے برابر ہو گا۔ ڈوایچ بینک کا کہنا ہے کہ حکومت نے حال ہی میں جو راحتی پیکیج دیا ہے اس سے اس کا خرچ بڑھ سکتا ہے۔ اضافی راحت پر حکومت کو کم ہی خرچ کرنا ہو گا لیکن سرمایہ کاری سے حاصل ہونے والی رقم کا ہدف کم رہنے سے مالی خسارہ بڑھے گا۔ اس نے جاریہ مالی سال میں مالیاتی خسارہ 7.5 فیصد رہنے کا اندازہ طے کیا ہے۔ ایس بی آئی اکنامک ریسرچ کا کہنا ہے کہ حکومت نے حال میں جو اعلان کیا ہے اس سے سرکاری خزانہ کے خسارہ میں 1.23 لاکھ کروڑ روپے یعنی جی ڈی پی کے تقریباً 0.6 فیصد کے برابر اضافہ ہو سکتا ہے۔ آئی ڈی ایف سی بینک ریسرچ کا کہنا ہے کہ حکومت کی لون گارنٹی سے سرکاری خزانہ کا خسارہ 96300 کروڑ روپے جو جی ڈی پی کا 0.4 فیصد ہوگا وہ بڑھ سکتا ہے۔ اس تحقیق کے مطابق حکومت کی قرض گارنٹی اسکیم سے صحت عامہ سیر وسیاحت اور ایم ایف آئی جیسے متاثرہ شعبوں کو زیادہ سرمایہ مل سکے گا۔ اس سے توقع ہے کہ معاشی سرگرمیوں کو پٹری پر لَوٹنے کے بعد فائدہ ہو گا۔
معیشت میں بہتری لانے طلب کو بڑھانے اور مالیاتی خسارہ کو قابو میں کرنے کا فوری اور کارگر نسخہ ہے کہ ٹیکہ کاری کو رفتار دی جائے مگر افسوس کی بات ہے کہ باقی دنیا کی طرح ہمارے ملک میں بھی جنوری کے وسط میں ٹیکہ کاری مہم شروع ہونے کے باوجود ابھی تک آبادی کے پانچ فیصد حصے کو بھی دونوں خوراکیں نہیں دی جاسکی ہیں۔ لوگوں کو ٹیکے کی خوراک دینے کے مقابلے میں 201 ملکوں میں ہمارا ملک 114ویں مقام پر ہے۔ کورونا قہر سے متاثر ہونے کے بعد دنیا کے کئی ممالک نے ٹیکہ کاری کو اولین ترجیحات میں رکھا۔ اب وہ اپنے ماسک کھول رہے ہیں اور معیشت کو رفتار دینے کے لیے اپنی کوششیں کررہے ہیں، وہ بچوں کو ٹیکہ دینے اور خوراک لے چکے لوگوں کو بوسٹر ڈوز دینے کے راہ پر گامزن ہیں تاکہ ان کے شہریوں کی ایسے قہر سے حفاظت کر سکے۔ تمام ماہرین معاشیات کا ماننا ہے کہ معیشت کی بہتری کے لیے ٹیکہ کاری مہم کو مہمیز دینا ہو گا جو بہت ہی سست ہے۔ اٹھارہ سال سے اوپر کے عمر والے تمام شہریوں کو 90 لاکھ یومیہ ٹیکے لگانے پر ہی دسمبر تک یہ ہدف پورا ہو سکے گا۔ ہم ٹیکہ کاری کے معاملے میں ترقی یافتہ ملکوں سے بہت پیچھے ہیں یہاں تک کہ پڑوسی ممالک سے بھی، کیونکہ ان ممالک نے اپنی صنعتوں اور کاروبار کو ترقی کی راہ پر لانے اور معیشت کی بہتری کے لیے ٹیکہ کاری پر سرمایہ کاری کو بہتر متبادل تسلیم کیا ہے۔ اس لیے امریکہ اور چین 90 فیصد، برازیل 40 فیصد اور برطانیہ 60 فیصد اپنی اپنی آبادی کو ٹیکہ لگا چکے ہیں۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف پبلک فائنانس اینڈ پالیسی (این آئی پی ایف پی) کے ڈائرکٹر، ماہر اقتصادیات پناکی چکرورتی نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ اونچی افراط زر یقینی طور پر تشویشناک ہے۔ اس لیے افراط زر کو مستحکم کرنے کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ مالیاتی تدابیر کے ذریعہ دستیاب کرائی گئی نقد امداد سے غریبوں کی روزی روٹی کو سلامتی ضرور ملنی چاہیے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ گزشتہ مالی سال میں مالیاتی خسارہ بڑھ کر جی ڈی پی کے 9.5 فیصد رہا تھا۔ ویسے مجموعی طور پر مالیاتی خسارہ جی ڈی پی کے 14 تا 15فیصد کے برابر ہے۔
***

پٹرول اور ڈیزل نے اگر سنچری لگائی ہے تو خوردنی اشیا اور خوردنی تیلوں کی قیمتیں کیسے پیچھے رہ سکتی ہیں۔ سرسوں اور ریفائنڈ تیل کی قیمتیں بھی ڈبل سنچری کی راہ پر گامزن ہیں۔ عام لوگوں سے یہ سب اشیا دور ہو رہی ہیں۔ اس کی مار سے باورچی خانہ کا بجٹ کمزور ہو گیا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 18 تا 24 جولائی 2021