بغیر منصوبہ بندی کے ’’لاک ڈاؤن‘‘ نے ملک کو معاشی پستی میں دھکیل دیا
کورونا کے قہر کو قابو میں کرنے کے اقدامات کے فقدان سے صحت کاشعبہ متاثر
پروفیسر ظفیر احمد، کولکاتا
بھارت میں کورونا کے مریض مسلسل اور بے تحاشہ بڑھ رہے ہیں جہاں تک وبا سے متاثر ہونے کا سوال ہے تو ہمارا ملک روس کو تیسرے مقام سے ہٹا کر اب خود اس کی جگہ براجمان ہوگیا ہے۔ اب امریکہ اور برازیل ہی ہم سے آگے ہیں۔ کورونا قہر سے پیدا شدہ صورت حال بدترین شکل اختیار کررہی ہے۔ وزیراعظم کی جلد بازی اور بغیر منصوبہ بندی کے ملک پر سخت گیر لاک ڈاؤن تھوپنے کی وجہ سے تمام تر حکمت عملیاں بری طرح ناکام ہوئی ہیں۔ اس فاش غلطی کا خمیازہ ہمارے ملک کو برسہا برس تک اور کئی نسلوں کو بھگتنا پڑے گا۔ دو ماہ سے زائد سخت ترین لاک ڈاؤن کے بعد بھی آج کورونا وبا ملک کے طول وعرض میں پھیل گئی ہے۔ اس تالہ بندی کے دوران حکومت نے طبی سہولیات کی فراہمی کی کوشش صحیح انداز میں نہیں کی۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ ملک کے ہر تین میں سے دو اضلاع کے پاس آج بھی کورونا ٹسٹ کا کسی طرح کا انتظام نہیں ہے۔ اس کے علاوہ ملک کی گرتی ہوئی معیشت اور تیزی سے اونچائی پر پہنچتی ہوئی بے روزگاری کی وجہ سے شہروں سے اپنے گاؤں کو لوٹنے والے مزدوروں کے پاس کام نہ ہونےکے باعث سیکڑوں لوگ بھوک سے مرگئے اور لاکھوں لوگ بھکمری کی سرحد پر جلدی پہونچنے والے ہیں کیونکہ مودی جی نے 4گھنٹے کے اندر ملک گیر لاک ڈاؤن نافذ کیے جانے سے قبل محکمہ صحت کے ماہرین، وبائی امراض کے ماہرین، ماہرین سماجیات اور ماہرین اقتصادیات سے کسی طرح کا مشورہ نہیں کیا۔ محض ایک تانا شاہ کے طور پر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی طرح لاک ڈاؤن کو تھوپا، جس سے ملکی معیشت کوما میں چلی گئی اور عام لوگوں پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ایسا ملک جس کی بڑی آبادی کچی بستیوں میں رہتی ہے اور انہیں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، سماجی دوری اور سخت لاک ڈاون کا فیصلہ سنانا نا مناسب اور غیر اخلاقی قدم تھا۔ ایسے اقدام سے قبل ملکی میڈیا اور سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے عوام کو حالات سے باخبر کرنے کی ضرورت تھی۔ محض تالی اور تھالی پٹوا کر مودی جی ملک کو معاشی مار اور کورونا قہر کے غضب سے بچانا چاہتے تھے اسی وجہ سے نہ جان بچی اور نہ جہان۔
پریس کانفرنسوں کے ذریعے ماہرین اقتصادیات کی بھی رائیں بھی عوام کے سامنے آنی چاہیے تھیں۔ مگر حکومت نے اپنے نا اہل مشیروں پر زیادہ ہی تکیہ کیا۔ اس لیے مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔ پروفیسر کوشک باسو کارینل یونیورسٹی کے سی مارکس پروفیسر، سابق چیف اکانومسٹ اور سینئر وائس پریسییڈنٹ ورلڈ بینک نے ملک میں کورونا وبا کے متاثرین کو گننے کے بجائے کووڈ 19کی وجہ سے ہونے والی ہلاکتوں کو گننے کی غلطی کرتے آرہے ہیں جہاں تک آبادی کا تعلق ہے اس میں افریقہ اور ایشیاء کے ممالک میں چین بڑی آبادی ہونے کے باوجود بہتر حالت میں ہے۔ مگر اس خطہ میں بھارت کی پوزیشن بدتر ہے۔ کورونا وبا میں ہلاکت کے معاملے میں ہر دس لاکھ آبادی پر عام شرح ہلاکت (Crude Mortality Rate)میں ہمارا ملک چین، انڈونیشیا، ملائشیا، سری لنکا، نیپال، بنگلہ دیش اور بہت سارے ملکوں بشمول افریقی ملکوں کے مقابلے میں بری حالت میں ہے۔ پروفیسر باسو نے کہا کہ اس خطہ میں بہت ہی احتیاط سے نشان زد کرکے لاک ڈاؤن کا نفاذ عمل میں آنا چاہیے تھا لیکن اس لاک ڈاؤن کے بعد معیشت پستی کی طرف غوطہ زن ہے اور کورونا قہر بلندی کو چھورہا ہے۔ 24 مارچ کے لاک ڈاؤن کے نفاذ کے بعد یہ عالمی وبا اور بھی خطرناک ہوگئی۔ لاک ڈاؤن کے شروع کے دو ہفتوں کے بعد وبائی مرض کی شرح ترقی کرتے ہوئے خطرناک حد تک بلندی کو چھورہی ہے۔ ایسے میں بھارت میں دنیا کا سخت ترین لاک ڈاؤن محض چار گھنٹے کی نوٹس میں نافذ کردیا گیا۔فطری طور سے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ حکومت کے پاس اچانک کام بند ہوجانے ، آمد و رفت کی سہولت ختم کی ہوجانے اور سپلائی چین کے ٹوٹ جانے کے اندیشہ کی منصوبہ بندی رہی ہوگی۔ مگر کسی طرح کی منصوبہ بندی کا آج تک کوئی بھی ثبوت منظر عام پر نہیں آسکا۔ پروفیسر باسو نے کہا کہ منصوبہ بندی کی کوئی زیادہ معلومات نہیں ہیں لیکن جو کچھ بھی منصوبہ بنایا گیا اس پر عمل آوری کا ہر جگہ فقدان نظر آیا۔ زیادہ تر ملکوں میں لاک ڈاؤن کے بعد کم از کم لوگوں کے گھر پہونچانے کے لیے ٹرانسپورٹیشن کا نظم کیا گیا تاکہ لوگ اپنے اپنے گھروں کو جاسکیں۔ مگر ہمارے ملک میں ہفتوں بعد بھی اس مسئلہ کا کوئی حل سامنے نہیں آیا مہاجر مزدور چھوٹے چھوٹے رہائشی کمروں میں پھنسے رہے۔ فون وائرس کے پھیلاؤ کا وسیلہ بن گیا۔ لوگ ایک ساتھ جمع ہونے پر مجبور ہوئے۔ ایک دوسرے میں وائرس کو پھیلاتے رہے اور وہی لوگ سینکڑوں میل سفر کرکے اس وبائی مرض کے پھیلانے کا ملک بھر میں ذریعہ بن گئے۔ اس کے علاوہ مہاجر مزدوروں کے لیے حکومت نے ان کے شہر میں قیام کے دوران اور اپنے گھروں تک پہنچنے تک خورد و نوش کا بندوست بھی نہیں کیا۔ حکومت کے پبلک ڈسٹریبیوشن سسٹم کے ذریعہ مہاجر مزدوروں کو 5کلو چاول گیہوں کے ساتھ دال تیل بھی فراہم کیا جاسکتا تھا۔ ماہرین اقتصادیات نوبل انعام یافتہ پروفیسر ابھیجیت بنرجی ، پروفیسر پربھات پٹنائک اور جے این یو کے پرفیسر جینتی گھوش نے حساب لگاکر بتایا کہ ہر شہری کو چھ ماہ تک یہ راشن اور نقد پہونچانے میں جی ڈی پی کا محض 3فیصد ہی خرچ ہوگا۔ لاک ڈاون میں پھنسے ہوئے مزدوروں نے کہا کہ مودی جی کی نظر میں ہم کیڑے مکوڑں سے زیادہ نہیں ہیں اس سے اچھا ہے کہ کورونا وائرس سے مرنے کے بجائے گھر جاکر مریں۔
حکومت کی غلط حکمت عملی کی وجہ سے ہمارا ملک کئی طرح کے بحرانوں سے گزر رہا ہے خواہ وہ معاشی ہوں یا طبی۔ ملک کی اتھاہ آبادی کو انتہائی غربت اور افلاس کا سامنا ہے۔ کورونا وبائی مرض پر ہی حکومت کی ساری توجہ مرکوز ہے۔ تپ دق، کینسر، عارضہ قلب، ہائی بلڈ پریشر ، شوگر ، ٹی بی وغیرہ میں مبتلا لاکھوں مریضوں کی رسائی اسپتالوں تک نہیں ہو پا رہی ہے۔ سب سے زیادہ پریشان کن مسئلہ ہر ماہ ملک میں پیدا ہونے والے بچوں کو خسرہ، ٹیٹنس، پولیو،ڈفتھیریا وغیرہ کے ٹیکے لگوانے کا ہے۔ ہمارے ملک کا طبی نظام دنیا میں 145ویں مقام پر ہے۔ اس ضمن میں وہ بنگلہ دیش ، میانمار، سری لنکا اور بھوٹان سے بھی پیچھے ہے۔ ملک میں بیماری کسی بد دعا سے کم نہیں ہے۔ خاندان کا کوئی فرد کسی بری بیماری میں مبتلا ہوجائے تو پورا خاندان تباہ ہوجاتا ہے۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں شامل 117ممالک میں بھارت 102ویں مقام پر ہے جبکہ مئی 2014میں 55ویں مقام پر تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری مرکزی حکومت کے پاس معیشت کا کوئی ویژن ہے اور نہ ہی منصوبہ بندی۔ اس پر بے روزگاری کی شرح 27.1فیصد سے زیادہ پر پہنچ چکی ہے۔ حکومت ملک کو وکاس کی طرف لے جانے کے بجائے وناش کی طرف لے جارہی ہے۔ معیشت، روزگار ، کاروبار، صحت و تعلیم کے بنیادی ڈھانچہ میں حکومت کی ناکامی سب پر عیاں ہے مگر سیاسی بالادستی کے ذریعے ملک کو نسل پرست ہندو راشٹر بنانے کے عزم نے تباہی کے مقام پر پہنچا دیا ہے۔ معاشی سروے کے مطابق معیشت کو 5ٹریلین ڈالر تک پہونچانے کے لیے کچھ شرائط کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جن میں ایکسپورٹ میں اضافہ ، جی ڈی پی میں اضافہ کی شرح 5فیصد، مہنگائی کی شرح 4فیصد، پیداواری صلاحیت میں اضافہ اور روپے کی قیمت ڈالر کے مقابلے میں اضافہ وغیرہ شامل ہے۔
مگر بے انتہا بے روزگاری کی زیادتی کی وجہ سے کھپت اور سرمایہ کاری کی مانگ میں کمی آئی ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی نے مانسون کو بے حال کر رکھا ہے۔ زراعت بھی بدحال ہے۔ دیہی معیشت کورونا کی وجہ سے پوری طرح متاثر ہے۔ سرویس سیکٹرس جہاں سے معیشت کو قوت ملتی ہے وہ بیمار ہے۔ غلط طریقے سے لاک ڈاؤن کے نفاذ سے ہمارے ملک میں کورونا وائرس کے دوسرے اسٹیج میں داخل ہونے کا اشارہ مل رہا ہے۔ مگر حکومت کا دعویٰ ہے کورونا وائرس پہلے ہی اسٹیج میں ہے۔ چند ریاستیں ایسی ہیں جہاں کورونا وائرس کے حملے بہت ہی شدید ہیں۔ اس لیے ان ریاستوں میں کورونا دوسرے اسٹیج میں پہونچ چکا ہے۔ 27جون تک ہمارے ملک میں 5لاکھ سے زائد کورونا کے مریض سامنے آچکے تھے۔ مگر 7جولائی کو ایک ہی دن میں کورونا کے 24ہزار سے زیادہ کیس کنفرم ہوئے۔ ہمارے ملک میں کورونا مریضوں کی تعداد 889356سے تجاوز کرچکی ہے۔ اور سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 23334لوگ فوت ہوچکے ہیں۔ اس طرح ہمارا ملک 7جولائی تک 7لاکھ کا ہندسہ پار کرچکا ہے۔ 7جولائی تک روس میں 6لاکھ 87ہزار مریض سامنے آئے۔ عالمی پیمانے پر کورونا وبا کے مریضوں کے تعلق سے اعداد و شمار جمع کررہے امریکہ کے جان ہاپکنس کے مطابق بھارت، امریکہ اور برازیل کےبعد اس وقت کورونا وبا سے متاثرہ تیسرا ملک بن گیا ہے اور ہلاکتوں کے معاملے میں یہ آٹھویں نمبر پر ہے۔ مہاراشٹرا کی راجدھانی ممبئی میں اب تک 2لاکھ سے زائد مریض سامنے آئے ہیں۔ دوسرے نمبر پر تمل ناڈو ہے۔ جہاں 7جولائی تک سوا لاکھ مریض سامنے آئے ہیں۔ ریاست دلی بھی پیچھے کیونکر رہے وہاں بھی ہزار تدبیروں کے باوجود ایک لاکھ سے زائد مریض ملے ہیں۔ جبکہ دوسری ریاستیں اترپردیش ، تلنگانہ، کرناٹک ، آندھراپردیش بھی دوسرے اسٹیج کی دہلیز پر ہیں ۔ ان کے علاوہ بہار اور بنگال میں کورونا کے کیسز بڑی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ ابھی پوری دنیا میں امریکہ اور برازیل دوسرے اسٹیج میں داخل ہوچکے ہیں اور تیسرے اسٹیج میں جانے کی تیاری میں ہیں۔ چند ایک ریاستوں میں کورونا قہر دوسرے اسٹیج میں داخل ہوا ہے۔ اور روس کے ساتھ ہمارا ملک دوسرے اسٹیج میں جانے کی تیاری میں ہے۔ اگر ملک دوسرے اسٹیج میں آگیا تو کتنا قہر برپا ہوجائے گا اس کا اندازہ امریکہ کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے یہ بڑی تشویش کی بات ہے۔ امریکہ کے مقابلے میں زیادہ بڑی آبادی والا ملک ہونے کی وجہ سے یہاں پچاس ہزار سے بھی زائد مریض آسکتے ہیں اور تعداد دوگنی ہوکر یومیہ ایک لاکھ بھی ہو سکتی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ اس وبا
کو قابو میں کرنے کے لیے کوئی ویکسین ابھی تک سامنے نہیں آئی ہے۔ 7جولائی تک پوری دنیا میں ایک کروڑ سے زائد مریض سامنے آچکے ہیں۔ وبا کے بڑھنے کی رفتار سےاندازہ ہوتا ہے کہ جولائی کے اخیر تک مریضوں کی تعداد 2 کروڑ تک پہنچ جائے گی۔ ایسے قہر کے وقت میں ہماری حکومت اسلاموفوبیا کے ساتھ مسلمانوں کے خلاف منافرت کے ایجنڈے کو ہوا دے رہی ہے۔ ہمارے وزیر صحت ڈاکٹر ہرش وردھن نے دعویٰ کیا ہے کہ کچھ مقامات کو چھوڑ کر کوئی ٹرانسمیشن کا کیس نہیں ہے کیونکہ ہماری شرح اموات 2.72فیصد ہے جو ترقی یافتہ ملکوں کے مقابلے میں کافی کم ہے۔ امریکہ میں شرح اموات 4.3فیصد اوربرازیل میں 4فیصد ہے۔
معیشت کے میدان میں اپریل تا جون سہ ماہی کے دوران دس فیصد سے زیادہ گراوٹ کا اندیشہ ہے۔ کورونا وائرس کے قہر کو قابو میں رکھنے کے لیے بغیر حکمت عملی والے لاک ڈاؤن کی وجہ سے بھارتی معیشت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ سنگاپور کے بینکنگ گروپ ڈی بی ایس نے 10فیصد سے زائد کی گراوٹ کا اندازہ لگایا ہے۔ اس کی رپورٹ کے مطابق اپریل سے جون کے درمیان اندرونی جی ڈی پی کے کالکولیشن ماڈل کی بنیاد پر موجودہ اور آئندہ سہ ماہیوں کی جی ڈی پی کا اندازہ لگایا جاتا ہے۔ ڈی بی ایس کی رپورٹ کے مطابق جولائی تا ستمبر کے دوران معمولی بہتری کی توقع ہے۔ اس گروپ کی ماہر اقتصادیات رادھیکا راؤ نے کہا کہ کورونا وائرس کی وجہ سے اچانک معیشت میں اتنی بڑی پستی کا اندازہ لگایا جارہا ہے۔ کووڈ 19کی وجہ سے پیداوار میں کمی واقع ہوئی ہے اس کی تلافی سال کے اخیر تک مشکل ہے۔ انہوں نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 2020کی دوسری سہ ماہی میں کورونا کا قہر عروج پر رہ سکتا ہے تو سال 2020 میں شرح نمو منفی رہے گی اور سالانہ بنیاد پر جی ڈی پی میں 4.8فیصد کی گراوٹ آئے گی۔ راؤ نے کہا کہ معیشت کو پوری طرح کھولنے میں تاخیر سے 1.5فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق معیشت کو دوبارہ پٹری پر لانے اور وبا پر قابو پانے کے درمیان توازن پیدا کرنا ایک بڑا چیلنج ہے۔ معاشی ماہرین کے ذریعے 2021 کو بھارتی معیشت کے لیے منفی سال بتایا جارہا ہے۔ آر بی آئی کے ساتھ سبھی بڑے اداروں کو یہ گمان ہے کہ بھارتی جی ڈی پی امسال بھی منفی رہے گی اور کچھ اندازہ ہے کہ یہ منفی طور پر 7فیصد تک جاسکتی ہے۔ بینک آف امریکہ سیکیوریٹیز کا 3 فیصد کی منفی پیداوار کا اندازہ ہے۔ وہ اس بنیاد پر ہے کہ درمیانی اگست تک معیشت پوری طرح کھل جائے گی۔ اگر کورونا کی مصیبت لمبی رہتی ہے تو معیشت میں سستی 5فیصد تک جاسکتی ہے۔ سنیچر 11جولائی کو آر بی آئی گورنر نے کہا کہ 100سال کی سب سے بڑی طبی اور معاشی مصیبت ہے۔ ساتویں ایس بی آئی بینکنگ اینڈ اکامک کانکلیو کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ سے پیداوار، نوکریوں اور صحت پر بہت خراب منفی اثرت دیکھنے کو ملا ہے۔ پہلے سے موجود عالمی معیشت، گلوبل ویلیج چین اور دنیا بھر میں لیبر اور کیپٹل موومنٹ کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے ملک کو ایسے وقت میں مخاطب کیا ہے جب کورونا کے معاملات میں بے تحاشہ اضافہ ہورہا ہے۔ معیشت کی پوری طرح بحالی میں 2سے 3 سال کا وقت لگ سکتا ہے ۔ کیونکہ طلب کی کمی کی وجہ سے روزگار جانے کا خوف ہے۔ یہ بات ہیرو انٹر پرائیز کے چیرمین سنیل کانت منجال نے کہی۔ اس وقت مختلف سیکٹرس میں مالی مدد کی ضرورت ہے۔ کچھ کمپنیاں اپنی دوکانیں بند کررہی ہیں۔ طلب میں کمی کی وجہ سے تخفیف 20 فیصد تک ہوسکتی ہے۔ منجھولی اور چھوٹی کمپنیاں لوگوں کو واپس لانے کے لیے فکر مند ہیں۔ ایسے برے حالات میں بھی مرکزی حکومت اپنی ناکامی کو ماننے تیار نہیں۔
محض ایک تانا شاہ کے طور پر نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی طرح لاک ڈاؤن کو تھوپا، جس سے ملکی معیشت کوما میں چلی گئی اور عام لوگوں پر مصیبتوں کا پہاڑ ٹوٹ پڑا۔ ایسا ملک جس کی بڑی آبادی کچی بستیوں میں رہتی ہے اور انہیں پینے کا صاف پانی تک میسر نہیں، سماجی دوری اور سخت لاک ڈاون کا فیصلہ سنانا نا مناسب اور غیر اخلاقی قدم تھا