باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم

آصف اقبال تنہاؔ:رہائی کے لیے سوشل میڈیا پر کامیاب مہم

صدیقی محمد اویس، میرا روڈ، ممبئی

ہمیشہ سے دنیا میں یہ دستور رہا ہے کہ جب جب باطل قوتیں سرگرم عمل ہوئیں ہیں تب تب ان کی پر زور مزاحمت بھی ہوئی ہے۔ یہ کوئی لفاظی نہیں ہے بلکہ تاریخ گواہ ہے کہ کس طرح فرعون خدا بن بیٹھا تھا اور کس طرح اللہ نے اسے پکڑ کر سمندر میں ڈبو دیا۔ یہی معاملہ ہٹلر کے ساتھ ہوا اور نہ جانے کتنے ایسے ظالم حکم راں گزرے ہیں جن کو اللہ نے دنیا میں ایسی سزا دی کہ وہ دنیا والوں کے لیے عبرت کا نمونہ بن گئے، آخرت کا عذاب تو ہے ہی۔ ظالموں کا معاملہ یہ ہوتا ہے کہ وہ لوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور اس خوش فہمی میں مبتلا ہوتے ہیں کہ اب تمام چیزیں ان کے قبضہ قدرت میں آ گئی ہیں لہٰذا وہ جو چاہیں کر سکتے ہیں لیکن وہ بھول جاتے ہیں کہ ‘خدا کی لاٹھی میں آواز نہیں ہوتی۔
ایسا ہی معاملہ ہمارے ملک ہندوستان میں گزشتہ کچھ برسوں سے جاری ہے۔ جب سے مرکز میں بھاجپا برسراقتدار آئی ہے تب ہی سے ملک کے حالات بہت حد تک بگڑنا شروع ہوگئے ہیں۔ دن بدن حالات بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔ موب لینچنگ، مسلم مخالف پروپیگنڈے، اقلیتوں کے حقوق کی پامالی، قتل وغارت گری، حقوق انسانی پر حملہ، ملک کی تباہ حال معیشت، بدامنی، عدلیہ کی آزادی پر حملہ وغیرہ نہ جانے اور کتنے ہی مسائل سے ملک عزیز کو دوچار ہونا پڑ رہا ہے۔ اور تو اور حق وانصاف کی بات کرنے والوں کو نشانہ بنانا اب حکومت کی ترجیحات میں شامل ہے۔ ہم تمام اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ گزشتہ چند ماہ قبل حکومت نے ایوان میں سی اے اے CAA کا قانون پاس کروا لیا جو کہ واضح طور پر ایک غیر آئینی وامتیازی قانون ہے۔ یہ قانون مذاہب کی بناء پر لوگوں میں فرق کرتا ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ملک گیر سطح پر این آر سی اور این پی آر NRC NPR کرانے کی بات بھی کہی گئی تھی۔ حکومت کی منشا یہ تھی کہ اس قانون کے ذریعے لوگوں کے درمیان نفرت پھیلائی جائے تاکہ لوگ اس جال میں الجھ کر رہ جائیں اور دوسرے مسائل سے بے خبر ہو جائیں۔ لیکن حکومت کو منھ کی کھانی پڑی، ملک بھر میں CAA NRC NPR مخالف مہم ایک تحریک کی شکل اختیار کرگئی اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا ملک سراپا احتجاج بن گیا۔
سوال یہ ہے کہ اس تحریک کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جامعہ ملیہ اسلامیہ، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، جواہر لال نہرو یونیورسٹی اور کئی چھوٹے بڑے کالجوں کے طلباء نے اس تحریک کو برپا کیا۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے چند طلبہ وطالبات نے مل کر اس مہم کو تحریک کی شکل دی جن میں سے ایک نام جو ان دنوں سوشل میڈیا اور میڈیا ہاؤسیز کی زینت بنا ہوا ہے وہ ہے آصف اقبال تنہا۔ آصف کی عمر 24 سال ہے اور وہ جامعہ میں بی اے فارسی کے تیسرے سال کے طالب علم ہیں، جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کے رکن اور ساتھ ساتھ اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (طلباء تنظیم) کے سرگرم رکن بھی ہیں۔ سی اے اے تحریک کی بنیاد اور پھر اس کی قیادت میں آصف اقبال کا کلیدی کردار رہا ہے۔ اس کے علاوہ دیگر احتجاجی مظاہروں میں آصف بے حد سرگرم رہتے ہیں اور ظلم کے خلاف بے خوف اپنی آواز بلند کرتے ہیں۔ سی اے اے تحریک نے ملک بھر میں تیزی سے اپنے اثرات مرتب کیے۔ جامعہ اور شاہین باغ دہلی ان احتجاجی مظاہروں کی مرہون منت تھے۔ شاہین باغ کے طرز پر پورے ملک میں شاہین باغ کے نام سے مظاہرے امڈ پڑے لیکن جب حکومت سے یہ سب دیکھا نہ گیا تو انہوں نے اپنے سنگھی غنڈوں کے ذریعے جامعہ کے طلبہ وطالبات پر حملے کروائے اور ان آزاد آوازوں کو دبانے کی کوشش کی لیکن سلام ہے ان تمام طلباء وطالبات کو جنہوں نے نظام باطل کے آنکھ میں آنکھ ڈال کر کہا کہ تم چاہو کتنا ہی ہم کو ستالو۔۔۔ چاہوکتنا ہی ڈرا لو۔۔۔۔ ہم پہلے سے زیادہ ابھر کر آئیں گے۔
15 دسمبر 2019 کو جب کہ حسبِ معمول جامعہ میں احتجاج جاری تھا تب ہی کچھ غنڈوں نے ماحول خراب کرنے کی کوشش کی اور توڑ پھوڑ کر کے جامعہ کی طرف فرار ہوئے تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ یہ حرکت جامعہ کے طلباء کی ہے۔ پس دہلی پولیس کو بہانہ مل گیا اور پھر پولیس نے جامعہ کے طلبہ وطالبات پر بے دردی کا مظاہرہ کرتے ہوئے لاٹھی چارج کیا اور آنسو گیس کے گولے داغے جس کے نتیجے میں سیکڑوں طلباء بری طرح سے زخمی ہوئے۔ پولیس کی بے شرمی کی انتہا دیکھیے کہ اس نے لائبریری میں تک گھس کر ان طلباء پر بھی لاٹھی چارج کیا جو احتجاج کا حصہ نہیں تھے اور اپنی پڑھائی میں مصروف تھے۔ دہلی پولیس کا کہنا تھا کہ جو لوگ توڑ پھوڑ کر رہے تھے وہ جامعہ کے طلباء تھے اور وہ لائبریری میں چھپے ہوئے تھے۔ لیکن سچائی اس سے پرے ہے، یہ تو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت کیا گیا حکومت کا ناپاک عمل تھا اور دہلی پولیس تو مرکزی حکومت کے تحت ہی کام کرتی ہے۔ اب قانونی چارہ جوئی ایسی کہ اس معاملے میں پولیس نے جامعہ کے ہی چند طلباء پر معاملہ درج کیا جس میں آصف اقبال کا بھی نام شامل ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جب ۱۵ دسمبر کو یہ معاملہ پیش آیا تب بقول آصف۔۔۔ ” میں خود شدید زخمی تھا، آنسو گیس کی وجہ سے بے ہوش ہو گیا تھا اور افرا تفری کے عالم میں کئی لوگ میرے اوپر سے چڑھ کر جا رہے تھے، پھر میرے کچھ ساتھیوں نے مجھے اٹھایا اور اسپتال لے گئے۔ ” یعنی اس دن آصف خود شدید زخمی تھے تو اس معاملے میں ان کا ہاتھ کیسے ہو سکتا ہے؟ آصف اقبال جامعہ کے قریب ہی ابول فضل اینکلیو میں رہتے ہیں جہاں جامعہ کے سیکڑوں طلباء رہتے ہیں۔ 16 مئی 2020 کو آصف اقبال کو ان کے روم سے دہلی پولیس کرائم برانچ نے گرفتار کرلیا۔ اس سے پہلے CAA NRC NPR مہم کے تعلق سے ان پر دو ماہ قبل مقدمہ درج ہوا تھا اور ایک مہینہ پہلے شاہین باغ تھانے میں اسپیشل سیل کے لوگوں نے کچھ تفتیش کی تھی۔ ان تمام کے علاوہ دہلی پولیس نے مختلف احتجاجی مظاہروں کے دوران انہیں متعدد بار ڈیٹین بھی کیا تھا اور وقتاً فوقتاً انہیں پوچھ تاچھ کے لیے بلایا بھی جاتا رہا جس میں آصف کا مکمل تعاون رہا ہے۔ لیکن اس کے باوجود پولیس نے انہیں گرفتار کیا اور موجودہ معلومات کے مطابق ان پر یو اے پی اے UAPA لگایا گیا ہے جو کہ بالکل بے بنیاد ہے۔ آصف اقبال کو 27 مئی تک کی پولیس ریمانڈ میں لیا گیا ہے۔ ان سے پہلے جامعہ کے ہی طلباء رہنما میران حیدر اور صفورہ زرگر کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جب کہ صفورہ زرگر جو CAA تحریک میں کافی سرگرم تھیں حاملہ ہیں اس کے باوجود پولیس نے انہیں گرفتار کیا۔ ان تمام گرفتاریوں پر کئی بنیادی سوالات اٹھتے ہیں۔
جامعہ میں احتجاجی مظاہرہ کرنے والوں پر حملہ کرنے والوں کو اب تک کیوں گرفتار نہیں کیا گیا؟
دہلی میں دنگے بھڑکانے والوں کو کیوں اب تک آزاد رکھا گیا ہے؟
دہلی میں دنگے بھڑکانے والے کپل مشرا پر اب تک کوئی معاملہ درج کیوں نہیں ہوا؟
انوراگ ٹھاکر پر اب تک کوئی قانونی کارروائی کیوں نہیں؟
جبکہ آصف اقبال تنہا اور دیگر ساتھی بالکل پرامن طریقے سے احتجاج کر رہے تھے اور یہ کوئی غیر قانونی عمل نہیں تھا بلکہ ہمارا آیئن ہند اس بات کی اجازت دیتا ہے۔
آیئن کی حفاظت کرنے والوں کو جیل بھیجا جا رہا ہے اور جو آئین کی دھجیاں اڑا رہے ہیں انہیں بچایا جا رہا ہے۔ شرم ان کو مگر نہیں آتی! اصل میں حکومت ان آزاد آوازوں سے ڈرتی ہے۔ حکومت خوفزدہ ہے کہ بعد از لاک ڈاؤن یہ مظاہرے پھر سے اور شدت کے ساتھ ابھر کر آئیں گے جس کےنتیجے میں حکومت کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
ملک بچانے والوں کو جیل، ملک توڑنے والے آزادی!
یہ کہاں کا انصاف ہے یہ کیسی جمہوریت ہے؟
حکومت کے لیے بے حد شرم کا مقام ہے کہ ملک عالمی وبا کورونا وائرس COVID-19 کے نازک ترین دور سے گزر رہا ہے اور وہ ہے کہ بے قصور طلباء کو گرفتار کر رہی ہے۔ رمضان المبارک کے ماہ مقدس میں اس طرح گرفتاریوں کا سلسلہ افسوسناک ضرور ہے لیکن عزم وحوصلوں کو توڑنے والا نہیں۔ آصف اقبال کی گرفتاری کے بعد ہی سوشل میڈیا ٹویٹر پر۔۔۔
ReleaseAsifTanha #
WeStandWithAsifTanha#
ٹرینڈ کرنے لگا اور ملک بھر سے ان کی رِہائی کے مطالبے ہونے لگے۔ آصف اقبال اپنے ایک انسٹاگرام پوسٹ میں لکھتے ہیں۔۔۔۔

گئے دن کہ تنہا تھا میں انجمن میں
یہاں میرے راز داں اور بھی ہیں
بے شک آصف کے نام میں ’ تنہا‘ ضرور ہے لیکن اصل میں وہ تنہا بالکل نہیں ہیں۔ پورے ملک کے انصاف پسند لوگ آصف اور ان جیسے تمام طلباء کے ساتھ ہیں جو ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہیں۔ آصف اقبال تنہا، صفورہ زرگر، میران حیدر اور دیگر طلباء لیڈروں کی گرفتاری سے ہمیں مایوس وخوفزدہ ہرگز نہیں ہونا ہے بلکہ نئے حوصلوں اور نئے عزائم کے ساتھ ابھرنا ہے اور باطل کی پرزور مخالفت کرنی ہے۔ چاہے حالات کتنا ہی ناساز گار ہوں ہمیں ہمت نہیں ہارنا چاہیے ڈٹ کر حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے جو آصف اقبال نے کیا اور یہ ثابت کر دکھایا کہ۔۔۔
باطل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم
سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا
انشاء اللہ جلد ہی آصف اقبال تنہا اور دیگر ساتھی نئے حوصلوں کے ساتھ رِہا ہو کر باہر آئیں گے۔ ہمیں اللہ پر توکل رکھنا چاہیے اور دعا بھی کرتے رہنا چاہیے
وَتَوَكَّلۡ عَلَى ٱللَّهِۚ وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ وَكِیلٗا
اللہ پر توکل کرو، اللہ ہی وکیل ہونے کے لیے کافی ہےاللہ سبحانہ وتعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ آصف اقبال اور دیگر ساتھیوں کو اپنے حفظ وامان میں رکھے باطل کی چیرہ دستیوں سے ان کی حفاظت فرمائے اور جلد از جلد رہائی کا انتظام فرمائے آمین یا رب العالمین۔
[email protected]
****

 

آصف کی عمر 24 سال ہے اور وہ جامعہ میں بی اے فارسی کے تیسرے سال کے طالب علم ہیں، جامعہ کوآرڈینیشن کمیٹی کے رکن اور ساتھ ساتھ اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا ( طلباء تنظیم ) کے سرگرم رکن بھی ہیں ۔ سی اے اے تحریک کی بنیاد اور پھر اسکی قیادت میں آصف اقبال کا کلیدی کردار رہا ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر احتجاجی مظاہروں میں آصف بے حد سرگرم رہتے ہیں اور ظلم کے خلاف بے خوف اپنی آواز کرتے ہیں ۔