بارش کا پانی اور غرقاب شہر

 

تلنگانہ اور دارالحکومت حیدرآباد میں گزشتہ چند دنوں سے جاری بارش اور پیر سے شدت اختیار کرنے کے بعد کی صورتحال نے شہریوں کو بے بس کر دیا ہے۔ اس سارے معاملے میں حکومتوں کی کوتاہیوں اور غیر منصوبہ بندی کی پول بھی کھل گئی ہے۔ حیدرآباد کے نشیبی علاقے معمولی بارش سے ہی بھر جاتے تھے اب یہ علاقے نہ صرف غرقاب ہوگئے بلکہ شہریوں کو محفوظ مقامات منتقل کرنے کے لیے کشتیوں کو طلب کرلیا گیا۔ جہاں تک نظم و نسق کی رسائی نہیں ہوسکی وہاں کے مکینوں کو ان کے حال پر چھوڑدیا گیا۔ تلنگانہ کے دارالحکومت میں آبادیوں کا اندھا دھند قیام اور بے ترتیب مکانات کی تعمیر نے بارش کے پانی کی نکاسی کے راستوں کو ہی ختم کردیا۔ نتیجہ میں شہر کا ہر کونا بارش کے پانی سے زیر آب ہوگیا۔ دونوں شہروں حیدرآباد سکندرآباد کے علاوہ مکانات میں بارش کی تباہ کاریوں اور بے بس شہریوں کی صورتحال افسوسناک بن گئی۔ مسلسل بارش نے پورے شہر کو لپیٹ میں لے کر بری طرح اور نازک کیفیت سے دوچار کردیا۔ ٹولی چوکی کے ندیم کالونی علاقہ سے لے کر پرانے شہر کی ہر بستی میں مکانات زیر آب آگئے۔ حکومت اور مقامی قائدین کی ناقص کارکردگی سب پر آشکار ہوگئی کمر تک پانی جمع ہوگیا۔ سیلاب کے پانی میں انسان، کئی موٹر گاڑیاں، ساز و سامان بہہ گئے۔ 1908کی طغیانی کی خوفناک یادیں شہریوں کے اطراف طواف کرنے لگی تھیں۔ بستیوں میں سڑکوں پر گلی کوچوں میں ہر جگہ پانی نے غریبوں کی نیندیں اڑادیں۔ ان کے ساز و سامان ڈوب گئے۔ دکانوں اور گھروں میں پانی نے چھوٹی طغیانی کا ماحول بنادیا تھا۔ حکومت تو اپنی مدت پوری کرنے اور دوسری میعاد کی تیاری کرنے میں مصروف رہتی ہے۔ حکومت کے گیت گانے والے بے سرے قائدین اسمبلی سے لے کر انتخابی جلسوں تک اپنی پارٹی کی کارکردگی کے بلند بانگ دعوے کرتے ہیں۔ آج شہریوں کے اندر اگر بارش کی تباہی اور نقصانات پریشانیوں کا درد ہے تو وہ اپنے قائدین کی کارکردگی پر سوال اٹھا سکیں گے۔ حکومت ہر وقت شہر حیدرآباد کو عالمی شہر بنانے کا دعویٰ اور وعدہ کرتی ہے۔ ہزاروں ارب روپے خرچ کرنے کا اعلان ہوتا ہے لیکن ترقیاتی کاموں کی نشانیاں دور دور تک دکھائی نہیں دیتیں۔ شہر کے ہر گلی کوچے میں کاروں ، موٹر سیکلوں سے لے کر بڑی گاڑیاں بھی پانی کے تیز بہاو میں بہہ گئیں۔ بارش کے پانی نے جہاں کئی سڑکوں کو تباہ کیا وہیں تالابوں کے پشتے ٹوٹ گئے کنالوں میں شگاف پڑگئے اور درخت جڑ سے اکھڑ گئے۔ شہریوں کو اندازہ ہوا ہوگا کہ ان کے قائدین اور حکومت نے ان کے ساتھ کس قدر دھوکہ دہی کا معاملہ کیا ہے۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ یہ لوگ اب تک اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے تیار ہی نہیں کہ ان کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے شہریوں پر مصیبتیں ٹوٹ پڑی ہیں۔ ترقیات کا سارا بجٹ یہ لوگ چٹ کر جاتے ہیں۔ شہریوں پر ایک اور ظلم یہ ہوتا ہے کہ بارش رکنے کا نام ہی نہیں لیتی۔ دوسری طرف محکمہ برقی والے برقی بند کرکے غائب ہوجاتے ہیں جن کے گھروں میں پانی داخل ہوا ہے ان کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کے لیے بروقت کوئی انتظام نہیں ہوا۔ نقل مکانی کی سہولت نہ ہونے سے لوگوں نے گھروں کی چھتوں پر بارش میں بھیگ کر راتیں گزاری ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے تو اس شہر کو کئی آفات سے بچالیا ہے مگر زمین پر اقتدار کے مزے لوٹنے والوں نے شہر کو تباہ کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی۔ اب عوام کو سخت گیر موقف اختیار کرتے ہوئے حکومت اور اپنے قائدین سے سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ اگر ان لوگوں نے اب کارکردگی نہیں دکھائی تو انہیں گھر کا راستہ دکھایا جائے گا۔ عوام کو یہ سمجھنا چاہیے کہ نظام حکومت کے اونٹ کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔ بہرحال چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ نے بارش کی تباہ کاریوں کا ضلع کلکٹرس کے ساتھ جائزہ اجلاس منعقد کیا ہے۔ توقع ہے کہ وہ اپنی ذاتی دلچسپی سے حکمرانی کے فرائض انجام دینے میں کوئی کوتاہی نہیں کریں گے۔
اداریہ روزنامہ ’سیاست‘۔ مورخہ15اکتوبر 2020
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 اکتوبر تا 3 نومبر، 2020