مدھیہ پردیش میں معدوم ہوتے قبرستان۔۔!

وقف املاک کے تئیں غفلت۔ مسلمانوں کے لیے دوگز زمین کا مسئلہ مزیدسنگین ہوسکتا ہے!

افروز عالم ساحل

گزشتہ دنوں لاک ڈاؤن کے دوران شہر بھوپال قبرستانوں کے مسئلہ پر سرخیوں میں رہا تھا۔ وجہ کوویڈ۔19سے فوت شدہ لوگوں کے لیے قبرستان میں جگہ کی کمی تھی۔ تب بھوپال کے قبرستانوں کا میڈیا میں خوب شہرہ ہوا اور اخباروں میں سرخیاں لگیں۔ لیکن اب یہاں کے لوگ ان قبرستانوں کو بھول چکے ہیں۔ بھوپال کے موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ آنے والے عام دنوں میں لوگوں کو قبرستان میں دو گز زمین نصیب ہونا بھی مشکل ہوگا۔

مدھیہ پردیش کے دارالحکومت بھوپال میں اب صرف 23 قبرستان ہی بچے ہیں جبکہ 1961 میں اس شہر میں 187 وقف قبرستان تھے۔ یعنی محض 60 سالوں میں 164 قبرستانوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا گیا ہے۔ شہر میں 1960میں وقف املاک کا سروے کر کے گزٹ نوٹیفکیشن شائع کیا گیا تھا جس کے مطابق بھوپال میں وقف شدہ قبرستانوں کی تعداد 187 درج تھی۔

ہفت روزہ دعوت نے بھوپال کے قبرستانوں کے اعداد وشمار کی کھوج کی تو اصل حقیقت ان اعداد و شمار سے تھوڑی الگ نظر آئی۔ وقف مینجمنٹ آف انڈیا کی ویب سائٹ (wamsi.nic.in) کے مطابق اس وقت بھوپال میں کل 143 قبرستان درج ہیں۔ ان میں 49 قبرستانوں پر قانونی لڑائی چل رہی ہے جبکہ 83 قبرستانوں کے بارے میں وقف مینجمنٹ آف انڈیا یا وقف بورڈ کے پاس کوئی جانکاری نہیں ہے۔ اس طرح سے صرف 11 قبرستان ایسے بچے ہیں جن پر کوئی قبضہ یا قانونی لڑائی نہیں ہے۔

اس سلسلے میں وقف بورڈ کی آئی ٹی سیل کے انچارج اکمل یزدانی بتاتے ہیں کہ مدھیہ پردیش میں وقف مینجمنٹ آف انڈیا کی ویب سائٹ پر تازہ کاری (Updation) کا کام مکمل ہو چکا ہے۔ اس ویب سائٹ پر جو جانکاری ہے وہی درست ہے۔ حالانکہ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ابھی وقف مینجمنٹ آف انڈیا کے اس پروجکٹ میں جی پی ایس میپنگ کا کام باقی ہے، اس کے پورا ہو جانے کے بعد کتنے قبرستان ناجائز قبضوں سے پاک ہیں اس کی صحیح جانکاری مل پائے گی۔

یہ پوچھنے پر میڈیا میں شائع خبروں کے مطابق 1960 گزٹ نوٹیفکیشن میں بھوپال میں کل وقف قبرستانوں کی تعداد 187 درج تھی پھر یہ گھٹ کر 143 کیسے ہو گئی؟ اس سوال پر اکمل یزدانی کہتے ہیں کہ یہ تو میڈیا میں اس اعداد و شمار لانے والے لوگ ہی بہتر بتا پائیں گے کہ ان کے پاس یہ اعداد و شمار آئے کہاں سے۔ قبرستانوں پر ناجائز قبضوں کے سوال پر ان کا کہنا ہے کہ وقف بورڈ کے پاس جوڈیشری پاور نہیں ہے لیکن سرکاری ایڈمنشٹریشن جب چاہے، ان ناجائز قبضوں کو ہٹا سکتی ہے۔

وقف مینجمنٹ آف انڈیا کی ویب سائٹ (wamsi.nic.in) کے مطابق اس وقت پورے مدھیہ پردیش میں کل قبرستانوں کی تعداد 5759 ہے۔ لیکن ریکارڈ دیکھنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ ان میں زیادہ تر قبرستانوں کے بارے میں وقف بورڈ کے پاس کوئی جانکاری موجود نہیں ہے اور پھر بیشتر قبرستانوں پر کوئی نہ کوئی قانونی لڑائی بھی جاری ہے۔ واضح رہے کہ ہفت روزہ دعوت نے اس سلسلے میں وقف بورڈ کے سی ای او سے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن رپورٹ لکھے جانے تک بات نہیں ہو سکی ہے۔

وہیں وقف پر نظر رکھنے والے بھوپال کے سینئر صحافی سید اسرار احمد بتاتے ہیں کہ بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ صرف شہر بھوپال میں 240 قبرستان ہوا کرتے تھے۔ بعد میں یہ اعداد وشمار 183 بتائے جانے لگے۔ جب میں نے ان اعداد و شمار کی جانچ پڑتال کی تو اس دوران مجھے بھوپال کی اقبال لائبریری میں ایک کتاب ملی جس میں لکھا ہے کہ بھوپال میں کل 110قبرستان ہیں۔ واضح ہو کہ ’جائزہ اوقاف شہر بھوپال‘ کی نامی اس کتاب کو جولائی 1970 میں مقصود عرفان نے مرتب کیا اور اسے بھوپال کی اوقاف عامہ انتظامیہ کمیٹی نے شائع کروایا تھا۔

سید اسرار احمد مزید کہتے ہیں کہ مان لیتے ہیں کہ بزرگوں سے سنے ہوئے اعداد و شمار صحیح نہیں تھے لیکن اس کتاب کے اعداد و شمار کو تو ماننا ہی پڑے گا کیونکہ اس میں قبرستانوں کی پوری فہرست موجود ہے۔ یہ پوچھنے پر کہ اب بھوپال میں کتنے قبرستان بچے ہوئے ہیں۔ اس پر ان کا کہنا ہے کہ میری نظر میں پورے بھوپال شہر میں اس وقت 12 تا 15 قبرستان ہی بچے ہوئے ہیں تو پھر وقف بورڈ کو بھوپال کے شہریوں کو بتانا چاہیے کہ یہ تمام قبرستان کہاں غائب ہو گئے اور وقف بورڈ ان قبرستانوں کے معاملے میں سنجیدہ کیوں نہیں ہے؟ کیا وقف بورڈ کو اس کی ذمہ داری نہیں لینی چاہیے؟

بھوپال کے ’مسلم مائناریٹی ایسوسی ایشن‘ کے قبرستان ونگ سے وابستہ فیروز خان بھی کہنا ہے کہ بھوپال میں اب وقف بورڈ کے 10 تا 12 قبرستان ہی بچے ہیں اور اس تعلق سے وقف بورڈ پوری طرح سے خاموش ہے۔ آر ٹی آئی سے بھی جانکاری حاصل کرنا مشکل ہے۔

مدھیہ پردیش کے ضلع رتلام میں ایک عیدگاہ و قبرستان کے لیے جدوجہد کر رہے محمد عرفان کا کہنا ہے کہ قبرستانوں کے غائب ہونے کی کہانی صرف بھوپال میں ہی نہیں ہے، بلکہ پورے مدھیہ پردیش کا یہی حال ہے اور یہ سب کچھ وقف بورڈ کی بے توجہی کی وجہ سے ہو رہا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ریوینیو آفیسروں کی بھی کافی بد معاشی ہے۔ رتلام میں زیادہ تر وقف اراضی و قبرستانوں کے سروے نمبر بدل دیے گئے، جس کی وجہ سے انہیں وقف جائیدادوں میں خرد برد کرنے میں آسانی ہو رہی ہے۔ پورے مدھیہ پردیش میں بڑے پیمانے پر وقف کی ملکیت میں ہیرا پھیری اور ناجائز و غیر قانونی قبضے کیے جا رہے ہیں اور یہاں کا مسلمان اس مسئلے پر ابھی تک خاموش ہے۔

بھوپال میں وقف پر کام کرنے والے لوگوں کا کہنا ہے کہ اصل مسئلہ ہمارے علما کا وقف کے معاملے میں خاموش رہنا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے امام یا علما ہر جمعہ کی نماز میں لوگوں کو وقف کے معاملے میں بیدار کریں۔ ہمارے رہنما اب وقف کے تحفظ کے بارے میں سوچیں۔ خاص طور پر قبرستانوں کے بارے میں سوچنے کی بے حد ضرورت ہے۔ نہیں تو ملک میں ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ ہمیں تدفین کے لیے دو گز زمین بھی نہیں ملے گی۔

واضح رہے کہ سال 1956 میں صوبہ مدھیہ پردیش بنا اور بھوپال اس میں شامل ہوگیا۔ یہاں 1960 میں مدھیہ پردیش وقف بورڈ کی تشکیل ہوئی۔ تاریخ کے صفحات سے معلوم ہوتا ہے کہ 1949 میں جب ریاست بھوپال انڈین یونین میں ضم ہونے لگی تو نواب حمیداللہ خان فرماں روائے بھوپال نے حکومت ہند کو لکھا کہ اوقاف جو سابق فرمانراؤں اور ان کے افراد خاندان نے کئے ہیں، ان کا انتظام ان کے سپرد کر دیا جائے۔ اس طرح بھوپال کے اوقاف تین حصوں میں تقسیم ہوئے۔ جو اوقاف فرمانروائے بھوپال نے کیے وہ اوقاف شاہی کہلائے۔ جن کا کوئی جداگانہ متولی نہ تھا اور جو پہلے سے محکمہ اوقاف اہل اسلام کے انتظام میں تھے، یہ اوقاف عامہ کہلائے۔ اور جن اوقاف کے متولی ہیں اور ان کا علیحدہ علیحدہ انتظام کرتے ہیں ان اوقاف کی نگرانی مدھیہ پردیش وقف بورڈ کرتا ہے۔

سب سے زیادہ مقدمے مدھیہ پردیش میں

وقف سے متعلق قانونی معاملے سب سے زیادہ مدھیہ پردیش میں ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق یہاں فی الوقت 5299 قانونی معاملے مدھیہ پردیش کی مختلف عدالتوں میں ہیں۔ سب سے زیادہ 4285 معاملے وقف ایکٹ 1995کے دفعہ 54کے تحت ہیں۔ وہیں سپریم کورٹ میں ابھی 2مقدمے، ہائی کورٹ میں 200 مقدمے، وقف ٹریبیونل میں 635 مقدمے اور مدھیہ پردیش کے دیگر عدالتوں میں 177 مقدمے چل رہے ہیں۔

اعداد و شمار یہ بھی بتاتے ہیں کہ مدھیہ پردیش میں مقدموں میں اضافہ ہوا ہے۔ نومبر 2106میں یہاں کے مختلف عدالتوں میں 4297 مقدمے چل رہے تھے، جبکہ اس وقت مقدموں کی تعداد 5299 ہے۔ یعنی گزشتہ چار سالوں میں ایک ہزار سے زائد مقدمے بڑھے ہیں۔ وقف ایکٹ 1995کے تحت مدھیہ پردیش میں کل 14,863وقف اسٹیٹ اور 20,890رجسٹرڈ وقف جائیدادیں ہیں۔ وہیں یہاں 3285 وقف جائیدادوں پر سرکار اور لوگوں کے ناجائز قبضے ہیں۔ یہ تمام جانکاری سنٹرل وقف کونسل سے آرٹی آئی کے تحت حاصل ہوئی ہیں۔

قبرستانوں کو روشن کرنے اور ناجائز قبضوں سے آزاد کرانے کا فیصلہ

ایک جانب غائب قبرستانوں پر وقف بورڈ خاموش نظر آتا ہے تو وہیں دوسری جانب مدھیہ پردیش کی شیوراج سنگھ حکومت نے مدھیہ پردیش کے وقف قبرستانوں کو روشن کرنے کے ساتھ ساتھ ناجائز قبضوں کو آزاد کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔ مدھیہ پردیش کا شمار ہندستان کی ان ریاستوں میں ہوتا ہے جو وقف کردہ قبرستانوں کی تعداد کے لحاظ سے ملک بھر میں دوسرے نمبر پر ہیں۔

ایک خبر کے مطابق مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ کی ہدایت پر محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود نے ایک منصوبہ تیار کیا ہے کہ تمام قبرستانوں میں لائٹ کا مناسب انتظام کیا جائے۔ حکومت کا ماننا ہے کہ قبرستانوں میں لائٹ کا مناسب نظام نہیں ہونے سے رات کے وقت ہونے والی تدفین میں مسلم سماج کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ مدھیہ پردیش حکومت خود مانتی ہے کہ صوبہ میں وقف بورڈ کے زیر انتظام پانچ ہزار سے زیادہ قبرستان ہیں، مگر ان میں سے ستر فیصد سے زیادہ ناجائز قبضوں کا شکار ہیں۔ حکومت کی کوشش انہیں ناجائز قبضوں سے آزاد کرانے کے ساتھ وقف زمین پر فلاحی پروجیکٹ تیار کرنے کی ہے تاکہ مسلم سماج کے لئے فلاح کا کام کیا جا سکے۔ لیکن جب ہفت روزہ دعوت نے کھوج کی تو پتہ چلا کہ حکومتیں ایسے وعدے مدھیہ پردیش کے تشکیل کے بعد سے ہی مسلسل کرتی آرہی ہیں۔

ہفت روزہ دعوت کے پاس مدھیہ پردیش حکومت کا وہ حکم نامہ موجود ہے جسے اس نے 16 فروری، 1981 صوبہ کے تمام ضلع کلکٹرس کو جاری کیا تھا۔ اس حکم نامہ میں واضح طور پر کہا گیا تھا کہ حکومت کو لگاتار ایسی شکایتیں مل رہی ہیں کہ صوبہ میں مختلف قبرستانوں پر سماج دشمن عناصر کے ذریعہ ناجائز و غیر قانونی قبضے کیے جا رہے ہیں اور ریوینیو آفیسرس آنکھیں بند کر لیتے ہیں۔ اس حکم نامہ میں صاف طور پر حکومت کی جانب سے صوبہ کے تمام کلکٹروں کو کہا گیا تھا کہ پورے مدھیہ پردیش میں جہاں کسی قبرستان پر کسی بھی طرح کا ناجائز قبضہ ہوا ہو اسے فوراً کارروائی کرکے ہٹا دیا جائے۔ ساتھ ہی تمام قبرستانوں میں یہ بھی جانچ کریں کہ ان پر کوئی ناجائز قبضہ تو نہیں ہوا ہے۔ اگر جانچ میں ناجائز قبضہ ثابت ہوتا ہے اور پٹواری کے ذریعہ اس ناجائز قبضہ کو چھپایا گیا ہے تو اس پٹواری کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔

ایک ایسا ہی حکم نامہ حکومت کی جانب سے 27 جنوری 1987 کو بھی جاری کیا گیا تھا۔ اس میں تمام ضلع کلکٹروں سے صوبہ کے تمام قبرستانوں کے تحفظ کے لئے چہار دیواری اور تار فینسنگ کا کام کرانے کی ہدایت دی گئی تھی۔

یکم جنوری 1988 کو بھی صوبہ کے تمام کلکٹروں کو حکم نامہ جاری کر کے کہا گیا کہ جن قبرستانوں پر ناجائز قبضہ ہے اس کی فہرست آپ کو بھیجی جا رہی ہے۔ حکومت چاہتی ہے کہ ان ناجائز و غیر قانونی قبضوں کو حقیقت میں ہٹایا جائے۔ اگر اس کے علاوہ بھی کوئی ایسا قبرستان ہے جس پر ناجائز قبضہ ہوا ہے تو اسے بھی اس فہرست میں شامل کریں۔ ساتھ ہی حکومت کو یہ بھی جانکاری بھیجے کہ ان قبرستانوں کی چہار دیواری اور تار فینسنگ کا کام کرانے میں کتنے بجٹ کی ضرورت پڑے گی۔

اس حکم نامہ میں مزید لکھا ہوا ہے کہ خود وزیر اعلیٰ ماہ فروری میں آپ کے اس کام کا جائزہ لے لیں گے اس لیے یہ جانکاری کسی بھی حالت میں 31 جنوری، 1988 تک مل جانی چاہیے۔ لیکن لگتا ہے کہ حکومت کے اس حکم نامہ پر بھی کلکٹروں نے کوئی خاص توجہ نہیں دی ہو گی۔

25 نومبر 1989 کو پھر سے صوبہ کے تمام ضلع کلکٹرس کو ایک حکم نامہ جاری کیا گیا اور اس حکم نامہ میں بھی واضح طور پر کہا گیا کہ پورے مدھیہ پردیش میں جہاں بھی قبرستانوں پر کسی بھی طرح کا ناجائز قبضہ ہوا ہے اسے فوراً کارروائی کر کے ہٹایا جائے۔ ساتھ تمام ضلع کلکٹروں سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ تمام قبرستانوں کے تحفظ کے لیے چہار دیواری اور تار فینسنگ کا کام کیا جائے اور یہ کام خود کلکٹروں کی نگرانی میں ہونا چاہیے۔

بی جے پی کی قبرستانوں پر سیاست

ایک جانب جہاں مسلمان اپنے قبرستان کے مسئلہ سے پوری طرح بے خبر ہیں، وہیں اس ملک میں اب قبرستانوں کو لے کر سیاست شروع ہو چکی ہے۔ بی جے پی کے رکن پارلیمنٹ ساکشی مہاراج نے گزشتہ دنوں ایک سبھا میں کہا کہ ’’گاؤں میں اکثر دیکھا گیا ہے کہ اگر ایک بھی مسلم گاؤں میں ہو تو قبرستان کافی بڑا ہوتا ہے لیکن ہندو اکثر داہ سنسکار کے لیے گنگا کنارے یا کھیت کی میڑھ پر جاتے ہیں۔ کیا یہ سراسر ناانصافی نہیں ہے؟ ہمارے صبر کا امتحان نہ لیا جائے۔ قبرستان اور شمشان تناسب کے مطابق ہونا چاہئے‘‘۔

وہیں مدھیہ پردیش میں حالیہ دنوں میں رام مندر کے چندے کے نام پر نکلے جلوس کی وجہ سے اجین واقعہ کے بعد آچاریہ شیکھر نے ایک اشتعال انگیز بیان دیتے ہوئے کہا کہ ’’مدھیہ پردیش میں اتنے قبرستان بنیں گے کہ تدفین کی جگہ کم پڑ جائے گی‘‘۔ اس سے قبل اتر پردیش اسمبلی انتخابات میں خود ملک کے وزیر اعظم قبرستان اور شمشان کی بات کر چکے ہیں۔

قبرستان کے تحفظ کے لیے خواتین میدان میں

بھوپال میں غائب ہوتے قبرستانوں کی کہانیوں کے درمیان ایک ایسی کہانی بھی ہے، جو آپ کو غور و فکر کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ یہ کہانی بھوپال مسرود (وارڈ نمبر 52) علاقے کے عورتوں کی ہے۔ جب ان عورتوں نے دیکھا کہ ان کے علاقے کے ایک قبرستان پر زمین مافیاؤں کی دخل اندازی زیادہ ہی بڑھتی جارہی ہے اور مرد حضرات انہیں روکنے میں ناکام ثابت ہو رہے ہیں تب یہ عورتیں قبرستانوں کے تحفظ کے لئے خود ہی میدان میں کود پڑیں۔

حالانکہ ان کے لیے یہ کام اتنا آسان نہیں رہا۔ انہیں جہاں ایک طرف گالیاں دی گئیں اور ان کے بارے میں طرح طرح کی باتیں و سوال اٹھائے گئے، وہیں ان کے خلاف یہ الزام لگاتے ہوئے کہ ان کا ارادہ قبرستان پر قبضے کا ہے، مقدمہ بھی درج کرایا گیا۔ اس کے باوجود عورتوں کی اس کمیٹی نے برسوں سے زمین مافیاؤں کے چنگل میں پڑی قبرستان کی اس زمین کو نہ صرف آزاد کرا دیا ہے بلکہ اس کے سبھی دستاویزات وقف بورڈ، تحصیل اور ریوینیو ریکارڈ سے بھی نکال کر پیش بھی کر دیئے ہیں۔

ہفت روزہ دعوت کے ساتھ خاص بات چیت کرتے ہوئے مسرود وقف قبرستان کمیٹی کی صدر فریدہ بانو بتاتی ہیں کہ یہ سفر بڑا مشکلوں بھرا ہے۔ شروع سے لے کر اب تک پریشانی ہی پریشانی رہی۔ ہمیں کافی برا بھلا کہا گیا۔ ہمارے خلاف بد کلامی کی گئی ہے لیکن ہم عورتیں ڈٹی رہیں اور اپنی لڑائی جاری رکھی کیونکہ ہمیں لگتا ہے کہ قبرستان کا بچا رہنا ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس سفر میں ان کی ایک ساتھی اور اس کمیٹی کی سکریٹری منور جہاں ساتھ چھوڑ چکی ہیں۔ انہیں اسی قبرستان میں دفن کیا گیا ہے۔ ان کے چلے جانے کے بعد اب بھی سکریٹری کا عہدہ خالی ہے۔فریدہ بانو کے مطابق ان کی جدوجہد کی کہانی کی شروعات سال 2017 میں ہوئی۔ یہ کہانی مسرود کے قدیم قبرستان سے جڑی ہے۔ اس قبرستان پر قبضہ کی نیت سے زمین مافیاؤں نے یہاں موجود قبروں پر مٹی اور ملبہ ڈال کر برابر کرنا شروع کر دیا تاکہ قبرستان کا وجود ہی ختم ہو جائے۔ پہلے سے موجود قبرستان کمیٹی میں شامل مردوں نے ابتدا میں اس کی مخالفت کی لیکن بعد ازاں انہوں نے زمین مافیاؤں کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے۔ تب فریدہ اپنی دوستوں کے ساتھ اس قبرستان کو بچانے کی لڑائی میں کود پڑیں۔

اس طرح سے یہ قبرستان ختم ہونے سے بچ گیا۔ حالانکہ فریدہ بانو یہ بھی بتاتی ہیں پہلے تو ہم پر خوب ہنسا گیا۔ لیکن جب ہم کامیاب ہوتے نظر آئے تو لوگ گالی گلوج اور الٹے سیدھے الفاظ کے استعمال پر اتر آئے۔

فریدہ بانو بتاتی ہیں کہ اس قبرستان کی زمین کو تین بار بیچا جا چکا ہے۔ ابھی بھی اس پر زمین مافیاؤں کی نظریں ٹکی ہوئی ہیں۔ ایسے میں ہماری کوشش ہے کہ کسی طرح سے قبرستان کی باؤنڈری بن جائے تاکہ یہ قبرستان ہر طرح سے محفوظ ہو جائے۔ وہ کہتی ہیں کہ جس تیزی سے ہمارے قبرستان غائب ہو رہے ہیں اس کے بعد تو ہمیں مرنے کے بعد دو گز زمین کا نصیب ہونا بھی مشکل ہو گا۔ آگے آنے والی نسل کیا کرے گی۔ آگے آنے والے دن کیسے ہوں گے۔

وہ کہتی ہیں کہ وقف جائیدادوں کو خرد برد کرنے میں بیشتر مسلمان ہی شامل ہیں۔ لیکن ہم بولتے نہیں، خاموش رہتے ہیں۔ اس لیے ضرورت ہے کہ اب عورتوں کو ہی اس کے تحفظ کے لئے آگے آنا چاہیے کیونکہ جب ہمارا دخل بڑھے گا، تب ان کے اندر ایک ڈر پیدا ہو گا۔

49 سال کی فریدہ بانو سال 2009 سے ’امن دیپ مہیلا ادھیکار سمیتی‘ بنا کر اپنے علاقے کی بچیوں و عورتوں کو مفت تعلیم دینے کا کام کر رہی ہیں، ان کا یہ کام اب بھی جاری ہے اور اس کام میں بھی انہیں کافی جدوجہد کا سامنا کرنا پڑا۔ حالانکہ فریدہ بانو کی خود کی کہانی بھی کافی کچھ سوچنے پر مجبور کر دینے والی ہے۔

ایک طویل گفتگو میں بتاتی ہیں کہ جب وہ 11 ویں کلاس میں تھیں، تب ہی ان کے گھر والوں نے ان کی شادی کر دی۔ لیکن انہیں پڑھنے کی خواہش بہت تھی چنانچہ انہوں نے کچھ دن رک کر پھر سے سسرال میں اپنی پڑھائی جاری رکھی اور گریجویشن کی ڈگری حاصل کی۔ حالانکہ یہ پڑھائی کرنا بھی ان کے لئے کافی جدوجہد بھرا کام رہا۔ اس کام میں بھی انہیں کافی پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔

فریدہ بانو ہفت روزہ دعوت کے ذریعہ ملک کی تمام عورتوں سے یہ اپیل کرنا چاہتی ہیں کہ آج کے زمانے میں عورتوں کو آگے آنے کی ضرورت ہے۔ آپ پیدا ہوئیں، بڑی ہوئیں اور شادی ہو گئی، صرف یہی زندگی نہیں ہوتی ہے۔ اس سے ہٹ کر بھی زندگی ہوتی ہے۔ دنیا میں آئے ہیں تو کچھ کرنے کا بھی سوچنا چاہیے۔ اور آئی ہیں تو ایک دن جانا بھی ہے۔ اس کی تیاری بھی تو ہونی چاہیے۔

بتا دیں کہ اس قبرستان کے تحفظ کے لیے جو کمیٹی تشکیل دی گئی ہے، اس میں عورتوں کو ہی سبھی اہم ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔7 رکنی کمیٹی میں صدر، سکریٹری اور خازن کے عہدہ پر خواتین ہیں جبکہ ممبروں میں 4 مرد بھی شامل ہیں۔

***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021