ایک ہفتے میں ہجومی تشدد کےچار واقعات

حکومت کی مجرمانہ خاموشی اور غفلت سے سماج خطرناک راستے پر

دعوت نیوز ڈیسک

 

آزادی کے بعد ہی سے ہندوستانی نظامِ حکومت میں ووٹ بینک کی سیاست کا رجحان حاوی رہا ہے۔ یہی ووٹ بینک کی سیاست، ملک کی ترقی کی رفتار بھی طئے کرتی ہے اور عوام کی بہبود کے لیے طئے ہونے والے منصوبے بھی ووٹ بینک مضبوط کرنے کے حق میں استعمال ہوتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملک کے حکومتی نظام میں کرپشن نے بھی ایک مضبوط ذیلی حکومت قائم کر رکھی ہے۔ جس کی وجہ سے ہونے والی یک طرفہ وسائل کی تقسیم نے سماج میں پہلے سے موجود ابتدائی عدم توازن کو اب تک برقرار رکھا ہے اور اسی عدم توازن سے ہمدردی جتا کر رائے دہندگان کو راغب کیا جاتا ہے۔ وسائل کی اسی یک طرفہ تقسیم سے ذات پات اور برادری کے درمیان خلیج مسلسل گہری ہوتی رہی ہے۔ ہندووادی نظام کے نفاذ کے لیے سیکولرازم کا موقع و محل کے حساب سے خوب استعمال کیا گیا۔ دلت، آدی واسیوں اور مسلمانوں کو ثانوی درجے کا شہری بنا کر انسانی حقوق اور عزت سے محروم کیا گیا۔ اس فارمولے پر تمام ہی حکومتیں کاربند رہی ہیں۔
موجودہ حکومت اس سے اور آگے بڑھتے ہوئے اپنی کامیابی اور ناکامیوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے کرپشن اور مجرمانہ قتل و غارت گری والے ہندوستان کی تعمیر کے لیے ماب لنچنگ، فسادات، پولیس مظالم سے چشم پوشی کر کے وقتی مفاد تو حاصل کر رہی ہے لیکن انسانی خون کے پیاسے سماج کی تشکیل سے برآمد ہونے والے دھماکہ خیز نتائج سے غفلت برتنا اس کی نااہلی اور کمزور ہونے کا ثبوت ہے۔ یہ سوال کہ ماب لنچنگ کے مجرمین جب کھلے عام سماج میں گھومتے پھرتے ہیں تو سماج پر کس حد تک اثر انداز ہو سکتے ہیں اور کھلے عام بربریت کے مظاہرے اور ان کے وائرل ہوتے ویڈیوز معاشرے کے نوجوانوں اور بچوں کو کس طرح متاثر کرسکتے ہیں؟ حکومت کے لیے بے معنی ہے کیونکہ جب حکومت خود اس طرح کے حالات کو اپنے لیے سازگار سمجھتی ہے تو وہ کیوں ماب لنچنگ جیسے واقعات کے سد باب کے لیے اقدامات کرے گی؟
ایک ہفتے کے دوران الگ الگ واقعات میں بریلی میں چوری کے شک میں باسط علی نامی نوجوان کو پیٹ پیٹ کر موت کے گھاٹ اتارا گیا اور دلی کے کیب ڈرائیور آفتاب عالم کو سواری بن کر یو پی میں قتل کرنے کی واردات انجام دی گئی۔ 8 ستمبر کو غازی پور کے دلدار نگر میں گائے ذبیحہ کے شبہ میں سلیم قریشی نامی شخص کو پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا۔ پانی پت میں اخلاق سلمانی نامی شخص کو پانی طلب کرنے پر بری طرح زدوکوب کر کے ہاتھ کاٹ دیا گیا۔ کیرالا سے مزید دو واقعات کی خبریں بھی سوشل میڈیا میں زیر گشت ہیں۔ ان واقعات کی تفصیلات ہرگز ایک مہذب معاشرے کا حصہ نہیں بن سکتی ہیں۔اس ہفتے میں سب سے پہلے چار سمبر کو بریلی میں ماب لنچنگ کا ایک اور معاملہ منظر عام پر آیا۔ باسط علی نامی 32 سالہ نوجوان کو شر پسندوں کے ہجوم نے چوری کے شک میں بری طرح زد وکوب کیا۔ مقتول باسط علی کو لوہا چوری کرنے کے الزام میں جنونی ہجوم نے پیڑ سے باندھ کر بری طرح مارا پیٹا۔ اطلاعات کے مطابق باسط علی کہیں جا رہا تھا کہ اس پر چوکیدار کی نظر پڑ گئی اور اس نے اسے چور سمجھ کر شور مچا دیا۔ شور سن کر ہجوم جمع ہو گیا اور لوگوں نے باسط علی کو مار پیٹ کرتے ہوئے اسے درخت سے باندھ دیا گیا۔ اس واقعہ کی بے چین کر دینے والی ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر گشت کر رہی ہیں۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق ویڈیو میں جو شخص نظر آ رہا وہ نشہ کا عادی ضرور تھا مگر چور نہیں تھا۔ ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ باسط علی کے دونوں ہاتھوں کو درخت سے باندھ دیا گیا ہے۔ پٹائی کے دوران باسط علی لگاتار مدد کے لیے آوازیں لگا رہا تھا لیکن وہاں موجود لوگوں میں سے کسی نے اس پر توجہ نہیں دی بلکہ کئی تو خوشی کا اظہار کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس دوران کچھ لوگ مظلوم باسط علی کے پاس آئے ضرور مگر وہ صرف ویڈیو بنا کر واپس لوٹ گئے۔
پولیس نے بتایا کہ پٹائی کرنے کے بعد کچھ لوگ باسط علی کو تھانہ لے کر آئے۔یہاں وہ لوگ بھی پہنچے جن کا سامان چوری ہونے کے الزام میں اس کی پٹائی کی گئی تھی۔ تھانہ میں انہوں نے کہا کہ چونکہ ان کا سامان واپس مل گیا ہے اور باسط علی ان کا پڑوسی ہے لہذا وہ شکایت درج نہیں کرانا چاہتے ۔ پولیس اسٹیشن میں مبینہ سمجھوتہ ہونے کے ایک گھنٹے بعد باسط علی نے دم توڑ دیا۔ پولیس کے مطابق پوسٹ مارٹم رپورٹ آنے کے بعد ملزمان کو گرفتار کیا جائے گا۔ اس واقع کے بعد باسط علی کا خاندان کافی خوفزدہ ہے۔ مقتول کی والدہ نے میڈیا سے کہا ’’جب مجھے معلوم ہوا کہ باسط علی کو کچھ لوگ پیٹ رہے ہیں تو میں نے اپنے چھوٹے بیٹے کو اسے بچانے کے لیے کہا لیکن وہ اتنا ڈر گیا تھا کہ اس نے خود کو ایک کمرے میں بند کر لیا۔ مقامی لوگوں نے میرے بیٹے کو مستی کے لیے پیٹا۔ بعد میں پولیس اہلکاروں نے اسے رکشا پر گھر چھوڑ دیا۔ وہ شدید درد میں مبتلا تھا۔ ہم اسے اسپتال لے گئے لیکن وہاںاس کی موت ہوگئی۔‘‘
اس کے بعد سات ستمبر کو اتر پردیش کے گوتم بدھ نگر کے بدلاپور تھانے میں ٹیکسی چلا رہے ایک مسلمان آفتاب عالم کو بلند شہر سے لوٹتے وقت قتل کر دیا گیا۔ آفتاب عالم ترلوک پوری دہلی کے رہنے والے تھے۔ آفتاب عالم سواری لے کر گڑگاؤں سے بلند شہر گئے تھے واپسی میں تین لوگ ان کی گاڑی میں زبردستی سوار ہوئے اور آگے تک چھوڑ دینے کے لیے کہا۔ آفتاب عالم کو شک ہوا تو انہوں نے اپنے بیٹے محمد صابر کو فون ملایا اور موبائل آن رکھا۔ وہ تینوں لوگ آفتاب عالم کو مسلمان ہونے کا طعنہ دے رہے تھے۔ وہ لوگ آفتاب عالم پر غصہ ہو رہے تھے کہ مسلمان شراب کیوں نہیں پیتے؟ وہ انہیں شراب پلانا چاہتے تھے پھر انہوں نے آفتاب کو "جے شری رام” بولنے پر مجبور کیا۔ اس کے بعد آفتاب عالم کے موبائل سے کال منقطع ہو جاتی ہے اور پھر فون بند ہو جاتا ہے۔
آفتاب عالم کے بیٹے محمد صابر پولیس اسٹیشن جاتے ہیں اور پھر پولیس کی مدد سے اپنے والد اور ان کی ٹیکسی کو تلاش کیا جاتا ہے۔ تلاش کے دوران بدلا پور تھانے سے 4 کلومیٹر آگے آفتاب عالم کی ٹیکسی ملتی ہے اور ہسپتال میں لاش ملتی ہے۔ لیکن اتر پردیش پولیس اس واقعے کو ایک معمولی جرم بتانا چاہتی ہے جب کہ آفتاب عالم کے بیٹے صابر نے فون کال کی ریکارڈنگ پیش کردی ہے تھی جو کہ لنچنگ کا کھلا ثبوت ہے۔ اس میں واضح طور پر آفتاب عالم کو مسلمان ہونے کی بناء پر ستایا جاتا ہے، شراب پینے پر مجبور کیا جاتا ہے اور جے شری رام کہنے کے لیے کہا جاتا ہے، بعد ازاں کسی بھاری چیز کے ذریعے آفتاب عالم کو قتل کر دیا گیا۔
یو پی پولیس نے گائے ذبیحہ کے شبے میں ایک مسلمان شخص پر ایک اور وحشیانہ حملے کیا۔ متاثرہ شخص کے اہل خانہ کے مطابق 30 اگست کی رات اتر پردیش پولیس کے اہلکاروں نے 55 سالہ پھل فروش سلیم قریشی پر ان کے گھر میں داخل ہو کر وحشیانہ حملہ کیا۔ سلیم قریشی کی اہلیہ سروری بیگم نے بتایا کہ پولیس اہلکار رات دو بجے کے قریب ان کے گھر پہنچے اور ان کے شوہر کو اتنا مارا کہ ان کے دائیں پاؤں کی ایڑی کا ایک حصہ ٹوٹ گیا۔ اس کے بعد پولیس نے ان کے بیس ہزار روپے بھی چوری کر لیے اور وہاں سے بھاگ گئے۔ سروری بیگم کے مطابق پولیس اہلکاروں نے حملے کے پیچھے کوئی وجہ بتانے سے انکار کر دیا تھا۔ اتر پردیش پولیس نے دعویٰ کیا کہ وہ غیر قانونی گائے کے ذبیحہ سے متعلق ایک رپورٹ کی بنیاد پر اس کے گھر کا دورہ کیا تھا۔ پیر کے آپریشن کے لیے سلیم قریشی کو ضلع وارانسی کے ہری بندھو اسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اس واقعہ کی پہلی اطلاع 8 ستمبر کو پہلی بار میڈیا میں آئی۔ایک اور بہیمانہ تشدد کے واقعہ میں اخلاق سلمانی نامی 28 سالہ نوجوان روزگار کی تلاش میں پانی پت گیا تھا۔ اخلاق سلمانی پیشے سے حجام ہے۔ لاک ڈاؤن کے دوران کاروبار ماند پڑ جانے کی وجہ سے وہ دلی سے پانی پت پہنچا۔ رہائش حاصل کرنے سے قاصر وہ کشن پورہ کے علاقے میں ایک عوامی پارک میں داخل ہوا تاکہ کچھ وقت آرام کیا جاسکے۔ چند گھنٹے بعد اخلاق کو پیاس کا احساس ہوا اور پانی کی تلاش میں ادھر ادھر گھومتا رہا اور ایک مکان کی دہلیز پر پہنچا اور وہاں اس نے پانی طلب کیا۔ پانی دینے کے بجائے گھر والوں نے اسے گھر کے اندر گھسیٹ کر بے تحاشا مار مار کر ادھ موا کر دیا پھر ایک جگہ لے کر گئے اور وہاں ’’آرا مشین‘‘ سے اس کا وہ ہاتھ کاٹ دیا جس پر 786 کا نشان گدوایا ہوا تھا۔ اس واقعہ کو ہوئے دو ہفتے گزر چکے ہیں لیکن یہ خبر میڈیا میں اب آئی جبکہ ایک ہفتے میں یہ چوتھی لنچنگ کی خبر ہے۔

ماب لنچنگ کے واقعات میں ملوث مجرم جب کھلے عام سماج میں گھومتے پھرتے ہیں تو یہ سماج پر کس حد تک اثرانداز ہوسکتے ہوں گے ۔ کھلے عام بربریت کے مظاہرے اور ان کے وائرل ہوتے ویڈیوز معاشرے کے نوجوانوں اور بچوں کو کس طرح متاثر کرسکتے ہیں؟ ۔یہ سوالات حکومت کے لیے بے معنی ہیں۔کیونکہ جب حکومت اس طرح کے حالات کو اپنے لیے سازگار سمجھتی ہے تو وہ کیوں ماب لنچنگ جیسے واقعات کے سد باب کے لیے اقدامات کرے گی

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 20-26 ستمبر، 2020