ایک شخصیت ساز شخصیت

مولانا سراج الحسن کو چشم ہائے نم کا خراج

سراج الدین ندوی

مولانا علی میاں ؒ نے کاروان زندگی
(خود نوشت سوانح عمری) میں ریاست کرناٹک کے دورے کا تذکرہ کرتے ہوئے مولانا محمد سراج الحسن ؒ کی فعالیت اور ان کی انتظامی صلاحیتوں کا تذکرہ کیا ہے۔ اپنے وقت کے عظیم اسلامی مفکر کا اب سے تقریبا 45 سال پہلے یہ اعتراف کرنا کہ مولانا سراج الحسن ؒ بہت فعال ومتحرک اور انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہیں، مولانا مرحوم کے لیے بڑا خراج عقیدت ہے۔
میں تحریک اسلامی کی جن شخصیتوں سے بہت متاثر ہوا ان میں ایک اہم نام مولانا سراج الحسن کا بھی ہے۔ ان کا خلوص وبےلوثی، تواضع وانکساری، اپنائیت وہمدردی، طرز تکلم وحسن بیانی، ابتسام وشگفتہ مزاجی، دل آویزی ودلکشی، ذکاوتِ حس وخاطرداری ان کے ایسے اوصاف ہیں جن کا اعتراف ہر اس شخص کو ہوگا جو ان سے کم ازکم ایک مرتبہ ملاقات کر چکا ہو۔ میری ان سے پہلی ملاقات 1979 میں ہوئی۔ ہوا یہ تھا کہ 4 اپریل 1979 کے دن ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی گئی تھی تب ہندوستان میں بھی اس کا ردعمل سامنے آیا تھا خصوصاً مسلم لیگیوں نے جماعت کے دفاتر میں توڑ پھوڑ کی تھی حالانکہ بھٹو کی پھانسی کا کوئی تعلق جماعت اسلامی ہند سے نہیں تھا۔
سہارنپور کے دفتر جماعت واقع پل کمبوہان میں بھی آگ زنی کی گئی تھی۔ یہ خبر سن کر میں بھی سہارنپوپر پہنچا تھا کیوں کہ رفقاء سہارنپور سے میرا گہرا تعلق تھا میری تربیت میں مولانا عطاء الرحمن وجدی صاحب نے بڑا اہم رول ادا کیا تھا۔ اس وقت ٹیلیفون وغیرہ کی سہولت مہیا نہ تھی۔ اخبارات کے ذریعے ہی یہ خبر مجھ تک پہنچی تھی۔ میں جب شام کو سہارنپور پہنچا تو معلوم ہوا کہ مولانا سراج الحسن اور مولانا عبدالعزیز مرکز کی ہدایت پر صورت حال کا جائزہ لینے اور رفقاء کی ڈھارس بندھانے کے لیے سہارنپور تشریف لائے ہوئے ہیں۔ اس وقت مولانا سراج الحسن کرناٹک کے امیر حلقہ اور مولانا عبد العزیز آندھرا پردیش کے امیر حلقہ تھے۔ عشاء کی نماز بعد عبید اللہ کاظم صاحب کے بالا خانے پر ارکان اور کارکنان کی میٹنگ ہوئی جس سے دونوں اکابرین نے اپنے مخصوص اور موثر انداز میں خطاب کیا اور تاریخ کے حوالے سے بتایا کہ تحریک کے سفر میں یہ مراحل آتے رہتے ہیں اور یہ آزمائشیں ہی تحریک کا راستہ ہموار کرتی ہیں۔ دوران خطاب آپ نے کچھ اشعار بھی سنائے ان میں سے چند اشعار آج بھی میرے ذہن پر ابھر رہے ہیں۔
تندئ باد مخالف سے نہ گھبرا اے عقاب
یہ تو چلتی ہے تجھے اونچا اڑانے کے لیے
جہاں میں اہل ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے
نہیں نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
مولانا کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ ان کی یادداشت بلا کی تھی۔ جب کسی سے ایک بار ملاقات ہو جاتی تو اسے ہمیشہ یاد رکھتے۔ اس پہلی ملاقات کے حوالے سے انہوں نے مجھے بھی ہمیشہ یاد رکھا۔ ہمارے ایک دوست مولانا زبیر ندوی بھٹکلی ہیں انہوں نے ایک بار مولانا کی یادداشت کا تذکرہ کرتے ہوئے مجھے بتایا: "میری ایک سرسری ملاقات مولانا سے سعودی عرب میں ہوئی تھی۔ کئی سال بعد جب مولانا سے بھٹکل میں ملاقات ہوئی تو مجھے دیکھ کر فرمایا:- "مولانا زبیر صاحب آپ سے تو ہماری پہلی ملاقات سعودی عرب میں ہو چکی ہے۔”
مولانا کوئی تعلیمی ڈگری نہ رکھتے تھے مگر انہوں نے اپنے مطالعہ، تدبر وتفکر، قوتِ مشاہدہ وتجزیہ اور ذکاوتِ حس سے اپنی شخصیت وکردار کو بہت جلا بخشی تھی۔ جماعت اسلامی ہند جیسی منظم وفعال اور طاقتور جماعت کی قیادت کے لیے ان کا انتخاب اس کی بین دلیل ہے۔
غالباً 1988 کی بات ہے جب علاقہ میرٹھ کے ارکان کا تفہیمی اجتماع تاج پور ضلع بجنور میں ہورہا تھا۔ میں اس اجتماع میں شرکت کے لیے رامپور سے حاضر ہوا تھا۔ اختتامِ اجتماع پر جب میں نے مولانا سے ملاقات کی تو مولانا نے اپنے بیگ سے ایک کتاب نکالی اور فرمایاس’’سراج صاحب آج کل میں آپ کی اس کتاب ( رسولِ خدا کا طریق تربیت) کا مطالعہ کر رہا ہوں‘‘۔ یہ بات اس وقت بھی میرے لیے ایک بڑا اعزاز تھی اور اس کی مہک میں آج بھی محسوس کرتا ہوں جب کہ مولانا ہمارے درمیان نہیں رہے۔ یہ افسوس ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ان کے جنازے میں شرکت سے محروم رہا۔ اللہ انہیں کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے۔ آمین۔
مولانا کو مطالعہ کا بہت شوق تھا مرکزی مکتبہ سے جو بھی کتاب شائع ہوتی پہلی فرصت میں اس کا بالاستیعاب مطالعہ کرتے۔ یہی وجہ تھی کہ اپنے وقت کے دانشوران اور علماء بھی انہیں بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ایک سیمینار میں مولانا مجاہد الاسلام قاسمیؒ نے ملاقات کے دوران مجھ سے ان کی خوبیوں کا تذکرہ کیا تھا۔
میں سمجھتا ہوں کہ جب آپ کی سوانح حیات مرتب کی جائے گی تو آپ کے درج ذیل اوصاف وخدمات ضرور بیان کیے جائیں گے۔
1۔ مولانا موصوف کو تحریک اسلامی کی قیادت اس وقت سونپی گئی جب تحریک ایک دو راہے پر کھڑی تھی اور انتخابی سیاست میں حصہ داری کا موضوع اندرون جماعت اضطراب وبے چینی کا سبب بنا ہوا تھا مگر آپ نے نہایت خوش اسلوبی، صبروتحمل، کسر وانکسار اور حسن تبادلہ خیال اور کثرت مشاورت سے تحریک کو ایک بڑی آزمائش سے بچالیا یہ آپ کے دورِ قیادت کا ایک بڑا کارنامہ ہے۔
2۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ قیادت اپنے گرد اپنے ہم خیال افراد کو جمع کرتی ہے یا اہم ذمہ داریوں پر اپنے ہم خیال افراد کو دیکھنا پسند کرتی ہے مگر آپ نے ایک طرف مولانا محمد شفیع مونس رح کو نائب امیر بنایا جو انتخابی سیاست میں شرکت پسند نہیں کرتے تھے دوسری طرف آپ نے عبدالعزیز صاحب کو نائب امیر بنایا جو انتخابی سیاست میں فعال شرکت کے حامی تھے تاکہ جماعت کے فیصلوں اور سرگرمیوں میں توازن باقی رہے۔
3۔ آپ نے مولانا سید جلال الدین عمری کو علی گڑھ سے مستقل مرکز بلا لیا اور انہیں نائب امیر بنایا تاکہ پیش آمدہ تمام امور ومسائل میں ان سے مشاورت اور رہنمائی ہوتی رہے تاکہ تحریک کسی اقدام یا مرحلے پر سر مو بھی شریعت سے انحراف نہ کر سکے۔
4۔ آپ نے علماء اور ذمہ داران مدارس سے گہرے اور خوشگوار تعلقات قائم کیے اس وقت جماعت اور علماء کے درمیان ایک بڑی خلیج پائی جاتی تھی آپ نے اس کو پاٹنے کی کوشش کی چنانچہ جماعت کے تئیں علماء کا رویہ تبدیل ہوتا ہوا نظر آیا۔
5۔ آپ نے غیر مسلم دانشوروں اور دھرم گرؤوں سے روابط بڑھائے اور اسلام کے سلسلے میں پائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ کرتے ہوئے ان کو تحریک سے قریب کرنے کا عظیم کام انجام دیا۔
6۔ آپ نے توازن کے ساتھ مرکز میں بزرگ قیادت اور نوجوان قیادت کا حسین امتزاج پیدا کیا ایک طرف آپ نے مولانا عبدالرشید، مولانا عبدالقیوم، مولانا غلام اکبر جیسے جہاں دیدہ اور تجربہ کار بزرگوں کی دیدہ وری سے تحریک کو ثمر آور بنایا تو دوسری طرف محمد جعفر صاحب محمد اشفاق صاحب جیسی فعال وزیرک جواں سال قیادت کے کاندھوں پر تحریک کو آگے بڑھانےکا موقع فراہم کیا۔
7۔ مولانا مرحوم کا رویہ ہر تحریکی ساتھی کے بارے میں اس قدر مشفقانہ اور محبت آمیز ہوتا تھا کہ ہر شخص یہ سمجھتا تھا کہ مولانا مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں۔ میں بھی یہی گمان کرتا تھا اور اب بھی کرتا ہوں کہ مولانا کو مجھ سے جو محبت اور شفقت تھی شاید کسی سے اتنی نہ تھی۔ 1992 میں جب بابری مسجد کا سانحہ پیش آیا اور جماعت اسلامی پر پابندی لگادی گئی، جماعت کے ذمہ داران کو سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا گیا۔ میرے بڑے بھائی حاجی جمال الدین صاحب کو بھی کئی مہینے تک جیل میں رہنا پڑا تھا۔ یہ کیسا المیہ تھا کہ ہماری ہی مسجد مسمار کی گئی اور ہمیں ہی جیلوں میں ٹھونس دیا گیا جب کہ مجرم آزادانہ دندناتے پھرتے رہے۔ واقعی ہندوستان کی تاریخ میں یہ سیاہ باب سب سے نمایاں رہے گا۔
جب جماعت کے قائدین رہا ہو کر آئے تو میں ان سے ملنے کے لیے مرکز گیا۔ جب مرکز پہنچا تو نماز عصر کا وقت ہو چکا تھا۔ میں سیدھے مسجد اشاعت اسلام کی طرف جانے لگا ابھی باہری گیٹ کے اندر داخل ہی ہوا تھا کہ ایک موہوم سی آواز کانوں میں آئی۔ میں اپنی سوچوں میں گم آگے بڑھتا رہا کہ پھر ایک آواز آئی "سراج بھائی! کیا میری آواز بہت ناتواں ہو گئی ہے؟” میں نے مڑ کر دیکھا تو مولانا سراج الحسن تھے میں ان کی طرف بڑھا مگر وہ مجھ سے زیادہ تیزی سے میری طرف بڑھے اور مجھے اپنے بازؤوں میں سمیٹ لیا۔ اس بغلگیری کی حرارت اور خوشبو میں آج بھی محسوس کر رہا ہوں۔
8۔ مولانا کا امتیازی وصف یہ تھا کہ آپ ریاست کرناٹک کے امیر حلقہ رہے ہوں یا مرکزی سکریٹری یا امیر جماعت تمام مناصب پر رہتے ہوئے آپ نے تحریک کی ذمہ داریاں اعزازی طور پر انجام دیں۔ کبھی کوئی مشاہرہ نہیں لیا۔ آپ ایک بڑے زمیندار گھرانے میں پیدا ہوئے آپ کے والد اپنے علاقے کے ایک بڑے رئیس تھے۔ جن سے لوگ قرض لیا کرتے تھے جب آپ پر گھر کی ذمہ داری آئی تو آپ نے تمام لوگوں کا قرض معاف کر دیا اور گھر والوں کو اکٹھا کرکے ان سے عہد لیا کے کوئی کسی مقروض سے قرض کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرے گا۔
9۔ آپ نے تحریکی خدمات کے ساتھ ملت کے تحفظ وبقا کے لیے بہت کوششیں کیں۔ ملی تنظیموں اور اداروں سے باہمی تعاون کی بہتر شکلیں تلاش کیں۔ مسلم پرسنل لاء بورڈ، مسلم مجلس مشاورت، بابری مسجد رابطہ کمیٹی کی سرگرمیوں میں آپ نے اہم رول ادا کیا
مولانا مرحوم کی پیدائش مارچ 1933 کو جول گیرہ ضلع رائچور میں ہوئی تھی اور آپ کا انتقال 2 اپریل 2020 سہ پہر کو اپنے گھر پر رائچور میں ہوا۔ سن 2003 کو پلنگ سے گرنے کی وجہ سے آپ کے کولہے کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی 20 مارچ 2020 کو جمعہ کے دن جب آپ غسل خانہ گئے تو وہاں گر پڑے۔ شکستہ ہڈی پر دوبارہ ضرب پڑی آپ کو ہاسپٹل داخل کیا گیا چوٹ پر چوٹ اور پھر ضعیف العمری کی وجہ سے بڑے کرب واضطراب میں چند دن ہاسپٹل میں گزارے۔ طبیعت قدرے سنبھلی تو ڈسچارج کر کے آپ کو گھر لایا گیا مگر وقت موعود آپہنچا تھا۔ 2 اپریل 2020 سہ پہر کو آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا۔ اپنے رب کا مطیع وفرماں بردار بندہ اپنے رب سے جا ملا۔
’’ اے رب کریم! تو اپنے دین کے اس خادم کے ساتھ عفو ودرگزر اور رحم وکرم کا معاملہ فرما اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرما اور تحریک اسلامی کو ان کا نعم البدل عطا فرما۔‘‘
آپ نے اپنی زندگی کے 88 سال اس دنیا میں گزارے۔ آپ کے والد کا نام ابو الحسن اور والدہ کا نام بادشاہ بیگم تھا۔
آپ کی اہلیہ خیر النساء صاحبہ چند ماہ قبل ہی اللہ کو پیاری ہو چکی تھیں انہوں نے پوری زندگی تحریکی امور میں آپ کا بڑا تعاون کیا۔ انہوں نے اولاد کی تربیت بھی اسلامی خطوط پر کی۔
آپ 19 سال کے تھے کہ ایک رفیق نے آپ کا جماعت سے تعارف کرایا۔ آپ نے جماعت کی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا چند سال ہی میں آپ نے جماعت کی رکنیت اختیار کرلی جب کہ آپ کی عمر پچیس سال کی تھی یہ سن 1957 کی بات ہے۔ اگلے سال ہی 1958 میں آپ حلقہ میسور (کرناٹک) کے امیر بنا دیے گئے پھر مسلسل 26 سال تک کرناٹک کے امیر حلقہ رہے۔ 1984 میں آپ کو امیر جماعت نے مرکزی سکریٹری کی حیثیت سے مرکز بلالیا۔ آپ 6 ماہ نائب امیر جماعت بھی رہے۔ سن 1990 میں آپ کو مجلس نمائندگان نے امیر جماعت منتخب کیا اور آپ 13 سال تک مسلسل جماعت کی قیادت کرتے رہے۔
مولانا ہم سے رخصت ہوگئے اور ہر شخص کو ایک نہ ایک دن رخصت ہونا ہی ہے مگر بہت سے لوگ رخصت ہونے کے باوجود اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں مولانا کی شخصیت بھی ایسے ہی لوگوں میں ہے جو اپنی خوبصورت یادوں، محبت آمیز رویوں اور مخلصانہ سرگرمیوں کے ساتھ ہمیں اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہیں گے۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
***

میں تحریک اسلامی کی جن شخصیتوں سے بہت متاثر ہوا ان میں ایک اہم نام مولانا سراج الحسن کا بھی ہے۔ ان کا خلوص وبےلوثی، تواضع وانکساری، اپنائیت وہمدردی، طرز تکلم وحسن بیانی، ابتسام وشگفتہ مزاجی، دل آویزی ودلکشی، ذکاوتِ حس وخاطرداری ان کے ایسے اوصاف ہیں جن کا اعتراف ہر اس شخص کو ہوگا جو ان سے کم ازکم ایک مرتبہ ملاقات کر چکا ہو۔