ایکناتھ کھڑسے نے بی جے پی کیوں چھوڑ دی؟

راشٹروادی کانگریس میں شمولیت سے او بی سی، مراٹھا و برہمن سیاست کا بن رہا ہےنیا مثلث کیا ملک میں شرد پوار کی سیاسی طاقت کے ابھرنے کا راستہ ہوگا ہموار؟

سید افتخار احمد، عثما ن آباد

 

جن دو بہوجن رہنماؤں نے مہاراشٹر میں بی جے پی کو اقتدار تک پہنچایا ان میں مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلیٰ گوپی ناتھ منڈے اور دوسرے ایکناتھ کھڑسے کا شمار ہوتا ہے۔ اگر بی جے پی کو ان دو قد آور رہنماؤں کا ساتھ نہ ملتا تو یہ دعویٰ کرنا غلط نہ ہوگا کہ ریاست میں بی جے پی کی وہ ساکھ نہ ہوتی جو آج کل ہے۔ شیوسینا نے ’مراٹھی مانس‘ کی سیاست جب شروع کی تھی اس وقت اگرچہ کہ کانگریس پارٹی سے اس کے بہت قریبی تعلقات تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ خود کانگریس ہی نے مہاراشٹر میں کمیونسٹ نظریات کی پارٹیوں کی طاقت خاص طور سے ممبئی میں ختم کرنے کی غرض سے شیوسینا کو اپنا اندرونی تعاون دیا تھا۔ شیوسینا یہ بات بخوبی جانتی تھی کہ اس کو اگر ایک طاقتور سیاسی پارٹی کی حیثیت سے ابھرنا ہے تو کانگریس پارٹی کی حمایت کرنے والے بہو جنوں کو اپنے ساتھ لانا ہوگا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے جیوتی باپھلے کے نظریات رکھنے والے چھگن بھجبل کو استعمال کیا۔ یہ ان ہی کی سیاسی حکمت عملی تھی کہ کانگریس پارٹی میں رہتے ہوئے اس کی قیادت یعنی مراٹھا سماج سے بدظن بہوجن طبقات کو شیوسینا میں شامل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ یہ حقیقت جب بھی تھی اور آج بھی مسلمہ ہے کہ مہاراشٹر کی کانگریس پارٹیوں چاہے وہ اندرا کانگریس ہو یا شرد پوار کی راشٹروادی کانگریس کا مکمل قبضہ ہے۔ انہوں نے کبھی بھی یہاں کے بہوجن طبقات کے حقوق ادا کرنے میں دل چسپی نہیں دکھائی اور آج بھی نہیں ہے۔ اب شرد پوار شاید اس پالیسی میں تبدیلی لاکر نئی طرز پر اپنی پارٹی کو پھر سے استوار کرنا چاہتے ہیں۔ اسی مقصد کے تحت انہوں نے چھگن بھجبل کو اپنی پارٹی میں شامل کیا۔ 1994 میں جب شیوسینا اور بی جے پی کو مہاراشٹر میں پہلی بار اقتدار حاصل ہوا تھا تب ریاست کے وزیر اعلیٰ کے لیے بالا صاحب ٹھاکرے نے بھجبل کی مضبوط دعویداری کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے منوہر جوشی کو شیوسینا کا پہلا وزیر اعلیٰ بنایا۔ اس واقعہ سے دل برداشتہ ہوکر چھگن بھجبل نے شیوسینا کو خیر باد کہہ دیا۔ بالکل اسی طرح جب مہاراشٹر میں دوسری مرتبہ 2014 میں بی جے پی اور شیوسینا کو اقتدار حاصل ہوا تو اس وقت کے بی جے پی کے قد آور رہنما اور 2009 سے 2014 تک حزب مخالف کے رہنما رہے ایکناتھ کھڑسے کو ان کے جائز حق سے محروم کرکے جس شخص کو ناگپور کے باہر کم ہی لوگ جانتے تھے دیویندر پھڈنویس کو وزیراعلیٰ بنادیا۔ اگرچہ کھڑسے کو بھی اہمیت رکھنے والی وزارتوں پر فائز کیا۔ مگر بعد میں ان کے خلاف مختلف گھوٹالوں کے الزامات لگائےگئے اتنا پریشان کیا کہ ان کو اپنی وزارت سے استعفیٰ دینا پڑا، یہاں تک کہ ان کے خلاف خواتین کی آبرو ریزی کے بھی الزامات لگائے گئے۔ 2019کے انتخابات میں ان کو سرے سے الیکشن سے ہی باہر رکھا گیا۔ ان کی جگہ ان کی صاحبزادی کو ٹکٹ دیا گیا مگر ان کو شکست سے دوچار کروانے کی بھی کامیاب کوشش کی۔ جس طرح شیوسینا نے بھجبل کےذریعہ بہوجنوں کو اپنے ساتھ شامل کیا اسی کی نقل کرتے ہوئے بی جے پی نے یہ کام گوپی ناتھ منڈے اور کھڑسے کو استعمال کرکے ریاست میں اپنی طاقت بڑھائی اور جب مقصد پورا ہوا تو گوپی ناتھ منڈے کو ٹھکانے لگایا۔ پھر بعد میں کھڑسے کو پوری طرح ٹھکانے لگا دیا۔ گوپی ناتھ منڈے کے بعد ان کی صاحبزادی پنکجا منڈے کو ساتھ رکھا پھر کھڑسے کی بیٹی کی طرح منڈے کی بیٹی کو بھی باہر کا راستہ دکھادیا۔ ایکناتھ کھڑسے نے انتظار کیا کہ شاید ان کو بحال کیا جائے گا۔ مرکز کی قیادت ان کے ساتھ انصاف کرے گی مگر مرکز دیویندر پھڈنویس کی مرضی کی ان دیکھی کیسے کرسکتا ہے۔ دوسری اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ایک برہمن کے ہوتے ہوئے کسی بہوجن کو کیسے وزیراعلیٰ کا عہدہ دیا جاسکتا تھا۔ بھجبل کو بھی اس وقت کے برہمن منوہر جوشی کی بھینٹ چڑھادیا گیا تھا۔ اصل بات یہ ہے کہ جب سے پیشوائی ختم ہوئی ہے اس کو دوبارہ پھر سے بحال کرنے کی پوری کوشش میں بی جے پی کی ہندوتوا سیاست کا اہم مقصد ہے جس کے لیے وہ کبھی مراٹھا اور کبھی بہوجنوں کا استحصال کرتی رہے گی۔ یہ بات کانگریس کی سمجھ میں اس لیے نہیں آئی کہ وہاں جن کی فہم و ذکا کا سکہ چلتا ہے وہ سب برہمن ہیں۔ راہل گاندھی نے حال ہی میں کانگریسی قائدین پر یہ الزام لگایا ہے کہ یہ لوگ بی جے پی کو اندر سے مدد پہنچارہے ہیں۔ یہ حقیقت ہے مگر اس حقیقت کو سمجھنے میں راہل گاندھی اور ان کے خاندان کو ایک عرصہ لگ گیا۔
ایکناتھ کھڑسے ایک انتہائی طاقتور لیڈر ہیں جلگاؤں کے دیہی سیاسی طاقت کے مراکز جیسے ضلع پریشد، پنچایت سمیتی میونسپل ادارے، گرام پنچایت ان تمام اداروں پر ان کا مکمل قبضہ ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان اداروں پر بی جے پی کو صد فیصد کامیابی دلائی۔ 2009 سے 2014 تک وہ حزب مخالف کے لیڈر رہے جس وقت ریاست میں اندرا کانگریس اور راشٹروادی کی حکومت تھی۔ بی جے پی میں پورے 40 سال تک وہ کام کرتے رہے وہیں انہوں نے اپنی سیاسی حیثیت منوائی۔ آر ایس ایس کے بھی وہ کارکن رہے۔ 2017 میں انہوں نے ایک بیان دیا تھا کہ ’’آر ایس ایس ایک ایسی تنظیم ہے جس کی تربیت کی وجہ سے گدھا بھی وہاں سے انسان بن کر لوٹتا ہے‘‘۔ لیکن وہی انسان جب بی جے پی میں جاکر واپس لوٹتا ہے تو کیا پھر سے وہ گدھا بن جاتا ہے، یہ سوال باقی رہتا ہے۔ انہوں نے مسلسل پانچ پارلیمانی انتخابات میں بی جے پی کے سوا جلگاوں سے کسی بھی پارٹی کو جیتنے نہیں دیا۔ اس قدر طاقتور سیاسی لیڈر کو محض اس مقصد کے لیے پارٹی چھوڑ دینے پر مجبور کردیا گیا کہ وہ آئندہ چل کر خود بی جے پی کے نظریات کے لیے چیلنج نہ بن جائیں۔ ان سے پہلے گوپی ناتھ منڈے نے دبے الفاظ میں ایسی کوشش کی تھی اس کا انجام انہیں بھگتنا پڑے۔ ان کی بیٹی کہیں اس وراثت کو آگے نہ بڑھائے اس لیے پنکجا منڈے کو بھی انتخابات سے دور رکھا گیا۔ یہی حال دوسرے اہم لیڈر باون کلی کا بھی ہوا ہے۔ راشٹروادی پارٹی میں پہلے سے موجود بہوجن لیڈر چھگن بھجبل کے بعد اب ایکناتھ کھڑسے کی شمولیت اس کے لیے یقیناً ایک کامیابی ہے مگر پارٹی کی مراٹھا قیادت اس کو کس قدر اور کب تک برداشت کرے گی نہیں معلوم۔ کھڑسے کی راشٹروادی میں شمولیت کا پروگرام ممبئی میں واقع اس کے دفتر میں ہوا۔ اس میں شرد پوار کے بھتیجے اور آئندہ وزارت اعلیٰ کے دعویدار اجیت پوار شامل نہیں تھے۔ آج کل ’کورونا‘ کا بہانہ بہت کارگر ہے۔ راشٹروادی میں پہلے سے موجود ایک سے بڑھ کر ایک قد آور لیڈر جیسے جینت پاٹل، جتیندر اوہاذ، سنیل تٹکرے، اجیت پوار، سپریا سُلے، نوجوان کارکنان پارتھ پوار، روہت پوار کے بعد اب بھجبل اور کھڑسے کی شمولیت سے اس پارٹی کو مزید طاقت حاصل ہوئی ہے۔ صلاحیتوں اور Dynamism کے اعتبار سے مہاراشٹر میں راشٹروادی سرفہرست ہے۔ آئندہ چل کر کانگریس کو اس سے بڑا خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ شیوسینا کو نہ تو کوئی خطرہ ہے اور نہ شرد پوار یہ چاہیں گے کہ اس کو کمزور کریں۔ وہ ہندوتوا کا ووٹ بینک پورا کا پورا بی جے پی کی طرف کسی قیمت پر جانے نہیں دیں گے۔ یہ شرد پوار کی سیاسی حکمت عملی کا نتیجہ ہے کہ انہوں نے ریاست میں بی جے پی اور شیو سینا کی حکومت بننے نہیں دی۔ کانگریس کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہ تھا کہ جس سے وہ چند وزارتیں حاصل کرسکتی تھی اس لیے کہ اس پارٹی کی ریاست اور ملک بھر میں صرف یہی حیثیت باقی رہ گئی ہے۔ اگر شرد پوار کی صحت ساتھ دے تو وہی ملک میں پھر سے اپوزیشن کو مضبوط کرکے کھڑا کرسکتے ہیں۔ کانگریس میں فی الحال ملک گیر سطح پر متبادل بننے کی نہ تو صلاحیت ہے اور نہ ہی اس کی کوششوں سے ایسا دکھائی پڑتا ہے۔ ملکی سیاست اور ہندوتوا کے طریقہ کار پر نظر رکھنے والے سیاسی و سماجی تجزیہ نگار یہ بات کہتے رہے ہیں کہ صرف بی جے پی ہی نہیں بلکہ جب تک کانگریس کو بھی ملکی سیاست کے ریموٹ کنٹرول رکھنے والے نظریاتی مرکز سے کچھ بڑا کرنے کی چھوٹ اور رائے نہیں ملتی کانگریس بھی حرکت کرنے والی نہیں ہے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ وہ مرکز ناگپور میں ہے۔ جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے۔ شرد پوار کے بارے میں اب تک ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا ہے کہ وہ بھی اس مرکز کے زیر اثر رہے ہوں گے۔ اس لیے ملک کی سیاست میں پھر سے زندگی اور روح پھونکنی ہو تو اس کے لیے اس وقت ان کے سوا دوسرا کوئی قائد نظرنہیں آتا۔ بی جے پی نے بابری مسجد اور اس سے پہلے بہوجن ریزرویشن تحریک کے وقت جن جن بہوجن قائدین کو استعمال کرکے رام مندر کی تحریک کھڑی کی ان سب کو مقصد کے حصول کے بعد ایک ایک کرکے ٹھکانے لگا دیا گیا۔ یو پی کے وزیراعلیٰ کلیان سنگھ، ونئے کٹیار، اوما بھارتی اور پارٹی کے باہر کے لیڈر لالو یادو، ملائم سنگھ یادو، مایاوتی آندھرا کے چندرابابو نائیڈو، اور غیر برہمن بی جے پی کے معمار لال کرشن اڈونی۔ آئندہ چند مہینوں میں ہوسکتا ہے کہ وہ تمام راشٹروادی کے لیڈر جو 2019 کے انتخابات کے دوران پارٹی چھوڑ کر گئے تھے واپس اس پارٹی میں لوٹ آئیں گے۔
ایکناتھ کھڑسے نے راشٹروادی میں شمولیت کے موقع پر جو تقریر کی اس میں اپنے جذبات کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ کئی سالوں سے میرے سر پہ ایک بوجھ تھا آج جب وہ اتر گیا تو میں اپنے آپ کو ہلکا محسوس کررہا ہوں۔ کھڑسے نے اپنا بوجھ ہلکا تو کر دیا مگر راشٹروادی کانگریس کے مراٹھا خیمے کے سرپر بوجھ بڑھا دیا ہے۔ پہلے چھگن بھجبل کی وجہ سے یہ لابی کافی پریشان رہی مگر رشوت ستانی اور بے اندازہ ملکیت کے معاملات میں ان کو سابق وزیر اعلیٰ نے کافی پریشان کر دیا تھا۔ قریب 4 تا 5 سال جیل میں رہے اور یہ سب اس وقت کیا گیا جب کہ پھڈنویس اور بی جے پی کی شرد پوار نے باہر سے حمایت کرکے بی جے پی کی حکومت بنائی تھی۔ شرد پوار کی حمایت والی حکومت نے بھجبل کو جس قدر جیل میں بند کرکے رکھا اس وقت شرد پوار نے ان کی کوئی مدد نہیں کی تاہم بھجبل نے راشٹروادی کو نہیں چھوڑا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس شیوسینا سے انہوں نے بغاوت کی تھی اس وقت بی جے پی کی ملی جلی سرکار تھی۔ اگر بھجبل بی جے پی میں داخلہ چاہتے تب بھی بی جے پی ان کو شامل نہیں کرسکتی تھی۔ اگر ایسا ہوتا تو شیوسینا نے جیسے آج بی جے پی کو چھوڑ کر راشٹروادی اور کانگریس کی حکومت بنائی ہے یہ کام وہ اسی وقت کرسکتی تھی۔ شیوسینا کے دوسرے ناراض لیڈر نارائن رانے نے سینا کو خیرباد کرکے کانگریس کا دامن تھاما تو کانگریس مرکزی حکومت اور ریاستی حکومت سے بے دخل ہوگئی تھی۔ سال دو سال نارائن رانے نے انتظار کیا اور اس امید پر کہ شاید بی جے پی ان کا وقار بحال کرے انہوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کرلی۔ مگر ان کی قسمت ہی خراب رہی۔ شیوسینا نے بی جے پی کو چھوڑ کر کانگریس کا دامن تھام لیا اور بی جے پی اقتدار سے باہر ہوگئی۔ اب نارائن رانے کی پوری سیاست محض شیوسینا کو دھمکانے میں باقی رہی ہے۔ دوسرا کوئی متبادل ان کے پاس نہیں ہے۔ ہو سکتا ہے وہ بھی کھڑسے کی طرح کوئی فیصلہ کریں۔ ایسی صورت میں راشٹروادی کی اصل طاقت مراٹھا لابی کے سامنے تین تین مشکلات کھڑی ہوں گی۔ ایک ناتھ کھڑسے، بھجبل اور نارائن رانے ۔ شرد پوار کس حد تک اپنے مرکزہ (Core) کو قائم رکھ سکتے ہیں۔ صرف اسی صورت میں راشٹروادی باقی رہ سکتی ہے۔ بصورت دیگر محض اقتدار کے بھوکے مراٹھا لیڈر بی جے پی میں شامل ہوجائیں گے اور جو نیا نیا محاذ شرد پوار نے بنایا ہے وہ ختم ہوجائے گا۔ کھڑسے نے اپنے سر کا بوجھ اتار کر شرد پوار کے سر پر رکھ دیا ہے۔ شرد پوار اپنی سیاسی زندگی کی یہ اننگز کس طرح نبھائیں گے وہ وہی بتاسکتے ہیں دوسرا کوئی شخص نہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے پوار کس وقت کیا سوچ رہے ہیں اور کس وقت کیا کر رہے ہیں اِس کا اندازہ کوئی دوسرا نہیں لگا سکتا۔ راشٹروادی کی نوجوان قیادت جن میں جینت پاٹل، جتیندر آوھاڑ، سنیل تٹکرے وغیرہ پر یہ ذمہ داری عائد ہوگی کہ وہ شرد پوار کی حکمت عملی پر عمل کرتے ہوئے راشٹروادی کے مرکزہ کو کمزور نہ ہونے دیں یعنی مراٹھا لابی کو ناراض ہونے کا موقع نہ دیں۔ اگر وہ اس میں کامیاب ہوگئے تو یہ بات نہ صرف مراٹھا سماج، بہوجن سماج بلکہ دیگر پسماندہ طبقات کے حق میں ہوگی۔ اگر مراٹھا سماج نے بی جے پی سے ساز باز کرلی تو پھر یہ سارے کمزور طبقات ہمیشہ کی طرح سے پھر سے محروم ہوجائیں گے۔ دلت سیاست میں رام داس آٹھوَلے پہلے ہی سے بی جے پی کی غلامی کر رہے ہیں۔ پرکاش امبیڈکر ہمیشہ اپنا موقف بدلتے رہتے ہیں۔ مسلم قیادت اور ریاستی اور ملکی سیاست کے بارے میں کچھ کہنا لکھنا ضروری نہیں۔ ان ساری طاقتوں نے مل کر مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کو اتنا کمزور کرکے رکھا ہے کہ ان کے حقوق کی بات کرنے والے کو خود اپنا مستقبل خطرے میں نظر آتا ہے۔ بہرحال یہ الگ موضوع ہے۔ راشٹروادی کانگریس کی قیادت کو محض اپنے ذاتی، سماجی یا ریاستی مفاد کو سامنے نہ رکھتے ہوئے ملک کے موجودہ سیاسی بحران کو سامنے رکھ کر ایک طاقتور متبادل کی حیثیت سے پیش کرنا چاہیے اسی میں خود کی اور شاید قومی سیاست کی بھلائی بھی مضمر ہے۔
(مصنف سینئرصحافی، مترجم اور مراٹھی ہفت روزہ ’’شودھن‘‘کےمدیرہیں)
***

کھڑسے نے اپنے سر کا بوجھ اتار کر شرد پوار کے سر پر رکھ دیا ہے۔ شرد پوار اپنی سیاسی زندگی کی یہ اننگز کس طرح نبھائیں گے وہ وہی بتاسکتے ہیں، دوسرا کوئی شخص نہیں۔ عام طور پر کہا جاتا ہے پوار کس وقت کیا سوچ رہے ہیں اور اُس وقت کیا کررہے ہیں اِس کا اندازہ کوئی دوسرا نہیں لگاسکتا۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020