این ایس ای اسکام،بدعنوانی کی شرمناک کہانی

’ہمالیائی سادھو ‘کے بھیس میں کون ہے؟

ارشد شیخ، دلّی

SEBI کو کارروائی کے لیے 6 سال کیوں لگے؟ ریگولیٹری اتھارٹی بھی سوالات کے گھیرے میں
تازہ ترین این ایس ای اسکام نے ایک ہنگامہ کھڑا کردیا ہے۔اس گھوٹالے کی نہایت آلودہ و مضحکہ خیز تفصیلات نے نہ صرف ہمارے ملک کے سب سے زیادہ باقاعدہ مالیاتی اداروں میں شمار کئے جانے والے ایک ادارہ میں مالیاتی نظم وانصرام کی حالت زار پر ایک قابل ملامت فرد جرم عائد کیا ہے بلکہ امیر وبااختیار لوگ کس طرح اپنی حرکتوں اور بے عملی کے ذریعہ خاطیوں کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں‘ اس کی بھی عکاسی کی ہے۔ اس اسکینڈل نے بے شمار مسائل کو اچھال دیا ہے جن میں سے بعض نہایت بے چین کردینے والے سوالات نے جنم لیا ہے جن کے جواب لینا بے حد ضروری ہے تاکہ اس طرح کی قومی شرمندگی کے اعادے سے بچا جاسکے۔
نیشنل اسٹاک ایکسچینج آف انڈیا (NSE) ہندوستان کا سب سے بڑا اسٹاک ایکسچینج ہے۔ معاہدوں کی تعداد کے لحاظ سے، یہ دنیا کے سب سے بڑے ڈیریویٹیوز ایکسچینجوں میں سے ایک ہے۔چترا راما کرشنا نیشنل اسٹاک ایکسچینج آف انڈیا (NSE) کی راک اسٹار ایم ڈی اور سی ای او تھیں۔ان کا شمار فینانس کی دنیا میں سب سے زیادہ معزز اور قابل احترام پیشہ ور افراد میں ہوتا تھا۔انہوں نے نیشنل اسٹاک ایکسچینج آف انڈیا کی ابتداء سے آبیاری کی اور انہی کی سرپرستی میں این ایس ای اپنے فلیگ شپ انڈیکس کے ساتھ 3.4 ٹریلین امریکی ڈالر (بھارت کی جی ڈی پی سے زیادہ) مارکٹ سرمایہ تک پہنچ گیا۔ NIFTY 50 کو گھریلو اور عالمی سرمایہ کاروں کے لیے ہندوستانی کیپٹل مارکٹ کے بیرومیٹر کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔لیکن چیزیں ڈرامائی طور پر بدل گئیں۔کچھ شکایات سامنے آئی تھیں اورتحقیقات دسمبر 2016 میں ان کے اچانک استعفیٰ کاسبب بن گئیں تاہم، یہ ظاہر کیا گیا کہ چترا ذاتی وجوہات کی بنا پر مستعفی ہوئیں تھیں۔
چھ سال بعد مرکزی حکومت کے ریگلولیٹری ادارے سیبی (Securities Exchange Board of India ) نے این ایس ای میں کارپوریٹ بدانتظامی کے الزامات کی تحقیقات کرتے ہوئے چترا کے خلاف اپنا قطعی حکم جاری کیا جو حیران کن ہیں اور یقین سے پرے ہے۔اس گھوٹالے کی مکمل تفصیلات اس قدر شرمناک ہیں کہ کارپوریٹ انڈیا کا مذاق اڑایا جا رہا ہے اور کارپوریٹ حکمرانی اور’دیانت داری‘ نے اس ادارے پر اس زور کی ضرب لگائی ہے کہ اس نے دنیا کے سامنے ہماری مالی اور تکنیکی صلاحیت کو بے نقاب کردیا ہے۔ان سطور کے لکھے جانے کے وقت دہلی کی خصوصی سی بی آئی عدالت نےاین ایس ای کی سابق سی ای او۔ ایم ڈی کی پیشگی ضمانت کی عرضی مسترد کر دی ہے۔ خصوصی جج، سنجیو اگروال نے این ایس ای میں کو-لوکیشن اسکام کی تحقیقات کی سست رفتاری کے لیے سیبی اور سی بی آئی دونوں پر تنقید کی کہ انہوں نے چترا کو بغیر کسی کڑی سرزنش کے چھوڑ دیا۔ توسوال یہ ہے کہ یہ این ایس ای گھوٹالہ دراصل ہے کیا اور یہ ہمالیائی یوگی کون ہے؟ اس گھوٹالے نے کارپوریٹ گورننس اور اعلیٰ مقامات پر بدعنوانی کو پھر سے روشنی میں کیوں لے آیا ہے؟ جوابات سے پتہ چلتا ہے کہ بعض اوقات حقائق افسانے سے زیادہ عجیب ہوسکتے ہیں۔
این ایس ای ملک کے سب سے زیادہ باقاعدہ مالیاتی اداروں میں سے ایک ہے کیونکہ اس کے فیصلے اور سرگرمیاں اربوں ڈالر مالیت کی سیکڑوں کمپنیوں کی قسمت پر اثر انداز ہوتی ہیں۔ اگر ہم این ایس ای گھوٹالے کے معاملات سے تعلق رکھنے والوں سے کچھ چبھنے والے سوالات پوچھنے سے پس وپیش کریں گے تو ہم نہ صرف ’طاقت ور‘ کا احتساب کرنے کے اپنے فرض میں ناکام ہوجائیں گے بلکہ ہماری حیثیت معمولی سمجھ لی جائے گی اورہمارے ساتھ بدعنوانی اور اقربا پروری کے پیروں تلے روندے جانے والے پاپوش جیسا سلوک ہوگا۔
کو۔ لوکیشن اسکام
موجودہ این ایس ای-ہمالیائی یوگی اسکام کی جڑیں 2015 تک جاتی ہیں۔ سنگاپور کے ہیج فنڈ کے ایک عہدیدار کی سیبی سے کی گئی مبینہ شکایت کی بنیاد پر، سچیتا دلال نے اپنے پورٹل ’منی لائف‘ پر ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے الزام عائد کیا، این ایس ای کے اسٹاف کے بعض لوگ مارکٹ کے ایک خاص گوشے کے لیے کثیر حجمی ٹریڈنگ (high- frequency trading ) یا کولوکیشن(Co-Location) سے متعلق نہایت حساس معلومات کا افشا کررہے تھے تاکہ وہ اپنے حریفوں سے زیادہ تیزی کے ساتھ تجارت کرسکیں۔این ایس ای نے سچیتا دلال کے سوالات کا جواب نہیں دیا اور اس کے بجائے اپنا جواب’منی لائف‘ کے خلاف 100 کروڑ روپے کا ہتک عزت کا دعویٰ دائر کرتے ہوئے دیا لیکن بمبئی ہائی کورٹ میں اسے شکست کھانی پڑی۔جسٹس جے ایس پاٹل نے جب این ایس ای کے خلاف فیصلہ دیا تو ان کے الفاظ سے ناگواری جھلک رہی تھی۔جسٹس جے ایس پٹیل کے عدالتی حکم کو ذرا پڑھیں – ’’جب کوئی شخص جس کا خود اپنا ایک ثابت شدہ ریکارڈ ہے، کچھ پوچھ گچھ کرنے کے بعد، شائستہ الفاظ میں اورواضح طور پر سوال کرے تو اس کا جواب نہ دینا مجھے یا تو انتہائی گھمنڈ اور تکبر کی ایک مثال لگتا ہے یا متبادل طور پر اس بات کا اعتراف کہ جو کچھ کہا جا رہا ہے اس میں سچائی کا عنصر موجود ہے۔‘‘
اس دوران این ایس ای بورڈ کے بعض نئے ارکان نے خود کو منوانا شروع کیا اور ’کو لوکیشن‘ کے بارے میں سیبی کے اخذ کردہ نتائج کے تعلق سے سوال پوچھنے شروع کیے۔ بورڈ نے چترا کی جانب سے گروپ آپریٹنگ آفیسر کے طور پر آنند سبرامنین کی تقرری پر سوال اٹھائے۔ چترا نے مبینہ طور پر سبرمنین کے تقرر میں این ایس ای کے رائج ایچ آر طریقہ کار کو نظرانداز کیا۔پھرجلد ہی آنند اور چترا دونوں نے یکے بعد دیگرے استعفے دے دیے۔ این ایس ای کے خلاف الزامات درست پائے گئے جو ’’کو-لوکیشن اسکام‘‘ کے نام سے مشہور ہوئے ہیں۔ مئی 2019 میں، SEBI نے یہ کہہ کر ملک کے سرکردہ بازار پر فرد جرم عائد کی تھی :این ایس ای نے ایک دھوکہ دہی اور غیر منصفانہ تجارتی عمل کا ارتکاب کیا ہے جیسا کہ سیبی (پی ایف یو پی ٹی) ضابطوں کے تحت بیان کیا گیاہے۔ یہ امر شک سے بالاتر ہے کہ این ایس ای نے TBT آرکیٹکچر (جائزے کا نظم) نافذ کرنے میں مطلوبہ مستعدی نہیں دکھائی ہے۔‘‘سیبی نے سابق مینیجنگ ڈائریکٹرز اور سی ای اوز روی نارائن اور چترا راما کرشنا کے بشمول این ایس ای پر جرمانہ عائد کیا ہے نیز مارکٹس میں ان پر پابندی لگادی ہے اور انہیں پانچ سال تک کسی درج فہرست کمپنی کے کسی بھی عہدے پر فائز رہنے سے منع کیا ہے۔ لیکن یہ صرف کہانی کی شروعات ہے۔
این ایس ای ہمالیائی یوگی اسکام
این ایس ای کی سابق ایم ڈی اور سی ای او چترا رام کرشنا کے خلاف سیبی کے حتمی حکم نے 2015-16میں آنند سبرامنین کی بطور گروپ آپریٹنگ آفیسر (GOO) اور چترا کے مشیر کی تقرری میں بدعنوانی کے مسائل کی تحقیقات کے دوران میڈیا میں طوفان کھڑا کر دیا۔ سیبی کے حکم نے ان شرمناک اور چونکا دینے والی تفصیلات کو واشگاف کیا ہے کہ کس طرح بھارت کے سب سے بڑے اسٹاک ایکسچینج کی سب سے مشہور اور کرشماتی سربراہ کی حیثیت ایک ہمالیائی یوگی کے ہاتھ میں محض ایک مہرہ کی تھی۔ یہ بات اپنے آپ میں حیرت انگیز ہے کہ ہمالیہ کے پربتوں میں رہنے والا ایک سادھواین ایس ای کے اہم منصوبوں اور فیصلوں پر کنٹرول کررہا تھا۔
چترا کے خلاف سیبی کے 190 صفحات کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اس نے ای میل کے ذریعے آرڈر ایک ’’سدھ پرش‘‘ سے حاصل کیے تھے۔ اس بے چہرہ ہستی کی واضح ہدایات پر، اس نے اپنی ایک اچھی دوست مسز سنیتا آنند کے شوہر کو بھاری تنخواہ اور بہت زیادہ مراعات کے ساتھ اپنا مشیر مقرر کیا۔ سی بی آئی کی جانب سے این ایس ای اسکام کی تحقیقات ہاتھ میں لینے کے بعد اب یہ بات سامنے آئی ہے کہ یہ گروپ آپریٹنگ آفیسر(جی او او) مسٹر آنند سبرامنین دراصل ’پرم ہمس /یوگی‘ تھے جو سی ای او چترا راما کرشنا کی وساطت سے ای میل کے ذریعے این ایس ای کے معاملات چلا رہے تھے۔
کتنی عجیب و غریب بات ہے؟ ارنسٹ اینڈ ینگ نامی بین الاقوامی آڈیٹنگ فرم کو سیبی نے NSE میں ایچ آر سے متعلق بدعنوانی کے الزامات کے بارے میں فارنسک آڈٹ کا کام سونپا تھا۔ سیبی کا تازہ ترین حکم اس کے ایم ڈی اور سی ای او کی ’درشت مزاجی اور تکبر‘ کو ظاہر کرتا ہے۔ چترا سے اس نامعلوم شخص کی شناخت ظاہر کرنے کے لیے کہا گیا تھا جس کے پاس [email protected] کی ای میل آئی ڈی ہے اور جو ان کا سرپرست اور روحانی گرو ہے۔
چترا نے آڈیٹرز کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے کہا: ’’سدھ پرش/یوگی ایک پرم ہنسا ہے جو شاید ہمالیائی پہاڑیوں میں رہتے ہیں۔ میں ان سے مقدس مقامات پر بعض موقعوں پر ملی ہوں۔ کسی مقامی رابطہ کار کا پتہ نہیں دیا گیا ہے۔ میری معلومات کے مطابق، ان کی روحانی طاقتوں کو اس طرح کے طبعی رابطوں کی ضرورت نہیں ہے۔‘‘
سی بی آئی نے آنند کو گرفتار کر لیا ہے اور اس کی جانچ کر کے اپنی تحقیقات کا دائرہ وسیع کیا ہے جیسا کہ وزیر فینانس نے کہا ہے کہ سیبی نے این ایس ای معاملے میں مناسب کارروائی کی ہوگی۔
اسکام سے ابھرنے والے مسائل
پہلا مسئلہ جو اسکام نے اٹھایا ہے وہ ہے این ایس ای میں کارپوریٹ گورننس کی خوفناک حالت۔ اگر ایک سی ای او ای میل کے ذریعے رابطہ بنائے رکھنے والے ایک ان دیکھے ’’سدھا پروش‘‘ کے مشورے پر زبردست تنخواہ پر ایک مشیر اور گروپ آپریٹنگ آفیسر کا تقرر کرسکتا ہے اور این ای سی بورڈ کے دیگر ارکان بشمول چیف ریگولیٹری آفیسر اس بارے میں کچھ نہیں کرسکتے، تو پھر جائزہ اور حساب کتاب کا سارا نظام یا تو بے کار یا غیر فعال لگتا ہے۔
مزید برآں، این ایس ای نے اپنی سی ای او کو ذاتی وجوہ کی بنا پر استعفیٰ دینے کی اجازت دیتے ہوئے باعزت طور پر نکل جانے کا حکم دیا اور کہا ’’ان کے استعفیٰ کو کسی دوسرے مسائل سے جوڑنا نامناسب ہوگا۔‘‘ اگلا مسئلہ سیبی سے متعلق ہے۔ سیبی ایک ریگولیٹری ادارہ ہے جسے اشیاء اور سیکیورٹیزمارکٹ میں کسی بھی قسم کی خرابی کی جانچ کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ چترا کے خلاف حکم جاری کرنے میں اسے چھ سال کیوں لگ گئے؟
حکم میں صاف طورپر یہ بتانے سے گریز کیا گیا کہ اصلیت کیا ہے اور ملزم کو معمولی مالی جرمانے کے حوالے کر دیا گیا۔
تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ این ایس ای کی اس ساری گھٹیا کہانی نے ہمارے سیاسی قائدین کے ان بلند بانگ دعوؤں کو کھوکھلا کر دیا ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئیں گے تو بڑے عہدوں پر بدعنوانی ماضی کی بات ہوجائے گی۔ لیکن سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس پورے اسکینڈل پر عوامی غیض وغضب کا مکمل فقدان ہے۔ لوگ اس گھوٹالے کی ’خوش آئند‘ تفصیلات کو ہضم کر کے خوش ہوتے ہیں اور میڈیا میں اسے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔ سربراہوں کو حرکت میں لانےکے لئے کوئی کال نہیں کرتے اور نہ ہی استعفوں کی ضرورت ہے۔ جیسا کہ افلاطون نے کہاہے: ’’ انصاف کا دکھاوا ناانصافی کی بدترین شکل ہے۔‘‘
(مضمون نگار جماعت اسلامی ہند کے میڈیا انچارج ہیں)
***

 

***

 سب سے زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ اس پورے اسکینڈل پر عوامی غیض وغضب کا مکمل فقدان ہے۔ لوگ اس گھوٹالے کی ’خوش آئند‘ تفصیلات کو ہضم کر کے خوش ہوتے ہیں اور میڈیا میں اسے دیکھ کر لطف اندوز ہوتے ہیں۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 تا 19 مارچ  2022