دہلی ہائی کورٹ نے شرجیل امام کے خلاف بغاوت کے الزامات کے خلاف دائر درخواست پر حکام کو نوٹس جاری کیا

نئی دہلی، مارچ 12: دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو حکام سے طالب علم رہنما شرجیل امام کی جانب سے ٹرائل کورٹ کے اس حکم کے خلاف دائر درخواست پر جواب دینے کو کہا جس میں ان کے خلاف بغاوت سمیت مختلف الزامات عائد کیے گئے تھے۔

جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس اے کے میندیرتا کی بنچ نے خصوصی سرکاری وکیل سے کہا کہ وہ دو ہفتوں کے اندر کیس سے متعلق دستاویزات پیش کریں۔ معاملے کی اگلی سماعت 26 مئی کو ہوگی۔

یہ مقدمہ دسمبر 2019 اور جنوری 2020 کے درمیان شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کے دوران علی گڑھ مسلم یونیورسٹی، دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی، بہار میں گیا اور مغربی بنگال کے آسنسول میں امام کی چار تقریروں سے متعلق ہے۔

24 جنوری کو دہلی کی ایک ٹرائل کورٹ نے امام کو ضمانت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ عدالت نے ان پر غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ اور تعزیرات ہند کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ میں فرد جرم بھی عائد کی تھی۔

امام نے ٹرائل کورٹ کے حکم کو دہلی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا ہے۔

بدھ کے روز دہلی ہائی کورٹ نے پولس سے کہا تھا کہ وہ 10 دن کے اندر ضمانت سے انکار کے خلاف امام کی عرضی پر اپنا جواب داخل کرے۔ ایک زبانی مشاہدے میں ججوں نے بدھ کو نوٹ کیا تھا کہ جب ضمانت دینے کا سوال آیا تو ٹرائل کورٹ نے ’’کچھ بھی نہیں کیا۔‘‘ ججوں نے دہلی پولیس سے یہ بھی سوال کیا تھا کہ امام کو ضمانت کیوں نہیں دی جانی چاہیے۔

جمعہ کی سماعت میں امام کے وکیل تنویر احمد میر نے ججوں کوبتایا کہ وہ ضمانت مسترد ہونے کے خلاف درخواست کے سلسلے میں پہلے ہی نوٹس جاری کر چکے ہیں۔ اس پر ججوں نے کہا کہ ضمانت کے معاملے پر امام کی درخواستوں اور ان پر لگائے گئے الزامات سے الگ سے نمٹا جائے گا۔

بار اینڈ بنچ کے مطابق ججوں نے کہا ’’اپیل کی سماعت میں ضمانت سے زیادہ وقت لگے گا… ضمانت اور اپیل کا فیصلہ کرتے وقت مختلف تحفظات ہوں گے۔‘‘

امام کو 28 جنوری 2020 کو بہار سے گرفتار کیا گیا تھا اور تب سے وہ زیر حراست ہے۔ امام پر بغاوت اور غیر قانونی سرگرمیاں (روک تھام) ایکٹ کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ اس پر فروری 2020 میں دہلی میں پھوٹنے والے فرقہ وارانہ فسادات کی منصوبہ بندی سے متعلق مبینہ ’’سازش‘‘ کے سلسلے میں بھی مقدمہ درج کیا گیا ہے۔