عالمی سیاست کی بساط پر بالادستی کی جنگ

امن عالم کے اصلی دشمن کون؟ عالمی اداروں کی منافقت پھر ہوئی آشکار

ڈاکٹر فہیم الدین احمد، حیدرآباد

سرد جنگ سے آج تک امن کے سوداگر ہی دنیا میں غارت گری کے مرتکب
اسلحوں کی تجارت نے تیسری دنیا کے ممالک کو معاشی پستی میں ڈھکیل دیا ہے
یوکرین پر روس کے حملے اور اس پر نیٹو ودیگر ممالک کے ردعمل نے ایک بار پھر ان تمام دعووں کے کھوکھلے پن کو آشکار کردیا ہے جو عالمی طاقتیں امن عالم کے سلسلے میں کرتی رہتی ہیں۔ اس قضیے میں جہاں روس کی جارحیت کھل کر سامنے آئی ہے وہیں نیٹو، امریکا اور دوسرے یورپی ممالک کی منافقت بھی واشگاف ہو چکی ہے۔ معلوم ہوا کہ اپنے آپ کو عالمی امن کے ٹھیکہ دار قرار دینے والے بڑے ممالک کا اصل ایجنڈا تو دنیا میں اپنی سیاسی ومعاشی بالادستی اور اسلحہ کی تجارت کے ذریعے بے تحاشہ دولت کا حصول ہے۔
مابعد سرد جنگ دور سے دنیا کی بڑی طاقتوں میں مسابقت کی تجدید کے دور میں تبدیلی
روس کے یوکرین پر حملے نے عالمی سیاست میں ایک نئے عہد کے مستحکم آغاز پر مہر لگا دی ہے جس کی بازگشت پچھلے پانچ چھ برسوں سے سنائی دے رہی تھی۔ عالمی سیاست میں اس سے قبل ہم نے سرد جنگ کا دور اور ما بعد سرد جنگ کا دور دیکھا ہے۔
سرد جنگ کا دور
عام طور پر ۱۹۴۰ء تا ۱۹۸۰ء کے دہوں کو سرد جنگ کے دور کی حیثیت سے یاد کیا جاتا ہے۔ اس دور میں امریکا اور سوویت یونین دو بڑی طاقتیں تھیں اور دنیا کے بیشتر ممالک ان دونوں خیموں میں بٹے ہوئے تھے۔ایک جانب امریکا کی قیادت میں کچھ یورپی ممالک نیٹو میں شامل تھے تو دوسری جانب کچھ ممالک سوویت یونین کی قیادت میں وارسا معاہدے کے تحت جمع تھے۔اس دور میں دونوں بڑی طاقتوں کی جانب سے اپنے اثرات میں اضافے کے لیے سیاسی، نظریاتی اور دفاعی مسابقت اور مقابلہ جاری رہا۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ عالمی لیڈروں نے ناوابستہ تحریک کے ذریعے اس سرد جنگ سے اپنے آپ کو الگ رکھنے کی بھی کوشش کی ۔
مابعد سرد جنگ کا دور
مابعد سرد جنگ کا دور ۱۹۸۰ء کے دہے کے اواخر اور ۱۹۹۰ء کے دہے کی ابتدا سے اس وقت شروع ہوتا ہے جب مارچ ۱۹۸۹ء میں دیوار برلن ڈھا دی گئی، مارچ ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کی زیر قیادت وارسا معاہدے کا خاتمہ ہو گیا اور بالآخر دسمبر ۱۹۹۱ء میں سوویت یونین کا بھی خاتمہ ہو گیا اور وسط ایشیا کے تمام ممالک سوویت یونین سے آزاد ہو گئے۔ سرد جنگ کے بعد کا دور بڑی حد تک یک قطبی تھا جس میں صرف امریکا ہی واحد سوپر پاور باقی رہ گیا تھا اور امریکا نے اپنی اس حیثیت کو برقرار رکھنے کے لیے جو کچھ کیا وہ انسانیت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ کی طرح ہے۔ اس پورے دور میں امریکا اور اس کے حواریوں بالخصوص نیٹو کا نشانہ مشرق وسطیٰ اور عالم اسلام کے ممالک رہے جہاں ان طاقتوں نے عالم اسلام کے ایک بڑے حصے کو جنگ کے میدان میں تبدیل کر کے جس طرح لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا وہ ایک خونیں داستان ہے۔
بڑی طاقتوں میں مسابقت کی تجدید کے دور ۲۰۰۶ء تا ۲۰۰۸ء کے بعد سے عالمی سیاست میں مابعد سرد جنگ دور کے اثرات مدہم پڑنے لگے اور ۲۰۱۴ء میں جنوبی ومشرقی بحر چین میں چین کی سرگرمیوں اور روس کی جانب سے کریمیا پر قبضہ اور روس میں اس کے انضمام کے بعد سے عالمی سیاست میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔ بین الاقوامی سیاست کے ماہرین اسے عظیم طاقتوں میں مسابقت کی تجدید کا دور کہنے لگے ہیں۔ اس دور میں روس اور چین ایک بار پھر دنیا کی بڑی طاقتوں کی حیثیت سے ابھر کر آئے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد سے دنیا میں امریکا کی جو بالادستی چلی آرہی تھی اس کو چیلنج کرنا شروع کردیا۔ یوکرین پر روس کے حملے کو اس تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ یہ جنگ دراصل بڑی طاقتوں کی جانب سے عالمی سیاست پر اپنے تسلط اور غلبے کو مستحکم کرنے کی ایک بڑی کوشش ہے۔ اس طرح کی کوششیں اس سے قبل امریکا کی جانب سے ہوتی رہی ہیں جن میں روس اس کا شریک ہوا کرتا تھا لیکن اب روس کو خیال ہوا کہ امریکا کا ماتحت بن کر رہنے کے بجائے اسے خود دوبارہ ایک متبادل عالمی طاقت کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ چنانچہ وہ اس معاملے میں تیزی سے سرگرم ہو گیا ہے۔
ہتھیاروں کی تجارت
دنیا کی یہ بڑی طاقتیں جہاں اپنے سیاسی وفوجی غلبے کے لیے دوسرے ممالک پر جنگیں مسلط کرتی ہیں وہیں تیسری دنیا کے ممالک کو اپنا تیار کردہ اسلحہ فروخت کرکے اپنی معاشی برتری اور دولت بٹورنے کا کام بھی کام کرتی ہیں۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہی سے یہ ممالک اسلحے کی تجارت میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی دوڑ میں مصروف ہیں۔ چنانچہ اسی غرض سے ان طاقتوں نے مختلف ممالک کے درمیان تنازعات پیدا کیے اور انہیں حل کیے بغیر زندہ وتوانا رکھنے کی کوششیں کرتے رہے۔صورت حال یہ ہے کہ امریکا کے ایک ادارے کی جانب سے شائع شدہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کے مختلف ممالک سالانہ ایک ہزار بلین ڈالر ہتھیاروں پر خرچ کرتے ہیں۔ یہ اعداد وشمار ۲۰۱۲ء کے ہیں۔ پچھلے دس برسوں کے دوران اس رقم میں معلوم نہیں کس قدر اضافہ ہو چکا ہے۔ ہتھیاروں کی اس تجارت میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان ہی سب سے آگے ہیں۔ اگرچہ جرمنی اور اٹلی بھی اس فہرست میں شامل ہیں لیکن وہ ممالک جنہوں نے بزعم خود دنیا میں امن وسلامتی کے قیام کی ذمہ داری قبول کی وہی دنیا میں سب سے زیادہ ہتھیار فروخت کرتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق ہتھیاروں کی فروخت میں سرفہرست امریکا ہے جبکہ دنیا بھر میں فروخت ہونے والے ہتھیاروں میں ۴۴ فیصد امریکی ساختہ ہوتے ہیں، جس کی لاگت ۲۲۰ بلین ڈالر ہے۔ دوسرے مقام پر روس ہے جس کا حصہ ۱۷ فیصد ہے اور اس کی رقم ۸۳ بلین ڈالرس ہے۔
گلوبلائزیشن کے بعد جیسے جیسے عالمی تجارت آزاد تجارت میں بدل رہی ہے اسی طرح ہتھیاروں کی یہ تجارت بھی تمام بندشوں سے آزاد ہوتی جا رہی ہے، اور اس پر سے حکومتوں کا کنٹرول بھی کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل، انٹرنیشنل ایکشن نیٹ ورک آن اسمال آرمس (چھوٹے ہتھیاروں پر بین الاقوامی کارروائی ادارہ) اور آکسفام کی جانب سے مشترکہ طور پر ہتھیاروں پر کنٹرول کے لیے ایک مہم چلائی گئی تھی۔ شیٹرڈ لائیوز کے نام سے انہوں نے ایک رپورٹ بھی شائع کی تھی جس میں اس بات کو واضح کیا گیا تھا کہ "ہتھیار انسانی غربت اور مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں اور ان کی تجارت کنٹرول سے باہر ہو گئی ہے۔ حکومتی کنٹرول سے آزاد ہو جانے کی وجہ سے کچھ لوگ دوسروں کو مصیبتوں میں ڈال کر منافع کما رہے ہیں۔
ان بڑی طاقتوں کی جانب سے تیار کیے گئے اسلحہ کے اصل خریدار تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک ہیں۔ ایسے ممالک جن کی اصل ضرورتیں کچھ اور ہیں، مثال کے طور پر ہندوستان، جہاں غربت، بے روزگاری، ناخواندگی، صحت اور ان جیسے بے شمار مسائل کے باوجود یہ اپنے بجٹ کا ایک بڑا حصہ یعنی کل بجٹ کا ۱۵ فیصد سے زائد دفاع پر خرچ کرتا ہے جس کی رقم پانچ لاکھ کروڑ روپے ہوتی ہے۔ اسی طرح دیگر ممالک کا بھی یہی حال ہے۔ یہ اسلحہ بنانے والے ممالک اپنے اسلحہ کی تجارت کو فروغ دینے کے لیے مختلف ممالک کے درمیان پائے جانے والے تنازعات کو نہ صرف زندہ رکھتے ہیں بلکہ انہیں مزید ہوا دیتے ہیں تاکہ ان کا کاروبار چلتا رہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق ان ممالک سے ہتھیار خریدنے والوں میں سرفہرست سعودی عرب ہے جو سالانہ تقریباً ۷۵ بلین ڈالرس کا اسلحہ خریدتا ہے جو اسلحہ کی کل فروخت کا ۲۱ فیصد ہے جب کہ ہندوستان سالانہ ۴۶ بلین ڈالرس کا اسلحہ ان ممالک سے خریدتا ہے جو کل فروخت کا ۱۳ فیصد ہے۔ اس کے بعد متحدہ عرب امارات، مصر، پاکستان، وینزویلا، برازیل، الجیریا، اسرائیل، جنوبی کوریا وغیرہ کا نمبر آتا ہے۔
یہ کس قدر عجیب اور مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ جو دنیا میں امن کے چمپین بنے پھرتے ہیں دنیا کو امن کا درس دیتے نہیں تھکتے وہی اس ہلاکت خیز ہتھیاروں کے سب سے بڑے کاروباری ہیں۔ اس کی ایک اور دلچسپ صورت حال یہ ہے کہ ۱۹۹۸ء سے ۲۰۰۱ء کے دوران امریکا، برطانیہ اور فرانس نے اس تباہ کن تجارت کے ذریعے ترقی پذیر ممالک سے جو منافع کمایا وہ اس رقم سے بہت زیادہ ہے جو انہوں نے امداد کے طور پر ان ممالک کو دی تھی۔ ورلڈ ٹریڈ سنٹر پر حملے کے بعد دہشت گردی کا خوف پیدا کرکے ہتھیاروں کی اس تجارت میں کئی گنا اضافہ کیا گیا۔ مختلف ممالک میں دہشت گردی کا ہوا کھڑا کر کے انہیں مجبور کر دیا گیا کہ وہ امریکا اور ترقی یافتہ ممالک کے ذریعے پھیلائے ہوئے بیانیے کو من وعن قبول کرلیں اور اس کے مقابلے کے لیے بھاری اسلحہ سے لیس ہوتے رہیں۔ اس عرصے میں دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر ان ممالک میں انسانی حقوق کی جو خلاف ورزیاں ہوئی ہیں اس کی داستان بیان کرنے کے لیے الگ دفتر چاہیے۔
صورت حال کا سب سے تشویشناک پہلو یہ ہے کہ ہتھیاروں کے اس کاروبار کے ذریعے ان بڑے ممالک کی حکومتیں اور کارپوریٹس ایک دوسرے کے تعاون سے مختلف غریب اور تیسری دنیا کے ممالک کی خارجہ پالیسی، جنگی حکمت عملیوں اور داخلی پالیسیوں پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ وہ ایسی صورت حال پیدا کر دیتے ہیں کہ پڑوسی ملکوں کے درمیان شکوک وشبہات پیدا ہو جائیں تاکہ اس کے ذریعے سے وہ اپنے ہتھیار بیچ کر بھاری منافع کماتے رہیں اور اپنے مختلف سیاسی و معاشی ایجنڈوں کو آگے بڑھاتے رہیں۔
مثال کے طور پر کئی برس پہلے امریکا نے متحدہ عرب امارات کے ساتھ ۸۰ جدید ایف ۱۶ لڑاکا طیارے فروخت کرنے کا معاہدہ کیا تھا جس کی لاگت اس وقت تقریباً ۱۵ بلین ڈالرس تھی۔ اس کے نتیجے میں امریکا اس قابل ہو جاتا کہ خلیج فارس کے گہرے پانیوں تک رسائی حاصل کر کے اپنا ملٹری بیس تعمیر کر لیتا۔ اس معاہدے کی وجہ سے خطے کے دوسرے ممالک میں تشویش پیدا ہوئی اور علاقے میں ایک طرح سے ہتھیاروں کے جمع کرنے کی ایک دوڑ شروع ہو گئی۔ ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات میں بگاڑ کو برقرار رکھنے میں ہتھیار فروخت کرنے والے ان ممالک کا کیا کردار ہے اس کا یہاں کی عوام کو جائزہ لینا چاہیے۔
ہتھیاروں کی اس تجارت کا ایک اور پہلو اس میں کرپشن کا عمل دخل ہے۔ کرپشن پر نگاہ رکھنے والے ایک بین الاقوامی ادارے ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کے مطابق ہتھیاروں کی عالمی تجارت دنیا کے تین بڑے کرپٹ کاروباروں میں سے ایک ہے۔ کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر رابرٹ نیلڈ لکھتے ہیں:
"سرد جنگ کے دوران ہونے والی ہتھیاروں کی دوڑ نے اسلحے کی تجارت میں کرپشن کے مواقع کو کافی بڑھا دیا تھا۔۔۔۔ لیکن سرد جنگ کے خاتمے کے بعد بھی اسلحے کی تجارت میں رشوت کچھ کم نہیں ہوئی۔ ہتھیار بنانے والی کمپنیاں مختلف ممالک میں پہلے سے بھی زیادہ تیزی کے ساتھ اور آزادی سے اپنی مارکیٹیں تلاش کر رہی ہیں۔ حالیہ اندازے کے مطابق ہتھیاروں کی بین الاقوامی تجارت میں سالانہ تقریباً 2.5 بلین ڈالر رشوت ادا کی جا رہی ہے جو امریکا میں ہتھیاروں کی فروخت کا تقریباً دس فیصد ہے۔”
الغرض اسلحہ کے اس کاروبار سے دنیا میں ایک طرف تو جنگ، تشدد، عمل اور ردعمل کا ایک تسلسل جاری ہے تو دوسری طرف تیسری دنیا کے ممالک مستقل غربت، بے روزگاری اور معاشی زوال کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔
یقیناً ظلم اور فساد کو روکنے کے لیے جنگ اور طاقت کا استعمال ضروری ہے لیکن جنگ کے بھی کچھ اصول وضوابط ہوتے ہیں ان کا لحاظ رکھا جانا چاہیے۔ محض اپنے مفادات کے حصول کے لیے دنیا کو مسلسل حالت جنگ میں رکھنا اور اسے بدامنی کا شکار بنا دینا اور ایسے ہتھیار فروخت کرنا جو اسلحہ کے ڈپووں اور فوجی ٹھکانوں سے زیادہ عام انسانی آبادی کو تہس نہس کر دینے والے ہوں انسانیت پر سب سے بڑا ظلم ہے اور یہ ظلم اس وقت تک جاری رہے گا جب تک طاقت کے نشے میں چور مملکتیں اپنے مادی مفادات کی تکمیل کے لیے امن کا ناپاک سودا کرتی رہیں گی۔
***

 

***

 یقیناً ظلم اور فساد کو روکنے کے لیے جنگ اور طاقت کا استعمال ضروری ہے لیکن جنگ کے بھی کچھ اصول وضوابط ہوتے ہیں ان کا لحاظ رکھا جانا چاہیے۔ محض اپنے مفادات کے حصول کے لیے دنیا کو مسلسل حالت جنگ میں رکھنا اور اسے بدامنی کا شکار بنا دینا اور ایسے ہتھیار فروخت کرنا جو اسلحہ کے ڈپووں اور فوجی ٹھکانوں سے زیادہ عام انسانی آبادی کو تہس نہس کر دینے والے ہوں انسانیت پر سب سے بڑا ظلم ہے اور یہ ظلم اس وقت تک جاری رہے گا جب تک طاقت کے نشے میں چور مملکتیں اپنے مادی مفادات کی تکمیل کے لیے امن کا ناپاک سودا کرتی رہیں گی۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  13 تا 19 مارچ  2022