اہم عصری مسائل: تجزیہ اور حل

مادی ترقی اور حقیقی ترقی میں فرق کو واضح کرنے والی ایک کتاب

مصنف: پروفیسر سیّد مسعود احمد
صفحات216:
قیمت150/-:
اشاعت : نومبر2020
ناشر: مرکزی مکتبہ اسلامی پبلشرز
تبصرہ:محمد عارف اقبال
(ایڈیٹر، اردو بک ریویو، نئی دہلی)

عصری مسائل پر جب باہم گفتگو کا آغاز ہوتا ہے تو موجودہ معاشرے میں پہلا مسئلہ ذہنی تناو (Mental Stress) سے شروع ہوتا ہے۔ ذہنی تناو کی وجوہات بے شمار ہو سکتی ہیں۔ ہر قوم، خاندان اور فرد کے مسائل الگ الگ ہو سکتے ہیں اور یہ مسائل ذہنی تناو پر بھی منتج ہوتے ہیں۔ جدید سائنس کے ترقیاتی دور سے قبل ہی علامہ اقبال نے ’ایک آرزو‘ کی تھی۔ تین اشعار ملاحظہ ہوں۔
دنیا کی محفلوں سے اکتا گیا ہوں یارب
کیا لطف انجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
شورش سے بھاگتا ہوں، دل ڈھونڈتا ہے میرا
ایسا سکوت جس پر تقریر بھی فدا ہو
مرتا ہوں خامشی پر، یہ آرزو ہے میری
دامن میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو
(بانگ درا)
’ایک آرزو‘ سے محسوس ہوتا ہے کہ ذہنی تناو کو کم کرنے اور سکونِ قلب کی خواہش علامہ اقبال کو بھی تھی۔ اب ایک صدی کے بعد جبکہ صنعتی انقلاب اپنے شباب پر ہے اور جدید سائنس اور ٹکنالوجی آسمان کو چھو رہی ہے، عصری مسائل کس طرح سنگین نوعیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ اس روئے ارضی پر انسان نہ صرف کراہ رہا ہے بلکہ اس کی چیخیں بھی نکل رہی ہیں۔ شاید اسی احساس کے تحت یہ کتاب لکھی گئی ہے۔
’اہم عصری مسائل تجزیہ اور حل‘ کے مصنف پروفیسر سیّد مسعود احمد علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق ڈین فیکلٹی آف لائف سائنسز اور شعبہ بایو کیمسٹری (Bio-Chemistry) کے صدر رہے ہیں۔ یہ کتاب آٹھ ابواب پر مشتمل ہے۔ ابواب کے عنوانات اس طرح ہیں(۱) ذہنی تناو (۲) تشدد اور جرائم کی کثرت (۳) سکونِ قلب کا حصول (۴) خدا کو مانے بغیر پائیدار امن ممکن نہیں (۵) قرآن کا تصور امن [عصر حاضر کی تشکیک کے تناظر میں] (۶) ماحولیاتی بحران (۷) پیہم ترقی کا قیام کیسے؟ (۸) پائیدار اور حقیقی ترقی کیا اور کیسے؟
آٹھوں ابواب کے عنوانات ہی سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ فاضل مصنف نے عصر حاضر کے کن اہم امور کے سنگین مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے پائیدار حل کی طرف نشاندہی کی ہے۔ مصنف نے ہر باب میں ذیلی عنوان قائم کر کے سادہ اسلوب میں مدلل اور سائنٹفک پیرائے میں اپنی بات رکھی ہے۔ کتاب کے سرسری مطالعہ ہی سے معلوم ہوتا ہے کہ مصنف موضوع پر نہ صرف گرفت رکھتے ہیں بلکہ ان کا مطالعہ بھی کافی گہرا ہے۔ مصنف نے اس کتاب کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے ’پیش لفظ‘ میں لکھا ہے۔
’’حقیقی اقدار انسانیت (Real Human Values) آج بلاشبہ خود اپنے حاملین سے شرمسار ہیں اور بایں وجوہ انہی انسانوں کی فطرت کا تقاضا ہے کہ ان کو ایسے سنگین مسائل کے اسباب بتائے جائیں تاکہ حساس قلب اور بیدار مغز لوگ ان سے بچنے کے ذرائع اختیار کرسکیں اور دوسروں کو بھی ان سے متنبہ کر سکیں۔‘‘
مصنف نے کتاب میں مدلل انداز میں مادی ترقی اور حقیقی ترقی میں فرق واضح کیا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے مسلمانوں کے ذریعے اندلس یعنی موجودہ اسپین کے عروج پر اس کی تباہی کی مثال بھی دی ہے۔ لیکن مصنف حقیقی ترقی کے حصول کے لیے دنیوی ترقی سے انکار بھی نہیں کرتے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’’…حقیقی ترقی کے حصول کے لیے دنیوی ترقی کی بھی یکساں اہمیت ہے اور اس میں سیاسی اور اخلاقی ترقی، معاشی اور ثقافتی ترقی، انفرادی اور اجتماعی ترقی بلکہ سبھی جہاتِ ترقی شامل اور مطلوب ہیں۔‘‘ (صفحہ 191)
اس طرح کے اہم موضوع پر ایک طویل عرصے کے بعد ناشر نے بروقت کتاب کی اشاعت کی ہے۔ اس کے لیے مصنف اور ناشر دونوں داد و تحسین کے مستحق ہیں۔
[email protected]
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  15 تا 21 مئی  2022