آزادی: سیکولرازم پر لگے دھبّوں کی نشاندہی

ارون دھتی رائے کی ایک اہم کتاب۔ماضی حال اور مستقبل کے اندھیروں ،اجالوں کا ذکر

تبصرہ : سید اظہر الدین

 

نام کتاب (انگریزی) :
Azadi – Freedom.Fascism.Fiction
مصنفہ : اروندھتی رائے
مطبوعہ: پینگوئن پبلشر
قیمت: امیژون پر مبلغ 359 روپئے۔
تبصرہ : سید اظہر الدین
ترجمہ : فواز جاویدخان
جو لوگ سماج سے جڑے ہوئے ہیں حالات حاضرہ سے واقفیت رکھتے ہیں ان کے لیے تو ’آزادی‘ صرف ’اروندھتی رائے‘ کے سیاسی و سماجی مسائل کو مخاطب کرنے والے مضامین اور تقریروں کا ایک مجموعہ ہے۔ لیکن اگلی نسلوں کے لیے یہ کتاب یقیناً ایک’ تلخ حقیقت‘ ہوگی۔
اس وقت’محترمہ رائے‘ پورے حوصلہ اور ہمت کے ساتھ اکیلے اپوزیشن کا کردار ادا کر رہی ہیں۔ وہ بالعموم عوام کے اور خصوصاً سماج کے پچھڑے طبقات کے مسائل پر آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ ان کی یہ کتاب ۹ ابواب پر مشتمل ہے۔ زیر نظر مضمون میں صرف کتاب کا تعارف ہی نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے جو مصروفیت کے باعث پوری کتاب پڑھنے کا وقت نہیں نکال سکتے، کتاب کا خلاصہ بھی بیان کیا گیا ہے۔
اس کتاب کے مطالعہ سے بآسانی سمجھا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت الگ الگ میدانوں میں کس طرح سچ کو چھپانے اور اس میں ردوبدل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں ارون دھتی رائے نے ’آزادی‘ کتاب میں کن موضوعات پر گفتگو کی ہے۔
زبان: ’مصنفہ‘ نے ملکی سطح پر مختلف زبانیں رائج ہونے کی اہمیت سمجھانے کی کوشش کی ہے ۔ مختلف زبانیں رائج ہونے کی انوکھی خوبصورتی بھی ہے اور اگر ایک زبان کو زبردستی دوسری زبانوں پر بلاوجہ تھوپنے کی کوشش کی گئی تو اس کے برے اثرات کس طرح اثر پذیر ہوسکتے ہیں ۔ وہ لکھتی ہیں ’’موجودہ وطن پرست ہندو اقتدار اس خوبصورت پچی کاری (mosaic) پر اپنا ’ایک ملک، ایک مذہب، ایک زبان کا بھدا نظریہ تھوپنا چاہتا ہے۔ 1920 میں اپنے قیام کے وقت سے ہی آر ایس ایس (RSS) راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ، ہندو قومیت کی علمبردار اور موجودہ ہندوستان کی سب سے مضبوط پارٹی کا رونا ”ہندی- ہندو- ہندوستان“ ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ تینوں الفاظ دراصل فارسی-عربی ’الہند‘ سے آئے ہیں۔ اور نام ہندوستان جس کا لاحقہ ’ستان‘ ہے۔ یعنی اس کے معنیٰ ”جگہ“ کے ہیں اس میں لفظ ”استھان“ سنسکرت سے لیا گیا ہے اور اس کے معنیٰ بھی ’جگہ‘ کے ہی ہیں اور اس سے کنفیوز مت ہوئیے گا یہ اس علاقے کو بھی کہتے تھے جو دریائے سندھ (Indus) کے مشرق میں تھا۔ ’ہندو‘ اس علاقہ (نہ کہ مذہب) میں رہنے والے لوگوں کو کہتے تھے۔ ’آر ایس ایس‘ والوں سے یہ امید کرنا تو فضول ہے کہ وہ دوسرے ملکوں کے تجربات سے سبق لیں گے۔ لیکن جب ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ نے ”مشرقی پاکستان “ کے بنگالی بولنے والے لوگوں پر زبردستی اردو زبان کو تھوپنا چاہا تھا تو اس کو اپنا آدھا حصہ کھونا پڑا۔ ٹھیک اسی طرح ”سری لنکا“ نے جب اپنے تمل عوام پر ’سنہالا‘ زبان کو تھوپنا چاہا تو اس کا انجام کئی دہائیوں کی خانہ جنگی اور خون خرابہ کی شکل میں سامنے آیا۔۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم انڈیا میں رہ کر کام کر رہے ہیں (لکھ رہے ہیں) وہ بھی ایک پیچیدہ انداز میں۔ اس مسئلے کو کبھی اس طریقے سے حل نہیں کیا جا سکتا خاص طور سے زبان بلکہ زبانوں کے مسائل تو ظلم اور جبر سے ہرگز حل نہیں ہوسکتے۔(ص 12, 13)
کشمیر: کشمیر جنتِ ارضی ہے۔ قدرتی نظارے، لوگوں کا خلوص، وادی کا قدرتی خزانوں سے مالا مال ہونا یہ سب کچھ سکّے کا ایک رخ ہے دوسرا رخ وہ ہے جو یک طرفہ میڈیا دکھاتا ہے۔ مصنفہ رائے نے کئی ابواب میں کشمیر کے لوگوں پر ہونے والے ظلم و ستم کو کچھ اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر اور کچھ بین الاقوامی میڈیا کے حوالہ سے بیان کیا ہے۔ وہ کشمیریوں سے ہمدردی جتاتے ہوئے بر سر اقتدار لوگوں سے سوال بھی کرتی ہیں۔ کشمیر دنیا کا سب سے زیادہ ”فوج زدہ“ علاقہ ہے۔ تقریباً نصف ملین ہندوستانی فوجی وہاں تعینات ہیں۔ یہ تعداد انٹلی جنس بیورو، ریسرچ اینڈ انلائسز ونگ اور نیشنل انٹلی جنس ایجنسیوں سے ہٹ کر ہے۔ باوردی افواج، آرمی، بارڈر سیکیورٹی فورس، سینٹرل ریزرو پولیس فورس اور جموں و کشمیر پولیس فورس، ان تمام میں سے ہر ایک کے پاس ان کا اپنا ایک جاسوسی نظام ہے۔ لوگ مخبروں، دوطرفہ، سہ طرفہ ایجنٹوں سے ڈرے سہمے ہوئے زندگی گزارتے ہیں۔ یہ مخبر کوئی بھی ہوسکتے ہیں، پرانا کلاس میٹ کوئی خاندان کا ہی فرد یا کوئی بھی۔ ایسے حالات میں اگر پلواما جیسا حملہ ہو جاتا ہے تو یہ بہت زیادہ چونکا دینے والا ہے۔ ٹویٹر پر ایک دوٹوک تبصرہ نگار نے لکھا کہ ’’بی جے پی تین کلو گوشت کا تو پتہ لگا لیتی ہے لیکن ساڑھے تین سو کلو آر ڈی ایکس (RDX) کا اسے کوئی پتہ نہیں چلتا، کیا یہ ممکن ہے؟ کسی کو اس کی خبر ہے؟… اس سے اس کی مراد، شمالی ہندوستان کے کٹر ہندوؤں کا گائے ذبح کرنے کے نام پر مسلمانوں کی ماب لنچنگ سے ہے -(ص: 66, 67)
اگر کشمیر میں فوج کا قبضہ ہوگیا تو پورے ہندوستان پر بھڑکی ہوئی بھیڑ کا قبضہ ہوگا۔اس مبصر نے کہا کہ وہ ابھی اسی کے بارے میں سوچ رہا تھا کیونکہ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ وہ دلی سے کچھ فاصلہ پر اپنے گھر والوں سے ملنے ہائی وے پر کار ڈرائیو کر کے جاتا ہے۔ اس نے کہا ’’مجھے کوئی بھی آسانی سے روک سکتا ہے‘‘۔
’’تب تم کو کیا کرنا چاہیے‘‘۔ مصنفہ نے کے سوال پر اس نے کہا ’’تمہارا زندہ رہنا ضروری ہے، میرا نہیں… مجھے تو بہرحال مارے جانا ہے‘‘۔ پھر اس نے کہا ’’انہوں نے تبریز انصاری کے ساتھ بھی تو وہی کیا تھا‘‘۔
یہ اور اس طرح کی اور گفتگو…. یہ وہ گفتگو ہے جو ہم ہندوستان میں رہتے ہوئے کرتے ہیں، جب کہ ہم کشمیر کے زبان کھولنے کا انتظار کر رہے ہیں اور وہ زبان تو کھولے گا۔ (ص 105, 106)
مسلمانوں پر حملہ:
گجرات فسادات کو یاد کرتے ہوئے جب کہ اس وقت ’نریندر مودی‘ وہاں کے چیف منسٹر تھے، ارون دھتی رائے افسانوی انداز میں ایک خاندان کے ڈر و خوف کی داستان سناتی ہیں۔ داستان میں اصل کردار کے حوالے سے جس منتر کا ذکر ہوا ہے، اس منتر میں بر سر اقتدار طبقے کے لیے بڑی نصیحت ہے۔ وہ لکھتی ہیں ’’انجم اور ذاکر میاں کے غائب ہونے کے دو مہینہ بعد جب مار دھاڑ کا ماحول کچھ ٹھنڈا پڑا تو ذاکر میاں کا بیٹا معصوم ان کو ڈھونڈنے احمد آباد پہنچا۔ احتیاط کے طور پر اس نے ڈاڑھی منڈوا لی تھی کہ شائد ہندو بن کر محفوظ رہ سکے۔ اس کو اس کے والد تو نہیں ملے لیکن مردوں کے ”پناہ گزین کیمپ“ میں اس کی ملاقات ڈری سہمی انجم سے ہو گئی، جو کہ مردانہ کپڑوں میں ملبوس تھی، اس نے بال بھی بالکل چھوٹے کروا لیے تھے۔ وہ اس کو لے کر ”خواب گاہ“ گیا۔ انجم کے ساتھ اس دوران کیا ہوا اس نے کسی کو نہیں بتایا۔ لیکن اس کو یاد یہ تھا کہ کس طرح مردوں کو مارا گیا اور عورتوں کو بے حرمت کیا گیا تھا۔ وہ چیختی چلاتی زینب کو ساتھ لے کر نائی کے پاس گئی زینب جو اس کی گود لی ہوئی بیٹی تھی اس کے بال کٹوائے، اس کو لڑکوں والے کپڑے پہنائے، اس ڈر سے کہ کہیں گجرات کا سانحہ دہلی میں نہ دہرایا جائے۔ دوسری احتیاطی تدبیر اس نے یہ کی کہ زینب کو سنسکرت کا ’گائتری منتر‘ یاد کرا دیا جو اس کے کہنے کے مطابق اس نے گجرات کیمپ میں یاد کیا تھا۔ اس نے بتایا کہ وہاں دوسرے پناہ گزینوں نے بھی یہ منتر یاد کیا تھا ان کا ماننا یہ تھا کہ اس طرح وہ ہندوؤں کی بھیڑ سے جان بچا سکیں گے۔ اس منتر کا مطلب نہ تو انجم کو پتہ تھا نہ ہی زینب کو لیکن زینب نے اسے خوشی خوشی یاد کر لیا اور وہ اسکول کا ڈریس پہن کر یا بکریوں کو چارہ کھلاتے وقت وہ منتر گاتی رہتی ہےom bhur bhuvah svaha
Tat savitur varenyam
Bhargo devasya dhimahi
Dhiyo yo nah pracodayat
(اے خدا! تو ہی زندگی دینے والا ہے، تو ہی دکھ درد کو دور کرنے والا ہے ۔تو ہی خوشیاں برساتا ہے، اے خالق کائنات!۔ہمیں بھی گناہوں کو دور کرنے والی ہدایت عطا فرما۔تو ہماری رہنمائی کر سیدھے راستہ کی طرف)(ص 50, 51)
دلتوں کو بانٹنا ( یعنی دراڑ ڈالنے کی کوشش) : محترمہ رائے نے بی جے پی کی پہلے سے بٹے ہوئے طبقات کو مزید بانٹنے کی پالیسی پر تفصیلی روشنی ڈالی ہے۔’’حد سے زیادہ دولت کے نشے میں چور بی جے پی، اپنے سیاسی مخالفین کو پوری طرح سے کچلنے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ وہ چاہے کسی پارٹی کو خود میں شامل کرکے، یا اسے خرید کر یا بصورت دیگر اسے کچل کر ہی کیوں نہ ہو اپنے مقصد میں کامیاب ہوتی نظر آرہی ہے۔ جس سے اس کاسب سے برا اثر شمالی ہندوستان کی ان پارٹیوں پر پڑا ہے جو دلت یا دیگر پچھڑے ہوئے طبقات کے دم پر کھڑی تھیں۔ بہوجن سماج پارٹی، راشٹریہ جنتا دل اور سماج وادی پارٹی کے ووٹرس اپنی پارٹیوں کو خیر آباد کہہ کر بی جے پی کی گود میں چلے گئے ہیں۔ اس کارنامہ کو انجام دینے کے لیے جو کہ کوئی چھوٹا موٹا کارنامہ نہیں ہے، بی جے پی نے ان تھک محنت کی ہے تاکہ وہ دلتوں کے آپسی طبقاتی نظام کو اور نمایاں کریں اور اس سے اپنا سیاسی مفاد نکال لے جائیں۔ بی جے پی کے بھرے ہوئے خزانوں اور ذات پات کے سلسلے میں ان کی مکارانہ چالوں نے ذات پات پر مبنی سیاست کا پورا حساب کتاب ہی بدل دیا“۔ (ص118, 119)
سی اے اے/این آر سی: اس کو آپ جدید اصطلاح کے مطابق ’شہریوں کا قومی اندراج ‘(National register of citizens) بشمولیت ’شہریت ترمیمی قانون‘(Citizenship Amendment Act) کے اور کیا کہہ سکتے ہیں؟ یہ درحقیقت 1935ء جرمنی کے’ نورم برگ قوانین‘ (Nuremberg Laws) کا آر ایس ایس ورژن ہے۔ ان قوانین کے مطابق جرمنی کے شہری صرف وہ ہوں گے جن کے پاس تھرڈ ریچ (Third Reich) کی حکومت کی طرف سے جاری کردہ شہریت کے کاغذات ہوں۔ مسلمانوں کے خلاف قانون میں جو ترمیم کی گئی ہے وہ تو بس شروعات ہے۔ عیسائی، کمیونسٹ، دلت اور دیگر طبقات بھی ایک دن ضرور اس کی لپیٹ میں آئیں گے۔ آر ایس ایس کی نظر میں ان کے سارے مخالفین غیر ملکی ہیں۔ وہ محکمے اور قید خانے جو پورے ہندوستان میں بننا شروع ہو گئے ہیں شائد ایک بار میں کروڑوں مسلمانوں کو جگہ نہ دے سکیں۔ لیکن وہ اس بات کی ضمانت ہیں کہ اگر ہندوستانی مسلمان اپنے کاغذات نہیں دکھا سکے تو ان کے ساتھ یہی رویہ اختیار کیا جائے گا۔ کیوں کہ اصل شہری صرف ہندوؤں کو تسلیم کیا گیا ہے اور ان کو کاغذات دکھانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جب چار صدیوں سے کھڑی بابری مسجد کے کاغذات نہیں دکھائے جا سکے تو اس کی کیا امید ہے کہ ایک غریب کسان یا ٹھیلہ لگانے والا اپنے کاغذات ثابت کروا لے گا؟(ص 148)
”سی اے اے 2019‘ کا یہ قانون مسلم اقلیت کے ساتھ ساتھ کس طرح اکثریتی طبقے پر بھی اثر انداز ہوگا اس کے بارے میں مصنفہ ارون دھتی رائے ہمیں (Intimations of an ending) باب میں بتاتی ہیں۔ پھر وہ باب (There is fire in the Duct, The System is Failing) میں بتاتی ہیں کہ اس قانون سے آس پڑوس کے ملکوں میں رہنے والے بے قصور ہندو بھائیوں اور بہنوں پر کیا فرق پڑے گا؟ ’’این پی آر، این آر سی، سی اے اے کا واحد مقصد نہ صرف ہندوستان بلکہ پورے بر صغیر کے نظام کو درہم برہم کرنا اور لوگوں کو آپس میں تقسیم کرنا ہے۔ اگر یہ قوانین باقی رہتے ہیں تو کروڑوں وہ لوگ جن کو ہندوستان کے وزیر داخلہ بنگلہ دیشی یا گھس پیٹھیا کہتے ہیں ان کو نہ تو قید کیا جا سکتا ہے نہ ہی کہیں باہر کیا جا سکتا ہے۔ اس قسم کے گھٹیا الفاظ کے استعمال سے اور ایسے ناکارہ منصوبہ بنا کر یہ سرکار ان کروڑوں ہندوؤں کی جان کو خطرہ میں ڈال رہی ہے جو پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان جیسے ملکوں میں بس رہے ہیں۔ یہ جن کے بارے میں کہتے ہیں کہ انہیں ان کی بہت فکر ہے الٹا وہی ان کی اس متعصبانہ حرکت کے رد عمل کا شکار ہوں گے۔(ص:200)
جھوٹی خبریں:
اقلیتی طبقے اور پچھڑے طبقات کی آپسی کوششوں سے ہندوستان میں ایک نیا سیاسی محاذ تشکیل پا رہا ہے۔ ارون دھتی رائے کے مطابق ”موجودہ فاشسٹ طاقتوں کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت اگر کسی میں ہے تو وہ یہی محاذ ہے“۔ وہ لکھتی ہیں’’مسلمانوں اور امبیڈکر کے ماننے والوں کے ساتھ ساتھ دوسرے ذات پات کی مخالفت کرنے والے لیڈرس جیسے جوتیبا، ساوتری بائی پھولے، سینٹ روی داس اور برسا منڈا وغیرہ کے ماننے والوں کا ایک زبردست اتحاد دیکھنے کو مل رہا ہے۔ بائیں بازو کو ماننے والوں کی نئی پیڑھی بھی ان کے ساتھ ہے جو کہ پچھلی پیڑھیوں کے بر خلاف ’کلاس‘ کے ساتھ ساتھ ’ذات پات‘ کو بھی اپنی ورلڈ ویو کا مرکز بناتے ہیں۔ یہ اتحاد ابھی نوخیز ہے۔ مادی اور فکری اختلافات سے بھرپور، شکوک وشبہات میں ڈوبا ہوا لیکن یہی ہماری آخری امید ہے۔ قابل تشویش یہ ہے کہ اس اتحاد کو بننے سے پہلے ہی توڑنے کی کوششیں ہو رہی ہیں۔ جھوٹی خبروں کا مایا جال تاریخ کو بھی توڑنے مروڑنے میں لگا ہوا ہے اور حالات حاضرہ بھی اس کی الٹ پھیر کا شکار ہے۔ جھوٹی خبروں کا سیلاب کارپوریٹ شعبوں میں بھی نمایاں ہے، بالی ووڈ بھی اس کی لپیٹ میں ہے، ٹیلیویژن، ٹویٹر، واٹس ایپ غرض ہر جگہ وہ روشنی کی رفتار سے پھیلتا جا رہا ہے۔ (ص 174 )
اسلاموفوبیا:
آخری باب ’عالمی آفت؛ ایک ذریعہ‘ (The Pandemic is Portal) پڑھنے کے بعد مجھے یہ محسوس ہوا کہ ارون دھتی رائے بھارت میں بڑھتے ہوئے اسلاموفوبیا کے اثرات کو محسوس کر رہی ہیں۔ وہ اپنی کتاب کو ختم کرتے ہوئے لکھتی ہیں ’’ہم سب کو کیا ہو گیا ہے؟ یقیناً یہ ایک وائرس ہے اس کی کوئی اخلاقی توجیہہ ممکن نہیں۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ صرف ایک وائرس نہیں۔ کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ اللہ تعالی کی نشانی ہے تاکہ بندے سیدھے راستہ پر آجائیں۔ کسی کا ماننا ہے کہ یہ پوری دنیا پر قبضہ جمانے کی’ چائنا‘ کی ایک سازش ہے۔ کووڈ-19 نے سب کو گھٹنوں پر جھکا دیا ہے۔ اس نے جیسے پوری دنیا کو روک دیا ہے اور اس کے آگے کسی کا بس نہیں تھا۔ ہم ابھی بھی اس کے لیے تیار نہیں ہو پائے ہیں۔ واپس ’معمول کی زندگی‘ کی طرف لوٹ جانا چاہتے ہیں۔ اپنے ماضی کو مستقبل سے اس طرح جوڑ دینا چاہتے ہیں کہ درمیان کا یہ شگاف محسوس ہی نہ ہو لیکن شگاف تو پڑ چکا ہے۔ ان سخت ترین حالات میں ہمیں یہ بھی سوچنا ہوگا کہ آخر یہ کیا آفت ہم اپنے اوپر کھینچ لائے ہیں۔ دوبارہ ’معمول کی زندگی‘ پر آجانے سے برا اور کچھ نہیں ہو سکتا۔ تاریخ سے یہ بات ثابت ہے کہ عالمی آفات انسان کو ماضی سے کاٹ کر ایک نئے مستقبل میں زندگی گزارنے پر مجبور کر دیتی ہیں۔ یہ ایک پورٹل ہے۔ ایک دروازہ۔ ایک دنیا سے دوسری دنیا کے بیچ کا ایک دروازہ۔(ص: 214، یہ کتاب کا آخری حصہ ہے۔)
جہد کار نشانہ پر: میرے خلاف جو کیس بنایا گیا تھا وہ اب تک کسی نتیجہ پر نہیں پہنچا ہے۔ میں ابھی بھی یہیں ہوں۔ اپنے ’لکھنے والے‘ پیروں پر کھڑی ہوں۔ آپ سب سے مخاطب ہوں۔ لیکن میرا لکچرر ساتھی جیل میں ہے۔ اس پر ملک سے غداری کا الزام ہے۔ انڈیا کی جیلیں سیاسی قیدیوں سے بھری پڑی ہیں۔ ان میں سے بیشتر پر یا تو’ ماؤسٹ‘ ہونے کا الزام ہے یا ’اسلامی دہشت گرد‘ ہونے کا الزام ہے۔ یہ اصطلاحات اتنی کشادہ ہیں کہ حکومت کی پالیسیز سے نا اتفاقی رکھنے والا ہر شخص اس میں گھیر لیا جاتا ہے۔ الیکشن سے پہلے جب گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا تو کتنے ہی اساتذہ، وکلا، ایکٹویسٹ اور قلم کار حضرات کو وزیر اعظم ’نریندر مودی‘ کے قتل کی سازش کا الزام لگا کر جیلوں میں ٹھونس دیا گیا۔ ان کے خلاف جو کہانی بنائی گئی ہے وہ اتنی بے تکی ہے کہ ایک چھٹی کلاس کا بچہ بھی اس میں خامیاں نکال سکتا ہے۔ فاشسٹ طاقتوں کو چاہیے کہ وہ کچھ اچھے افسانہ نگاری کے کورسیز کرنے کا اہتمام کریں‘‘ (ص 78, 80)
یہ اقتباس کتاب کے باب ”ادب کی زبان“(The Language of Literature) کا ہے جس میں مصنف اپنا غم ظاہر کرتی ہیں کہ غدار وطن، اربن نکسل اور جہادی کے نام پر کس طرح ان ایکٹوسٹ، وکلاء، اساتذہ اور قلم کاروں کو جو حکومت کی غلط پالیسیز کے خلاف ہیں، نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
بڑھتا فاشزم: جو لوگ ایک دھڑکتا ہوا دل رکھتے ہیں وہ اس حقیقت سے کبھی انکار نہیں کر سکتے جو ارون دھتی رائے نے بیان کی ہے۔ کیوں اور کس طرح فاشزم پروان چڑھتا ہے اور ان کے پیچھے پیچھے کیا سازشیں کار فرما ہوتی ہیں؟ ’’بیس سال تک ہندو وطن پرستی کے بارے میں فکشن اور نان فکشن تحریریں لکھنے کے بعد سالہا سال تک یورپ میں فاشزم کے عروج و زوال کو پڑھنے کے بعد میں اس سوچ میں پڑ گئی کہ فاشزم کیوں؟ اگرچہ کہ صرف فاشسٹ طاقتیں ہی نہیں بلکہ خود فاشزم بھی تاریخ کے ہر دور میں ثقافتوں کے ہر رنگ میں آسانی کے ساتھ پہچانا جا سکتا ہے۔ مضبوط انسان، نظریاتی فوج، آرین نسل کی فوقیت کے گھناؤنے خواب ”داخلی دشمن“ کے ساتھ حیوانی سلوک، اس کو پسماندہ بنادینے کی وحشیانہ خواہش، حد درجہ سفاک اور بڑے پیمانے پر کام کرنے والی پروپیگنڈہ مشینیں، مجرمانہ حملے، قتل، ابھرتے ہوئے سرمایہ دار اور فلم اسٹار، یونیورسٹیوں پر حملے، دانشوروں کا خوف، ڈٹنشن کیمپ کا تماشہ، اور نفرت سے بھرے ہوئے ’زومبیز‘ جو (Heil!! Heil! Heil) کے مشرقی ورژن (جئے! جئے! جئے!) کے نعرے لگاتے ہوئے۔ باقی داستان بھی ویسی ہی ہے۔ تھکا ہوا، الجھا ہوا اپوزیشن، بلا وجہ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر ہنگامہ کرنے والا بایاں بازو، متنازعہ قسم کے لبرل جنہوں نے سالہا سال وہی راہ ہموار کی جس پر آج ہم کھڑے پچھتا رہے ہیں اور اب وہ خود شش و پنج میں مبتلا ہیں۔ دائیں بازو کے نا سمجھ جن کو یہ عقل نہ تھی کہ ان سب میں بالآخر وہ خود بھی پھنسنے والے ہیں اور ہاں وہ بھیڑیے جنہوں نے مہذب طریقہ چھوڑ کر چاند کو دیکھتے ہوئے شور مچا رکھا ہے جبکہ یہاں ہم میں سے ہر کسی کی اپنی اپنی پہچان ہے۔ ‘‘(مفہوم)(ص 177, 178)
اگر میں اروندھتی رائے سے سوال کروں کہ جھوٹے کیسس اور دھمکیوں کے باوجود انہوں نے لکھنا کیوں نہیں چھوڑا تو مجھے امید ہے اس کا جواب وہی ہوگا جو انہوں نے اپنی ذمہ داری کے تعلق سے ’آزادی‘ کتاب میں لکھا ہے۔ ’’لگ بھگ میرا ہر مضمون مجھے اتنی پریشانیوں میں ڈال دیتا ہے کہ میں اپنے آپ سے وعدہ کر لیتی ہوں کہ اس کے بعد کوئی مضمون نہیں لکھوں گی۔ لیکن پھر ایسے حالات بنتے ہیں کہ خود کو خاموش رکھنا مشکل ہو جاتا ہے، فکر و خیال میں ایک ہنگامہ سا برپا ہو جاتا ہے، خون کی گردش تیز ہو جاتی ہے اور مجبوراً مجھے لکھنا ہی پڑتا ہے۔ پچھلے سال جب میرے پبلشر نے مجھے ان کو ایک جلد میں شائع کرنے کا مشورہ دیا تو میں یہ جان کر حیران رہ گئی کہ وہ ایک ہزار سے بھی زائد صفحات تھے‘‘ (ص 87)
میں اپنی بات اس امید کے ساتھ ختم کرتا ہوں کہ ہمارے ملک کو مزید ایسے قلم کار ملتے رہیں جو’’انصاف کے قیام‘‘ کی خاطر قلم کا استعمال کریں گے۔
***

’’موجودہ ہندوستان میں اقلیتی طبقہ سے جڑا ہونا ایک جرم ہے، قتل ہونا بھی جرم ہے، ماردیا جانا بھی جرم ہے، غریب ہونا بھی جرم ہے، بلکہ غریب کی مدد کرنا حکومت کا تختہ پلٹنے کے مترادف ہے۔‘‘ (اروندھتی رائے‘)

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ یکم تا 7 نومبر، 2020