آرایس ایس میں مسلمانوں کی شمولیت اورحمایت!

کتنی حقیقت،کتنا فسانہ؟

فاطمہ خان

 

ییل یونیورسٹی کے محقق فیلکس پال کا تجزیہ
’’اقتدار سے قربت، سلامتی کے خدشات، ’کرشماتی‘ قیادت اور برادری میں روایتی قوت کے مراکز کے خلاف مزاحمت۔ یہ تین ایسے پسِ پردہ محرکات ہیں جو مسلمانوں کے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کا حصہ بننے کی وجہ ہوسکتے ہیں‘‘ ۔
مذکور بالا اقتباس امریکہ کی یالے یونیورسٹی کے محقق فیلکس پال کے مقالے میں شامل ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی آر ایس ایس کے مسلم راشٹریہ منچ میں شمولیت کے دعوؤں کی سچائی پر اپنی وسیع تحقیق سے ثابت کیا ہے کہ آخر وہ کونسی وجوہات ہیں جن کی بنا پر یہ جانتے ہوئے بھی کہ آر ایس ایس سخت مسلم مخالف نظریات کی حامل ہے، مسلمان اس تنظیم میں شامل ہو رہے ہیں نیز، کثیر تعداد میں مسلمانوں کی آر ایس ایس میں شمولیت کے دعوؤں میں کتنی سچائی ہے۔ فیلکس پال کی یہ تحقیق مسلم راشٹریہ منچ کے درجنوں نام نہاد ارکان کے انٹرویوز پر مشتمل ہے۔
آر ایس ایس کی مسلم شاخ میں مسلمانوں کی شمولیت کیوں؟‘‘ کے زیر عنوان جون 2020 میں شائع شدہ اپنے مقالے میں فیلکس پال نے استدلال کیا ہے کہ آر ایس ایس میں شمولیت کے خواہاں مسلمانوں کے اپنے تحفظات پر مبنی کچھ خاص وجوہات ہیں جن میں نمایاں طور پر اقتدار سے قربت پر حاصل ہونے والے مادّی مفادات، سلامتی کی فکر اور مسلمانوں کے روایتی قوت کے مراکز سے پھٹکار اور مسلم راشٹریہ منچ کے قائد اندریش کمار کی ’’کرشماتی شخصیت‘‘ سے قربت شامل ہے تاہم فیلکس پال، آر ایس ایس کے جانب سے مسلمانوں کے ذہنوں پر فتح حاصل کرنے کے دعوؤں کو مبالغہ آرائی قرار دیتے ہیں۔ انہوں نے 2018 اور 2019 کے دوران مختلف مقامات پر 70 سے زائد افراد سے الگ الگ 85 مرتبہ غیر رسمی انٹرویوز لیتے ہوئے یہ نتائج اخذ کیے ہیں۔ اس گفتگو میں 57 مسلم راشٹریہ منچ کے ممبر، آر ایس ایس کے رضاکاروں کے علاوہ سیاسی مبصرین شامل تھے۔ یہ انٹرویوز دلی کے ساتھ ساتھ لکھنؤ، ممبئی اور احمد آباد میں بھی لیے گئے تھے۔
آر ایس ایس میں مسلمانوں کی موجودگی کے مبالغہ آمیز دعوے
فیلکس پال نے اپنے مقالے میں یہ دلیل دی کہ آر ایس ایس میں مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد کی موجودگی کا دعویٰ مبالغہ آمیز ہے۔ انہوں نے لکھا ’’منچ کے ساتھ گزارے ہوئے اپنے وقت کے دوران مجھے بتایا گیا کہ ممبرس کی تعداد زیادہ سے زیادہ 30 لاکھ اور کم سے کم 10 ہزار ہے۔ آخرالذکر کا امکان اول الذکر سے کہیں زیادہ تھا لیکن جب میں نے منچ کے ساتھ زیادہ وقت گزارا تو یہ بات پوری طرح واضح ہو گئی کہ منچ میں شامل ہونے اور رکنیت حاصل کرنے کی دعوے بڑھا چڑھا کر پیش کیے گئے ہیں اور بعض معاملات سیدھے طور پر من گھڑت ہیں‘‘۔
فیلکس پال نے لکھا ہے کہ ’’اپنے فیلڈ ورک کے ایک حصے کے طور پر انہوں نے رام مندر کی تعمیر کے لئے ایودھیا میں راشٹریہ مسلم منچ کے ایک پروگرام میں شرکت کی جس میں دس ہزار مسلمانوں کی شرکت کا دعویٰ کیا گیا تھا۔ تاہم اس دن دو سو سے کم افراد پہنچے جن میں سے بیشتر صحافی، وی ایچ پی کارکن اور متجسس مقامی لوگ تھے‘‘
فیلکس پال مزید لکھتے ہیں ’’وہاں غیر متوقع طور پر کُرتے اور دستار میں ملبوس نوعمر لڑکوں کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ لیکن میں نہیں سمجھتا کہ ان میں سے کسی کو بھی منچ کی حقیقت کا پتا تھا یا یہ معلوم تھا کہ وہ وہاں کیوں ہیں۔ یقینی طور پر وہ وہاں اپنے مدرسہ کے اساتذہ کے جانب سے بھیجے جانے پر موجود تھے‘‘۔ وہ مزید لکھتے ہیں: وہاں ’’بہت ہی کم مسلمان‘‘ موجود تھے جو حقیقت میں منچ کا حصہ بننے کے لیے دستخط کر رہے تھے پھر ان میں بھی ایک بہت بڑا حصہ بظاہر خوشحال اعلیٰ ذات کے مسلمان مردوں پر مشتمل تھا اور ان میں شاید ہی کوئی پسماندہ اور دبے ہوئے مظلوم مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والا رہا ہوگا۔فیلکس پال کہتے ہیں کہ انہوں نے جن لوگوں کا انٹرویو لیا ہے ان میں ایک تعداد ان افراد کی ہے جنہوں نے ہندوستانی مسلمانوں کے حالات کو مادی طور پر بہتر بنانے کے معاملہ میں ’’روایتی قیادت‘‘ کی عدم توجہی یا ان کی نا اہلی سے پیدا شدہ ایک گہری مایوسی کے سبب منچ میں شامل ہوئے ہیں۔ اس ’’روایتی قیادت‘‘ میں کانگریس کے ساتھ ساتھ مسلم علما بھی شامل ہیں۔ دراصل مذکور بالا تین نمایاں وجوہات ہیں جو کچھ مسلمانوں کو اس طرح کی تنظیموں میں شامل ہونے کی ترغیب دے سکتی ہیں ۔
اقتدار سے قربت، اندریش کمار کا کرشمہ
فیلکس پال کے مقالے کے مطابق آر ایس ایس سے بعض مسلمانوں کی قربت کا پہلا محرک ان کا برسرِ اقتدار پارٹی بی جے پی سے تعلق ہے جس کے ذریعہ اقتدار کے ایوانوں تک منفعت بخش ’’رسائی‘‘ آسانی سے حاصل ہو جاتی ہے۔ یہی وہ کلیدی وجہ ہے جو کئی ایک امیدواروں کے لیے راشٹریہ مسلم منچ کی رکنیت اور اس کی حمایت کا باعث بن رہی ہے۔ فیلکس پال نے مزید بتایا کہ منچ کے بہت سارے ممبران جن سے ان کی ملاقات ہوئی، وہ مختلف سرکاری عہدیدار تھے اور وزارت برائے فروغ انسانی وسائل یا وزارت فروغ اقلیتی امور یا وقف بورڈ اور حج کمیٹیوں کے عہدوں پر فائز تھے تاہم، منچ کے تمام ممبروں کو سرکاری ملازمتوں میں جگہ نہیں دی جاسکتی تھی لہٰذا ان میں بہت سارے لوگوں کے لیے دوسری ترغیبات کی گنجائش موجود تھی۔ وہاں ایک انٹرویو کنندہ کا خیال تھا ’’اگر وہ آر ایس ایس کا حصہ ہیں تو وہ قانون ساز کونسل کی رکن بھی ہوسکتی ہیں‘‘ جبکہ کچھ دوسرے لوگوں کو امید ہے کہ انہیں یونیورسٹیوں اور محلے کی کونسلوں میں نچلی سطح کے عہدے مل سکتے ہیں۔فیلکس پال نے منچ میں شامل ہونے والوں پر تنظیم کے صدر اندریش کمار کی بظاہر پر اثر شخصیت کا بھی احاطہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا ’’یہاں تک کہ منچ پر سخت تنقید کرنے والے افراد بھی اندریش کمار کے بارے میں مبہم الفاظ میں بھی کچھ منفی کہنے سے پرہیز کر رہے تھے۔
دراصل راشٹریہ مسلم منچ کا قائد اندریش کمار ابتدائی طور پر 2007 میں اجمیر درگاہ دھماکے کا ملزم تھا جس میں تین افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ تاہم، اپریل 2017 میں قومی تفتیشی ایجنسی (این آئی اے) نے اس کو کلین چٹ دے دی۔ مقالے میں کہا گیا ہے کہ اندریش کمار کے متنازعہ ماضی اور دہشت گردی کے الزامات کے باوجود راشٹریہ مسلم منچ پر اس کے تسلط پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ فیلکس پال نے لکھا کہ منچ کی ایک ممبر نے جس کا انہوں نے انٹرویو لیا تھا، ان سے کہا کہ وہ اندریش کمار کو بتائیں کہ وہ ان کی تحقیق میں کتنی مددگار رہی ہیں اور وہ منچ کے لئے کتنا کام کرتی ہیں۔ فیلکس پال لکھتے ہیں کہ منچ سے مستفید ہونے کے لیے واضح طور پر منچ کے اندر اندریش کمار کا عقیدت مند نظر آنا ضروری ہے۔ یعنی اگر آپ ان کو شکست نہیں دے سکتے تو ان میں شامل ہو جائیں۔ آخر میں اس مقالے میں یہ دلیل دی گئی کہ آر ایس ایس کی تائیدی دستخط مہم میں شامل ہونے کا انتخاب کرنے والوں کی انتہائی مناسب وجوہات میں سے ایک وجہ ان کی سلامتی اور تحفظ کو یقینی بنائے رکھنا بھی ہے۔ مقالے میں کہا گیا ہے کہ ’’اگرچہ ترغیب سے بھرپور ممبر شپ کو لالچ یا اندریش کمار کی مقناطیسیت کہہ کر مسترد کرنا آسان ہے لیکن بے قدر وقیمت ارکان کو سیکیورٹی خدشات کے ذریعہ متحرک رکھنا مشکل ہے‘‘۔ منچ کے ایک ممبر نے آر ایس ایس میں شامل ہونے کے اپنے فیصلے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ’’اگر آپ انہیں شکست نہیں دے سکتے تو ان میں شامل ہوجائیں‘‘۔
فیلکس پال نے اتر پردیش میں منچ کے ایک ممبر کا انٹرویو بھی لیا جس نے کئی مہینوں سے تنظیم کے بنیادی ڈھانچے پر کڑی تنقید کرنے کے بعد منچ میں شامل ہونے پر غور کرنا شروع کیا۔ باوجود اس کے کہ تنظیم کے بارے میں اس کے خیالات پہلے کی طرح ہیں پھر بھی اس کی سوچ بدل رہی تھی۔ اس کے مطابق ’’اگر پولیس کے ساتھ کبھی بھی کوئی پریشانی پیش آتی ہے اور وہ جانتے ہیں کہ ہم آر ایس ایس سے وابستہ ہیں تو پولیس ہماری زیادہ ہمدرد ہوگی“۔
مقالے میں کہا گیا ’’اس شخص کی طرح بہت سوں کے آر ایس ایس میں شامل ہونے کے پیچھے حاشیے میں دھکیل دئے جانے سے خود کو بچانے کی وجہ کار فرما ہے‘‘۔
(بہ شکریہ دی کوئنٹ)
***

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021