آخرحکومت پٹرول اور ڈیزل کے دام گھٹانے پرمجبور

ضمنی چناو کے نتائج سے عوام کو کسی قدر راحت

زعیم الدین احمد ، حیدر آباد

مرکز نے بالآخر پٹرول اور ڈیزل پر ایکسائز ڈیوٹی میں بالترتیب 5 اور 10روپے فی لیٹر کم کرکے مانیٹری پالیسی سازوں کے مشورے پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کی وجہ سے پٹرول اور ڈیزل کی خوردہ قیمتوں میں بالترتیب پانچ اوردس فیصد تک کم کرنے میں مدد ملی ہے۔حکومت کی درخواست پر، 20 سے زیادہ ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں نے بھی ایندھن کی مصنوعات پر عائد قدر اضافی ٹیکس (VAT) میں کمی کی ہے۔ مرکز نے زور دے کر کہا کہ یہ فیصلہ بحالی معیشت کو تقویت دینے کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے دباؤ کو کم کرنے کے لیے تھا، لیکن اس فیصلے کے وقت کی سیاسی اہمیت کو نظر انداز کرنا مشکل ہے جو پارلیمنٹ اور اسمبلی کی بعض نشستوں کے ضمنی چناو کے نتائج آنے کے بعد کیا گیا ہے ۔یہ نتائج حکمراں پارٹی کو بے چین کردینے کا باعث بنے ہیں ۔ سمجھاجارہا ہے کہ حکمراں پارٹی نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے جو ایندھن کی قیمتوں میں کمی کے بڑھتے ہوئے مطالبات کو مسلسل نظر انداز کررہی تھی۔چونکہ آنے والے دنوں میں اترپردیش سمیت 5 ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اس پس منظر میں بی جے پی مہنگائی کے بیانیہ پر کنٹرول حاصل کرناچاہتی ہے۔
ایندھن کی قیمتوں میں کمی سے عام آدمی نے کسی قدر راحت کی سانس ضرور لی ہے لیکن اتنی سی کمی کافی نہیں ہے کیونکہ قیمتیں لگاتار بڑھتی رہی ہیں اور فی الحال جو کمی کی گئی اس کی مثال ایسی ہے جیسے سو روپے کا بوجھ ڈال کر دس روپے کا بوجھ کم کیا گیا ہو۔ فی الحال جو راحت فراہم کی گئی ہے اس کی پائیداری کا انحصار اس بات پر ہوگا کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں تیل کی عالمی قیمتیں کس طرح برتاؤ کرتی ہیں۔ اس سال عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں عروج پر ہیں اور ورلڈ بینک کے گروپ نے گزشتہ ماہ پیش گوئی کی تھی کہ 2021 میں خام تیل کی اوسط قیمتیں تقریباً 70 فیصد اضافے کے ساتھ ختم ہوں گی۔ اکتوبر سے لے کر 10 مہینوں میں ہندوستانی خام تیل کی قیمت میں اوسطاً تقریباً 62 فیصد اضافہ ہوا ہے اور تاریخی رجحان سال کے آخر میں قیمتوں میں اضافے کا اشارہ کرتا ہے جب شمالی نصف کرہ کے موسم سرما میں عموماً توانائی کی طلب میں اضافہ ہوتا ہے۔
جہاں تک معیشت کا سوال ہے ایندھن کے بلوں میں کمی کا افراط زر پر مثبت اثر پڑے گا کیونکہ ڈیزل مال بردار گاڑیوں کے لیے اہم ایندھن ہے اور ہر اس چیز کی لاگت کو متاثر کرتا ہے جس کو حمل و نقل کی ضرورت ہوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ٹراسپورٹ کے اخراجات میں مزید کمی کی راہ ہموار کرتے ہوئے مینوفیکچرنگ سیکٹر کو راحت فراہم کرے تاکہ وبا کی صورتحال سے ابھرتی ہوئی معیشت کو کچھ سہارا مل سکے۔
اگر ہم گزشتہ سال ماہ مئی یعنی ۲۰۲۰ سے اکٹوبر ۲۰۲۱ تک کا ہی حساب لگا لیں تو ہمیں معلوم ہو جائے گا کہ ایندھن کی قیمتوں میں کتنا بھاری اضافہ ہوا ہے۔ میری معلومات کے مطابق دنیا میں اور خاص طور پر ہندوستان میں ایندھن کی قیمتوں اتنا اضافہ نہیں ہوا ہو گا جتنا اس دوران ہوا ہے۔ میں نے مئی ۲۰۲۰ کا ذکر اس لیے کیا ہے کہ اسی ماہ مرکزی حکومت نے ایکسائز ڈیوٹی میں بے تحاشہ اضافہ کیا تھا۔ ان ۱۸ ماہ میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں بالترتیب ۳۶ روپے اور ۲۷ روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ یعنی گزشتہ ۱۸ ماہ میں پٹرول پر ہر ماہ ۲ روپے اور ڈیزل پر پونے دو روپے کے حساب سے اضافہ ہوا ہے۔ حکومت ابھی تک یہی کہتی رہی تھی کہ پٹرولیم کے بڑھتے دام بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں اضافے کا نتیجہ ہے اس میں ہمارا ہاتھ نہیں جب کہ اس دوران بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں کمی بھی واقع ہوئی لیکن حکومت ضمنی انتخابات کے نتائج آنے تک عوام کو کسی قسم کی راحت دینے سے گریز ہی کرتی رہی۔
۲۰۱۴ میں بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمت ۱۰۹ ڈالر فی بیرل تھی اس سال کے بعد سے اس قیمتوں میں کمی ہی واقع ہوتی رہی ہے۔ ایک بار تو اس کی قیمت میں اتنی کمی واقع ہوئی کہ یہ ۱۹ ڈالر فی بیرل رہ گیا یعنی ۹۰ ڈالر کی بھاری کمی واقع ہوئی۔ ۲۰۱۴ سے موجودہ قیمت کا موازنہ کیا جائے تو وہ تقریباً ۳۰ ڈالر فی بیرل کم ہو گی۔ اگر حکومت کی بات مان لی جائے کہ بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمت میں اضافے سے یہاں بھی اضافہ ہوتا ہے تو وہاں کی کمی سے یہاں بھی کمی ہونی چاہیے تھی لیکن حکومت نے ایسا ہونےنہیں دیا۔ جب بھی بین الاقوامی سطح پر خام تیل کی قیمتوں میں کمی واقع ہوئی تو حکومت اس پر ایکسائز ڈیوٹی کو بڑھاتی چلی گئی تاکہ اس کا فائدہ عوام تک نہ پہنچنے پائے بلکہ حکومت کے خزانے بھرتے چلے جائیں ۔
جون ۲۰۱۴ میں جب مودی نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تھی اس وقت فی لیٹر پٹرول پر مرکزی ایکسائز ڈیوٹی ۹ روپے ۴۸ پیسے تھی۔ یہ ساری تفصیلات (پٹرولیم پلاننگ انالیسس سیل حکومت ہند) وزارت پٹرولیم کے تحت دستیاب ہیں۔ مئی ۲۰۲۰ کے آتے آتے یہی مرکزی ایکسائز ڈیوٹی ۳۲ روپے ۹۰ تک بڑھ گئی یعنی اس میں تقریباً ۳۰۰ سو گنا اضافہ ہوا ہے۔ اسی طرح فی لیٹر ڈیزل پر مرکزی ایکسائز ڈیوٹی ۲۰۱۴ میں ۳ روپے ۵۶ پیسے تھی جو ۲۰۲۰ میں بڑھ کر ۳۱ روپے ۸۰ پیسے ہو گئی۔ اب اس میں کس قدر بھاری اضافہ ہوا ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی معمولی اضافہ نہیں ہے خاص طور پر ڈیزل کی قیمت میں اضافہ کا اثر اشیائے خورد و نوش کے علاوہ تمام ضروریات زندگی پر ہوتا ہے، اس کا اثر زندگی کے ہر شعبہ پر پڑتا ہے۔
مئی ۲۰۲۰ کے بعد سے بین الاقوامی سطح پر پھر سے خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو تقریباً ۸۵ ڈالر فی بیرل تک پہنچ گیا ہے۔ یہاں حکومت کا بڑی عیاری کے ساتھ یہ کہنا ہے کہ ہم نے کوئی ایکسائز ڈیوٹی نہیں بڑھائی ہے بلکہ خام تیل کے دام وہاں بڑھ رہے ہیں اسی لیے ملک میں پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے لہٰذا اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے۔ تمہاری اس عیاری کو ہمارا سلام لیکن پچھلے سالوں میں جو ۳۰۰ سو گنا اضافہ کیا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ جس وقت خام تیل کی قیمتوں میں کمی ہو رہی تھی اس وقت حکومت نے کیوں ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ کیا؟ کیوں عوام کو اس کمی کے فائدہ سے محروم رکھا گیا؟ یہ ایک اہم سوال ہے جو ایکسائز ڈیوٹی میں کسی قدر کمی کرنے کے فیصلے کے باوجود اپنی جگہ برقرارہے۔
آپ کو یہ بات جان کر بڑی حیرت ہوگی کہ مالی سال ۲۰۱۴ تا ۲۰۱۵ میں مرکزی حکومت کو پٹرول و ڈیزل پر جو ٹیکس وصول ہوا تھا وہ تقریباً ۹۹ ہزار کروڑ روپے تھا جب کہ اس کے بالمقابل اس مالی سال میں اسے۳ لاکھ ۶۴ ہزار کروڑ روپے وصول ہوئے ہیں۔ حکومت کا اندازہ ہے کہ آئندہ مالی سال اسے ۴ لاکھ کروڑ روپے وصول ہوں گے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکومت کو پٹرول و ڈیزل پر جو ٹیکس وصول ہوا ہے اس میں چار سو گنا کا اضافہ ہوا ہے۔
مرکزی حکومت کا یہ کہنا بھی غلط ہے کہ وہ ٹیکس میں سے ریاستی حکومتوں کو ۴۱ فیصد دیتی ہے۔ اس سفید جھوٹ میں اسے بین الاقوامی سند حاصل دی جانی چاہیے۔ مرکزی حکومت پٹرول و ڈیزل پر مختلف قسم کے ٹیکس عائد کرتی ہے جیسے بنیادی ایکسائز ڈیوٹی، اضافی ایکسائز ڈیوٹی، روڈ سیس، آئیل انڈسٹری ڈیولپمنٹ سیس اور زرعی سیس وغیرہ۔ اس طرح حکومت یہ مختلف ٹیکسس وصول کرتی ہے اس میں بنیادی ایکسائز ڈیوٹی ایک روپیہ ۴۵ پیسے اور ڈیزل پر ایک روپیہ ۸۰ پیسے ہی ہوتا ہے، اور اسی بنیادی ایکسائز ڈیوٹی کو ریاستوں میں تقسیم کیا جاتا ہے نہ کہ سارے ایکسائز ٹیکسس کو؟ ریاستوں کو تقسیم کیا جانے والا ٹیکس بہت ہی مختصر ہوتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی غور طلب ہے کہ مرکزی حکومت نے ان ہی ٹیکسوں میں اضافہ کیا ہے جو ریاستوں میں تقسیم نہیں کیا جاتا۔ جھوٹ اور بد نیتی اس حکومت کا طرہ امتیاز ہے۔ ۔ یہ حالت اس وقت تک تبدیل نہیں ہو سکتی جب تک عوام کے اندر شعور بیدار نہ ہو اور وہ اپنے ووٹ کی طاقت کے ذریعہ اپنی بات منواسکتے ہیں جس کی ایک جھلک حالیہ ضمنی الیکشن میں نظر آئی ہے ۔
***

 

***

 اس فیصلے کے وقت کی سیاسی اہمیت کو نظر انداز کرنا مشکل ہے جو پارلیمنٹ اور اسمبلی کی بعض نشستوں کے ضمنی چناو کے نتائج آنے کے بعد کیا گیا ہے ۔یہ نتائج حکمراں پارٹی کو بے چین کردینے کا باعث بنے ہیں ۔ سمجھاجارہا ہے کہ حکمراں پارٹی نے نوشتہ دیوار پڑھ لیا ہے جو ایندھن کی قیمتوں میں کمی کے بڑھتے ہوئے مطالبات کو مسلسل نظر انداز کررہی تھی۔چونکہ آنے والے دنوں میں اترپردیش سمیت 5 ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں اس پس منظر میں بی جے پی مہنگائی کے بیانیہ پر کنٹرول حاصل کرناچاہتی ہے۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 نومبر تا 20 نومبر 2021