فی ظلال القرآن۔ موجودہ دور کی ایک منفرد تفسیر

سائنسی علوم کا قرآنی تعلیمات کی تفہیم و تائید کے لیے عمدگی اور احتیاط کے ساتھ استعمال کیا گیا

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی
سکریٹری شعبہ اسلامی معاشرہ ،جماعت اسلامی ہند

قرآن کریم کے فہم و تدبر کی کوششیں زمانہ قدیم سے جاری ہیں، چنانچہ مختلف زمانوں اور زبانوں میں سیکڑوں مکمل اور ہزاروں جزوی تفاسیر معرضِ وجود میں آئی ہیں۔ خاص طور سے عربی زبان ایسی قیمتی کتبِ تفسیر سے مالامال ہے۔بیسویں صدی عیسوی میں عربی زبان میں لکھی جانے والی تفسیروں میں شہید سیّد قطب (۱۹۰۶ ۔ ۱۹۶۶ء) کی تفسیر ’ فی ظلال القرآن‘ متعدد پہلوؤں سے خصوصی اہمیت کی حامل ہے۔
سید قطب مصر کے مشہور دانش ور، مفکّر، ادیب، صحافی اور ماہر تعلیم تھے۔ دار العلوم قاہرہ سے بی ایڈ کرنے کے بعد وہیں لیکچرر ہوگئے تھے۔ بعد میں وزارتِ تعلیم میں انسپکٹر آف اسکولز کے عہدے پر فائز ہوئے۔ وزارتِ تعلیم کی طرف سے انہیں نئے مناہجِ تعلیم کا مطالعہ کرنے کے لیے امریکہ بھیجا گیا جہاں انہوں نے دو برس گزارے۔ وہاں سے واپس آنے کے بعد وہ ۱۹۴۵ء میں مصر کی دینی تحریک اخوان المسلمون سے وابستہ ہو گئے۔
سید قطبؒ نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیے سرگرم زندگی گزاری اور قید و بند کی مشکلات جھیلیں، لیکن ان کے پائے ثبات میں ذرا بھی لغرزش نہیں آئی ۔ ان کا علمی کام مختلف جہات میں ہے۔العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام( اسلام میں عدل اجتماعی)، معالم فی الطریق(جادہ و منزل)،ھٰذا الدین، المستقبل لھٰذا الدین( اسلام کا روشن مستقبل)،السلام العالمی و الاسلام( امنِ عالم اور اسلام) اورالنقد الادبی ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ قرآن مجید کے ادبی پہلو پر ان کا کام قابلِ قدر ہے۔اس موضوع پر ان کی تصانیف : التصویر الفنّی فی القرآن‘(قرآن مجید کے ادبی محاسن) اورمشاھد القیامۃ فی القرآن( مناظر قیامت)شہرت رکھتی ہیں۔ ان کی تفسیر ’فی ظلال القرآن‘ کو عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی اور دنیا کی متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔اس تفسیر کا زیادہ تر حصہ انہوں نے قید و بند کے دوران ہی لکھا تھا۔
فی ظلال القرآن تفسیری سرمایہ کی قابِِ قدر، عظیم اور انفرادی اہمیت کی حامل تفسیر ہے۔اس کا تعارف کراتے ہوئے پاکستان کے مشہور عالم و مصنف اور تحریک اسلامی کے سرخیل مولانا خلیل احمد حامدی نے لکھا ہے:’’ سید قطب کا سب سے عظیم کارنامہ ان کی تفسیر ’فی ظلال القرآن‘ ہے۔ یہ اصطلاحی معنوں میں تفسیر نہیں ہے اور نہ متداول تفاسیر کے اسلوب میں اسے لکھا گیا ہے۔ یہ در اصل ان تاثرات سے عبارت ہے جو مطالعہ قرآن کے دوران ان پر طاری ہوئے ، لیکن ان تاثرات کو مصنف نے اس طرح پیش کیاہے کہ قرآن کی ایک ایک آیت کے اندر دعوت و اصلاح اور تنبیہ و تذکیر اور نورِ عرفان کے جو سمندر موج زن ہیں ان کا عکس کاغذ کے صفحات پر منتقل ہو گیا ہے۔‘‘
مولانا خلیل حامدی نے اس تفسیر کی چھ(۶) خوبیاں بیان کی ہیں:
۱۔ بلند پایہ اسلوب، جس میں سید قطب اکثر قدیم مفسرین و محدثین سے بھی بڑھ گئے ہیں۔
۲۔ تمام معروف تفاسیر سے انہوں نے استفادہ کیا ہے اور ان سے اخذ کردہ معلومات کو اپنی تفسیر میں اس عالمانہ انداز میں سمو دیا ہے کہ یہ تفسیر ادبی مقالات کا مجموعہ نہیں بلکہ معلومات کا دائرۃ المعارف بن گئی ہے۔
۳۔ اسرائیلیات سے یہ تفسیر مکمل طور پر خالی ہے۔
۴۔ معتزلہ، خوارج، اشاعرہ، ماتریدیہ اور فقہ کے مختلف مکاتبِ فکر کے نزاعات سے جو عام عربی تفسیروں میں ملتے ہیں، یہ تفسیر خالی ہے۔
۵۔پوری جامعیت اور تفصیل کے ساتھ ہر بحث کو ادا کیا گیا ہے۔
۶۔ پوری تفسیر کے اندر ایک ایسی شفّاف اور پاکیزہ روح جلوہ گر نظر آتی ہے جو یقین و اذعان کی دولت اور ایمان و عقیدہ کی گہرائی اور صبر و عزیمت کی نعمت سے لب ریز ہے ۔ اس چیز نے تفسیر کو ایک متحرک زندگی اور رواں دواں اسلامی تحریک کی کتابِ ہدایت کی شکل دے دی ہے۔‘‘
(جادہ و منزل،ص۴۲۔۴۴)
ہندوستان کے معروف عالمِ دین اور تحریک اسلامی کے رہ نمامولانا سید حامد علی نے فی ظلال القرآن کی خصوصیات پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے ۔ انہوں نے اس کی درج ذیل خصوصیات بیان کی ہیں:
’’۱۔ یہ ایک علمی و فکری تفسیر ہے۔ اس میں قرآنی آیات اور قرآنی تعلیمات پر علمی انداز میں گفتگو کی گئی ہے۔ اس کے مطالعہ سے جاہلی و مغربی افکار کا لچر ہونا بھی واضح ہوگا۔
۲۔یہ ایک سائنٹفک تفسیر ہے ۔ اس میں سائنس اور مغربی علوم کی معلومات کو قرآنی تعلیمات کی تفہیم و تائید کے لیے بہت عمدگی اور احتیاط کے ساتھ استعمال کیا گیا ہے۔
۳۔ یہ تفسیر فہمِ قرآن کے پہلو سے بہت مفید ہے۔ مفسر پہلے پوری سورت پر اجمالی نظر ڈالتے ہیں، پھر آیات کے مختلف گروپ بنا کر ہر گروپ پر الگ الگ بحث کرتے ہیں،پھر ہر آیت پر گفتگو کرتے ہیں۔ اس طرح ایک ایک آیت کئی کئی بار زیر بحث آتی ہے اور اس کا مفہوم اچھی طرح ذہن نشین ہوجاتا ہے۔
۴۔ تفسیر کا انداز جدید ہے اور وہ جدید طبقے کو بہت زیادہ اپیل کرنے والی ہے، مگر اسی کے ساتھ اس کی خوبی یہ ہے کہ وہ سلف کے مسلک سے سرِ مو تجاوز نہیں کرتی ۔
۵۔یہ بہترین دعوتی تفسیر ہے۔ مفسر آیت کی مجمل تشریح پر اکتفا نہیں کرتے بلکہ اس کے مضمون کو بنیاد بنا کر ایک مختصر سی تقریر کر دیتے ہیں۔ وہ اسلام کی دعوت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ۔
۶۔یہ ایک تحریکی و انقلابی تفسیر ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ مفسر کی مشہور انقلابی کتاب’ معالم فی الطریق‘ ، جس کی بنیاد پر انہیں حکومت کا تختہ الٹنے کا الزام لگاکر تختۂ دار پر چڑھایا گیا تھا، اس کے چار ابواب اسی تفسیر سے ماخوذ ہیں۔
۷۔ یہ بہترین تربیتی تفسیر ہے۔ اس میں تعلق باللہ، توکل علی اللہ، خشیت، انابت ، اللہ کی رضاجوئی، فکرِ آخرت ، اتباعِ رسول ، اسلامی کردار و اخلاق اور اسلام کے تقاضوں کی ادائیگی پر اتنا زور اور ذہن ،قلب، روح، ضمیر اور وجدان ہر ایک کی تربیت کا اتنا سامان ہے کہ دل ایمانی جذبات سے معمور ہو جاتا، روح جھوم اٹھتی اورضمیر و وجدان کو ان کی بھر پور غذا ملتی ہے اور مومن اسلام کے تقاضے پورے کرنے کے لیے اٹھ کھڑا ہوتا ہے۔
۸۔ یہ ایک ادبی و ذوقی تفسیر ہے۔ مفسر نے قرآن کے ادبی حسن اور اس کے اعجاز کو بہت عمدگی سے واضح کیا ہے۔ یہ قیمتی بحثیں اردو تفاسیر تو کجا، عربی تفاسیر میں بھی نہیں مل سکتیں۔ مفسر نہ صرف قرآنی آیات اور ان کے اسالیب کا حسن، بلاغتِ کلام اور ادبی اعجاز واضح کرتے ہیں، بلکہ قرآنی آیات کے آہنگ کی نغمگی و ترنم کو بھی نمایاں کرتے ہیں اور آیت کے مضمون سے اس کے ربط کو واضح کرتے ہیں۔‘‘(فی ظلال القرآن، مقدمہ از مترجم )
فی ظلال القرآن کا اردو ترجمہ پاکستان میں جناب سید معروف شاہ شیرازی نے کیا تھا۔ ہندوستان میں یہ سعادت مولانا سید حامد علی کے حصے میں آئی ۔دونوں تراجم کا موازنہ کرنے سے اندازہ ہوتاہے کہ مولانا حامد علی کا ترجمہ زیادہ سلیس اور بہتر ہے۔انہوں نے ذیلی عناوین کا اضافہ کیا ہے۔ تفسیر کا ترجمہ کرنے کے ساتھ اپنی طرف سے متنِ قرآن کا بھی ترجمہ کیا۔ساتھ ہی تقابل و موازنہ کے لیے شاہ عبد القادر، ڈپٹی نذیر احمد، شیخ الہندمولانا محمود حسن، مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا فتح محمد جالندھری، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی اور مولانا امین احسن اصلاحی کے ترجموں کا فرق بھی واضح کیا ہے۔انہوں نے جا بجا اپنی طرف سے نوٹ بھی لگائے ہیں۔مولانا حامد علی نے پہلے فی ظلال القرآن کے تیسویں پارے کا ترجمہ کیا۔ اس کی اشاعت ۱۹۸۴ء میں ہوئی۔ اس کے بعد ابتدا سے ترجمہ شروع کیا۔جلد اول سورہ البقرہ، جلد دوم سورہ آل عمران، جلد سوم سورہ نساء اور جلد چہارم سورہ المائدہ کے ترجمے پر مشتمل تھی۔یہاں تک ترجمہ سے مولانا جون ۱۹۹۰ء میں فارغ ہوئے ۔ اس کے بعد ان کی طبیعت خراب رہنے لگی جس کی وجہ سے ترجمہ کا کام جاری نہ رہ سکا، یہاں تک کہ ۳؍ مارچ ۱۹۹۳ء میں ان کا انتقال ہوگیا۔ تین برس کے تعطل کے بعد قرعہ فال دیوریا (اترپردیش) کے نوجوان عالم مولانا مسیح الزماں فلاحی ندوی کے نام نکلا۔ انہوں نے بہت محنت اور لگن کے ساتھ اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچایا۔
فی ظلال القرآن نیو کریسنٹ پبلشنگ کمپنی دلی (گائیڈنس پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیوٹرس نئی دلی) سے اٹھارہ جلدوں میں شائع ہورہی ہے۔اس کی مجموعی قیمت سات ہزار پانچ سو روپے ہے۔ناشر نے اس کی نئی اشاعت کو بارہ(۱۲) جلدوں میں طبع کرنے کا منصوبہ بنایا ہے۔
خواہش مند حضرات ان نمبروں پر رجوع کرسکتے ہیں:
موبائل:9015603676
واٹس ایپ نمبر:9899693655
ای میل۔[email protected]
[email protected]
***

 

***

 سید قطبؒ نے اسلام کی نشأۃ ثانیہ کے لیے سرگرم زندگی گزاری اور قید و بند کی مشکلات جھیلیں، لیکن ان کے پائے ثبات میں ذرا بھی لغرزش نہیں آئی ۔ ان کا علمی کام مختلف جہات میں ہے۔العدالۃ الاجتماعیۃ فی الاسلام( اسلام میں عدل اجتماعی)، معالم فی الطریق(جادہ و منزل)،ھٰذا الدین، المستقبل لھٰذا الدین( اسلام کا روشن مستقبل)،السلام العالمی و الاسلام( امنِ عالم اور اسلام) اورالنقد الادبی ان کی مشہور تصانیف ہیں۔ قرآن مجید کے ادبی پہلو پر ان کا کام قابلِ قدر ہے۔اس موضوع پر ان کی تصانیف : التصویر الفنّی فی القرآن‘(قرآن مجید کے ادبی محاسن) اورمشاھد القیامۃ فی القرآن( مناظر قیامت)شہرت رکھتی ہیں۔ ان کی تفسیر ’فی ظلال القرآن‘ کو عالمی سطح پر شہرت حاصل ہوئی اور دنیا کی متعدد زبانوں میں اس کا ترجمہ ہو چکا ہے۔اس تفسیر کا زیادہ تر حصہ انہوں نے قید و بند کے دوران ہی لکھا تھا۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 نومبر تا 20 نومبر 2021