سپریم کورٹ نے ریاستوں کی طرف سے مقدمات کی جانچ کے لیے سی بی آئی کو دی جانے والی رضامندی واپس لینے پر تشویش کا اظہار کیا

نئی دہلی، نومبر 9: بار اینڈ بنچ کی خبرکے مطابق سپریم کورٹ نے پیر کو ریاستوں کی جانب سے اپنے علاقوں میں کام کرنے کے لیے مرکزی تفتیشی بیورو کو دی گئی عمومی رضامندی کو واپس لینے پر تشویش کا اظہار کیا۔

جسٹس سنجے کشن کول اور ایم ایم سندریش کی بنچ نے کہا کہ یہ ’’مناسب حالت‘‘ نہیں ہے۔ اس نے کیس کو چیف جسٹس این وی رمنا کے پاس بھیج دیا ہے۔

آٹھ ریاستوں مغربی بنگال، مہاراشٹر، کیرالہ، پنجاب، راجستھان، جھارکھنڈ، چھتیس گڑھ اور میزورم نے اپنی وہ رضامندی واپس لے لی ہے جس سے مرکزی ایجنسی کو اپنے علاقوں میں انکوائری کرنے کی اجازت دی گئی تھی۔ ان میں سے کئی ریاستوں نے الزام لگایا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی زیر قیادت مرکزی حکومت اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف مرکزی ایجنسی کا غلط استعمال کر رہی ہے۔

رضامندی کے بغیر ایجنسی کو کیس ٹو کیس کی بنیاد پر ریاستی حکومت سے رجوع کرنا پڑتا ہے اور انکوائری کرنے کی اجازت طلب کرنا ہوتی ہے۔

وائی ​​ایس جگن موہن ریڈی حکومت نے آندھرا پردیش میں اقتدار میں آنے کے بعد اس رضامندی کو واپس لے لیا تھا۔

سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن دہلی اسپیشل پولیس اسٹیبلشمنٹ ایکٹ کے تحت آتا ہے اور ریاستوں سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ ریاست کے اندر مرکزی حکومت کے ملازمین کے خلاف الزامات کو دیکھنے کے لیے عام رضامندی دیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پولیس اور پبلک آرڈر ریاستی حکومتوں کے دائرہ کار میں آتے ہیں، جو باقاعدگی سے اپنی اجازت کی تجدید کرتی ہیں۔

سپریم کورٹ جموں و کشمیر ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سنٹرل بیورو آف انویسٹی گیشن کی عرضی پر سماعت کر رہی تھی جس میں دو وکلاءمحمد الطاف موہند اور شیخ مبارک کے خلاف مبینہ طور پر گواہوں کو دھمکیاں دینے اور جھوٹے ثبوت گھڑنے کے الزام میں دائر ایک مقدمہ میں دائر کیی گئی تھی۔

ستمبر میں عدالت نے مرکزی ایجنسی کو ایک حلف نامہ داخل کرنے کی ہدایت کی تھی جس میں اس نے اپنے پراسیکیوشن یونٹ کو بہتر بنانے اور ایجنسی کو درپیش رکاوٹوں کی نشان دہی کرنے کے لیے کیے گئے اقدامات کی تفصیل دی تھی۔

اپنے حلف نامے میں سی بی آئی نے کہا کہ اپیل کورٹس اور ہائی کورٹس نے اب تک 11,327 کیسوں میں تفتیش پر روک لگا دی ہے۔ ایجنسی نے یہ بھی کہا کہ کیس ٹو کیس کی بنیاد پر ریاستوں سے مخصوص رضامندی حاصل کرنا وقت طلب تھا اور فوری تحقیقات میں نقصان دہ ثابت ہوا ہے۔

پیر کو عدالت نے ایجنسی کی اس عرض داشت کو نوٹ کیا کہ 2018 اور جون 2021 کے درمیان آٹھ ریاستوں میں مخصوص پابندیوں کی 150 درخواستیں زیر التوا تھیں۔

ایڈیشنل سالیسٹر جنرل سنجے جین نے نشان دہی کی کہ ملزمین کی طرف سے 11,327 مقدمے دائر کیے گئے تھے۔ اس کے علاوہ جین نے کہا کہ سنٹرل بیورو آف انوسٹی گیشن کے ذریعہ دائر دیگر 931 مقدمات بھی ہیں جن پر روک لگا دی گئی ہے۔

رضامندی کے پہلو پر عدالت نے کہا کہ 18% مقدمات ’’کرپٹ سرکاری ملازمین‘‘ کی تحقیقات کے لیے تھے اور کل مقدمات میں سے 78% زیر التوا ہیں۔

عدالتوں کی طرف سے مقدمات پر روک لگانے پر بنچ نے کہا کہ اس نے ایسے فیصلوں پر پیرامیٹرز جاری کیے ہیں۔

عدالت نے کہا ’’مذکورہ بالا دونوں پہلوؤں پر مفاد عامہ کی عرضی میں متعلقہ ریاستوں اور ہائی کورٹس کو نوٹس بھیجے جانے کی ضرورت ہے۔ ہم اس پہلو کو CJI کے سامنے رکھنا مناسب سمجھتے ہیں۔‘‘