پوپ فرانسس سے وزیراعظم مودی کی ملاقات، ملک کے سیکولرکردار کا مظہر کیوں نہیں ہے؟

9 ماہ کے دوران عیسائیوں کے خلاف تشدد کے کم از کم 305 واقعات۔ اتر پردیش سر فہرست

افروز عالم ساحل

گزشتہ دنوں روم میں عیسائیوں کے سب سے بڑے مذہبی رہنما پوپ فرانسس کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کی ملاقات کے بعد ہندوستان میں سیاسی قیاس آرائیاں تیز ہوگئی ہیں۔ سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ملاقات آئندہ انتخابات میں پی ایم مودی کی پارٹی بی جے پی کے لیے کافی مددگار ثابت ہوگی۔ اگلے کچھ مہینوں میں ہندوستان کی پانچ ریاستوں میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ ان میں گوا اور منی پور خاص طور پر اہم ہیں کیوں کہ یہاں عیسائیوں کی ایک بڑی آبادی بستی ہے۔

اسی سیاسی فائدے کے پیش نظر بی جے پی لیڈروں کے بیانات بھی آنے لگے ہیں۔ اس پر آر ایس ایس نے بھی خوشی کا اظہار کیا ہے جو اب تک مسلمانوں کے بعد عیسائیوں کو ملک کا سب سے بڑا اندرونی خطرہ مانتی رہی ہے۔ بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ وزیراعظم مودی اور پوپ فرانسس کی ملاقات تاریخ کی کتابوں کا سبجیکٹ ہے۔ یہ ملاقات امن، خیر سگالی اور بین المذاہب مکالمے کی سمت میں ایک بڑا قدم ہے۔‘

انہوں نے ایک بار بھی نہیں سوچا کہ ان کے اس بیان سے ان کے گرو گولوالکر کی آتما کو کتنی ٹھیس پہنچی ہوگی۔ آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی کی راہ پر چلنے والے ان کے کارکنوں کا دل کتنا زخمی ہوا ہوگا، جو دن رات ’ہندو راشٹر‘ کا خواب دیکھتے ہیں اور ملک کے عیسائیوں کے چرچوں پر حملہ کرنے کی تیاری میں لگے رہتے ہیں۔

ہفت روزہ دعوت کے نمائندے نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ کیا پی ایم مودی کی اس ملاقات کے بعد آر ایس ایس اور بی جے پی کارکنوں کے عیسائیوں کے تئیں رویے میں کوئی نرمی آئے گی؟ کیا واقعی اس ملاقات کے بعد ملک میں عیسائیوں کی صورتحال بدل جائے گی؟ کیا ان پر مذہب تبدیل کرانے کے الزامات میں اور ملک میں عیسائیوں پر حملوں میں کوئی کمی آئے گی؟ کیونکہ رپورٹس کے مطابق گزشتہ چند سالوں میں دیگر اقلیتوں کے ساتھ ساتھ عیسائیوں پر بھی حملے بڑھے ہیں۔

گزشتہ 21 اکتوبر کو نئی دلی کے پریس کلب میں جاری کی گئی ایک رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستان میں سال 2021 کے پہلے نو ماہ کے دوران عیسائیوں کے خلاف تشدد کے کم از کم 305 واقعات پیش آئے ہیں۔ عیسائیوں پر یہ وحشیانہ حملے 21 ریاستوں میں ہوئے ہیں۔ زیادہ تر حملے بھیڑ کے ذریعے کیے گئے ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ سال ستمبر 2021 میں ہی 69 واقعات رو نما ہوئے ہیں، جبکہ اگست میں 50، جولائی میں 33، جون میں 27، مئی میں 15، اپریل میں 27، مارچ میں 27، فروری میں 20 اور جنوری میں 37 واقعات ریکارڈ ہوئے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ ’ایسوسی ایشن آف پروٹیکشن آف سول رائٹس‘ نے یونائیٹڈ کرسچن فورم اور یونائیٹڈ اگینسٹ ہیٹ نامی تنظیم کے ساتھ مل کر تیار کی ہے۔

رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ پورے ملک میں عیسائیوں کے خلاف بڑھتے ہوئے تشدد میں اتر پردیش پہلے مقام پر ہے جہاں اس سال یکم جنوری سے ستمبر تک عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 66 کیسس درج کیے گئے ہیں۔ جبکہ چھتیس گڑھ میں 47، کرناٹک میں 32، جھارکھنڈ میں 30 اور مدھیہ پردیش میں 26 معاملے سامنے آئے ہیں۔ یعنی صرف ان پانچ ریاستوں میں گزشتہ نو مہینوں میں عیسائیوں کے خلاف تشدد کے 201 واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر ریاستوں بہار میں 19، اڑیشہ میں 13، مہاراشٹر میں 13، تمل ناڈو میں 12، گجرات میں 9، پنجاب میں 8، آندھرا پردیش میں 5، ہریانہ میں 5، اتراکھنڈ میں 5، دلی میں 3، تلنگانہ میں 2، مغربی بنگال میں 2، راجستھان میں 2، آسام اور ہماچل پردیش میں ایک ایک کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔

اس رپورٹ سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اتر پردیش کے شاہجہاں پور، رائے بریلی، لکھنؤ، لکھیم پور کھیری، وارانسی، اعظم گڑھ وغیرہ میں عیسائیوں کو ڈرایا دھمکایا بھی گیا ہے اور جب انہوں نے ایف آئی آر درج کرانے کی کوشش کی تو انتظامیہ نے الٹا انہی کے خلاف مقدمہ درج کر لیا۔

’پرزیکیوشن ریلیف‘ کی رپورٹ سے معلوم ہوتا ہے کہ جنوری 2020 سے ستمبر 2020 تک عیسائیوں پر حملوں کے 450 سے زیادہ واقعات ریکارڈ کیے گئے تھے۔

اس سے قبل سال ’پرزیکیوشن ریلیف‘ نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ سال 2019 میں عیسائیوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم کی تعداد 527 ہے۔ سال 2018 میں یہ تعداد 477، 2017 میں 440 اور 2016 میں 330 رہی ہے۔

واضح رہے کہ یہ اعداد وشمار صرف ان ہی واقعات کے ہیں جن تک یہ تنظیم پہنچ سکی ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ایسے مزید کئی واقعات ہوئے ہوں جن کی اطلاع ان تک نہ پہنچی ہو۔ جانکاروں کا ماننا ہے کہ عیسائیوں کے خلاف تشدد کی خبر اخباروں کی سرخی نہیں بن پاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عیسائی آبادی بکھری ہوئی ہے اور ان کے خلاف تشدد اکثر

بڑے پیمانے پر نہیں ہوتے۔ میڈیا، حتیٰ کہ انسانی حقوق کے شعبے میں کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں کی نظر بھی ان واقعات پر نہیں جاتی۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ جہاں عیسائیوں کی آبادی بہت کم ہے وہاں ظلم کے شکار عیسائی پولیس اسٹیشن جانے سے بھی ڈرتے ہیں کیوں کہ اکثر اوقات پولیس بعد میں ان عیسائیوں کو ہی نشانہ بناتی ہے۔ اس لیے بیشتر معاملے یوں ہی دب جاتے ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ زیادہ تر ریاستوں میں دیکھا گیا کہ بی جے پی کے اقتدار میں آتے ہی عیسائیوں کے خلاف جرائم کے معاملات میں اضافہ ہوا ہے اور خاص طور پر اتر پردیش عیسائیوں کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ثابت ہوا ہے۔ یو پی میں عیسائیوں کے خلاف جرائم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ سال 2016 میں جہاں 36 معاملے رپورٹ ہوئے تھے وہیں 2019 میں ان کی تعداد بڑھ کر 109 ہوگئی۔ جبکہ یو پی میں عیسائیوں کی آبادی صرف 0.18 فیصد ہے، اس کے باوجود ان کے خلاف تشدد کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔‘

جیلوں میں بند عیسائیوں کے اعداد و شمار

نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ 31 دسمبر 2019 تک عیسائیوں کے تقریباً تین فیصد لوگ جیلوں میں بند ہیں جب کہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق ہندوستان کی آبادی میں ان کا حصہ 2.30 فیصد ہے۔ تاہم، میڈیا میں شائع مختلف رپورٹوں سے معلوم ہوتا کہ اس سال خاص طور پر اتر پردیش میں عیسائیوں کی گرفتاریاں بڑھی ہیں۔ 2020 اور 2021 کی جیل رپورٹ اس حقیقت بخوبی بیان کرے گی۔

بھارت عیسائیوں کے لیے مشکل ترین ٹاپ 10ممالک کی فہرست میں

بین الاقوامی تنظیم ’اوپن ڈورس‘ کے ذریعہ جاری 2021 کی حالیہ رپورٹ ‘THE TOP 50 COUNTRIES WHERE IT’S MOST DIFFICULT TO FOLLOW JESUS’ کے مطابق دنیا میں عیسائیوں کے لیے مشکل ترین ممالک کی فہرست میں بھارت دسویں نمبر پر ہے۔

یہ رپورٹ یہ بھی کہتی ہے، ’ہندو انتہا پسندوں کا خیال ہے کہ تمام ہندوستانیوں کو ہندو ہونا چاہیے اور ملک کو عیسائیت اور اسلام سے نجات دلائی جائے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے وہ بڑے پیمانے پر تشدد کے طریقے استعمال کرتے ہیں، خاص طور پر ہندو پس منظر رکھنے والے عیسائیوں کو نشانہ بنانا وغیرہ۔ ان کے گاؤں میں عیسائیوں پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ ایک ’’غیر ملکی عقیدے‘‘ کی پیروی کرتے ہیں اور اکثر ان پر جسمانی حملے کیے جاتے ہیں۔ اگر وہ دوبارہ مذہب تبدیل کر کے ہندو نہیں بنتے تو ان کی کمیونٹی ان کا بائیکاٹ کرتی ہے جس سے ان کی آمدنی حاصل کرنے اور کھانا خریدنے کی صلاحیت پر تباہ کن اثر پڑتا ہے۔‘

اس رپورٹ میں یہ لکھا گیا ہے کہ ’ہندوستان میں، مذہبی اقلیتوں کو خدشہ ہے کہ کانٹیکٹ ٹریسنگ ایپس میں "فنکشن کریپ” ہو گا اور ان کا استعمال ان پر اور ان کی نقل وحرکت پر نظر رکھنے کے لیے کیا جائے گا۔ ایک اور ایپ جو پہلے سے استعمال میں ہے عمر، جنس اور نسل کا اندازہ لگا سکتی ہے۔ ہندوستان کے ڈیٹا پروٹیکشن بل میں نگرانی کا احاطہ نہیں کیا گیا ہے۔ درحقیقت اس میں حکومت کو تحفظ کے معیارات کو نظر انداز کرنے اور قومی سلامتی یا جرائم کی تفتیش جیسے حالات میں بھی رضامندی کی اجازت دینے کی دفعات ہیں۔‘

اس رپورٹ میں مزید لکھا گیا ہے، ’ہندو قوم پرستی کے عروج کے درمیان، ہندوستانی عیسائی مسلسل سخت پروپیگنڈے کے ذریعے دباؤ میں ہیں۔ پیغام "ہندوستانی ہونے کے لیے آپ کو ہندو ہونا چاہیے” کا مطلب ہے کہ ہجوم عیسائیوں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں پر بھی حملہ اور ہراساں کرنا جاری رکھے ہوئے ہے۔ یہ عقیدہ کہ عیسائی واقعی ہندوستانی نہیں ہیں کا مطلب ہے وسیع پیمانے پر امتیازی سلوک اور ظلم و ستم کیا جاتا ہے۔ ہندوستانی قومی شناخت کے تحفظ کی آڑ میں عیسائیوں کے زیر انتظام چلنے والے بہت سے اسپتالوں، اسکولوں اور چرچ کی تنظیموں کو غیر ملکی فنڈس سے روکا جاتا رہا ہے۔

اس سے قبل 2020 کی عالمی رپورٹ سے یہ معلوم ہو چکا ہے کہ ہندوستان میں عیسائیوں کو ہندو شدت پسندوں کے ہاتھوں ’انتہائی خوفناک‘ صورت حال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، ان پر ہر سال ہزاروں کی تعداد میں حملے ہوتے ہیں۔ 2014 میں ہندوستان میں وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد سے عیسائیوں پر حملوں کی تعداد میں کافی اضافہ ہوا ہے اور گزشتہ برس ان پر ہر روز اوسطاً ایک حملہ ہوا۔

’’اوپن ڈورس کی اس رپورٹ میں دنیا کے ان ’ٹاپ 50‘ ممالک کی فہرست ’جہاں عیسائی مذہب کی پیروی کرنا سب سے مشکل ہے‘ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان 50 ممالک میں عیسائیوں کی بڑی آبادی ہندوستان میں ہی ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق ہندوستان میں تقریباً 6 کروڑ 73 لاکھ 56 ہزار عیسائی آبادی بستی ہے۔

واضح رہے کہ سال 2014 میں ’اوپن ڈورس‘ کی اس رپورٹ میں ہندوستان کا مقام 27ویں نمبر پر تھا۔ 2015 میں 21، 2016 میں 17، 2017 میں 15 اور 2018 میں 11ویں مقام پر آگیا۔ سال 2019 سے اب تک ہندوستان اس عالمی فہرست میں 10ویں مقام پر برقرار ہے۔

پوپ فرانسس سے ملاقات مجبوری تو نہیں؟

پوپ فرانسس کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کی ملاقات کے بعد کئی قیاس آرائیوں کے درمیان جاننے والوں کا ماننا ہے کہ پوپ سے پی ایم مودی کا ملنا ایک عالمی مجبوری تھی۔ اگر انہوں نے پوپ فرانسس سے ملاقات نہیں کی ہوتی تو پی ایم مودی، بلکہ ہندوستان کی امیج کو نقصان پہنچتا، کیونکہ جی 20 ممالک کے تمام سربراہوں نے پوپ فرانسس سے ملاقات کی تھی۔ ویسے بھی کسی بھی ملک کے صدر یا وزیر اعظم جب روم جاتے ہیں تو پوپ سے ضرور ملتے ہیں۔ پروٹوکول کے مطابق ویٹیکن کے سربراہ پوپ فرانسس سے ملاقات ضروری ہوتی ہے۔

سوشل میڈیا اور کچھ میڈیا رپورٹس میں اس بات کی تشہیر کی جارہی ہے کہ ویٹیکن کے سربراہ یعنی پوپ سے ہندوستان کی کسی وزیر اعظم نے پہلی بار ملاقات کی ہے۔ لیکن یہ صحیح نہیں ہے۔ پی ایم مودی پوپ سے ملاقات کرنے والے پہلے ہندوستانی وزیر اعظم نہیں ہیں۔ ان سے قبل چار وزرائے اعظم جواہر لعل نہرو، اندرا گاندھی، اندر کمار گجرال اور اٹل بہاری واجپائی ویٹیکن میں پوپ سے ملاقات کر چکے ہیں۔

یہی نہیں جب اپریل 2005 میں سولہویں پوپ بینیڈکٹ کا انتقال ہوا تھا تب ہندوستان کی جانب سے ملک کے نائب صدر بھیروں سنگھ شیخاوت ویٹیکن گئے تھے۔ اس وقت ہندوستان اور فرانس کے درمیان یہ سوال کھڑا ہوا کہ اگر آپ سیکولر ملک ہیں تو آپ کے نمائندہ نے کیتھولک مذہبی رہنما کے جنازے میں کیوں شرکت کی؟ تب حکومت ہند نے جواب دیا تھا کہ پوپ کو نہ صرف مذہبی حیثیت حاصل ہے بلکہ ویٹیکن ایک ریاست بھی ہے اور پوپ اس کے سپریم حکمراں ہیں۔

پی ایم مودی کی اس ملاقات سے سوامی ناراض

پوپ فرانسس کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کی اس ملاقات سے کچھ لوگ ناراض بھی ہیں، ان کی شکایت ہے کہ مودی راج میں عیسائیوں اور مسلمانوں پر بہت زیادہ مظالم ہو رہے ہیں، لیکن بی جے پی اس ملاقات کو ان مظالم پر پردہ ڈالنے کے لیے استعمال کرے گی۔

اس ملاقات سے ناراض ہونے والوں کی فہرست میں پہلا نام بی جے پی کے سینئر لیڈر اور رکن پارلیمنٹ سبرامنیم سوامی کا ہے۔ اس ملاقات کو نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کئی سوال پوچھے ہیں۔

انہوں نے ویٹیکن نیوز کا ایک مضمون شیئر کرتے ہوئے یہ ٹویٹ کیا ہے کہ ’پوپ نے ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کا استقبال کیا۔ ویٹیکن نیوز: کیا یہ حکومت ہند اور ہندوستانی ٹی وی میڈیا ورژن کے ساتھ ہے؟ کیا بی جے پی ہندو قوم پرست ہے؟ کیا ہندوستان میں عیسائیوں کے قتل میں اضافہ ہورہا ہے؟

بتا دیں کہ سوامی نے ویٹیکن نیوز کا جو مضمون شیئر کیا ہے اس میں پی ایم مودی اور پوپ فرانسس کی ملاقات کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں عیسائیت کی موجودہ حیثیت کو بھی نمایاں جگہ دی گئی ہے۔

ویٹیکن نیوز کے مضمون میں کہا گیا ہے، ’ہندوستان میں بڑھتے ہوئے عیسائی مخالف تشدد کے تناظر میں، کیتھولک بشپس کانفرنس آف انڈیا (سی بی سی آئی) نے ہمیشہ ملک کی بھلائی کے لیے حکومت کے ساتھ بات چیت کی کوشش کی ہے۔ جنوری میں، کارڈینلز اوسوالڈ گریشیاس، بمبئی کے آرچ بشپ، جارج ایلینچری، سائرو-مالابار چرچ کے میجر آرچ بشپ، اور سائرو-مالانکارا چرچ کے میجر آرچ بشپ باسیلیوس کلیمس نے مودی سے ملاقات کی۔ اس دوران ہندوستان میں تعلیمی، صحت اور سماجی شعبوں میں چرچ کے ذریعے کیے گئے کاموں کو پی ایم مودی کے سامنے رکھا گیا۔ انہوں نے کوویڈ 19 وبائی امراض کا مقابلہ کرنے میں عیسائیوں کی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی، غریب ترین اور سب سے زیادہ کمزور لوگوں کے حق میں اپنے عزم کو یقینی بنایا، جس کی ہندوستانی وزیر اعظم نے تعریف کی۔‘

اس مضمون میں یہ بھی لکھا ہے کہ ’اس میٹنگ کے دوران جن دیگر مسائل پر توجہ دی گئی ان میں ایک ایسے ملک میں مذہبی اقلیتوں کی صورتحال تھی جہاں عیسائی، جملہ آبادی کا محض 2.3 فیصد ہیں، اور بزرگ جیسوٹ پادری اور مقامی لوگوں کے حقوق کے لیے سرگرم کارکن فادر اسٹین سوامی کی رہائی کی بات رکھی، جنہیں دہشت گردی کے الزام میں نو ماہ قید میں رکھا گیا جہاں وہ جولائی میں انتقال کر گئے۔‘

کرناٹک میں چرچ اور مشنریوں کی سرگرمی پر نظر رکھی جائے گی

اکثر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ عیسائی مشنری بڑے پیمانے پر ہندوؤں کو عیسائیت میں تبدیل کر رہے ہیں، لیکن اعداد وشمار کچھ اور ہی کہانی سناتے ہیں۔ مردم شماری کے اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ 1971 میں عیسائی ہندوستان کی آبادی کا 2.60 فیصد تھے۔ لیکن سال 2011 کی مردم شماری میں ان کی آبادی کا فیصد کم ہوکر 2.30 رہ گیا۔

ہندوتوادی تنظیموں کا یہ بھی الزام ہوتا ہے کہ ان کے علاقے میں عیسائیوں اور ان کے عبادت گاہ یعنی گرجا گھروں کی تعداد بڑھ رہی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ کسی کے پاس اپنے علاقے میں عیسائیوں کی آبادی یا ان کے گرجا گھروں کی تعداد کے اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کرناٹک میں پسماندہ طبقات اور اقلیتی بہبود سے متعلق ایک قانون ساز کمیٹی نے حکومت کو گرجا گھروں کے کام کاج اور مشنریوں کی سرگرمیوں پر ایک رپورٹ سونپنے کا حکم دیاہے۔

عیسائیوں کو آر ایس ایس ملک کے لیے نیا خطرہ مانتی ہے

آر ایس ایس کے دوسرے سرسنچالک گولوالکر نے اپنی کتاب ’بنچ آف تھاٹس‘ میں صاف طور پر لکھا ہے کہ اس ملک میں آر ایس ایس کے لیے تین اندرونی بحران ہیں۔ ان میں پہلا مسلمان، دوسرا عیسائی اور تیسرا کمیونسٹ ہیں۔ آر ایس ایس کی آئیڈیالوجی ماننے والے ہمیشہ اس سوچ کے ساتھ ہی آگے بڑھتے رہے ہیں۔ گزشتہ کچھ برسوں سے ایسا لگتا ہے کہ ہماری مرکزی حکومت بھی اسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے۔

گولوالکر نے اپنی کتاب ’بنچ آف تھاٹس‘ میں لکھتے ہیں، ’ 1857 کی جدوجہد آزادی میں یہاں کچھ پادریوں نے اس بغاوت کو دبانے میں برطانوی حکومت کی مدد کے لیے پلٹنیں بنائی تھیں تب سے وہ ہمیشہ انگریزوں کے حمایت میں رہے تھے کیونکہ وہ تھے تو ان کے فرقے کے ہی۔ انگریز بھی عیسائی مشنریوں کے کاموں میں خوب مدد کرتے تھے۔ چھوٹا ناگپور اور ناگا پردیش جیسے وسیع جنگلات اور پہاڑی علاقوں کو صرف عیسائی مشنریوں کے داخلے کے لیے منتخب کیا گیا اور ان کی سرحدیں دوسرے مذاہب کے مبلغین کے لیے مکمل طور پر بند کر دی گئیں۔ مقامی عیسائیوں، عیسائی مشنری تنظیموں اور برطانوی حکومت کے درمیان فطری ہم آہنگی تھی اس لیے عیسائیوں نے عام طور پر خود کو آزادی کی جدوجہد سے الگ رکھا تھا۔‘

دلچسپ بات یہ ہے کہ آزادی کی جدوجہد میں عیسائیوں کی بات وہی گولوالکر کر رہے ہیں جنہوں نے 1942 میں آر ایس ایس کے رضاکاروں کو گاندھی کی قیادت میں ’بھارت چھوڑو آندولن‘ میں حصہ لینے سے منع کیا تھا۔ انہوں نے صاف طور پر کہا تھا کہ انگریزوں کے خلاف لڑنا آر ایس ایس کے مشن کا حصہ نہیں ہے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اپنے عہد میں ہم نے مذہب اور ثقافت کے تحفظ کے ذریعے ملک کی آزادی کی بات کی ہے۔ یہاں سے انگریزوں کے جانے کا کوئی ذکر نہیں ہے۔‘

گولوالکر اپنی کتاب ’بنچ آف تھاٹس‘ میں ایک جگہ لکھتے ہیں، ’متعدد اہم عیسائی مشنریاں واضح طور پر اعلان کر چکی ہیں کہ ان کا ایک ہی مقصد ہے کہ اس ملک کو عیسیٰ کے بادشاہی کا صوبہ بنائے۔ چنئی کے ’ویدانتا کیسری‘ کی معلومات کے مطابق مدورائی کے آرچ بشپ نے کہا ہے کہ ان کا بنیادی مقصد پورے ہندوستان پر عیسیٰ کے پرچم کو لہرانا ہے۔‘ وہ ایک اور جگہ لکھتے ہیں، ’جو امریکی ہتھیار پاکستان میں آتے ہیں وہ آسام میں عیسائی مشنریوں کو منتقل کر دیے جاتے ہیں۔‘ گولوالکر نے یہ کتاب 1966 میں لکھی تھی۔

اس میں ایک جگہ انہوں نے لکھا ہے، ’عیسیٰ نے اپنے پیروکاروں سے کہا تھا کہ اپنا سب کچھ غریب اور پسماندہ لوگوں کو دے ڈالنے کے لیے ہے، لیکن ان کے پیروکاروں نے عملی طور پر کیا کیا کہ جہاں بھی گئے وہ ’خون دینے والے‘ ثابت نہ ہوئے بلکہ ’خون چوسنے والے‘ ثابت ہوئے۔‘

گولوالکر یہ بھی لکھتے ہیں، ’یہاں جب تک عیسائی اس طرح کی سرگرمیوں میں ملوث ہیں اور اپنے آپ کو عیسائیت کے پھیلاؤ کی بین الاقوامی تحریک کا ایجنٹ مانتے ہیں، اپنی پیدائش کی سرزمین کے ساتھ اپنی پہلی وفاداری پیش کرنے سے انکار کرتے ہیں۔۔۔تب تک وہ یہاں غیر ملکیوں کی شکل میں رہیں گے اور ان کے ساتھ اسی طرح کا سلوک کیا جائے گا۔‘

آخر میں بتاتے چلیں کہ وزیر اعظم نریندر مودی بھی گولوالکر کو اپنا گرو مانتے ہیں۔ 2008 میں نریندر مودی نے ’جیوتی پونج‘ نام کی ایک کتاب لکھی جس میں آر ایس ایس کے ان 16 لوگوں کی سوانح عمری ہے جن سے وہ متاثر ہیں۔ اس کتاب میں مودی نے گولوالکر کے بارے میں سب سے زیادہ لکھا ہے۔ اس سوانح عمری میں مودی نے گولوالکر کا موازنہ بدھ، شیواجی اور بال گنگادھر تلک جیسے لوگوں سے کیا ہے۔ اس کتاب کو پڑھ کر آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مودی گولوالکر کے صرف خیالوں کو ہی نہیں مانتے بلکہ انہیں اپنا گرو بھی مانتے ہیں۔ ایسے میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کہ پی ایم مودی کے دل و دماغ میں عیسائیوں کے بارے کیا خیالات ہوں گے۔

***


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  14 نومبر تا 20 نومبر 2021