آئی آئی ٹی گوہاٹی میں فنی تعلیم سے زیادہ سنگھ کےنظریہ کا غلبہ ؟

اختلاف کی سزا نوکری سے برطرفی۔پی ایچ ڈی کے طالب علم کا بھی اخراج

اکھلیش ترپاٹھی

آئی آئی ٹیز ملک میں فنی تعلیم کے لیے مشہور ہیں۔ یہاں ہر کوئی تعلیم حاصل نہیں کر سکتا۔ داخلہ کے لیے طلبہ کو سخت محنت اور تیاری کرنی پڑتی ہے۔ یہاں سے تعلیم مکمل کرنے والے طلبہ اندرون وبیرون ملک اچھا روزگار حاصل کرتے ہیں اور ملک کا وقار بڑھاتے ہیں۔ لیکن جب سے مرکز میں بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے تکنیکی تعلیم بھی سنگھ کےنظریات سے متاثر ہو گئی ہے۔ تازہ معاملہ آئی آئی ٹی گوہاٹی سے سامنے آیا ہے جہاں فنی تعلیم کے بجائے اب سنگھی نظریہ پڑھایا جا رہا ہے جس سے محسوس ہوتا ہے جیسے آئی آئی ٹی گوہاٹی آر ایس ایس کا مرکز بن گیا ہے۔ حالت یہ ہے کہ آر ایس ایس کے نظریے سے اتفاق نہ رکھنے والے اساتذہ کو ملازمتوں سے برخواست کردیا جا رہا ہے، اسی طرح تحقیق کرنے والے طلباء کا مستقبل برباد کیا جا رہا ہے۔
بنگلورو سے تعلق رکھنے والے سنگھ سے وابستہ ٹی جی سیتارام آئی آئی ٹی گوہاٹی کے ڈائریکٹر ہیں، وہ آر ایس ایس لیڈر دتاتریہ ہوسابولے کے انتہائی قریبی ہیں۔ بظاہر تو وہ آئی آئی ٹی گوہاٹی کے ڈائریکٹر ہیں لیکن شمال مشرقی ہندوستان میں آر ایس ایس کے نظریے کو فروغ دینا ان کا بنیادی کام ہے۔
گزشتہ دنوں برجیش کمار رائے کو جو کہ آئی آئی ٹی گوہاٹی میں الیکٹرانکس، الیکٹرک اور انجینئرنگ کے شعبہ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں آر ایس ایس کے نظریے کی حمایت نہ کرنا اتنا مہنگا پڑگیا کہ آئی آئی ٹی میں اپنا عہدہ گنوانا پڑا۔ برجیش کمار رائے کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ فرانس کی ایک بڑی کمپنی میں بطور ریسرچ سائنٹسٹ کام کر رہے تھے۔ جب آئی آئی ٹی گوہاٹی کی طرف سے انہیں ملازمت کی پیشکش کی گئی تو انہوں نے اسے قبول کر لیا لیکن یہاں انہیں آر ایس ایس کے نظریے کی حمایت نہ کرنے پر یکم جنوری 2020 کو خدمات سے سبکدوش کر دیا گیا۔ نوکری سے ہٹا دیے جانے کے بعد انہوں نے صدر جمہوریہ سے اس کی شکایت کی لیکن ان کی شکایت کا ابھی تک نوٹس نہیں لیا گیا۔ اسی طرح سنگھ کے نظریے کی حمایت نہ کرنے پر آئی آئی ٹی گوہاٹی میں پڑھنے والے طلباء کا مستقبل بھی برباد کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ گزشتہ دنوں آر ایس ایس کے نظریے کے مطابق کام نہ کرنے پر پی ایچ ڈی کر رہے ایک طالب علم وکرانت سنگھ کا آئی آئی ٹی سے اخراج عمل میں لایا گیا۔
وکرانت سنگھ ایک غیر سیاسی تنظیم جوائنٹ ریسرچ کونسل آف انڈیا (جے آر سی آئی) کے رکن ہیں۔ انہوں نے واضح انداز میں آر ایس ایس کے کسی پروگرام کے موقع پر تعاون سے انکار کیا تو آئی آئی ٹی کے ڈائریکٹر ٹی جی سیتارام ناراض ہو گئے اور اپنے ہمنوا پروفیسر بپت کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے تحقیق کے آخری سال جولائی 2021 میں وکرانت سنگھ کو تحقیقی کام کرنے سے روک دیا۔ آئی آئی ٹی گوہاٹی کے ڈائریکٹر ٹی جی سیتارام کا یہ طرز عمل ایک باصلاحیت طالب علم کو ہراساں کرنے اور اس کا مستقبل تباہ کرنے والا ہے جو کہ کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔
خیال ہے کہ مرکزی حکومت نے آر ایس ایس کی ہدایات پر ان کے ہم خیال لوگوں کو آئی آئی ٹی میں نوکریاں دی ہیں تاکہ ان کے نظریات کو فروغ ملے۔ سنگھ کے مفکرین اب آئی آئی ٹی میں فنی تعلیم کی جگہ اپنے نظریے کو عام کر رہے ہیں۔ آئی آئی ٹی گوہاٹی میں ہونے والی حالیہ کارروائی اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ منظم منصوبہ بندی کے ساتھ آر ایس ایس نے گوہاٹی کو اپنا مرکز بنایا ہے کیونکہ عیسائی بڑی تعداد شمال مشرقی ہندوستان کی ریاستوں میں آباد ہیں اس لیے ان تک رسائی کی خاطر یہ اقدام کیے جا رہے ہیں ۔
آسام میں عرصہ دراز سے مختلف مذاہب کے لوگ آباد ہیں۔ مسلم کمیونٹی کے علاوہ بہار اور بنگال کے لوگ بھی بڑی تعداد میں آسام میں رہتے ہیں۔ مرکز میں جب سے بی جے پی نے اقتدار سنبھالا ہے تب سے آر ایس ایس نے شمال مشرقی ہندوستان میں اپنی جڑیں مضبوط کرنی شروع کی ہیں چنانچہ سنگھ ان اداروں میں بیٹھ کر طلبہ کو فنی تعلیم کے بجائے اپنے نظریے کی تعلیم دے رہے ہیں اور اپنے ایجنڈے کا پرچار کر رہے ہیں۔
یہ بھی خبر ہے کہ ٹی جی سیتارام آئی آئی ٹی گوہاٹی میں آر ایس ایس کے استحکام کے لیے آئی آئی ٹی میں میٹنگیں کرتے ہیں جن میں کبھی آسام کے وزیر اعلیٰ بھی شریک رہتے ہیں۔ ان میٹنگوں کے انعقاد میں تعاون کے لیے آر ایس ایس سے وابستہ ممبئی آئی آئی ٹی کے پروفیسر وردراج بپت بھی آتے ہیں۔ وردراج بپت بی جے پی کی طلبہ تنظیم اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد میں لیکچر بھی دیتے ہیں جبکہ بمبئی آئی آئی ٹی کے قوانین کے مطابق وہ نہ کسی سیاسی جماعت میں حصہ لے سکتے ہیں نہ کسی سیاسی نوعیت کے پروگرام میں شرکت کر سکتے ہیں مگر پروفیسر وردراج ودیارتھی پریشد کے پروگراموں میں حصہ لیتے ہیں اور لیکچر بھی دیتے ہیں۔
ملک کی آئی آئی ٹی میں سنگھ کے نظریات کو فروٖغ دینے کے لیے اساتذہ اور طلبہ پر اس طرح دباؤ ڈالنا اورسنگھ کے نظریات سے اتفاق نہ رکھنے پر نوکری سے برخواست کرنا یا طلبہ کا اخراج کرنا قابل مذمت ہے۔ اس سے سمجھا جاسکتا ہے کہ اپنے نظریات کو پھیلانے کے لیے سنگھ کو دستوری، جمہوری اور اخلاقی حدود کو توڑنے میں کوئی امر مانع نہیں رہا اور وہ بڑی بے باکی اور منصوبہ بندی کے ساتھ یہ کام کر رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا آر ایس ایس کے نظریے سے اختلاف کرنے پر کسی کا بھی مستقبل تباہ کیا جا سکتا ہے؟ اس سوال کا جواب یقیناٌ نفی میں ہو گا۔ لیکن آئی آئی ٹی گوہاٹی میں یہی کچھ ہو رہا ہے۔
(اکھلیش ترپاٹھی انڈیا ٹومارو کے صحافی ہیں)
ترجمہ وتلخیص : سالک ندوی
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 12 ستمبر تا 18 ستمبر 2021