انشائیہ: تکیہ کلام

مجتبی حسین

’تکیہ کلام‘ سے یہاں ہماری مراد وہ تکیہ کلام نہیں ہے جو بات چیت کے دوران میں بار بار مداخلت جا وبےجا کرتا ہے بلکہ یہاں تکیہ کلام سے مراد وہ کلام ہے جو تکیوں پر زیورِ طبع سے آراستہ ہوتا ہے اور جس پر آپ اپنا سر رکھ کر سو جاتے ہیں اور جو آپ کی نیندیں ’حلال‘ کرتا ہے۔ پرسوں کی بات ہے کہ ہم نے ایک محفل میں غالب کا شعر پڑھا،
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
تیری زلفیں جس کے شانوں پر پریشاں ہو گئیں
اس شعر کو سن کر ایک صاحب پہلے تو چونکے، پھر گہری سوچ میں غرق ہوگئے اور اپنا سر کھجاتے ہوئے بولے، ’’اگر میرا حافظہ خراب نہ ہو تو یہ شعر میں نے ضرور کہیں پڑھا ہے۔‘‘ ہم نے ان کی یاد داشت کا امتحان لینے کی خاطر پوچھا، ’’تب تو سوچ کر بتائیے کہ آپ نے یہ شعر کہاں پڑھا تھا؟‘‘ وہ کچھ دیر سوچ کر بولے، ’’بھئی! لو یاد آیا۔ یہ شعر ہم نے رحمٰن خاں ٹھیکیدار کے تکیہ کے غلاف پر پڑھا تھا۔ بھلا تمہیں یہ شعر کس طرح یاد ہوگیا؟ کیا تمہیں بھی اس تکیہ پر سونے کا اتفاق ہوا تھا؟‘‘
ہم نے کہا، ’’آپ کیسی باتیں کرتے ہیں یہ شعر تو دیوانِ غالب میں موجود ہے۔ رحمٰن خاں ٹھیکیدار سے ہمارا کیا تعلق؟‘‘ اس پر وہ بولے، ’’بھئی! دیوانِ غالب سے ہمارا کیا تعلق۔ ہم تو شعر وشاعری صرف تکیوں کے غلافوں پر پڑھ لیتے ہیں۔ جو شاعری آپ کو تکیوں کے غلافوں پر پڑھنے کو مل جاتی ہے تو اس کے لیے شعراء کے دیوانوں کو الٹنے پلٹنے کی کیا ضرورت ہے؟‘‘
ان صاحب کے جواب کو سن کر ہمیں پہلی بار احساس ہوا کہ جس زبان میں شعر وشاعری کی بہتات ہوتی ہے اس کا یہی حشر ہوتا ہے۔ شاعری کا ’پیمانۂ صبر‘ جب لبریز ہو جاتا ہے تو اشعار اچھل کر تکیوں پر گر جاتے ہیں، چادروں پر بکھر جاتے ہیں، لاریوںکی پیشانیوں پر چپک جاتے ہیں، رکشاؤں کی پیٹھ پر بیٹھ جاتے ہیں اور حد تو یہ ہے کہ دسترخوانوں تک کی زینت بن جاتے ہیں۔
کتنی ہی بار ایسا ہوا کہ ہم دسترخوان پر کھانا کھانے بیٹھے ہیں کہ اچانک دسترخوان پر چنے ہوئے کسی شعر نے ہمیں چونکا دیا۔ اور ہم کھانا کھانے کے بجائے سر دھنتے رہ گئے۔ بعض سخن فہم حضرات تو ایسے بھی ہوتے ہیں جو دسترخوان پر فارسی میں اشعار لکھواتے ہیں، جیسے،
شکر بجا آر کہ مہمانِ تو
روزیٔ خود می خورد از خوانِ تو
نتیجہ ان فارسی اشعار کی اشاعت کا یہ ہوتا ہے کہ مہمان کھانا کم کھاتے ہیں اور شعر کے معنی و مفہوم کو سمجھنے کی کوشش زیادہ کرتے ہیں۔ اور جب وہ معنی ومفہوم کے چکر سے آزاد ہوتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ میزبان نے سارا کھانا خود ہی کھا لیا ہے۔
دستر خوان کے اشعار کی بات چھوڑیے کیوںکہ اب ہم دسترخوان پر چنی جانے والی اشیائےخورد ونوش میں مختلف ملاوٹوں کے علاوہ اشعار کی ملاوٹ کے بھی عادی ہوگئے ہیں لیکن یہاں بات تکیوں اور ان کے کلام کی چل رہی ہے۔ ہم نے ایسے معرکتہ الآرا شعر تکیوں پر دیکھے ہیں کہ اگر کوئی ان تکیوں پر سو جائے تو پھر زندگی بھر ان تکیوں پر سے اٹھنے کا نام نہ لے۔
ہمیں ایک بار سفر پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ایک شناسا کے ہاں مہمان ٹھہرے، چونکہ ہم حسبِ روایت بستر اپنے ساتھ نہیں لے گئے تھے اس لیے میزبان نے ہمارے بستر کا انتظام کیا۔ اب جو ہم بستر پر پہنچے تو کیا دیکھتے ہیں کہ تکیہ پر نہایت جلی حروف میں یہ شعر لکھا ہوا ہے،
کسی کے حسن کا جادو بسا ہے تکیہ میں
جہانِ عارض وگیسو بسا ہے تکیہ میں
اب آپ سے کیا بتائیں کہ ہمارے حق میں یہ بستر، بسترِ مرگ ثابت ہوا۔ رات بھر کروٹیں بدلتے رہے، اختر شماری تک کرتے رہے۔ ہر بار یہی سوچتے رہے کہ آخر تکیہ میں کس کے حسن کا جادو بسا ہے، آخر وہ کون مہ جبین ہے جس کا جہانِ عارض وگیسو اس تکیہ میں پنہاں ہے۔ بار بار تکیہ کو الٹ کر دیکھا۔ اس تکیہ نے ہم میں وہ سارے آثار پیدا کردیے جو آغاز عشق کے لئے ضروری سمجھے جاتے ہیں۔ وفورِ عشق نے اتنا سر اٹھایا کہ ہم بار بار تکیہ پر اپنا سر پٹختے رہے۔ بالآخر ہم نے فیصلہ کیا کہ صبح ہوگی تو ہم اس نازنین کو ضرور دیکھیں گے جس کے حسن کا جادو اس تکیہ کے توسط سے ہمارے سر چڑھ کر بولنے لگا تھا۔
صبح ہوئی تو ہم نے چوری چھپے اس نازنین کو دیکھ ہی لیا۔ اس نازنین کے ڈیل ڈول اور وضع قطع کو دیکھنے کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ محترمہ کو یہ شعر تکیہ پر نہیں بلکہ گاؤ تکیہ پر لکھنا چاہیے تھا کیونکہ ان کے حسن کا ’سمبل‘ صرف گاؤ تکیہ ہی ہو سکتا تھا۔
اس واقعہ کے بعد تکیہ کے اشعار پر سے نہ صرف ہمارا ایقان اٹھ گیا بلکہ جب بھی کوئی منظوم تکیہ ہمارے سر کے نیچے آیا تو ہم نے چپکے سے اس کا غلاف اتار لیا کہ کون اپنی نیند حرام کرے۔ آپ نے تکیوں کے وہ اشعار ضرور پڑھے ہوں گے جن پر سو کر آپ نہایت ڈراؤنے خواب دیکھنے لگتے ہیں۔ مثال کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں،
کونین تک سمیٹ لیے ہیں غلاف میں
ٹکڑے جگر کے ٹانک دییے ہیں غلاف میں
خواب ہائے دل نشیں کا اِک جہاں آباد ہو
تکیہ جنت بھی اٹھا لائیں اگر ارشاد ہو
چمن در چمن ہے غلاف آئیے تو
ذرا اس پہ آرام فرمائیے تو
غنچہ ہائے دل کھلے، سر رکھ کر گستاخی معاف
گلشنِ امید کے سب پھول چن لایا غلاف
غور فرمائیے کہ ان اشعار پر کیا آپ ’تکیہ‘ کر سکتے ہیں؟ گویا تکیہ نہ ہوا، الہٰ الدین کا چراغ ہوا کہ کونین تک اس میں سمٹ کر آگئے ہیں۔
ہمیں یاد ہے کہ ہمارے ایک دوست کو ادھورے خواب دیکھنے کی بیماری تھی، وہ تھوڑا سا خواب دیکھتے کہ بجلی فیل ہو جاتی اور وہ نیند سے چونک پڑتے۔ ایک دن ہم سے بولے، ’’بھئی! عجیب بات ہے کہ مجھےادھورے خواب نظر آتے ہیں۔ آخر پورے خواب کیوں نظر نہیں آتے۔ میں خوابوں کے’ٹریلر‘ دیکھتے دیکھتے عاجز آگیا ہوں؟‘‘ ہم نے ان کے بستر کا معائنہ کیا تو دیکھا کہ تکیہ پر ایسا شعر لکھا ہے جو ’بحر‘ سے خارج ہے۔ اس پر ہم نے کہا، ’’بھئی! اس کا اصل راز یہ ہے کہ تم ایسے تکیہ پر سوتے ہو جس پر ’بے بحر‘ شعر لکھا ہوا ہے اور اس تکیہ کی کرامت سے تمہارے خواب بھی بحر سے خارج ہو جاتے ہیں۔ اس شعر کو بدلو تو تمہارے خوابوں کی صحت بھی بہتر ہو جائے گی۔‘‘
یہ تو ایک معمولی سا واقعہ ہے۔ ہمارے ایک اور دوست کا قصہ ہے کہ انہیں عرصہ سے بلڈ پریشر کی شکایت تھی۔ جب وہ بستر پر سوجاتے تو ان کا بلڈ پریشر آسمان سے باتیں کرنے لگتا۔ جب ایلو پیتھی علاج سے فائدہ نہ ہوا تو ایک حکیم صاحب کی خدمات حاصل کی گئیں۔ حکیم صاحب نے ان کا بغور معائنہ کیا۔ زبان اتنی بار باہر نکلوائی کہ وہ ہانپنے لگے۔ مگر اسی اثناء میں حکیم صاحب کی نظر تکیہ پر پڑی اور وہ تکیہ کی جانب لپکے، شعر کو غور سے پڑھا اور تنک کر بولے، ’’اس تکیہ کو ابھی یہاں سے ہٹائیے۔ بلڈ پریشر کی اصل جڑ تو یہ تکیہ ہے۔ واہ صاحب واہ! کمال کر دیا آپ نے۔ آپ کو بلڈ پریشر کی شکایت ہے اور آپ نے شاعرِ انقلاب حضرت جوش ملیح آبادی کا شعر تکیہ پر طبع کروا رکھا ہے۔ جانتے ہیں جوش کی شاعری میں کتنا جوش ہوتا ہے۔ جوش کے شعر پر آپ سو جائیں گے تو دورانِ خون نہیں بڑھے گا تو اور کیا ہوگا؟ اس تکیہ کو اسی وقت یہاں سے ہٹائیے۔ خبردار جو آئندہ سے آپ نے جوش کے تکیہ پر سر رکھا۔ اگر شعروں پر سونا ہی ضروری ہے تو داغ کے شعر والے غلاف پر سو جائیے، جگر کے شعر کے غلاف کو اپنے سر کے نیچے رکھیے۔ ان شعراء کا کلام آپ کے بلڈ پریشر کو کم کردے گا۔ آپ کو فرحت ملے گی، بھوک زیادہ لگے گی، آپ کے جسم میں خون کی مقدار میں اضافہ ہوگا وغیرہ وغیرہ۔‘‘
حکیم صاحب کے اس مشورے کے بعد ہمارے دوست نے نہ صرف ’جوش کا غلاف‘ بدل دیا بلکہ اب وہ جوش کے کلام کو ہاتھ لگاتے ہوئے بھی خوف محسوس کرتے ہیں کہ کہیں پھر بلڈ پریشر کا عارضہ لاحق نہ ہوجائے۔ لیکن تکیوں کے کلام کی ایک افادیت بھی ہوتی ہے جس کا راز صرف اہلِ دل ہی جانتے ہیں۔ یہ کوئی مبالغہ نہیں کہ ایک اہلِ دل کی شاعری صرف تکیوں کے اشعار کے باعث ہوتی تھی۔ ہوا یوں تھا کہ یہ صاحب کہیں مہمان بن کر گئے ہوئے تھے۔ رات میں میزبان کے گھر میں سے ان کے لیے جب بستر آیا تو اس میں ایک تکیہ بھی تھا، جس پر یہ شعر لکھا تھا،
شمیم طرّہ گیسوئے یار لایا ہوں
میں اپنے ساتھ چمن کی بہار لایا ہوں
آدمی چونکہ ہوشیار تھے، اس لیے اس غلاف کا مطلب سمجھ گئے۔
دوسرے دن بازار گئےاور ایک ریڈی میڈ غلاف خرید لائے، جس پر یہ شعرلکھا ہوا تھا
اٹھا تو سر پٹک دیا تکیہ پہ بار بار
شب بھر گواہ، یہ بھی مرے دردِ دل کا تھا
انہوں نے چپکے سے تکیہ کا پرانا غلاف اتارا اور نیا غلاف اس پر چڑھا دیا۔ اب یہ تکیہ ان کا پیام لے کر اندر واپس ہوا۔ نہ جانے اس شعر نے کیا قیامت مچائی کے شام میں جب تکیہ واپس ہوا تو اس پر ایک نیا شعر لکھا ہوا تھا ،
مرا جذبِ دل مرے کام آرہا ہے
اب ان کی طرف سے پیام آرہا ہے
دوسرے دن ان صاحب نے یہ غلاف بھی اتار لیا اور پھر ایک طبع زاد غلاف چڑھا دیا،
رات بھر دیدۂ نمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے جاتے رہے
غرض اس ’تکیہ بردار‘ عشق نے وہ جوش مارا کہ سلام وپیام کا سلسلہ بڑھتا رہا، بالآخر ان دونوں کی شادی ہو گئی۔ چنانچہ یہ دونوں ایک ہی شعر پر تکیہ کر رہے ہیں۔ لیکن اب ان کے تکیوں کے اشعار کی ماہیت تبدیل ہو گئی ہے۔ چنانچہ ہم نے پرسوں ان کی خواب گاہ میں جو تکیہ دیکھا تھا اس پر یہ شعر درج تھا،
اس سیاہ بخت کی راتیں بھی کوئی راتیں ہیں
خوابِ راحت بھی جسے خوابِ پریشاں ہو جائے
یہ تو خیر عام آدمیوں کے تکیوں کی بات تھی۔ اگر آپ دانشوروں کے تکیوں کو دیکھیں گے تو یقیناً دنگ رہ جائیں گے۔ ان کے تکیوں پر ایسے صوفیانہ اور فلسفیانہ اشعار لکھے ہوتے ہیں کہ اچھا خاصا آدمی فلسفی بننے کی کوشش کر بیٹھتا ہے۔ مثلاً ایک انٹلکچول حضرت نے اپنے تکیہ پر یہ شعر لکھ رکھا تھا،
موت کا ایک دن معین ہے
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی
سچ پوچھیے تو اس تکیہ پر کوئی عام آدمی سو ہی نہیں سکتا۔ ایسے فلسفیانہ شعر پر تو صرف ایک دانشور ہی سو سکتا ہے اور اسی کو ایسے فلسفیانہ تکیے زیب دیتے ہیں۔
آئیے، اب ذرا شعراء حضرات کے تکیوں کی بات ہو جائے جن کے لیے شاعری اوڑھنا بچھونا ہوتی ہے۔ یعنی ان کے تکیوں پر بھی شعر لکھے ہوتے ہیں۔ حد ہوگئی کہ ہم نے ایک شاعر کی مچھر دانی پر بھی شعروں کا جنگل اگا ہوا دیکھا۔ ہم نے ایک شاعر کے گھر میں ایک منظوم تکیہ دیکھا تھا جس پر یہ شعر درج تھا،
یار سوتا ہے بصد ناز بصد رعنائی
محوِ نظارہ ہوں بیدار کروں یا نہ کروں
ہم نے اس شعر کو پڑھ کر کہا، ’’بھئی واہ کیا خوب شعر کہا ہے، کس کا شعر ہے؟‘‘
ہمارے سوال کو سن کران کا چہرہ تمتما اٹھا اور بولے، ’’معاف کیجیے، میں کسی دوسرے کے کلام پر تکیہ نہیں کرتا۔ یہ شعر میرا ذاتی ہے اور یہ بات میری خود داری کے خلاف ہے کہ میں دوسروں کے اشعار پر سو جاؤں۔ آپ مجھے کیا سمجھتے ہیں۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہوئی کہ کوئی شاعر اپنے تکیہ پر میر کے تکیہ کا شعر لکھ مارے‘‘،
سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا ہے
ہم نے ان کے غصّہ کو تاڑ کر معافی مانگ لی اور چپ ہو رہے۔ بعد میں ان کے گھر کی اشیاء پر جو نظر ڈالی تو ہر شئے شعر میں لت پت نظر آئی۔ پھر بہت دنوں بعد پتہ چلا کہ شاعرِ موصوف کی جو غزلیں مختلف رسالوں سے ’ناقابل اشاعت‘ قرار پا کر واپس آتی ہیں، انہیں وہ اپنے گھر کی چادروں پر چھپوا دیتے ہیں، تکیوں کے غلافوں پر چڑھا دیتے ہیں اور میز پوش پر زیورِ طبع سے آراستہ کرتے ہیں۔ ہم تکیوں کے ذریعہ ادب کی ترقی کے ضرور قائل ہیں لیکن ہمیں یہ بات پسند نہیں کہ ناقابلِ اشاعت اشعار بھی تکیوں پر چھاپے جائیں۔ پھر جب ہماری شاعری میں نئے رجحانات آرہے ہیں تو تکیوں میں بھی نئے رجحانات کا آنا نہایت ضرور ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ کوئی سخن فہم اپنے تکیہ پر آزاد نظم لکھوائے۔ اگر تکیہ اس نظم کو قبول کرنے میں تنگ دامنی کا شکوہ کرے تو اس نظم کو دو تین تکیوں پر شائع کیا جائے۔ مثلاً نظم کا ایک بند تو ایک تکیہ پر ہوا اور اس کے نیچے یہ عبارت درج ہو، ’’براہ کرم تکیہ الٹیے۔‘‘
اور تکیہ الٹنے پر بھی کام نہ بنے تو نیچے یہ عبارت لکھی جائے، ’’باقی نظم ملاحظہ ہو گاؤ تکیہ (۱) پر۔‘‘ اور گاؤ تکیہ بھی اس کی طوالت کو برداشت نہ کر سکے تو اس کے نیچے لکھا جائے، ’’باقی نظم ملاحظہ ہو شطرنجی کلاں پر۔‘‘ اور جب یہ نظم ختم ہو جائے تو اس کے نیچے ’غیر مطبوعہ‘ کے الفاظ کا بھی اضافہ کردیا جائے۔
ہمیں یقین ہے کہ ’منظوم تکیوں‘ کے شائقین اپنے تکیوں کو شاعری کے جدید رجحانات سے ہم آہنگ کرنے کی سعی فرمائیں گے۔
سب سے آخر میں ہم اس مضمون کے لیے ان خاتون کے تہہ دل سے ممنون ہیں جن سے ہم نے تکیوں کے چند اشعار مانگے تو انہوں نے اپنے نوکر کو ہمارے گھر بھیجا۔ اس نوکر نے آتے ہی ہم سے کہا، ’’صاحب اپنے نوکر کو باہر بھیجیے تاکہ وہ تکیے کے اشعار رکشا میں سے اتار سکے۔‘‘
ہم نے حیرت سے پوچھا، ’’تمہاری بیگم صاحبہ نے آخر اتنے اشعار کیوں بھیجے کہ انہیں رکشا میں ڈال کر ہمارے یہاں لانا پڑا؟‘‘
وہ بولا، ’’صاحب، آپ نے بیگم صاحبہ سے تکیہ کے اشعار مانگے تھے اور انہوں نے اپنے گھر کے سارے تکیے آپ کے پاس بھجوا دیے ہیں، آپ ان تکیوں کا مطالعہ کرنے کے بعد انہیں واپس بھیج دیجیے۔‘‘
ہم اس دھوبی کے بھی شکر گزار ہیں جو گھاٹ پر کپڑے دھو رہا تھا۔ ہم نے اس دھوبی کو دیکھا کہ وہ ایک کپڑا پانی میں سے نکالتا ہے اسے کھولتا ہے پھر اپنی عینک آنکھوں پر لگاتا ہے، کپڑے پر کوئی عبارت پڑھتا ہے اور پھر اس کپڑے کو پتھر پر زور زور سے پٹخنے لگتا ہے۔ ہم نے اس کی اس حرکت کا بغور مشاہدہ کیا تو پتہ چلا کہ وہ بعض کپڑے تو زور سے پٹختا ہے اور بعض کپڑے نہایت آہستگی سے دھوتا ہے۔
ہم نے پوچھا، ’’بھئی! تم بعض کپڑے زور سے پٹختے ہو اور بعض نہایت آہستگی سے، آخر یہ کیا راز ہے؟‘‘
وہ بولا، ’’صاحب! یہ دراصل تکیے کے غلاف ہیں اور میں تکیے کے ہر غلاف کو دھونے سے پہلے اسے کھولتا ہوں اور اس پر لکھا ہوا شعر پڑھتا ہوں۔ اگر شعر مجھے پسند نہ آئے تو اس غلاف کو زور زور سے پتھر پر پٹختا ہوں یعنی ادبی اصطلاح میں ہوٹنگ کرتا ہوں اور اگر اتفاق سے کوئی شعر پسند آئے تو اسے نہایت سلیقے سے دھوتا ہوں کہ اچھا شعر ساری قوم کی امانت ہوتا ہے۔‘‘ ہم اس ادب دوست دھوبی اور اس کے گدھے کے بھی، جو ان اشعار کا بوجھ اپنی پیٹھ پر لادے پھرتا ہے، ممنون ہیں کہ اس نے بعض اچھے اشعار ہمیں فراہم کیے جو اس مضمون میں شامل نہیں ہیں۔


 

ملک کے معرو ف وممتاز مزاح نگار جناب مجتبیٰ حسین دنیائے ادب وظرافت کو صدمے میں چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہو گئے۔ حالیہ دنوں میں وطن عزیز میں نفرت کی مسموم فضا سے مغموم ہو کر انہوں نے اپنا پدم شری ایوارڈ واپس کر کے ایک حساس دل رکھنے والے مسلمان کا ثبوت دیا تھا۔ ان کی جدائی سے ادبی دنیا رنجور ہے اور طنز ومزاح سے معمور ان کی تحریروں کے دلدادہ بے شمار قارئین کے دل ملول ہیں۔ ادارہ دعوت جناب مجتبٰی حسیین اور ان کی ادبی خدمات کو خراج پیش کرتا ہے۔ مرحوم کی یاد میں ان کا ایک مضمون یہاں نذرِ قارئین کیا جا رہا ہے۔ (ادارہ)