امکانات کی دنیا صالح اور باصلاحیت طلبہ کی منتظر

’تہذیبی قوم پرستی‘ اہم چیلنج۔ ایمان، احسان اور توکل کے ساتھ حالات کا مقابلہ کریں

سید احمد سالک ندوی

 

تعلیم، معیشت، سیاست اور ٹکنالوجی کے شعبہ میں ماہرین تیار کرنےکی ضرورت
ایس آئی او آف انڈیا کے نو منتخب صدر برادر سلمان احمد سے خاص بات چیت
(اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا (ایس آئی او) اسلام پسند طلبہ کی سب سے بڑی ملک گیر تنظیم ہے۔ گزشتہ دنوں انجینئر سلمان احمد میقات 2021تا 2022 کے لیے ایس آئی او کے قومی صدر منتخب ہوئے۔ وہ دو مرتبہ مہاراشٹرا ساوتھ کے صدر حلقہ رہ چکے ہیں۔ برادر سلمان احمد ایک اچھے مقرر ہیں اور طلبہ و نوجوانوں میں کافی مقبول ہیں۔ حالیہ سی اے اے مخالف احتجاج کے دوران انہیں حراست میں بھی لیا گیا تھا۔ ہفت روزہ دعوت نے تنظیم کی پالیسی اور پروگرام، طلبہ برادری کے مسائل، ملک کو درپیش چیلنجس اور نئی تعلیمی پالیسی کے حوالے سے ان کے ساتھ خاص بات چیت کی ہے جس کا خلاصہ قارئینِ دعوت کی خدمت میں پیش ہے۔)
سی اے اے کی مخالفت میں احتجاج کے دوران ملک میں ایک طرح کی نئی قیادت سامنے آئی اور ملک میں طلبہ ونوجوانوں کا بڑھتا ہوا رول واضح ہو گیا۔ اس تناظر میں ملک کی سب سے بڑی اسلامی طلبہ تنظیم ایس آئی او نے سماج کی تعمیر وشکیل، اجتماعیت، تحقیق، اصلاحِ ذات جیسے میدانوں میں منصوبہ بند کام کرنے کے لیے حسب روایت بہترین پالیسی پروگرام ترتیب دیا ہے ۔ پچھلے 37 سالوں سے سرگرم اس تنظیم کی نئی میقات 2021 تا 2022 کے لیے قومی صدر کے طور پر منتخب ہونے والے انجینئر سلمان احمد نے ہفت روزہ دعوت کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔ انہوں نے طلبہ برادری کے مسائل، ملک کو درپیش چیلنجس اور نئی تعلیمی پالیسی کے سلسلے میں کہا کہ طلبہ برادری بالخصوص ایس آئی او کے نوجوانوں کے سامنے اس وقت جو مسائل ہیں اور چیلنجس ہیں اس سے زیادہ مواقع اور امکانات ہیں۔ مسائل سے الجھنے کی بجائے امکانات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔دعوت دین، تعلیم، کیمپس یا سماجی انصاف جیسے معاملات یقیناً توجہ طلب ہیں، ساتھ ہی افراد سازی، تزکیہ و تربیت، اپنے پیغام کی ترسیل واشاعت کے لیے بھی مختلف محاذوں پر کام کی ضرورت ہے۔ سلمان احمد نے کہا کہ ملک کے بدلتے ہوئے حالات میں کام کرنے کے لیے استعداد سازی کو اس بار پالیسی پروگرام میں فوکس کیا گیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ سماجی سطح پرجس قسم کی تبدیلی کی ضرورت ہے وہ باصلاحیت افراد کے ذریعہ سے ہی ممکن ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ تعلیم، معیشت اور سیاست جیسے مختلف میدانوں میں واضح نظریہ رکھنے والے ایسے ماہرین کو تیار کرنے کی ضرورت ہے جن کے پاس پیشہ ورانہ ہنر مندی بھی ہو اور وہ بہتر انداز میں تحریک کی اور ملک کی خدمت کرنے کے قابل ہوں۔ اس کے علاوہ ادب و ثقافت کے طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے پیغام کو عام کرنے کے لیے، ٹیکنالوجی کا استعمال بھی ضروری ہوجاتا ہے۔ برادر سلمان کا خیال ہے کہ جن موضوعات جن پر تحریکات اسلامی کا کام کم رہا ہے، ان موضوعات پر ایس ائی او اسلامی بنیادوں پر کام کرے گی اور اس سارے منظرنامہ کا بہتر متبادل تیار کرے گی۔ نئی تعلیمی پالیسی پر ایس آئی او نے اس سے پہلے جو کام کیا تھا اس کے اثرات مرتب ہونے پر انہوں نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے ایس ائی او کی جانب سے دی گئی کچھ تجاویز کو منظور کیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن کےجو 10سال مکمل ہو رہے ہیں اس سلسلے میں بھی تحقیقی کام کرنا، آر ٹی ای کے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے اور پارلیمنٹ کے مباحث پر ایک ریسرچ رپورٹ جلد ہی شائع کرنا ایس ائی او کے پیش نطر ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک بالخصوص کیمپسس میں اسلاموفوبیا کا جو ماحول ہے، اس سلسلے میں بھی ایک ایک ریسرچ رپورٹ جلد ہی تیار کر کے شائع کی جائے گی۔ ان کا کہنا ہے کہ حالات کے پیش نظر ایس آئی او نے ایک کل وقتی ادارہ سنٹرل فار ایجوکیشنل ریسرچ اینڈ ٹریننگ (CERT) قائم کیا ہے جو ایجوکیشن سے متعلق امور پر نظر رکھے گا۔
باطل طاقتوں کے بڑھتے ہوئے زور کم کرنے کے لئے پر عزم ایس ائی او کے صدر سلمان احمد نے کہا کہ ایس ائی او ممکنہ حد تک جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے مقصد کے حصول میں سرگرم رہے گی۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ مخالف طاقتوں کے مقابلے میں ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے مگر ٹکنالوجی کا استعمال اشاعت دین کے لئے کا ایک بہترین ذریعہ ہے اس لیے ہم ان تمام متبادل ذرائع کا استعمال کیا جائے گا۔ انہوں کہا کہ ملت کی طرف سے جو کوششیں ہو رہی ہیں اس میں مزید بہتری کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ واضح اور اعلیٰ مقصد رکھنے والوں کے طریقہ کار میں رد عمل کا پہلو غالب نہیں ہونا چاہیے۔
ملک میں ایک نظریاتی طاقت اور ثقافتی قوم پرستی (کلچرل نیشنلزم) کے غلبہ اور بزور بازو نافذ کرنے کی کوششوں پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان حالات میں مایوس ہونے یا مقصد اور نصب العین سے الگ ہو کر تشدد پسندی کی طرف جانے کی قطعاً ضرورت نہیں ہے، اسی طرح ان حالات کی سنگینی سے غفلت برتنے کی بھی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ سلمان احمد نے طلبہ برادری سے اپیل کی کہ وہ صبر و تحمل کے ساتھ عدل و انصاف کے قیام کے لیے جدوجہد کرے اور ملک و ملت کی تمام انسانی آبادی کے مسائل و چیلنجس کو اپنے مسائل سمجھ کر سماج میں تبدیلی کی کوشش کرے۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایک پروپیگنڈے کے تحت مسلمانوں کو طلبہ و نوجوانوں کو، لسانی اقلیتوں کو اور ملک کے مختلف طبقات کو ان کی شناخت پر سوالات کھڑے کر کے بار بار دفاعی پوزیشن میں دھکیلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس لیے ان مسائل سے الجھنے کی بجائے مثبت ایجنڈے کے ساتھ آگے بڑھ کر کام کریں۔
تعلیم کے پس منظر میں طلبہ اور ملک کو در پیش مسائل پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے فلسفہ تعلیم پر سوال اٹھایا۔ انہوں نے کہا کہ ایک نظریاتی تنظیم ہونے کی حیثیت سے یہ سوچنا ضروری ہے کہ تعلیم کا مقصد کیا ہے۔ اگر تعلیم سے اچھے انسان بنانا مقصود نہیں ہے تو پھر تعلیم کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اپنی گفتگو کے دوران ملک میں تعلیم کو بہت ہی منصوبہ بند طریقہ سے تجارتی رنگ دینے کی کوشش پر بھی انہوں نے افسوس کا اظہار کیا۔ اور کہا کہ تعلیم ہر بچہ کا بنیادی حق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ رائٹ ٹو ایجوکیشن کے تحت ہر بچہ کو اس کا حق دلانے کی ایس ائی او اپنے طور پر کوشش کرے گی اور ملک کی جی ڈی پی کا کم سے کم چھ فیصد حصہ تعلیم پر خرچ کرنے کے اپنے مطالبہ کو منوانے کے لیے ایس ائی او عوامی بیداری کے ساتھ تمام پرامن ذرائع کا استعمال کرے گی۔
انہوں نے خوشی ظاہر کی کہ پچھلی تعلیمی پالیسی کو دیکھ کر حکومت کو جو مشورے دیے گیے تھے ان میں سے کچھ مشوروں کو حکومت نے قبول کیا ہے۔ ان میں بطور خاص حق تعلیم جو آٹھویں جماعت تک محدود تھا اس کو بڑھانے اور اس طرح علاقائی زبانوں اور مادری زبانوں میں تعلیم کی تجویز کو بھی نئی تعلیمی پالیسی میں شامل کیا گیا ہے۔
کیمپس میں سماجی برائیوں کے برے اثرات کے خلاف ایس ائی او کی جد وجہد کا تذکرہ کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ ایس ائی او اس کام کو انجام دینے کے لیے دوسری تنظیموں کا بھی تعاون لیتی رہی ہے اور مستقبل میں بھی ہم ملک کے مختلف مسائل پر امن پسند تنظیموں کے ساتھ کام کرتے ر ہیں گے۔ سی اے اے تحریک میں ایس آئی او کی شرکت سے متعلق انہوں نےکہا کہ وہ ایک سماجی تحریک تھی اور کسی بھی سماجی تحریک کو طلبہ اور نوجوانوں سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ اسی بنیاد پر ایس آئی او سی اے اے کی تحریک میں شریک رہی۔ انہوں نے واضح کیا کہ سی اے اے کی لڑائی دستور کو بچانے اور ملک میں جاری اسلاموفوبیا کے خلاف تھی جس میں کسی ایک ہی کمیونیٹی کے لوگ شامل نہیں تھے بلکہ اصل دھارے میں حصہ نہ پانے والے ملک کے تمام لوگ اس تحریک کا حصہ تھے ۔
عالمی طلبہ تنظیموں میں ایس آئی او کے مقام و مرتبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایس آئی او آف انڈیا ملک کی صف اول کی طلبہ تنظیم ہے جو تمام صوبوں میں اپنا وجود رکھتی ہے۔ ایک بہت ہی منظم کیڈر کے ساتھ ایس ائی او نے ہمیشہ سے سماج اور ملک کے اہم مسائل میں تعاون پیش کیا ہے اور نظریاتی حیثیت نے ایس ائی او کو دوسری تنظیموں سے بہت ممتاز کیا ہے۔
سلمان احمد نے نوجوانوں کو پیغام دیتے ہوئے کہا کہ واضح نصب العین کے ساتھ بڑا مقصد بنائیں اور وہ دنیا میں مسائل کے بجائے امکانات تلاش کریں اور اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیتیں، استعداد اور قوتیں رکھی ہیں ان کو پہچان کر اپنے لیے کسی بہتر میدان کا انتخاب کریں۔ پھر جس میدان کا بھی انتخاب کریں اس میں بہترین کام انجام دیں۔ ساتھ ہی اللہ پر بھر پور ایمان، توکل اور اعتماد رکھیں کہ انہی حالات میں ایک نئی دنیا بھی پیدا ہو گی۔
***

نوجوان واضح نصب العین کے ساتھ بڑا مقصد بنائیں اور وہ دنیا میں مسائل کے بجائے امکانات تلاش کریں اور اللہ تعالیٰ نے جو صلاحیتیں، استعداد اور قوتیں رکھی ہیں ان کو پہچان کر اپنے لیے کسی بہتر میدان کا انتخاب کریں۔ پھر جس میدان کا بھی انتخاب کریں اس میں بہترین کام انجام دیں۔ ساتھ ہی اللہ پر بھر پور ایمان، توکل اور اعتماد رکھیں کہ انہی حالات میں ایک نئی دنیا بھی پیدا ہو گی۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021