امریکا کی یہودی عبادت گاہ میں یرغمالی ڈرامہ!

واقعہ کے بعد اسلامو فوبیا کی نئی لہر۔گرفتاری کے بجائے اغواکارکے قتل سےشبہات کو تقویت

مسعود ابدالی

ہفتہ 15 جنوری کو واشنگٹن کے وقت کے مطابق پونے بارہ بجے دن ایک شخص جو اپنے حُلیے سے مفلوک الحال و بے گھر دکھائی دیتا تھا، امریکی ریاست ٹیکسس (Texas) کے علاقے کولیویل (Colleyville)کی یہودی عبادت گاہ میں داخل ہوا۔ وہاں موجود لوگوں کا خیال تھا یہ سخت سردی سے بچنے کےلیے یہاں آیا ہے۔ اندر داخل ہوتے ہی اس نے اسلحہ تان کر وہاں موجود لوگوں کو یرغمال بنالیا۔
کولیوول، ڈالس۔فورٹ ورتھ (DFW)کا یہ مضافاتی علاقہ ستائیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔کونگریگیشن بیتھ اسرائیل (Congregation Beth Israel) کے نام سے یہ صومعہ (یہودی عبادت گاہ) 1998 میں تعمیر کیا گیا ہے۔ بیتھ عبرانی میں گھر (بیت) کو کہتے ہیں چنانچہ اس صومعہ کو ہم اپنے انداز میں جامع بیتِ یعقوبؑ کہہ سکتے ہیں۔ یہ تو آپ کو معلوم ہی ہے کہ جلیل القدر پیغمبر، حضرت یعقوبؑ، اسرائیل کے نام سے مشہور تھے۔بیتھ، اردو، عربی اور فارسی کے ’ب‘ کی طرح عبرانی زبان کا دوسرا حرفِ تہجی ہے، جس کے معنی حد درجہ حسین کے ہیں جبکہ اسے ’بن‘ کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے، چنانچہ اس مناسبت سے اس صومعہ کو جامع حُسنِ ابنِ یعقوب (یوسفؑ) بھی کہا جاسکتا ہے۔
اس وقت ٹیکسس کے معیاری وقت کے مطابق صبج کے پونے گیارہ بجے تھے اور سبت (سنیچر) کی روایتی عبادات کا سلسلہ جاری تھا۔کورونا کی وجہ سے یہودی عبادت گاہوں میں مراسمِ عبودیت، مجازی یا Virtual ادا کیے جاتے ہیں، اس لیے وہاں یہودی ربائی (امام) چارلی واکر سمیت صرف چار افراد موجود تھےاور کارروائی بصری و سمعی رابطے پر آن لائن نشر ہورہی تھی۔ اس دوران فیس بک پر ایک شخص کو اونچی آواز میں بولتے سنا گیا کہ ’میری بہن سے فون پر میری بات کراو ورنہ میں جان دیدوں گا، امریکا یہ سب کچھ غلط کررہا ہے‘۔ اس شخص نے یہ بھی کہا کہ ’میں کسی کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتا‘۔ بی بی سی کے مطابق بعد میں سوشل میڈیا سے یہ گفتگوحذف کردی گئی۔
’بہن‘ کہنے کی وجہ سے یہ مغالطہ ہوا کہ مبینہ ملزم، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا حقیقی بھائی محمد صدیقی ہے اور امریکی میڈیا نے بلا تحقیق یہ خبر نشر بھی کردی لیکن یہ افواہ سنتے ہی جناب محمد صدیقی نے اخباری نمائندوں کو بتایا کہ وہ اس وقت نیویارک میں ہیں اور یہاں میری موجودگی کی کوئی بھی شخص تصدیق کرسکتا ہے۔کچھ ہی دیر بعد امریکی حکام نے خود اعلان کیا کہ مبینہ اغواکار محمد صدیقی نہیں ہیں۔
اس واقعے سے فوری طور پر صدر جو بائیڈن کو آگاہ کیا گیا اور قصرِ مرمریں کی ترجمان محترمہ جین ساکی کے مطابق امریکی صدر سارا دن متعلقہ حکام سے رابطے میں رہے۔اسرائیل کے وزیرِاعظم نفتالی بینیٹ بھی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے تھے اور انھوں نے اپنے ایک ٹویٹ میں کہا ’ہم یرغمال بنائے گئے افراد اور ان کو چھڑانے کی کوششوں میں مصروف افراد کے تحفظ کے لیے دعاگو ہیں۔‘
یرغمالیوں کو بحفاظت چھڑانے کے لیے مقامی پولیس اور ایف بی آئی کے ساتھ امریکی وزارت داخلہ نے 200 جوانوں پر مشتمل خصوصی دستہ دارالحکومت سے روانہ کیا۔ اس دوران ایف بی آئی اور مقامی حکام مبینہ اغوا کار سے رابطے میں رہے۔ امریکی خفیہ ایجنسیوں کا خیال ہے کہ ملزم نے یہ کارروائی اپنے طور پر کی ہے اور کسی قسم کے بیرونی تعاون کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ بات چیت کے دوران اغوا کار کا رویہ بہت شائستہ تھا اور بار بار وہ اس بات کو دہراتا رہا کہ اسرائیل، یہودی، یہودی مذہب، انکی عبادتگاہوں اور یرغمالیوں کے خلاف اس کے دل میں کسی قسم کے منفی جذبات نہیں اور نہ وہ کسی کو نقصان پہنچانا چاہتاہے۔ جواب میں امریکی مذاکرات کاروں نے بھی اسے تحفظ کا یقین دلایا۔ شام پانچ بجے کے قریب اغوا کار نے ایک یرغمالی کو عمارت سے باہر جانے کی اجازت دے دی۔
حکام کا کہنا ہے کہ رہاکیا جانے والا یرغمالی بالکل صحیح سلامت تھا اور کسی قسم کے جسمانی یا نفسیاتی تشدد کے کوئی شواہد نہیں ملے۔ تاہم رات نو بجے کے قریب شعبہ انسداد دہشت گردی نے Special Weapons And Tacticsیا SWAT آپریشن‘ آغاز کیا جس میں تینوں یرغمالی بازیاب اور مبینہ اغوا کار جاں بحق ہوگیا۔
آپریشن کے فوراً بعد اخباری نمائندوں سے باتیں کرتے ہوئے ایف بی آئی کے ترجمان نے کہا کہ ملزم نے کسی یرغمالی کو نہ تو کوئی نقصان پہنچایااور نہ ہی اس نےکسی قسم کے یہودی دشمن رجحان کا اظہار کیا۔ وہ سارا وقت صرف ایک ہی نکتے پر اصرار کرتا رہا۔فیس بک کے live streamپر عافیہ صدیقی کی رہائی کا مطالبہ لاکھوں لوگ سن چکے تھے لیکن ایف بی آئی کے ترجمان نے اغوا کار کے مطالبات کی تفصیلات نہیں بتائیں۔ انکا کہنا تھا کہ تحقیقات مکمل ہونے سے پہلے وہ لائیو سٹریم میں سنے گئے جملوں کے حوالے سے کچھ نہیں کہنا چاہتے۔ترجمان نے اس بات کی تصدیق کی کہ ملزم جاں بحق ہوگیا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے وکلا اور ان کی رہائی کے لیے قانونی جدوجہد کرنیوالی عافیہ صدیقی فاونڈیشن نے اس کارروائی سے لاتعلقی ظاہر کرتے ہوئے عبادت گاہ کی بیحرمتی اور سبت کی عبادت میں مصروف افراد کو یرغمال بنانے کی شدید مذمت کی ہے۔ اسلامک سرکل آف نارتھ امریکہ (ICNA)نے بھی اس کارروائی کو اسلامی اقدار کے منافی ایک افسوسناک قدم قرار دیا ہے۔
ہفتہ 15 جنوری کو رات گئے برطانوی حکام نے انکشاف کیا کہ ملزم برطانوی شہری تھا۔ واقعہ کے آغاز ہی سے برطانوی حکام امریکی ایف بی آئی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے رابطے میں تھے اور ملزم کے پسِ منظر و شناخت کے حوالے سے دستیاب تمام معلومات متعلقہ حکام کو بروقت فراہم کی گئیں۔ اتوار کو ایف بی آئی نے برطانیہ سے آنے والی معلومات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ 44 سالہ ملزم کی ملک فیصل اکرم کے نام سے شناخت کرلی گئی ہے۔
پچاس سالہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی مشہورِ زمانہ جامعہ ہارورڈ سے فارغ التحصیل ماہر علم الاعصاب Neuroscientistہیں۔ امریکیوں کے مطابق انھیں جولائی 2008 میں افغان پولیس نے کیمیائی اجزا اور ایسی تحریریں رکھنے پر گرفتار کیا تھا جن پر عمل درآمد کی صورت میں بھاری جانی و مالی نقصان ہو سکتا تھا۔ استغاثہ کی جانب سے امریکی عدالت کے روبرو پیش کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ جب تفتیش کاروں نے ڈاکٹر عافیہ سے کیمیائی اجزااور تحریروں کی برآمدگی کے بارے میں سوال کیا تو ڈاکٹر صاحبہ نے رائفل اٹھا کر فوجیوں پر گولیاں چلائیں۔اس حملے میں کوئی امریکی زخمی نہیں ہوا تھا۔ عدالت نے 2010 میں امریکی فوج اور حکومت کے اہلکاروں پر حملے اور قتل کی کوشش کے سات الزامات میں مجرم قرار دیتے ہوئے انھیں 86 سال قید کی سزا سنائی ہے۔ڈاکٹر صاحبہ ٹیکسس کے شہر فورٹ ورتھ Fort Worthکی وفاقی جیل برائے خواتین میں نظر بند ہیں۔
دوسری طرف عافیہ صدیقی کی والدہ کا کہنا ہے کہ ٖڈاکٹر صاحبہ اپنے ماموں سے ملنے کےلیے 30مارچ 2003 کو اپنے تین بچوں کے ساتھ اسلام آباد روانہ ہوئیں اور پھر انکا کچھ پتہ نہ چلا۔ انکے حامی الزام لگارہے ہیں کہ عافیہ اور انکے بچوں کو امریکی سی آئی اے نے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی مدد سے اغوا کرکے افغانستان پہنچایا جہاں ان پر اعتراف جرم کے لیے بگرام جیل میں بدترین تشدد کیا گیا۔ کافی عرصے بعد ان کے بڑے بیٹے کو رہا کرکے خالہ، ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کے پاس پہنچادیا گیا اور 2010 میں انکی صاحبزادی مریم بھی بازیاب ہوگئی تاہم ان کے تیسرے بچے کا کوئی سراغ نہیں ملا اور خدشہ ہے کہ یہ معصوم ڈاکٹر صاحبہ کے مبینہ اغوا کے دورا ن اپنی جان سے گیا۔
یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب ملک فیصل اکرم مذاکرات میں تعاون کررہا تھا اور شام کو رہا ہونے والے یرغمالی نے اس بات کی تصدیق کی کہ ملزم کا رویہ یرغمالیوں سے بہت اچھا ہے اور وہ کسی کو نقصان نہ پہنچانے کی یقین دہانی کروارہاہے تو اسے ہلاک کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ صاف لگ رہا تھا کہ وہ باقی تین یرغمالیوں کو بھی رہا کردے گا۔ اگر اسکے عزائم خطرناک محسوس ہورہے تھے تب بھی غیر مہلک (non-lethal)قوت استعمال کرکے اسے قابو میں کیا جاسکتا تھا اورملزم کی گرفتاری سے واقعے کی شفاف تحقیق ممکن ہوسکتی تھی۔
دوسال پہلے ریاست وسکانسن کے شہر کنوشا میں ایک 29 سالہ سیاہ فام شخص کو پولیس نے تشدد کرکے ہلاک کردیا۔ اس ظلم پر شہریوں نے احتجاجی جلوس نکالا جس پر ایک سترہ سالہ سفید فام کائل رٹن ہاوس نے فائرنگ کرکے دومظاہرین کو ہلاک اور ایک کو شدید زخمی کردیا۔ ملزم 10 منٹ تک اندھا دھند فائرنگ کرتا رہا لیکن پولیس نے اسے ہلاک کرنے کے بجائے زندہ پکڑ لینے کو ترجیح دی۔
ٹیکسس کے واقعہ نے امریکا بھر میں مسلمانوں سے نفرت کی آگ پر تیل کا کام کیا ہے اور قدامت پسندوں نے ایک بار پھر ’اسلامک ٹیررازم‘ کی گردان رٹنی شروع کردی ہے۔ریپبلکن پارٹی کے سینئر رہنما سینٹر لنڈسے گراہم نے ٹیکسس کے واقعے کو مذہبی جنگ قراردیا ہے۔ فاکس ٹیلی ویژن پر گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ افغانستان سے ہماری پسپائی کے بعد طالبان دہشت گردی عروج پر ہے، القاعدہ بے خوف و خطر دندنا رہی ہے اور داعش کی تجدید ہوچکی ہے۔ یہ دہشت گردکب ہماری سرحدوں پر پہنچ کے بے گناہ امریکیوں کو ہلاک کریں گے، یہ بس دنوں کی بات ہے۔
قدامت پسند، ایف بی آئی کے اس بیان پر بھی شدید مشتعل ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اس واقعے کا سام دشمن یا (Anti-Semitic) رجحان سے کوئی تعلق نہیں اور ملزم صرف ایک نکاتی مطالبے (عافیہ صدیقی کی رہائی) پر اصرار کرتا رہا۔قومی سلامتی کے لیے صدر بائیڈن کے مشیر جیک سولیون نے سی بی ایس ٹیلی ویژن پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ٹیکسس کا واقعہ سام دشمنی پر مبنی دہشت گرد کاروائی ہے
گزشتہ برس 6 جنوری کو انتخابی ووٹوں (Electoral Votes)کی گنتی کے دوران کانگریس (پارلیمان) کی عمارت پر انتہاپسندوں کے حملے کے بعد امریکی خفیہ ایجنسیوں کو اس حقیقت کا ادراک ہوگیا ہے کہ نائن الیون کے واقعے کے بعد سے قانون نافذ کرنے والے اداروں اور خفیہ ایجنسیوں نے اپنے تمام وسائل امریکی مسلمانوں کی جاسوسی اور مساجد ومدرسوں کی نگرانی کے لیے وقف کردئے ہیں، جسکی وجہ سے دائیں بازو کے مقامی انتہا پسندوں کو کھیل کھیلنے کا موقع ملا۔ ایف بی آئی کے ایک افسر نے اس صورتحال کو کچھ اسطرح بیان کیا کہ when cats away mice will play یعنی جب بلی غائب ہو تو چوہے مزے کرتے ہیں۔اسی بنا پر 12 جنوری کو وزیرِداخلی سلامتی، جناب الہندرو میارکس (Alejandro Mayorkas)نے مقامی انتہاپسندوں پر نظر رکھنے کے لیے اپنی وزارت میں ایک بااختیار یونٹ قائم کرنے کا اعلان کیا تھا۔
اس وقت یہ کہنا قبل ازوقت ہے کہ ٹیکسس کا واقعہ امریکی مسلمانوں کے لیے کس نوعیت کی نئی آزمائشوں کا نقطہ آغاز ثابت ہوگا تاہم سینیٹر لنڈسے گراہم نے جس واشگاف انداز میں اسے ’مذہبی جنگ‘ قرار دیا ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ مستقبل قریب، خاص طور سے درمیانی مدت کی انتخابی مہم کے دوران امریکی مسلمانوں کو بقول حضرت اعجاز رحمانی ’سنگِ تعصب، سنگِ حقارت، سنگِ ملامت اور سنگِ حسد کا سامنا کرنا پڑے گا۔
(مسعود ابدالی سینئر کالم نگار ہیں۔ عالم اسلام اور بالخصوص مشرق وسطیٰ کی صورت حال کا تجزیہ آپ کا خصوصی میدان ہے)
[email protected]

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  23 جنوری تا 29جنوری 2022