اف یہ پچھتاوے۔۔!

مطمئن زندگی کا آغاز فکروعمل کی اصلاح سے ہوتا ہے

جاویدہ بیگم ورنگلی

ایک طویل زندگی گزارنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آئی کہ پچھتاوا انسان کی فطرت میں شامل ہے۔ یہ پڑھ کر قارئین سوچیں گے کہ اس قدر معمولی بات کو سمجھنے کے لیے ایک طویل زندگی لگ گئی جبکہ ہم روز مرہ زندگی میں لوگوں کو ائے کاش ائے کاش کہہ کر کف افسوس ملتے ہوئے دیکھتے رہتے ہیں۔ آپ کے مشاہدہ میں یہ بات آئی ہوگی کہ بعض لوگ وقت گزرنے کے بعد کس طرح پچھتاتے ہیں اور دوسروں کے پچھتاوے میں شریک ہوکر ان کے ساتھ آنسو بہانے لگتے ہیں لیکن کبھی سنجیدگی سے اس بات پر غور کرنے کی زحمت گوارا نہیں کرتے کہ کچھ کرنے کا وقت جب ان کے ہاتھ میں تھا اس کو انہوں نے خود ہی گنوا دیا۔ اب جبکہ وقت ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے تو یہ ہائے وائے کیوں جبکہ اس سے سوائے اظہارِ بے وقوفی کے کچھ حاصل نہیں ہوتا؟
پچھتاوے سے یہ ظاہر ہو جاتا ہے کہ پچھتانے والے کے پاس وقت پر صحیح فیصلہ کرنے کی صلاحیت کہ کمی تھی چنانچہ ایسے لوگ زندگی بھر پچھتاتے رہتے ہیں۔ صحیح فیصلہ نہ کر کے عمر بھر پچھتانے کا ایک واقعہ پڑھنے میں آیا تھا۔ دو دوستوں کے درمیان کسی بات پر تکرار ہو گئی۔ بحث وتکرار کو انسان اپنی انا کا مسئلہ بنالیتا ہے۔ طیش میں آکر ایک دوست نے اپنے دوست پر گولی چلا دی۔ گولی تو اپنا کام کر جاتی ہے، چاہے وہ حق کے ساتھ چلائی گئی ہو یا نا حق چلائی گئی ہو۔ یہ ایک بندوق ہے جس کو بنانے والے نے جان لینے کے لیے ہی بنایا ہے۔ انسان جس کو اللہ نے زمین پر اپنا خلیفہ بناکر بھیجا ہے نا حق قتل وغارت گری کے بازار گرم کرتا رہتا ہے۔ جب گولی لگنے سے دوست مر جاتا ہے تو اس وقت ہوش آتا ہے کہ غیر ضروری تکرار میں اس نے اپنے عزیز دوست کی جان لی تھی۔ پچھتانے سے ہاتھ سے گیا وقت واپس نہیں آ سکتا۔ دوست دوبارہ زندہ نہیں ہو سکتا۔ مقدمہ چلتا ہے فیصلہ ہوتا ہے کہ جان کے بدلے جان لی جائے یا مقتول کے باپ کو دیت لینے پر راضی کرلیا جائے۔ اتفاق کہ قاتل اپنے ماں باپ کا اکلوتا بیٹا تھا۔ نہ صرف قاتل کا باپ بلکہ دوسرے لوگ مقتول کے باپ کو خوں بہا لینے پر راضی کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے رہے مگر مقتول کا باپ کسی طرح راضی نہ ہوا جبکہ دیت میں ایک خطیر رقم کی پیش کش کی گئی تھی۔ بس اس کی ایک ہی رٹ تھی جان کے بدلے جان۔ جب اس کی ضد پوری ہوئی قاتل کو سولی پر لٹکایا گیا تب اس کو اپنے فیصلے کی غلطی کا احساس ہوا کہ میرا گھر تو اجڑ ہی گیا تھا دوسرے کا گھر اجاڑ کر مجھے کیا ملا میرے بیٹے کی جان تو واپس نہیں آئی۔ میری ضد نے ماں باپ سے ان کی اکلوتی اولاد چھین لی۔ اس پچھتاوے نے اس کو پاگل کردیا۔ باقی زندگی قاتل لڑکے کے گھر چکر لگاتا رہا اور اپنی ضد کا خمیازہ بھگتتا رہا آخر کار موت نے اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا۔
یہ بات سوچنے کی ہے کہ ہم وقت پر کوئی بات سمجھ پاتے ہیں نہ دوسروں کے سمجھانے پر اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرنے کے لیے تیار ہوتے ہیں، اپنی انا کا مسئلہ بناکر اس پر اڑ جاتے ہیں اور جوں ہی فیصلے کی غلطی کا نتیجہ سامنے آتا ہے، پچھتانے لگتے ہیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ لڑکے والوں کو سمجھانے پر بھی یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ لڑکی والوں سے لین دین اور نقد رقم کا مطالبہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ مہر دے کر لڑکی کو بیاہ کر لانا چاہیے۔ لیکن سر پر شاندار شادی کرنے کا جنون سوار رہتا ہے اور شاندار شادی بغیر نقد رقم لیے نہیں ہوسکتی، سادہ طریقہ سے شادی کرنا شان کے خلاف سمجھا جاتا ہے۔ لڑکی والوں سے لاکھوں روپیے نقد لے کر شادی ہوتی ہے اور جب کسی وجہ سے طلاق کی نوبت آتی ہے (کیونکہ غلط بنیادوں پر اٹھی ہوئی دیوار پائیدار نہیں ہوتی وہ کسی بھی وقت گرسکتی ہے) تو پچھتاوا شروع ہوتا ہے۔ دلہن والوں سے لی ہوئی لاکھوں کی رقم اور گھر میں جمع پونجی سب کچھ ٹھاٹ باٹ کی شادی کے نذر ہو گئی۔ اب دلہن والوں سے لی ہوئی رقم کہاں سے واپس کریں ہاتھ میں پھوٹی کوڑی نہیں۔ پیسوں کے لیے ہر ایک کے پاس بلبلاتے پھرتے ہیں۔ ادھر عدالت کے چکر کاٹنا پڑتا ہے۔ یہ پریشانی ہوش ٹھکانے لگا دیتی ہے ۔جب شان وشوکت سے کی ہوئی شادی نہیں نبھتی اور دلہن والے اپنا دیا ہوا واپس لینے کے لیے سر پر سوار ہو جاتے ہیں تب حماقت کا احساس ہوتا کہ اگر بغیر مطالبہ کیے سیدھی سادی شادی کی ہوتی تو آج یہ نوبت نہیں آتی اور نقد رقم واپس کرنے کے لیے گھر فروخت کرنا نہ پڑتا۔ سر پر اپنی چھت بھی نہ رہی۔ ایسے بہت سے واقعات دیکھنے اور سننے میں آتے رہتے ہیں۔
وقت گزرنے کے بعد پچھتانا انسان کی فطرت ہے۔ اس کا نقشہ قرآن اس طرح کھینچتا ہے ’’اے میرے رب کیوں نہ تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور دے دی کہ میں صدقہ دے کر کے صالح لوگوں میں شامل ہو جاتا، حالاں کہ جب کسی کی مہلت عمل پوری ہونے کا وقت آجاتا ہے تو اللہ کسی شخص کو ہرگز مہلت نہیں دیتا جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے باخبر ہے (المنافقون:۱۰ تا ۱۱)
انسان ایک ٹھوکر کھا کر نہیں سنبھلتا ٹھوکر کھاتا ہے پچھتاتا ہے پھر ٹھوکر کھاتا ہے پھر پچھتاتا ہے۔ ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتا ہے مگر اپنے فکر کی اصلاح نہیں کرتا۔ انسان کے فکر کی کجی اس کو صحیح فیصلے پر پہنچنے نہیں دیتی۔ جب تک فکر کی اصلاح نہ ہو عمل کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اللہ اس کو سنبھلنے کا موقع دیتا ہے مگر وہ دی ہوئی مہلت عمل سے فائدہ نہیں اٹھاتا یہاں تک کے وہ اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت کا نقشہ قرآن نے اس طرح پیش کیا ہے۔
’’وہ وہاں چیخ چیخ کر کہیں گے کہ اے ہمارے رب ہم کو یہاں سے نکال لے تاکہ ہم نیک عمل کریں ان اعمال سے مختلف جو پہلے کرتے تھے۔ انہیں جواب دیا جائے گا کیا ہم نے تم کو اتنی عمر نہ دی تھی کہ جس میں کوئی سبق لینا چاہے تو سبق لے سکتا تھا اور تمہارے پاس متنبہ کرنے والا بھی آچکا تھا۔ اب مزہ چکھو، ظالموں کا یہاں کوئی مددگار نہیں ہے (فاطر:۳۷)
انسان اپنی ضد پر اڑ کر اپنی فکر کی اصلاح نہ کرکے اپنے آپ پر ظلم کرتا ہے۔ انسان پر اگر کوئی دوسرا ظلم کر رہا تو آگے بڑھ کر ظالم کا ہاتھ پکڑ کر اس کو ظالم کے ظلم سے بچایا جا سکتا ہے مگر جب انسان خود اپنے آپ پر ظلم کر رہا ہو اور کسی کی بات ماننے پر آمادہ نہ ہو تو اللہ کی سزا سے اس کو بچایا نہیں جا سکتا۔ وہ اپنے ظلم کی سزا پائے گا۔ اس کا قرآن نے اس طرح ذکر کیا ہے ’’یہ ہے تیرا مستقبل جو تیرے اپنے ہاتھوں نے تیرے لیے تیار کیا ہے ورنہ اللہ اپنے بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔ (الحج:۱۰)
اللہ تعالیٰ جو اپنے بندوں پر بے انتہا مہربانی کرنے والا بڑا رحیم و کریم ہے وہ نہیں چاہتا کہ اس کے بندے برے انجام کو پہنچیں اور پچھتائیں، جبکہ ان کا یہ پچھتاوا ان کو عذاب جہنم سے بچا نہیں سکتا۔ اس لیے انجام تک پہنچنے سے پہلے خبردار کرتا ہے کہ وقت ہاتھ سے نکلنے سے پہلے اپنے عمل کی اصلاح کرلو مگر بندہ اللہ کی ہدایت پر غور کرنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتا۔
***

 

***

 انسان ایک ٹھوکر کھا کر نہیں سنبھلتا ٹھوکر کھاتا ہے پچھتاتا ہے پھر ٹھوکر کھاتا ہے پھر پچھتاتا ہے۔ ٹھوکروں پر ٹھوکریں کھاتا ہے مگر اپنے فکر کی اصلاح نہیں کرتا۔ انسان کے فکر کی کجی اس کو صحیح فیصلے پر پہنچنے نہیں دیتی۔ جب تک فکر کی اصلاح نہ ہو عمل کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ اللہ اس کو سنبھلنے کا موقع دیتا ہے مگر وہ دی ہوئی مہلت عمل سے فائدہ نہیں اٹھاتا یہاں تک کے وہ اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021