طالبان پرکچھ نہ بولیئے کہ لب آزاد نہیں ہیں!

شاعر منوررانا اور رکن پارلیمان شفیق الرحمٰن برق کے خلاف کیس درج

رائے صرف منفی نہیں مثبت بھی دی جاسکتی ہے:مولانا سجاد نعمانی۔کردار بدلتے بھی رہتے ہیں:منور رانا
بھارت میں فی الحال سب سے ناپسندیدہ لفظ ’طالبان‘ ہے۔ یہ ایک ایسا لفظ ہے جسے جتنے برے القاب سے یاد کیا جائے تو خیر ہے ورنہ خیریت نہیں۔ لیکن ان سب کے باوجود کچھ تعلیم یافتہ شخصیات نے طالبان کی حمایت میں اپنے افکارو خیالات کا اظہار کرہی دیا۔ جس کی بنیا پر انہیں کورٹ ٹرائل(court trial) تو نہیں مگر میڈیا ٹرائل کا ضرور سامنا کرنا پڑا۔ ان میں خاص طور پر مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی، رکن پارلیمان شفیق الرحمٰن برق اور عالمی شہرت یافتہ شاعر منوررانا قابل ذکر ہیں۔ طالبان کی حمایت میں ان کے رد عمل اور وضاحتی بیانات ان دنوں کافی سرخیوں میں ہیں۔
مولانا خلیل الرحمان سجاد نعمانی نے اپنا ویڈیا پیغام جاری کیا تھا۔ جس میں وہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ ’’طالبان کو سلام پیش کرتا ہوں،طالبان کی فتح پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں۔
پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح ایک غیر مسلح قوم نے دنیا کی مضبوط ترین قوتوں کا مقابلہ کیا اور کابل کے محل میں داخل ہوا۔ ان کے پاس کوئی تکبر نہیں تھا، ان کے پاس بڑے الفاظ نہیں تھے۔ ایک بار پھر یہ تاریخ رقم ہو گئی ہے‘‘۔ جب مولانا کا یہ بیان میڈیا کی نظر میں آ یا تو مسلم پرسنل لاء بورڈ نے سوشل میڈیا پر وضاحتی بیان جاری کرتے ہوئے لکھا کہ مولانا سجاد نعمانی صاحب کا یہ ذاتی رائے تھی۔مسلم پرسنل لا بورڈ کا ان کے بیان سے کوئی تعلق نہیں۔ مولانا سجاد نعمانی نے ایک نجی چینل سے اپنے دیے گئے بیان کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ’’2001 کے طالبان اور 2021 کے طالبان میں آسمان زمین کافرق ہے۔جب ایک پڑھا لکھا طبقہ اور صحافی حضرات اپنی رائے کااظہار کررہے ہیں تو میں کیوں نہ کروں؟‘‘۔ مولاناسجاد نعمانی صاحب نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے حوالے سے بھی کہا کہ ’’مسلم پرسنل لا بورڈ اس طرح کے معاملات پر شرکت نہیں کرتا‘‘۔ وہیں مولانا سجاد نعمانی نے میڈیا پر خبر کو حساس بناکر پیش کرنے کابھی الزام لگایا۔ مولانا آگے فرماتے ہیں کہ انہوں نے صرف طالبان کو مشورہ دیاتھا جسے غلط طریقے سے پیش کیاگیا ہے۔انہوں ںے کہا کہ’’رائے صرف منفی نہیں مثبت بھی دی جاسکتی ہے‘‘۔
رکن پارلیمان شفیق الرحمنٰ برق نے اپنے ایک بیان میں طالبان کا موازنہ مجاہدین آزادی سے کیاانہوں نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ’’طالبان اپنے ملک کی آزادی کے لیے لڑ رہے ہیں اور افغان عوام ان کی قیادت میں آزادی چاہتے ہیں۔ جب ہندوستان برطانوی راج کے تحت تھا ، ہمارا ملک آزادی کے لیے لڑا۔ اب طالبان اپنے ملک کو آزاد اور چلانا چاہتے ہیں۔ طالبان نے امریکہ اور روس جیسے طاقت ور ملک کو اپنے آگے ٹکنے نہیں دیا‘‘۔ شفیق الرحمنٰ برق کے اس بیان کے بعد ان کے خلاف میڈیا ٹرائل تو ہوا ہی ملک سے بغاوت کا مقدمہ بھی درج کرلیاگیا۔
دوسری طرف مشہرومعروف شاعر منوررانا بھی اپنے بیانات کے حوالے سے ہمیشہ سرخیوں میں رہتے ہیں اس مرتبہ بھی وہ سب سے آگے نکلے ۔سب سے پہلے منوررانا نے کہا کہ ہندوستان کو طالبان سے خوفزدہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے یہاں تک تو بات ٹھیک تھی پھر انہوں نے کہا کہ جو ظلم افغانستان میں کیا جا رہا ہے، اس سے کہیں زیادہ ظلم تو یہاں بھارت میں کیا جارہاہے۔ وہیں انہوں ںے کہا کہ ’’جتنی اے کے-47 طالبان کے پاس نہیں ہوں گی اس سے کہیں زیادہ تو بھارت میں مافیاؤں کے پاس ہیں۔ طالبان کو اسلحہ چھین کر اور ان سے مانگ کر لاتے ہیں لیکن ہمارے یہاں مافیا تو ہتھیار خریدتے ہیں‘‘۔ ابھی منوررانا کے بیان پر بحث چل ہی رہی تھی کہ منوررانانے اپنے بیان کے حوالےسے ایک ٹی وی مباحثے میں شامل ہوکر پھر ایک ایسابیان دیا جو خاص طور پر میڈیا کے لیے چٹخارے کاسبب بنا۔
بدنام زمانہ اینکر دیپک چورسیا نے سوال کیاکہ طالبانی ’آتنکی‘دہشت گرد ہیں یا نہیں؟ اسی پر منور رانا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ’’ابھی تک تو وہ ’آتنکی‘ دہشت گرد ہی ہیں۔ اگر والمیکی راماین لکھ دیتا ہے تو وہ ہیرو بن جاتا ہے حالانکہ اس سے پہلے وہ ڈاکو تھا۔انسان کا کردار بدلتا رہتا ہے‘‘۔گویا منوررانا، ندا فاضلی کاشعرذہن نشیں کیے ہوں کہ
ہر آدمی میں ہوتے ہیں دس بیس آدمی
جس کو بھی دیکھنا ہو کئی بار دیکھنا
اسی بیان پرمنوررانا کےخلاف لکھنؤ میں واقع حضرت گنج کوتوالی پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق والمیکی سماج کے لیڈر پی ایل بھارتی کی تحریر پر منور رانا کے خلاف مذہبی جذبات مشتعل کرنے اور دیگر کئی دفعات میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ایسا مانا جارہاہے کہ جب تک بھارت کی جانب سے سرکاری بیان نہیں آجاتا تب تک طالبان پر کسی طرح کاردعمل دینامناسب نہیں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق آسام میں اب تک طالبان کی حمایت میں سوشل میڈیاپرپوسٹ کرنےوالے 14افراد کی گرفتاری ہوچکی ہے۔
***

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021