افغانستان میں سامراج کو شکست اور مستقبل کا منظرنامہ

مسلم ملکوں میں فوجی آمریت کا ساتھ دینے والے جمہوری حکومت کا مطالبہ کرنے لگے!

پروفیسرایاز احمد اصلاحی، لکھنو

افغانستان کے ۲۰ سالہ پاور سائیکل کا جائزہ
تحریک طالبان افغانستان ایک بار پھر افغانستان میں فاتح بن کر ابھری ہے، افغانستان میں ان کے اقتدار کا دوسرا دور اتفاق سے اسی دن شروع ہوا جو ہندوستان کا یوم آزادی، ۱۵ اگست ہے۔افغانستان پر طالبان کے موجودہ قبضے کے بعد مختلف گروہوں،حکومتوں، حکام، سفراء ، وزراء اور عالمی میڈیا کے الگ الگ نمائندوں صحافیوں اور تجزیہ کاروں کی دنیا میں ایک طوفان سا آگیا ہے اور ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس وقت پوری دنیا کی توجہ افغان اور طالبان پر مرکوز ہے۔ مختلف جہتوں سے مختلف انداز میں خدشات، امکانات، مستقبل کے اندیشوں اور امیدوں کا ایک ساتھ اظہار ہورہا ہے۔ ایک طرف چین، ترکی، پاکستان، روس اور بعض عرب ممالک ہیں جو اس خطے میں اس سیاسی و حکومتی تبدیلی کو ایک نارمل بلکہ ضروری تبدیلی کے طور سے دیکھ رہے ہیں، وہیں بعض ایسی مملکتیں بھی ہیں جن کے انداز اور سرگرمیوں کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسےطالبان کی آمد ان کے لیے نئے خطرات کی تمہید بن گئی ہے اور ان کے رد عمل کے جائزے سے ایسا لگتا ہے کہ طالبان نے اپنے ملک پر نہیں بلکہ خود ان ممالک پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا ہو۔ ان ملکوں میں امریکا، آسٹریلیا، اسرائیل، فرانس اور تقریبا سبھی یورپی ریاستیں شامل ہیں۔ بد قسمتی سے ہمارا ملک ہندوستان اسی دوسری ذریت میں شامل ہے جس نے مرکزی حکومت کی نا عاقبت اندیشی کے سبب افغانستان میں امریکا اور وہاں کے ایک مخصوص سیاسی گروہ کی طرف خود کو جھکا کر افغانستان میں بھارت کے لیے کانٹے بونے کا کام کیا ہے۔ افغانستان کے تعلق سے یہ دو باہم متضاد اور انتہائی مختلف درجے کے رد عمل ان لوگوں کے لیے بالکل نا قابل فہم نہیں ہیں جو عالمی حالات اور موجودہ دور کی مکار سیاست اور نام نہاد قوم پرست حکام کے ایسے خود غرض قوم پرستانہ رویے سے واقف ہیں جو دور دراز کے جنگ زدہ ممالک کے غیر مستحکم سیاسی و سماجی اور معاشی حالات میں اپنے قومی مفادات تلاش کرنے کو جائز سمجھتے اور اسی کے مطابق بین الاقوامی مسائل میں اپنا رویہ طے کر تے ہیں۔ اگر ان کی نام نہاد قومی پرستی انہیں کسی ملک کی داخلی اتھل پتھل یا خانہ جنگی کی آگ کو مزید بھڑکانے کا تقاضا کرتی ہے تو وہ یہ نیک کام بھی ’’قومی مفاد‘‘ کے نام پر کر گزرنے سے باز نہیں آتے۔ افغانستان، شام، عراق، یمن، مصر اور لیبیا جیسے ممالک جو تقریباً تین چار دہائیوں سے فوجی بغاوتوں اور باہمی خانہ جنگیوں کی آگ میں جھلس رہے ہیں اسی عالمی سیاست کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں جس کی اساس نام نہاد ’’قومی مفاد‘‘ ہے۔ یہ عجیب المیہ ہے کہ جو حکمراں اپنے اپنے ملکوں کے عوام کو امن، ترقی اور بہتر معیار زندگی دینے سے قاصر ہیں وہ دوسرے ملکوں کی خانہ جنگی اور وہاں کے مختلف گروہوں کے درمیان جاری اقتدار کی لڑائی اور وہاں کے سیاسی و معاشی عدم استحکام میں اپنے قومی مفادات کو ڈھونڈتے ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ وہ یہ سب عالمی امن و تعاون کے نام پر کرتے ہیں۔ افغانستان تقریباً چالیس سالوں سے اسی قومی مفادات کے تصادم کی آجگاہ بن کر تباہ و برباد ہوا ہے ۔ بے چارہ عام انسان اس گھناؤنے کھیل کو سمجھنے سے معذور ہے کیونکہ وہ تو وہی جانتا اور دہراتا ہے جو اس کا ملکی میڈیا اور اس کے حکام اسے بتاتے ہیں اور اس کا دل اپنوں کا یہ پروپیگنڈا مان تو لیتا ہے لیکن اس کا دماغ اس بات کی تاویل نہیں کرپاتا کہ کسی ملک میں اقتدار میں آنے والے کسی مخصوص گروہ کی زبانی تائید ہندوستان میں ’’ملک دشنی‘‘کیوں کر قرار پا سکتی ہے؟
جو لوگ طالبان کی تاریخ سے ناواقف ہیں وہ اسے افغانستان پر سابق سوویت یونین کے حملے کے بعد روسی فوجوں کے خلاف جہاد کرنے والے مجاہد گروہوں کی طرح کا ایک گروہ سمجھتے ہیں اور چونکہ اس وقت امریکہ نے ان مجاہدین کی ہر سطح پر حمایت کی تھی، انہیں عام اسلحہ وبارود کے علاوہ اسٹنگر میزائل جیسے جدید ترین ہتھیار بھی فراہم کیے تھے، اسی بنا پر طالبان کو بھی امریکہ کا پروردہ کہا جارہا ہے اور یہ طنز کیا جاتا ہے کہ امریکہ نے مجاہدین کی حمایت کی شکل میں جو بویا تھا آج وہی اسے کاٹنا پڑا۔ لیکن انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ کم سے کم طالبان کے حوالے سے ان کا یہ محاورہ خلاف واقعہ ہے۔ تاریخ اور حالات کے شعور سے نابلد اور آئی ٹی سیل اور سوشل میڈیا یونیورسٹی کی پیداوار ایسے تمام لوگوں کو شاید اس کا علم نہیں ہے کہ افغانستان پر روس کے حملہ کے خلاف مجاہد گروہوں کے متحدہ جہاد کے وقت طالبان نام کی تحریک کا کہیں کوئی وجود ہی نہیں تھا۔
سویت یونین نے افغانستان کےداخلی حالات کا حوالہ دے کر اپنے مقامی گرگوں کی دعوت پر دسمبر 1979 میں تقریباً ایک لاکھ بری اور فضائی افواج، کریملن کی فوج اور حکومت کے خطر ناک خفیہ بازو ’کے جی بی‘ کے 700 کارندوں کے ساتھ افغانستان میں فوجی مداخلت کی تھی لیکن اسے اپنی تمام ترعسکری برتری کے باوجود وہاں لوہے کے چنے چبانے پڑگئے تھے اور احمد شاہ مسعود، گلبدین حکمت یار، برہان الدین ربانی، عبد الرب رسول سیاف، عرب مجاہد عبد اللہ عزام اور اسامہ بن لادن جیسے رہنماؤں کی قیادت میں مزاحمت کا ایسا سامنا کرنا پڑا کہ اسے وہاں سے اپنے تمام لاؤ لشکر کے ساتھ 1989 میں افغانستان چھوڑنا پڑا۔
روسی افواج کے انخلاء کے بعد مجاہدین نے عبوری حکومت تو قائم کر لی لیکن ان کی یہ عبوری حکومت مستقل حکومت میں کبھی نہ بدل سکی اور عبوری حکمرانوں، خصوصاً صبغۃ اللہ مجددی اور ربانی وغیرہ کی بدنیتی کے سبب بہت جلد مجاہدین کی بے مثال قربانیوں سے ملنے والی عظیم فتح خانہ جنگی میں تبدیل ہوگئی۔ روسی افواج کی واپسی کے بعد اس تین سال کی مسلسل خانہ جنگی کے سبب افغانستان مستحکم ہونے کے بجائے تباہ ہوتا چلا گیا۔ ملک میں کوئی حکومت وانتظامیہ نہ ہونے کی وجہ سے عام شہریوں کی زندگی اجیرن بن گئی تھی، لٹیروں اور ڈاکووں کا ہر طرف راج تھا، ان کی زد سے کمسن بچے بھی محفوظ نہیں تھیں۔ اس صورت حال سے تنگ آکر افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علاقوں میں پڑھنے والے افغان طلبہ نے اپنے اساتذہ کی قیات میں افغانستان میں موثر رول ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان اساتذہ میں سر فہرست ملا محمد عمر تھے، ان کے علاوہ طالبان کے اہم قائدین میں ملا عبد الغنی برادر، اختر منصور اور ہبت اللہ پختونزادہ شامل ہیں۔ بعض مجاہد گروپوں، خصوصاً حکمت یار کی حزب اسلامی نے بھی ان کا ساتھ دیا اور بالآخر افغانستان کے دگرگوں ہوتی حالت سے اکتا کر وہ 1994 میں اس خانہ جنگی میں کود پڑے اور انتہائی برق رفتاری سے ان کے تازہ دم جنگجووں نے افغانستان کے زیادہ تر علاقوں پر اپنا کنٹرول حاصل کرلیا یہاں تک کہ محض دو سال کے اندر کابل پر قبضہ کرکے 1996 میں امارت اسلامی افغانستان ( Islamic State of Afghanistan) کے نام سے اپنی حکومت بھی قائم کرلی۔
اس سے معلوم ہوا کہ طالبان افغان جنگ یا امریکہ کی پیداوار نہیں ہیں بلکہ وہ تو اس وقت سامنے آئے جب مجاہدین نے روس جیسی عظیم طاقت کے خلاف حتمی کامیابی حاصل کی اور ان کا یہ عظیم جہاد بیسویں صدی کا سب سے حیرت انگیز تاریخی کارنامہ بن گیا۔ انہوں نے اپنے ملک پر حملہ آور ظالم روسی فوجوں کے خلاف جرات وبہادری کی ایسی داستانیں رقم کیں جو اسلام کے عہد رفتہ کی سنہری یادیں تازہ کرنے والی ہیں۔ ان کی جد وجہد کے آگے وقت کے سپر پاور نے اپنے حملے کے دس سال بعد ہتھیار ڈال کر راہِ فرار اختیار کی اور جنرل نجیب اللہ سمیت ان کے بیشتر افغانی مہرے کیفر کردار کو پہنچ گئے۔ لیکن جب مجاہدین کے باہمی اختلافات کی وجہ سے افغانستان نئی خانہ جنگیوں کا شکار ہوگیا تو یہی طالبان اسے اس لعنت سے باہر نکالنے کے لیے ہتھیار بند ہوکر سامنے آئے۔
جنگِ افغانستان کی ہولناک تاریخ کی دوسری بڑی حقیقت یہ ہے کہ امریکہ نے مجاہدین کی حمایت ضرور کی لیکن مجاہدینِ افغانستان نے امریکہ کو کبھی اپنی پیٹھ پر ہاتھ رکھنے نہیں دیا۔ مزاحمت کے اولین دنوں میں اس نے ان اسلامی عناصر کو قصداً آگے بڑھایا جو کمیونسٹ سویت یونین اور ان کے افغانی کٹھ پتلیوں کے باغی تھے۔ یہ حکمراں جو افغانستان کو لینن کا کریملن بنانے پر بضد تھے اور جو ہزاروں افغانیوں کے قاتل تھے وہ سویت روس کے دوست داود خاں کے خلاف خونیں بغاوت کے سہارے اقتدار میں آئے تھے اور اشتراکی ایجنڈے کو ملک میں جبراً نافذ کرنا ان کا بنیادی ہدف تھا۔ خلق اور پرچم پارٹی کے ذمہ دار، نور محمد تارکی، حفیظ اللہ امین اور ببرک کارمل جیسے سفاک حکمرانوں نے افغانستان میں روس کی براہ راست فوجی مداخلت سے پہلے ہی ستائیس ہزار سے پچاس ہزار ایسے افغانیوں کو ہلاک کردیا تھا جو اشتراکی کلچر میں خود کو ضم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔ پل چرخی جیل اس بات کا سب سے بڑا گواہ ہے جس میں ہزاروں ملاوں، سیاسی رہنماوں اور عام شہریوں کو بے دردی سے موت کے گھاٹ اتارا گیا۔ ان اشتراکی فکر کے حکمرانوں کے خلاف افغانستان کے اسلام پسند و روایت پسند شہریوں کی بغاوت کا محرک سیاسی سے زیادہ نظریاتی و تہذیبی تھا اور روس کے حملے کے بعد اسی بغاوت نے افغان جہاد کی شکل اختیار کر لی تھی۔ افغانستان کے جغرافیائی محل وقوع اور اشتراکی روس کے خلاف افغان جہاد کی اہمیت کی وجہ سے ہی اس میں عرب، افریقہ اور ترکی وپاکستان جیسے مسلم ملکوں کے کے مجاہدین نے بھی بڑھ چڑھ کا حصہ لیا۔ اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر نے مجاہدین کی حمایت ’’ایک چھوٹے، ناوابستہ خود مختار ملک افغانستان‘‘ کی ہمدردی میں نہیں بلکہ روس دشمنی اور امریکہ کے ’’قومی مفادات‘‘ کی غرض سے کی تھی اور ان کا یہ بیان آج بھی امریکہ کی سرکاری دستاویزات میں محفوظ ہے ’’اگر سویت یونین کا حوصلہ اپنے اس حملے کی منطقی کامیابی کے ذریعہ بڑھتا ہے۔۔۔ تو یہ سبھی اقوام کے تحفظ کے لیے خطرہ ہوگا اور بے شک اس میں امریکا اور اس کے دوست ممالک بھی شامل ہیں‘‘ (قوم سے خطاب: ۴ جنوری ۱۹۸۰)
کہتے ہیں بندوں کی مصلحت پر خدا کی مصلحت پمیشہ غالب رہتی ہے، اگر ایسا نہ ہو تو زمین میں فتنہ وفساد کا آتش فشاں کبھی ٹھنڈا ہی نہ ہو۔ افغان جنگ میں بھی یہی ہوا، اس جنگ کی وجہ سے امریکا کی روس کو کمزور دیکھنے کی خواہش تو پوری ہوئی اور اس حد تک ہوئی کہ اپنے وقت کی دوسری سپر پاور کی ریاستی شناخت اور سیاسی و بین الاقوامی بنیادیں ایک ساتھ بکھر کر رہ گئیں اور عظیم سویت روس یو ایس ایس آر کی بجائے محض زار کے وقتوں کا روس بن کر رہ گیا۔ لیکن اس وادی جنگ نے امریکا کے خلاف بھی ایک خوفناک دیو پیدا کردیا جس کے خوف سے وہ آج بھی آزاد نہیں ہو سکا۔ ہوا یہ کہ مجاہدین افغانستان نے روس کے خلاف اپنی جنگ میں سعودی عرب اور پاکستان کے توسط سے انکل سام کا فوجی و سفارتی تعاون تو قبول کرلیا لیکن انہوں نے ان کی تمام من چاہی شرطیں قبول کرنے سے انکار کردیا اور مجبوراً امریکا کو مجاہدین کی ہی شرطوں پر اپنی مدد جاری رکھنی پڑی۔ افغانی مجاہدین کے اس غیرت مندانہ طرز عمل کا اندازہ اس وقت کے امریکی صدر جمی کارٹر کو بھی جلد ہی ہوگیا تھا جس کا اشارہ ان کے بعض بیانات سے بھی بخوبی ملتا ہے۔ امریکا کا یہ اندیشہ اس وقت یقین میں بدل گیا جب اس نے خود اسرائیل کی سرپرستی میں اور اس کے مفادات کے تحفظ میں خلیج کی کمزور ریاستوں پر حملہ کردیا اور افغانستان کے عرب مجاہدین نے، جن میں اسامہ بن لادن اور ایمن الظواہری جیسے افراد پیش پیش تھے اس نئے دشمن کے مقابلے میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ یہیں سے امریکا کا ’’جنگ بمقابلہ دہشت گردی‘‘ کا کھیل شروع ہوتا ہے جس کے لگائے ہوئے زخموں سے آج پوری دنیا لہو لہو ہے۔ نو/گیارہ کے واقعہ کو بھی ہمیں اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے. جب افغانستان میں سب کچھ داؤ پر لگا کر بھی امریکا کو کچھ نہیں ملا اور اسلام پسندوں کی طاقت کا مستقل خوف اسے ستانے لگا تو اس نے دہشت گردی کے نام سے ایسا کھیل کھیلا جو مسلمانوں کے خلاف ان کے دشمنوں کا تاریخ انسانی میں سب سے گھناؤنا کھیل بن گیا۔ یہ کھیل روس نہیں کھیل سکا کیونکہ اسے شیطانی صہیونی دماغوں کی مدد حاصل نہیں تھی لیکن امریکا نے اس ہتھیار کا بھر پور استعمال کیا۔ اس کی مدد سے اس نے ایک طرف ایسے عرب-مسلم ملکوں میں دہشتگردی کا خوف پیدا کرکے اسلام پسندوں کا دشمن بنا دیا جہاں سے اسے سب سے زیادہ کمک ملتی تھی اور دوسری طرف اس نے عراق اور افغانستان جیسے ملکوں پر حملہ کرکے انہیں علاقائی اور فرقہ وارانہ تنازعات میں الجھا دیا اور طویل ومہلک خانہ جنگیوں میں مبتلا کردیا۔ اس تفریق وتقسیم کے عمل میں داعش کو بھی کھڑا کیا گیا جس نے مسلم ملکوں کی کمر توڑنے میں اسرائیل اور امریکی فورسز سے کم رول ادا نہیں کیا ہے۔ یہ وہ دور تھا جب القاعدہ کے نام پر پوری دنیا کے مسلمانوں، بطور خاص راسخ العقیدہ اور با عمل مسلمانوں کو نشانے پر رکھ لیا گیا۔ اس میں وہ فلسطینی مسلمان بھی شامل تھے جو اسرائیل کے ظلم وجبر اور صہیونی دہشت گردی سے بچنے کے لیے اپنا وطن چھوڑ کر خلیجی ممالک کے مہاجر کیمپوں میں آباد تھے۔ بہرحال جب بعد از خرابی بسیار امریکا نے افغانستان سے نکلنے کا فیصلہ کیا تو اس کا مقصد بہت حد تک پورا ہو چکا تھا۔ لیکن افغانستان میں طالبان نے اسے اپنی چالیں اس طرح نہیں چلنے دیں جس طرح اس نے سوچا تھا، اور اس کو سب سے بڑی ناکامی یہ ملی کہ وہ یہاں روس کی طرح اپنے پیچھے اپنی پسند کی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا جس کے لیے فوج تیار کرنے میں اس نے اربوں ڈالر خرچ کیے لیکن جب آزمائش کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ اس میں زیادہ تر یا تو فرضی فوجی (Ghost soldiers) تھے یا پھر امریکی فوجیوں کی طرح بزدل و کم ہمت۔ ظاہر ہے کہ ایسے کھوکھلے فوجی طالبانی مجاہدین کے سامنے کہاں تک اور کب تک ٹک پاتے؟ آخر کار جون میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد بمشکل ایک مہینے کے اندر یہ تین لاکھ کی فوج ساٹھ ہزار طالبانی مجاہدین کے سامنے تاش کے پتوں کی طرح بکھر گئی اور اب اس کا کوئی وجود ہی باقی نہیں رہا۔ حالانکہ ان کے بارے میں امریکی صدر بائیڈن نے کہا تھا کہ یہ ایک ’’بھر پور مسلح‘‘ فوج ہے اور موجودہ حکومت اس کی حفاظت میں ’’ قائم و باقی‘‘ رہے گی۔ اس طرح سفارتی میز سے لے کر میدان جنگ تک طالبان نے ہر جگہ امریکا کو شکست فاش دی ہے۔ افغان جنگ کی داستان میں صرف دپشت گردی ہی نہیں اسلامو فوبیا کی بھی اصل حقیقت مضمر ہے، اسی اسلامو فوبیا کے زیر اثر امریکا بیس سال قبل افغانستان میں ایک بڑی اسلامی علامت کو دور کرنے آیا تھا لیکن تحریک طالبان اس کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی جو آخر وقت تک دور نہیں ہو سکی بلکہ طالبان نے امریکا کی موجودگی میں ہی افغانستان کا بیشتر حصہ اپنے زیر قبضہ کر لیا تھا۔
برطانوی صحافی پیٹرک بروگن نے 1989 میں افغان جنگ کے تعلق سے بڑی دوٹوک بات لکھی تھی:’’سہل ترین توضیح ہی غالباً سب سے اچھی ہوگی، ان کو (سویت روس کو) افغانستان میں اسی طرح چوسا گیا جس طرح امریکا کو ویتنام میں چوسا گیا، انہوں نے نتائج پر صاف طور سے غور نہیں کیا اور وہاں اس جارحانہ مزاحمت کو بھی کم بھانپا جس کا انہیں وہاں سامنا کرنا پڑا‘‘
افغانستان میں امریکہ اور روس کے انجام پر برطانوی صحافی کے یہ الفاظ ایک بڑی حقیقت بیان کرتے ہیں جو ہیں تو روسی مداخلت کے انجام سے متعلق لیکن وہ امریکا کے انجام پر بھی پوری طرح صادق آتے ہیں۔ وہ اگر یہی بات 2021 میں لکھتا تو امریکی مثال میں ویتنام کے ساتھ افغانستان کا ذکر بھی ضرور کرتا۔
گویا وہی اسلام جسے امریکا نے اشتراکیت کے بالمقابل سپورٹ کیا تھا وہ اس کے گلے کی ہڈی بن گیا اور وہ طالبان جنہیں روس کے خلاف جہاد کا موقع نہیں ملا تھا انہوں نے افغانستان میں ایک دوسری سپر پاور کو ذلت وخواری سے دو چار کر دیا۔
افغانستان کے دارالحکومت کابل پر طالبان کے کنٹرول کو ایک ہفتہ ہوگیا ہے لیکن چند چھوٹے موٹے واقعات کو چھوڑ کر حالات بالعموم پر امن ہیں۔ اسے طالبانی طرز حکومت کا اثر کہیں یا ماحول کا دباؤ کہ افغانستان میں ان دنوں عبایا اور حجاب کی خرید وفروخت میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا ہے۔ خبر یہ بھی ہے کہ طالبان حکومت کی طرف سے کوئی نیا حکم جاری ہونے سے پہلے ہی دکانوں اور ان کے بورڈوں سے دکان کے مالکان عورتوں کی فحش اور قابل اعتراض تصویریں ہٹانے لگے ہیں۔ ایک اٹھائیس سالہ نوجوان خاتون نیلوفر نے جو ایک فیشن ڈیزائنر ہے اور طالبان کے روایتی کلچر کی مخالف ہے، اعتراف کیا کہ جس دن طالبان کابل پر قابض ہوئے اسی دن ان کی دکان میں کام کرنے والی خواتین حجاب کے اہتمام کے ساتھ اپنے گھروں سے آنے جانے لگیں۔ ان مثالوں میں افغانستان میں صرف تبدیلی حکومت کے ہی آثار نہیں چھپے ہیں بلکہ اس میں نئی حکومت کے مزاج اور سماجی تبدیلیوں کے بھی اشارے موجود ہیں۔
طالبان کو سمجھنے میں ان کا پسندیدہ نظام حکومت ہماری کافی مدد کرتا ہے۔ طالبان کے بین الاقوامی ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کابل پر کنٹرول کے بعد پہلی پریس کانفرنس میں ہی دنیا کو بتا دیا تھا کہ مستقبل میں تحریک طالبان کی حکومت شریعت اسلامیہ کی پابند ہو گی اور شرعی حدود وقوانین کے مطابق ہی مستقبل کا نظام حکومت تشکیل پائے گا اور ملک کے تمام علاقائی لسانی مذہبی اور سیاسی گروہ اس میں شامل ہوں گے۔
افغان طالبان کے ایک دوسرے سینئر رہنما حمید اللہ ہاشمی کا یہ بیان طالبان کے ممکنہ طرز حکومت کی وضاحت کے لیے کافی ہے جو انہوں نے برطانوی نیوز ایجنسی رائٹرز کو دیے گئے اپنے ایک انٹرویو میں دیا تھا۔ اس کے مطابق یہ نظام ایک مرکزی شوریٰ اور ایک مرکزی قائد (امیر المؤمنین) پر مبنی ہو گا۔
’’مستقبل میں ہو سکتا ہے کہ ہماری ایک شوریٰ ہو۔ شوریٰ کا سربراہ جسے آپ صدر کہتے ہیں اسے ہم رئیس الوزرا کہیں گے یا سربراہِ شوریٰ۔ ہمارے وزرا بھی ہوں گے۔ تمام وزرا کی تعیناتی شوریٰ اور شوریٰ کے سربراہ کی جانب سے ہو گی۔ امیرالمومنین ہمارے لیڈر ہیں۔ وہ صدر کا کردار نہیں ادا کریں گے بلکہ اس سے زیادہ نمایاں کردار ادا کریں گے‘‘۔
ان کے یہ الفاظ اس نظام کو مزید واضح کرتے ہیں:
’’جیسا کہ ہماری سابق حکومت میں رئیس الوزرا ہوا کرتا تھا، اس حکومت میں بھی اسی طرح ہو گا۔ نظام حکومت بہت واضح ہے جو کہ شرعی نظام کے تحت بلاشبہ اسلامی حکومت ہو گی۔ جمہوری نظام ہرگز نہیں ہو گا کیونکہ اس کی ہمارے ملک میں جڑیں نہیں۔ ہم اسی پر کام کر رہے ہیں‘‘
طالبان رہنما افغانستان میں ایک جامع حکومت کی تشکیل کے سلسلے میں اپنا موقف بار بار واضح کر چکے ہیں۔ اس مقصد سے مختلف گروہوں سے وہ برابر مذاکرات جاری رکھے ہوئے ہیں، جب کہ دوحہ میں اسلامی امارات افغانستان کے سیاسی امور کے سربراہ ملا عبدالغنی برادر بھی اسی غرض سے افغانستان کے مختلف علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں اور افغان رہنماوں کا ایک وفد تشکیل حکومت کے سلسلہ میں پاکستانی حکام سے مشاورت کے لیے پاکستان کا دورہ کر آیا ہے ۔گزشتہ ہفتہ طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر اور انس حقانی کے علاوہ دوسرے سینئر رہنماوں نے مستقبل کی حکومت کے خدوخال پر افغانستان کے سیاسی رہنماوں سے مختلف نشستوں میں تبادلہ خیال کیا۔ اس بیچ حکومتی و سیاسی مسائل کو طے کرنے کے لیے بنائی گئی افغان مصالحتی کونسل کے ممبر بھی پوری طرح سرگرم ہو گئے ہیں، اس میں مجاہد رہنما انجنیئر گلبدین حکمت یار، سابق صدر اشرف غنی حکومت کے چیف ایگزیکٹیو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ اور سابق افغان صدر حامد کرزئی بھی شامل ہیں۔ یہ سبھی عناصر مذاکرات میں سرگرم ہیں۔ اس کے علاوہ افغانستان میں پاکستان کے سفیر منصور احمد خان بھی اس سلسلے میں کافی متحرک ہیں۔
اگرچہ حکومت سازی کی سطح پر ابھی تصویر بہت واضح نہیں ہے لیکن طالبان حکومت کے سلسلے میں جس طرح ہر ایک گروہ سے مشاورت کر رہے ہیں اور جس طرح ہر مرحلے پر صبر وتحمل کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس سے اپنے ملک کے مستقبل کے تعلق سے ان کی سنجیدگی اور ان کے پختہ ہوتے سیاسی و سفارتی شعور دونوں کی شہادت ملتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ بہت سے سیاسی سوالات کا جواب ابھی باقی ہے، تاہم ایک بات طے ہے کہ اس وقت افغانستان کی سب سے بڑی اور منظم جماعت تحریک طالبان ہی ہے، وہی ایک ایسی جماعت پے جو دیگر جنگجو افغانی گروہوں کی طرح کوئی علاقائی یا قبائلی اکائی نہیں ہے اور نہ ہی مخصوص علاقائی یا قبائلی اغراض ومفادات کی بنیاد پر اس کی تشکیل ہوئی ہے، بلکہ خالص اسلامی تصور زندگی پر مبنی ریاست ومعاشرہ کی تعمیر وتشکیل اس کا اولین ہدف ہے، اس طرح وہ ایک ہمہ گیر فکر کی حامل تحریک ہے اور افغانستان کے کم وبیش تمام ہی علاقوں اور قبائل پر اس کا اثر ہے۔ اسی طرح اس کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ اس کے قائدین اپنی سوچ اور فیصلوں میں بالکل آزاد ہیں اور انہوں نے ابھی تک خود کو کسی بین الاقوامی سیاسی بلاک یا کسی خاص قوت سے وابستہ نہیں کیا ہے۔ وہ جمہوری نظام قائم کرتے ہیں یا اسلام کا شورائی نظام، ان کے بیانات سے ظاہر ہے کہ وہ جو بھی ہو گا لیکن وہ موجودہ اندھی جمہوریت سے بالکل مختلف ہو گا۔
دنیا کے جو بڑے ممالک اور سیاست داں طالبان کو جمہوریت کا درس دے رہے ہیں ان سے پوچھنا چاہوں گا کہ اگر وہ کسی حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے اس کا جمہوری ہونا یا ملک کے تمام طبقوں کو شریک حکومت کرنا ضروری سمجھتے ہیں تو پھر وہ بعض ایسے مسلم ملکوں سے کس بنیاد پر رابطہ رکھے ہوئے ہیں جو نہ صرف یہ کہ جمہوری نہیں ہیں بلکہ جمہوری طریقے سے منتخب کردہ حکومتوں کا تختہ الٹ کر وہاں کے خود ساختہ حکام یا صدور بنے بیٹھے ہیں؟ ان ملکوں میں انسانی حقوق اور اظہار رائے کی آزادی دونوں پوری طرح پامال ہیں، یہاں تک کہ کسی کو ان شاہی یا فوجی حکومتوں کے خلاف لب کشائی کی بھی اجازت نہیں ہے، لیکن امریکا یا دوسرے مغربی ممالک نے نہ تو انہیں تسلیم کرنے میں دیر لگائی اور نہ ان کا بائیکاٹ کیا۔ پھر طالبان کے تعلق سے جمہوریت کی یہ پیشگی شرط کیوں عائد کی جا رہی ہے؟ کیا اس لیے کہ وہ بڑی طاقتوں کے مظالم کے خلاف مزاحم ہیں؟ یا پھر اس لیے کہ وہ ان ملکوں کے استعماری مقاصد کی تکمیل کی راہ میں حائل ہیں جو تیسری دنیا کے عوام کی جانوں کو بھیڑ بکریوں سے بھی کم اہمیت دیتے ہیں؟ ظاہر ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو پھر وہ مختلف مسلم ملکوں کے ساتھ اپنی ترجیحاتی پالیسیوں کےمطابق دوہرا رویہ اختیار نہ کرتے۔ سوال یہ بھی ہے کہ جن مسلم ملکوں میں جمہوری طریقے سے حکومتیں بنیں کیا مغربی طاقتوں نے وہاں کے نظام حکومت کو بغیر مداخلت کے چلنے دیا؟ یا پھر جن افراد نے ان جمہوری حکومتوں کا فوجی بغاوت کے ذریعہ تختہ پلٹا انہوں نے ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی یا ان کا ایک دن کے لیے بھی بائیکاٹ کیوں نہیں کیا؟ مصر اور تیونس اس کی تازہ مثالیں ہیں جہاں منتخب پارلیمنٹ اور منتخب حکومتوں کو ختم کر کے دستور وجمہوریت کو پل بھر میں طاق پر رکھ دیا گیا اور منتخب حکومت کے ذمہ داروں کو کہیں قتل کردیا گیا تو کہیں قید خانے میں ڈال دیا گیا لیکن افغانستان میں طالبان پر جمہوریت اور جامع حکومت کی شرطیں لگانے والوں کے برتاؤ میں کوئی فرق نہیں آیا۔
ایسے بے شمار واقعات اور مثالیں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ مغربی ممالک مسلم ملکوں میں جمہوریت کا ماڈل اسی صورت میں چلنے کی اجازت دیتے ہیں جب وہاں اسی قسم کے لوگ حکمراں بنتے ہیں جو ان کے مفادات کو پورا کرنے والے ہوں، کمزور ہوں اور استعماری اور غاصب قوتوں کو للکارنے والے نہ ہوں یا دوسرے لفظوں میں اپنے ملک اور نظریہ کے وفادار نہ ہوں بلکہ ہر موڑ پر بکنے کے لیے تیار ہوں۔ فلسطین میں حماس، مصر میں اخوان المسلمین، الجزائر میں سالویشن فرنٹ اور تیونس میں النھضۃ کی منتخب جمہوری حکومتوں کو مغرب کے چہیتوں نے ختم کر دیا لیکن مغربی ممالک نے ان کے خلاف ایک لفظ بولنا بھی ضروری نہیں سمجھا اور نہ کسی بین الاقوامی پلیٹ فارم پر ان کا احتساب کرنا ضروری سمجھا۔
طالبان کے دوبارہ افغانستان پر کنٹرول حاصل کرنے کے بعدنئے سوالات کھڑے کیے جارہے ہیں۔ جو سوالات سب سے زیادہ دہرائے جارہے ہیں وہ کچھ اس قسم کے ہیں: کیا طالبان ایک جامع حکومت تشکیل دے پائیں گے؟ طالبان جو جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے کیا سب کو ساتھ لے کر چل پائیں گے؟ کیا طالبان افغانستان کو واپس تاریک ماضی کی طرف دھکیل دیں گے؟ (بی بی سی)، کیا طالبان دوبارہ نوے کی دہائی کے سخت گیر قوانین کا نفاذ کریں گے؟ (بی بی سی) کیا طالبان مغربی ممالک کے پانچ مطالبات مان لیں گے؟ (انڈپنڈنس) کیا طالبان عورتون کی آزادی اور ان حقوق کا پاس و لحاظ رکھیں گے؟ ( انڈپنڈنس)
ان سوالات اور شکوک و شبہات کے پیچھے وہی ذہنیت کارفرما ہے جس کا اوپر ذکر ہوا ہے اور جو ہر مسئلے میں دوہرے معیار پر عمل کرتی ہے۔وہ فرانس ،سویڈن اور دوسرے مغربی ملکوں میں مسلم عورتوں کے حجاب پہننے پر پابندی لگائے ہوئے ہیں لیکن طالبان کو یہ حق دینے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ وہ اپنی حکومت میں اسلامی شریعت کے مطابق اپنا ڈریس کوڈ نافذ کریں۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف اپنی نام نہاد جنگ کے دوران اپنے اذیت خانوں میں مسلم مردوں کے ساتھ مسلم عورتوں کو بھی ظلم وتشدد کا نشانہ بنایا اور ڈاکٹر عافیہ صدیقہ اور ان جیسی نہ جانے کتنی ہی عورتوں کو اپنے قیدخانوں میں یا تو مارڈالا یا ہمیشہ کے لیے ذہنی مریض بنا دیا۔ لیکن نہ تو کہیں عورتوں کا مساوی انسانی حق انہیں یاد آیا اور نہ ان کی عزت و تکریم کے تقاضوں نے انہیں شرمسار کیا۔
لیکن جب طالبان کی بات آتی ہے تو انہیں وہ سب عورتیں یاد آتی ہیں جنہیں طالبان کی پہلی حکومت میں کسی نہ کسی جرم میں سزا دی گئی تھی اور انہی سزاوں کا حوالہ دے کر افغانستان میں طالبان کے تاریک دور کی واپسی کا اندیشہ جتاتے ہیں۔
زرمینہ ایسی ہی ایک ہی ایک عورت تھی اس کا جرم یہ تھا کہ وہ اپنے شوہر کی قاتل تھی، اسے نومبر 1999میں دو خواتین کابل کے ایک فٹبال اسٹیڈیم کے وسط میں لے گئیں۔ اسے لے جانے والی خواتین بھی بانقاب تھیں، اسٹیڈیم کے وسط میں زرمینہ کو زمین پر بٹھایا جاتا ہے۔ ’’وہ بھاگنے کی کوشش کرتی ہے مگر ناکام رہتی ہے۔ چند لمحوں بعد ایک شخص کلاشنکوف اس کے سر پر رکھتا ہے اور تین گولیاں اس کے سر میں اُتار دیتا ہے۔‘‘ اسٹیڈیم میں موجود افراد یہ دیکھ کر اللہ اکبر کہہ کر پکار اٹھتے ہیں۔
یہ واقعہ بی بی سی نے اپنے پندرہ اگست کے ایک فیچر میں نقل کرکے یہ سوال کیا ہے کہ کیا طالبان افغانستان میں ’’نوے کی دہائی والے سخت گیر قوانین دوبارہ نافذ کریں گے؟‘‘۔
جس واقعہ کو انتہائی سنسنی خیز اور بھیانک انداز میں پیش کیا گیا ہے وہ بس اتنا ہے کہ ایک شخص کو قتل کی سزا قتل کی شکل میں دی گئی اور موت کی یہ سزا بعض عرب ممالک کے علاوہ دنیا کے بہت سے ملکوں میں بھی نافذ ہے لیکن چونکہ میڈیا کو طالبان کو ایسے تاریک خیال مُلّے ثابت کرنا ہے جہاں عورتوں کو کوئی آزادی حاصل نہیں ہے اس لیے طالبان کے ذریعہ قانون کے مطابق دی گئی ایک سزا کے واقعہ کو بھی وہ تاریکی کی علامت کے طور پر پیش کرنے سے نہیں چوکتے۔
انہی سوالات کو ذرا دوسرے انداز میں اس سال جولائی کے تیسرے ہفتے میں مسئلہ افغانستان پر روم میں ہونے والے ایک بین الاقوامی اجلاس میں میں بھی دہرایا گیا تھا۔ اس اجلاس میں نیٹو امریکا، یورپی یونین، بعض دیگر ممالک اور تنظیموں کے نمائندوں نے افغان حکومت اور طالبان سے یہ درخواست کی تھی کہ وہ فوری طور پر عبوری حکومت کے لیے کسی قابل قبول معاہدے کو حتمی شکل دیں۔
اس اجلاس میں تمام فریقوں خصوصاً طالبان سے جو مطالبہ کیا گیا تھا وہ در اصل وہ پانچ اصول ہیں جنہیں مستقبل کی افغان حکومت میں برتنے کو یقینی بنانا تھا۔
ان کے پانچ نکاتی مطالبات یا اصول یہ ہیں (1) جامع نمائندگی پر مبنی حکمرانی (2) ملک کے تمام سیاسی رہنماؤں کو انتخاب میں حصہ لینے کا حق (3) انسانی حقوق کی پاسداری، خواتین، نوجوانوں اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ (4) انسداد دہشت گردی کو اس وعدے کے ساتھ یقینی بنانا کہ آئندہ افغانستان دوبارہ دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہ نہ بننے پائے (5) فیصلوں اور پالیسیوں کی تشکیل میں بین الاقوامی قوانین کا پورا لحاظ رکھا جائے اور یہ بھی کہ بین الاقوامی انسانی قوانین کہیں نظر انداز نہ ہونے پائیں۔
اس اجلاس نے اس بات پر شدید زور دیا تھا کہ مستقبل کی کوئی بھی افغان حکومت کو بین الاقوامی حمایت وتعاون کا ملنا اس بات پر منحصر ہو گا کہ وہ ان اصولوں کا کس حد تک پاس ولحاظ رکھتی ہے۔۔۔۔
سابقہ افغان وزارت خارجہ نے تو اس کا یہ کہہ کر خیر مقدم کیا تھا کہ اس سے ’’طالبان، غیر ملکی جنگجوؤں اور علاقائی اور بین الاقوامی دہشت گرد گروہوں کے حملوں‘‘ کو کنٹرول کرنے میں مدد ملے گی۔ لیکن طالبان جنہیں اندازہ تھا کہ یہ ڈرامہ بھی جلد ہی ختم ہونے والا ہے، اس کے ترجمان محمد نعیم نے میڈیا سے کہا کہ تحریک طالبان افغانستان میں مستقل بنیادوں پر قیام امن چاہتی ہے اور ساتھ ہی انہوں نے طالبان اور امریکا کے درمیان 29 جولائی 2020 کو قرار پانے والے دوحہ امن معاہدے پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کا مطالبہ کیا تاکہ انہیں مجبوراً دوبارہ ہتھیار نہ اٹھانا پڑے۔ انہوں نے دوحہ معاہدے کے حوالے سے اپنے سات ہزار قیدیوں کی فوری رہائی اور مختلف قائدین کو اقوام متحدہ کی بلیک لسٹ سے خارج کرنے کا مطالبہ دہرایا۔ لیکن دوحہ قرارد داد کے ان حصوں پر عمل درآمد میں نہ تو کبھی امریکا مخلص نظر آیا اور نہ اس کی بنائی ہوئی اشرف غنی حکومت، چنانچہ اسی چیز نے طالبان کو یہ جواز بخشا کہ وہ افغانستان کو بزور اپنے قبضہ میں لے کر وہاں دیرپا امن اور ایک مستقل حکومت کی داغ بیل ڈالیں۔ جو لوگ افغانستان کی موجودہ صورت حال کے ان پہلووں سے آگاہ ہیں وہ طالبانی اقتدار کو جبر سے حاصل کیا گیا اقتدار کہنے کی غلطی کبھی نہیں کریں گے۔
اشرف غنی نے دوحہ معاہدے کے بعد جیسے ہی یہ کہا کہ وہ چھ مہینے کے اندر طالبان اور اس کی زیادہ کو تباہ و برباد کردیں گے، طالبان دوبارہ حرکت میں آگئے اور دو ماہ سے بھی کم مدت میں تقریباً پورے افغانستان کو اپنے قبضہ میں لے لیا اور امریکا کو اشرف غنی سے مستعفی ہونے کے لیے خود کہنا پڑا۔
ان حقائق کو دیکھتے ہوئے موجودہ حالات میں اندیشوں کے بجائے امید کی بات کرنا حقیقت سے زیادہ قریب ہے کیونکہ فی الحال افغانستان ان محفوظ ہاتھوں میں ہے جن کی وجہ سے ہی آج سے تقریباً چوبیس سال پہلے اسے خانہ جنگی سے نجات ملی تھی اور آج بیس سال بعد دوبارہ انہیں کی وجہ سے اسے غیر ملکی تسلط سے آزادی ملی ہے۔ طالبان کے یہ دو ایسے عظیم کارنامے ہیں جو تاریخ اسلام میں ہمیشہ ناقابل فراموش رہیں گے اور اس کے لیے اہل افغانستان پر ہی نہیں اہل اسلام پر واجب ہے کہ وہ ان کا شکریہ ادا کریں۔ کیا بعید کہ رب ذو الجلال اس تبدیلی کو ہلال زرخیز میں عظیم تبدیلیوں کی نوید بنا دے۔
اب اس حقیقت سے فرار کسی کے لیے ممکن نہیں ہے کہ غزنی سے کابل تک تقریباً پورا افغانستان ایک بار پھر طالبان کے کنٹرول میں آ چکا ہے۔ اگر ہم گزشتہ بیس سالوں میں افغانستان کی پاور سائیکل (تسلط کے دورانیہ) کی تصویر بنائیں تو وہ کچھ یوں ہو گی: طالبانی اقتدار—امریکی حملہ+ کٹھ پتلی سرکار— طالبانی اقتدار۔ گویا افغانستان کا پانی جو کہ بلا جواز امریکی مداخلت کے بعد بعض ممالک کی سیاسی مکاری، بین الاقوامی سفارتی سازشوں اور استعماری چالوں کی وجہ سے کہیں اور مر رہا تھا وہ دوبارہ بہاؤ کا صحیح راستہ پاکر اپنی جگہ پہنچ گیا ہے۔ یعنی دو دہائیوں پر پھیلے ہوئے خونیں واقعات کی کہانی صرف اتنی ہے کہ بیس سال قبل ایک ایسے وقت میں جب کہ افغانستان میں امن قائم تھا اور وہاں طالبان کی ایک جائز حکومت موجود تھی اس پر القاعدہ کے عناصر سے بدلہ لینے کے نام پر امریکہ نے پوری قوت سے حملہ کر دیا تھا جو آج کی اصطلاح میں دہشتگردانہ حملہ تھا۔۔ مریکہ کے جنگی جہازوں اور جدید ترین ہتھیاروں کی وجہ سے طالبان پسپا ضرور ہوئے لیکن نہ تو انہوں نے شکست مانی اور نہ کسی مرحلے پر سپر پاور کی شرطیں قبول کیں بلکہ ان کے پاس جو بھی عسکری قوت تھی اسی کے سہارے اور اللہ کی مدد سے حملہ آور دشمن کے خلاف ہر طرف مورچہ بند ہو گئے۔ طالبان کی جرات مندانہ مدافعت نے امریکہ اور اس کی ایجنٹ حکمرانوں کو ایک دن کے لیے بھی چین سے بیٹھنے نہیں دیا۔ دنیا نے دیکھ لیا اور مان لیا کہ نہ تو گرجتے امریکی جہاز اور انکل سام کے مہلک ڈرون ان کے ارادوں کو کمزور کرسکے اور نہ ہی گوانتا نامو بے جیل کی سلاخیں ان بہادروں کے حوصلے توڑنے میں کامیاب ہوسکیں۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دشمن کو افغانستان میں اپنے تجربے کی ناکامی کا بھر پور اندازہ ہو گیا یہاں تک کہ وہ 2021 کے اختتام سے قبل ہی وہ یہاں سے رخصت ہو گیا اور طالبان ایک بار پھر اپنے پرانے انداز سے اپنا اقتدار سنبھال رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے جو مسندِ اقتدار مصلحتاً چھوڑ دی تھی وہ کبھی بھری ہی نہیں کیونکہ کٹھ پتلی حکومتیں صاحب اقتدار نہیں ہوتیں بلکہ وہ صرف اپنے اصل آقاوں کی باج گزار یا اطاعت شعار ہوا کرتی ہیں۔ طالبان کا پلٹنا، جھپٹنا اور پلٹ کر دوبارہ افغانستان میں زمام اقتدار سنبھال لینا اسی پانی کے دورانیہ کی طرح ہے جو وہیں پہنچا ہے جہاں اسے پہنچنا تھا۔ اس طرح یہ صرف طالبان کی نہیں بلکہ فی الواقع افغانستان کی امریکہ اور نیٹو پر جیت ہے اور یہ وہی افغانستان پے جو امریکہ کو ذلیل وخوار کرنے سے پہلے بھی ایک عظیم سامراجی قوت اور اس کی کٹھ پتلیوں کو سر نِگوں کر چکا ہے۔
کون سا ملک افغانستان میں کیا چاہتا تھا اور کسے اب کیا ملنے والا ہے یہ منظر بھی جلد ہی واضح ہو جائے گا بلکہ واضح ہو چکا ہے۔ جن لوگوں نے افغانستان سے اپنا بوریا بستر بہت پہلے ہی باندھنا شروع کردیا تھا نہ تو انہیں حالات کے سمجھنے میں کوئی دشواری پیش آ رہی ہے اور نہ ان لوگوں کو جو یہ جانتے ہیں کہ افغانستان میں اپنے قومی مفادات اور اپنی سیاسی چالوں کی بساط پھیلانے والے آخر کن وجوہات سے یہاں سے بھاگ رہے ہیں۔۔۔ یہ باتیں تو آگے بھی ہوتی رہیں گی لیکن فی الحال جو بات سمجھنے کی ہے وہ بس یہی ہے کہ طالبان نہ تو کوئی ایسا گروہ پے جو حکومت وسیاست اور اس کے آداب کی ابجد سے ناواقف ہو اور نہ یہ وحشیوں کا کوئی ایسا ٹولہ ہے جو محض خون خرابہ پر یقین رکھتا ہو، اگرچہ کہ بین الاقوامی میڈیا خصوصاً ہندوستانی میڈیا انہیں ایسا ہی پیش کرنے میں مصروف ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ ان کی اسرائیل اور اس کے بعض دوست ممالک کی طرح نہ تو ریاستی دہشت گردی کی کوئی تاریخ ہے اور نہ وہ نام نہاد قوم پرستی کے نام سے اپنے مخالفین کے قتل عام کو جائز سمجھتے ہیں۔ اگر وہ ایسے ہوتے اور یہی ان کا مقصد ہوتا تو اب جب کہ کابل دوبارہ ان کے ہاتھوں میں ہے وہ سفارت خانوں سے لے کر صدارتی محل تک دشمن کے تمام مراکز کی اینٹ سے اینٹ بجا چکے ہوتے اور کابل و ہرات میں خون کی ندیاں بہہ چکی ہوتیں لیکن ایسا کہیں نہیں ہوا۔ تازہ خبر یہ ہے کہ پورا کابل اس وقت ان کے زیر نگیں ہے لیکن طالبان نے کابل پر کنٹرول کے بعد نہ تو کہیں طاقت کا بے جا استعمال کیا اور نہ ہی سابق حکمرانوں کے خلاف انتقامی کاروائیاں کیں بلکہ اسلامی اصولوں کے مطابق عام معافی کا اعلان کر کے عام شہریوں کے لیے ایک پر امن ماحول فراہم کیا۔ اس کے علاوہ انہوں نے اپنی فورسز کو واضح گائیڈ لائن دے کر انہیں کسی بھی طرح کی جارحیت سے باز رہنے کی ہدایت کردی ہے۔ انہیں یہ بھی ہدایت ہے کہ نہ تو وہ بلا اجازت کسی گھر میں داخل ہوں، نہ کسی کو خوف زدہ کریں اور نہ بلا وجہ کسی کو کوئی نقصان پہنچائیں۔ یہ ہے اس طالبانی قیادت کی اصلی تصویر جو اب بھی حالت جنگ میں ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل ان ’’مہذب‘‘ قوموں کے لیے ایک عبرت ہے جو ایک مدت سے طالبان کو دہشت گرد اور وحشی کہتے آرہے ہیں اور خود کو امن اور تہذیب کا علم بردار ثابت کرتے رہے ہیں، لیکن ان کا ہر عمل اس بات پر گواہ ہے کہ ان کا آئین حیات عدل وانصاف اور مظلوموں کے ساتھ حسنِ سلوک سے بالکل عاری ہے۔ یہ وہی نام نہاد مہذب جمہوری لوگ ہیں جن کی افواج کی اندھادھند بمباریوں سے افغانستان کا کوئی بھی علاقہ محفوظ نہیں رہا اور نہ کوئی گوشہ ایسا بچا ہے جو حملہ آوروں کے ہاتھوں وہاں کے معصوم شہریوں، عورتوں اور بچوں کی ہلاکتوں کی داستان سے خالی ہو۔ آپ خود فیصلہ کریں کہ مہذب کون ہے، اپنا دفاع کرنے والے اور اپنے عام دشمنوں کو معاف کرنے والے طالبان یا لاکھوں معصوم شہریوں کی قاتل اور افغانستان پر حملہ کرکے اسے قبرستاں میں تبدیل کرنے والی طاقتیں؟
ضرورت ہے کہ مسئلہ افغانستان پر لکھتے ہوئے طالبان کی کامیاب جدوجہد کے مثبت اثرات اور لوح تقدیر پر لکھی ہوئی تحریروں کو پڑھنے میں ہم غلطی نہ کریں ورنہ جانے انجانے میں ہم بھی مخصوص میڈیا کی وہی باتیں دہرانے لگیں گے جو عالم اسلام میں آنے والی ہر ایسی تبدیلی کو جو ظاہراً کسی لحاظ سے بھی اسلام کو قوت بخشنے والی اور عالم اسلام کو مستحکم کرنے والی ہو عالم انسانی کا سب سے بڑا خطرہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور مسلمانوں کے حوالے سے ’’پہلے مار پھر پیچھے سے پکار‘‘ والی حکمت عملی پر کاربند ہیں۔
***

 

***

 افغانستان میں طالبان نے امریکا کو اپنی چالیں اس طرح نہیں چلنے دیں جس طرح اس نے سوچا تھا، اور اس کو سب سے بڑی ناکامی یہ ملی کہ وہ یہاں روس کی طرح اپنے پیچھے اپنی پسند کی کٹھ پتلی حکومت قائم کرنا چاہتا تھا جس کے لیے فوج تیار کرنے میں اس نے اربوں ڈالر خرچ کیے لیکن جب آزمائش کا وقت آیا تو معلوم ہوا کہ اس میں زیادہ تر یا تو فرضی فوجی (Ghost soldiers)تھے یا پھر امریکی فوجیوں کی طرح بزدل و کم ہمت۔


ہفت روزہ دعوت، شمارہ 29 اگست تا 4 ستمبر 2021