اسوہ رسولؐ سے دوری زوال امّت کا اہم سبب

اسلامی آداب معاشرت کی طرف رجوع ،مسلم سماج کی بڑی ضرورت

ڈاکٹر آفتاب احمد منیری

 

یہ بات ہم بچپن سے سنتے آرہے ہیں کہ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر بنی نوع انسان کی ہدایت کے چراغ روشن کرتا ہے۔ ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے یہ باتیں دل کو مسرور کرتی ہیں اور ہم بڑے جوش اور ولولے کے ساتھ اس کا اظہار بھی کرتے ہیں۔ لیکن کیا ہم نے کبھی اس نکتہ پر غور کرنے کی کوشش کی کہ آخر وہ بنیادی قدریں کیا ہیں جن کی بنیاد پر ہم یہ واضح کر پائیں گے کہ اسلام صرف ایک مذہب نہیں بلکہ تمام نقائص سے پاک ایک بہترین نظام زندگی کا نام ہے؟ اس بنیادی سوال کا بہت چھوٹا سا جواب ہوگا نہیں! یہ امر واقعہ ہے کہ علم دین سے وابستہ مسلمانوں کی ایک قلیل کو تعداد چھوڑ کر قوم کی غالب اکثریت نہ صرف یہ کہ اسلامی آداب زندگی سے نا آشنا ہے بلکہ اسے اس بات کا علم تک نہیں کہ اسلامی طرز معاشرت کس شئے کا نام ہے؟
مذکورہ علمی مباحث کے سیاق میں ہم مختصراً ان امور کا جائزہ پیش کریں گے۔ آئیے سب سے پہلے اس چیز کو سمجھیں کہ دین اسلام سے کیا مراد ہے؟ دین ایک کثیر المعنیٰ لفظ ہے۔ نظام زندگی، احتساب نفس، ایک انسان کا دوسرے انسان کے ساتھ رویہ اور بندے کا اللہ کے ساتھ تعلق۔ ان تمام امور کو دین کہا جاتا ہے۔
دین رحمت اسلام نے مذہب کے لیے دین لفظ کا استعمال کیا ہے ۔ مثلاً ’’ان الدین عنداللہ الاسلام‘‘ جہاں تک لفظ کی لغوی تعریف کا سوال ہے تو عربی میں دین کے معنی اطاعت اور جزا کے ہیں۔علمائے اسلام نے ادب کو بھی دین قرار دیا ہے، اس لیے کہ ادب کا راست تعلق زندگی کے ان رہنما اصولوں سے ہے جن سے ایک صالح معاشرہ کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ ادب فی نفسہٖ جذبہ اطاعت و فرمابرداری اور اخلاص عمل کا نام ہے۔ حسن اخلاق، تسلیم و رضا، عاجزی، اطاعت، احترام اور نرم خوئی ادب کی علامات میں شامل ہیں۔
ادب تعلیمات اسلامی کا بنیادی جز ہے۔ اللہ وحدہ لا شریک کے ساتھ ادب کا تقاضا یہ ہے کہ انسان خلوت اور جلوت ہر حال میں اس سے ڈرے اور اللہ کی قائم کردہ حدوں کا لازمی احترام کرے۔ اس عمل کے ذریعہ قول و فعل کا تضاد ختم ہو جاتا ہے اور انسانی زندگی میں نیکیوں کے فصل بہار کی آمد ہوتی ہے۔ غور فرمائیے کہ جب انسان کے ہر خیال اور عمل کی بنیاد رضائے الٰہی ہوگی تو انسانی زندگی میں کیسا عظیم انقلاب آئے گا؟ اس ضمن میں سورۃ نجم کی وہ آیات دلیل راہ کی حیثیت رکھتی ہیں جس میں واقعہ معراج کی کیفیت بیان کی گئی ہے:
’’ نہ نگاہ بھٹکی اور نہ حد سے آگے بڑھی یقیناً اس نے اپنے رب کی بڑی بڑی نشانیوں میں بعض نشانیاں دیکھ لیں‘‘ (نجم : ۱۶ تا ۱۷)
یہ خالق کائنات کے ادب کا بہترین مظاہرہ ہے کہ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچنے کے بعد بھی رسول کریم علیہ السلام نے عبدیت کے تقاضوں کو فراموش نہیں کیا۔
بندگی اگر اللہ کے ہر فیصلے پر راضی ہو جانے کا نام ہے تو آداب بندگی یہ ہوگا کہ انسان ہر اس عمل کو انجام دے جس کے کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے اور ہر اس کام سے رک جائے جسے ممنوع اور حرام قرار دیا ہے۔ اس نکتے کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ رب کی رضا اور خوشنودی میں اپنے ارادے کو بھی شامل کر دینا ادب ہے۔ اسی طرح رنج و غم کے حالات میں صبر کرنا اور شکوہ نہ کرنا بھی ادب ہے۔
اس زندگی کے اندر خدا ئے بزرگ و برتر نے ہمارے لیے جو رہنما اصول مقرر کیے ہیں اس کے ذیل میں ماں، باپ، استاذ، بزرگوں اور بچوں کے حقوق نیز ہمارے تمام اجتماعی تعلقات زیر بحث آتے ہیں۔ ہماری شریعت کا یہ مطالبہ کہ سائل کو نہ پھٹکارو، پھل دار درخت کو نہ کاٹو، عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو، ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ کیوں کہ ان رہنما اصولوں سے زمین پر امن قائم ہوتا ہے اور مخلوق خدا پر سکون رہتی ہے۔ دینِ رحمت اسلام سراپا خیر خواہی کا دین ہے جس کی بنیادی تعلیم معاشرہ کے تمام طبقات کے درمیان امن و آشتی، باہمی رواداری اور ہمدردی کے جذبے کو فروغ دینا ہے، بقول الطاف حسین حالی:
یہ پہلا سبق تھا کتاب ہدا کا
کہ مخلوق ساری ہے کنبہ خدا کا
اللہ تعالیٰ کی رضا کے خاطر اس کے بندوں سے محبت کرنا، حسب استطاعت ان کے لیے دست تعاون دراز کرنا نیز ان کے حقوق کا خیال رکھنا، یہ تمام چیزیں حقوق العباد میں شامل ہیں۔ جن کی جانب سے ہمارے مسلم معاشرہ میں سخت غفلت برتی جاتی ہے۔ تعلیماتِ اسلامی سے فیض یافتہ آداب زندگی کے یہ مختلف پہلو کس قدر اہم ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن حکیم میں بیشتر مقامات پر ان کا خصوصی ذکر کیا گیا ہے اور حقوق العباد کے تقاضوں سے غفلت برتنے والوں کو ان کے انجام سے ڈرایا گیا ہے مثلاً سورۃ الماعون میں فرمایا گیا ہے’’کیا تم نے نہیں دیکھا جو روز جزا کو جھٹلاتا ہے یہی وہ ہے جو یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اور مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب نہیں دیتا۔ (الماعون : ۱ تا ۳)
مذکورہ آیات پر اگر غور کریں اور ان کی روشنی میں موجودہ مسلم معاشرہ کا جائزہ لیں تو یہ پورا معاشرہ زندہ لاشوں کا قبرستان بنا نظر آئے گا۔ آج مسلم سماج کا یہ حال ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو ناحق ستاتا ہے، کوئی کسی کو ذلیل کرنے پر تلا ہوا ہے، کوئی کسی کا مال غصب کر لینا چاہتا ہے۔ مختصر یہ کہ جس کو ذرا بھی کوئی موقع ہاتھ آتا ہے تو وہ اس کوشش میں لگ جاتا ہے کس طرح کمزور کو دبایا جائے اور ظالمانہ طریقے پر دوسروں کے حقوق غصب کر لیے جائیں۔ جبکہ مسلم امت ہونے کے ناطے ہمارا یہ فرض تھا ہم امت وسط کا کردار ادا کرتے ہوئے معاشرہ میں بھلائی کو عام کرتے اور ظلم کے اندھیروں کو شکست دیتے۔ یہ بات محتاجِ وضاحت نہیں کہ ہماری معاشرتی زندگی میں درپیش زیادہ تر مسائل ایسے ہیں جو سنت رسول ﷺ سے دوری کے نتیجہ میں ہمارے گلے کا طوق بنے ہوئے ہیں۔
ہم آج پریشان بھی اس لیے ہیں کہ ہم نے قرآنی ہدایات اور تعلیمات نبوی ﷺ کے مطابق جینا چھوڑ دیا ہے اور اس مشہور حدیث کے مصداق بن گئے ہیں جس میں آپ ﷺ نے فرمایا تھا: ’’ اسلام کی ابتدا بطور اجنبی ہوئی، وہ پھر سے اجنبی ہو جائے گا، لہٰذا اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے‘‘ (مسلم)
یہ حدیث وہ آئینہ ہے جس میں ہم اپنی تصویر دیکھ سکتے ہیں اگر ہم نے طریقہ مصطفیٰ ﷺ سے مجرمانہ غفلت نہ برتی ہوتی تو آج ظلمتوں کے تاریک سائے ہمیں زیر نہ کر رہے ہوتے۔ بقول شاعر:
تیرا نقش پا تھا جو رہنما تو غبار راہ تھی کہکشاں
اسے کھو دیا تو زمانے بھر نے ہمیں نظر سے گرا دیا
لہٰذا آئیے اپنا احتساب کریں اور اپنے ضمیر کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنا رشتہ از سرنو اس دین سے جوڑ لیں جو ہماری دنیوی نیز اخروی کامیابی کا ضامن ہے۔ اس سلسلے میں چند گزارشات پیش خدمت ہے:
٭ والدین ا اپنے بچوں کی دینی تربیت پر غیر معمولی توجہ صرف کریں اور پہلے دن سے انہیں دین کے راستے پر ڈالنے کی کوشش کریں۔
٭ اپنے بچوں کے ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے سلسلے میں حد درجہ احتیاط کا مظاہرہ کریں اور ان کا داخلہ کسی ایسے ادارے میں کرائیں جہاں اسلامی تعلیم شامل نصاب ہو۔
٭ آلات لہو ولعب سے اپنے بچوں کو دور رکھیں۔ آج کے بچوں کا مستقبل تباہ کرنے میں اسمارٹ فون کا کردار بھی سب سے اہم ہے۔
٭ اپنے گھر اور محلوں میں وقتاً فوقتاً ایسے تعمیری اور اصلاحی پروگرامز اور دیگر اسلامی آداب کو بیان کیا جائے تاکہ لوگوں کے اندر اسلامی زندگی گزارنے کا شوق پیدا ہو۔
٭ ہمارے پیارے نبی ﷺ نے اپنی امت کو خوش حال اور پرسکون زندگی گزارنے کا نسخہ کیمیہ عطا کیا تھا۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے نبی سے محبت کا عملی اظہار کرتے ہوئے اپنی اپنی سطح پر اسلام کے مالیاتی نظام یعنی زکوٰۃ کو متعارف کرائیں اور اپنی مقدور بھر اس بات کو یقین بنائیں کہ ہمارے آس پاس کوئی بھی اہل ایمان لوگوں کے سامنے دست سوال دراز کر کے ہماری ملی غیرت کو شرمسار نہ کرے۔’شاید کہ اتر جائے ترے دل میں مری بات‘
***

موجودہ مسلم معاشرہ کا جائزہ لیں تو یہ پورا معاشرہ زندہ لاشوں کا قبرستان بنا نظر آئے گا۔ آج مسلم سماج کا یہ حال ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کو ناحق ستاتا ہے، کوئی کسی کو ذلیل کرنے پر تلا ہوا ہے، کوئی کسی کا مال غصب کر لینا چاہتا ہے۔ مختصر یہ کہ جس کو ذرا بھی کوئی موقع ہاتھ آتا ہے تو وہ اس کوشش میں مصروف ہو جاتا ہے کس طرح کمزور کو دبایا جائے اور ظالمانہ طریقے پر دوسروں کے حقوق غصب کر لیے جائیں۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، خصوصی شمارہ 4 اپریل تا  10 اپریل 2021