اسلام ہی عالم انسانیت کے لیے نجات دہندہ

برادارن وطن کو قولی ا ور نظری طور پر قائل کرانے کی ضرورت

محمد انور حسین

 

اللہ رب العزت نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور علم وحکمت، عقل و دانش کے ساتھ فیصلہ کرنے کی قوت بھی عطا کی۔ پیدائش کے مقصد کی وضاحت کے ساتھ ہی اسے زندگی گزارنے کا طریقہ بتایا اور اس طریقہ پر زندگی گزارنے والوں کو کامیابی کی ضمانت بھی دی اور ساتھ ہی دیگر تمام طریقہ ہائے زندگی کو باطل قرار دیا۔ سورۃ آل عمران میں صاف الفاظ میں ہے کہ ’’اس طریقہ فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اس کا وہ طریقہ ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد رہے گا‘‘اسی طریقہ زندگی کا نام ہی دراصل اسلام ہے۔جسے قرآن مجید میں ’’الدین ’’ یا ‘‘الاسلام‘‘ سے تعبیر کیا گیا ہے۔
پیارے نبیﷺ کے دور سے نہیں بلکہ آدمؑ کے زمانے سے اسلام ہی انسانوں کا دین رہا ہے اور محمدﷺْ پر اس دین کی تکمیل ہوئی۔ اب یہی اسلام قیامت تک انسانوں کے لیے طریقہٗ زندگی یا نظام حیات کے طور پر باقی رہے گا۔ اس سے واضح ہو گیا کہ انسانوں کی کامیابی اور بھلائی کا راستہ صرف وہی راستہ ہو سکتا ہے جو اس کے خالق کا بتایا ہوا ہے۔ اس کے علاوہ انسان کے ذریعہ طے کیے گیے طریقہ ہاے زندگی انسان کو جہالت، گمراہی اور ظلمات کی طرف لے جاتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کی طرف سے جو بھی پیغمبر دنیا کے کسی گوشے یا کسی زمانہ میں آیا اس کا دین اسلام ہی تھا اور جو کتاب بھی دنیا کی کسی زبان اور کسی قوم میں نازل ہوئی اس نے اسلام ہی کی تعلیم دی۔ اس اصل دین کو مسخ کر کے اور اس میں کمی بیشی کر کے دوسرے مذاہب دنیا میں رواج پا گئے۔ ان مذاہب کے وجود میں آنے کا سبب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ لوگ اپنی جائز حدود سے بڑھ کر حقوق، فائدے اور امتیازات حاصل کرنے کی چاہ میں لگ گئے اور اپنی خواہشات کے مطابق اصل دین کے عقائد، اصول اور احکام میں رد و بدل کر ڈالا۔ قرآن انسانوں سے خطاب کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر انسان حقیقی کامیابی چاہتا ہے تو اسے ظلمات سے نکل کر نور کی طرف آنا پڑے گا اور وہ نور صرف اسلام ہے۔ قران متعدد مقامات پر انسانوں کو دین حق کی دعوت دے کر اس کو حقیقی کامیابی کی ضمانت قرار دے رہا ہے۔ سورہ التوبہ میں ارشاد ہے کہ ’’وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ اسے پوری جنسِ دین پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو‘‘ اسی طرح سورۃ النساء میں ہے کہ ’’اس شخص سے بہتر اور کس کا طریق زندگی ہو سکتا ہے جس نے اللہ کے آگے سرِ تسلیم خم کر دیا اور اپنا رویّہ نیک رکھا اور یکسو ہو کر ابراہیمؑ کے طریقے کی پیروی کی، اس ابراہیم کے طریقے کی جسے اللہ نے اپنا دوست بنا لیا تھا‘
سورۃ آل عمران میں ہے کہ ’’اب کیا یہ لوگ اللہ کی اطاعت کا طریقہ (دین اللہ) چھوڑ کر کوئی اور طریقہ چاہتے ہیں؟ حالانکہ آسمان و زمین کی ساری چیزیں چار وناچار اللہ ہی کی تابع فرمان یعنی مسلم ہیں اور اسی کی طرف سب کو پلٹنا ہے‘‘ یہی وہ سچا اور سیدھا دین ہے جس کی تکمیل پیارے نبیﷺ پر فرما دی گئی اور کامیابی اور ناکامی، ظلمات اور نور کا دائمی ضابطہ طے کر دیا گیا۔قران کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کرام کی بعثت کا مقصد دین اسلام کا قیام ہی ہے۔ سورۃ شوریٰ میں ہے کہ ’’اس نے تمہارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا اور جسے اے محمدؐ اب تمہاری طرف ہم نے وحی کے ذریعہ سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ہم ابراہیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰ ؑ کو دے چکے ہیں اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہو جاؤ۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف اے محمدؐ تم انہیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کر لیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے ۔
اس دعویٰ کو کس طرح پیش کیا جائے؟ یہ یقین ہو جانے کہ بعد کہ اسلام ہی واحد طریقہ زندگی ہے جو انسانوں کو گمراہی اور ظلمات سے نور اور کامیابی کی طرف لاسکتا ہے تو ہماری اولین ذمہ داری ہے کہ انسانوں کو ظلمات سے نور کی طرف بلانے کی کوشش کریں۔ اس موقع پر ہمارے سامنے ایک اہم سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہم اسلام کو کس طرح پیش کریں؟
اب تک یہ غلطی ہوتی رہی ہے کہ ہم نے اسلام کو مذہب یا کچھ عقائد کے مجموعہ کے طور پر پیش کیا ہے جو اپنے ماننے والوں سے چند عبادات اور رسوم کا مطالبہ کرتا ہے۔ اجتماعی معاملات میں اس کا عمل دخل اگر ہے بھی تو صرف اتنا کہ وہ عمومی انسانی اخلاقیات کی تعلیم دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام کو دیگر مذاہب کی فہرست میں ایک اچھے مذہب کی حیثیت سے زیادہ نہیں سمجھا گیا۔ ہم یہ دعویٰ لے کر اٹھے ہیں کہ ہم انسانوں کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لائیں گے تو یہ بات بھی واضح رہے کہ ظلمات کئی ہو سکتی ہیں لیکن نور صرف ایک ہی ہے۔ قرآن نے انوار کے لفظ کے بجائے نور کا لفظ استعمال کیا ہے۔ نور ایک ہے، واحد ہے اور تنہا ہے۔ انسانوں نے اپنی خواہش سے بہت سے راستے چن لیے ہیں جو انہیں ظلمات کی طرف لے جاتے ہیں۔موجودہ دور نظریات کا دور ہے اور رائج الوقت نظریات کی ناکامی نے ایک خلا پیدا کر دیا ہے جس کے نتیجے میں انسانیت پر نہ صرف ظلم وستم بڑھ گیا ہے بلکہ اس نے انسانیت کو اپنے مقام سے نیچےگرا دیا ہے۔ اب دنیا یہ سوچنے لگی ہے کہ اب کوئی نیا نظریہ پیدا ہونا ممکن نہیں ہے اس لیے بعض مفکرین مابعد نظریاتی دور کی بات بھی کرنے لگے ہیں۔
اب انسانوں کی واحد امید صرف اسلام ہے۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اسلام کو ایک دائمی و قائمی نظریہ زندگی کی حیثیت سے پیش کریں۔ کئی ازموں میں سے ایک ازم، کئی مذاہب میں سے ایک مذہب، کئی طریقہ ہائے زندگی میں سے ایک طریقہ زندگی نہیں بلکہ صرف ایک اور واحد طریقہ زندگی کی حیثیت سے پیش کریں۔
‏قرآن آپ کو اس دعویٰ کی حقیقت تک پہنچنے میں مدد کرے گا۔ اس کے لیے کسی دانشور اور فلسفی کے سہارے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ آپ کا یہ دعویٰ محض قران کی بنیاد پر ہوگا۔ قرآن خالق کائنات کی کتاب ہے جو پوری انسانیت کی ہدایت کے لیے بھیجی گئی ہے۔ اس دعویٰ کو پیش کرتے وقت ہمیں توحید رسالت اور آخرت کے تصور کو قران کی مدد سے پیش کرنا پڑے گا۔ اللہ رب العزت کا تعارف پیش کرتے ہوئے ہمارا خدا تمہارا خدا جیسی کوئی تفریق نہیں ہوگی بلکہ اللہ کا تعارف خدائے واحد کی حیثیت سے پیش کیا جائے گا۔ محمد ﷺ کا تعارف کراتے ہوئے ہمیں ان کو ایک عظیم انسان، با اخلاق، عادل فرمانروا، سماجی مصلح یا مہا پرش کی حیثیت سے زیادہ ان کے آخری پیغمبر اور رسول ہونے کی حیثیت کو اجاگر کرنا ہوگا۔ آخرت کی حقیقت کو امکانی دعوؤں اور فلسفوں سے نہیں بلکہ قران کے دلائل سے واضح کرنا پڑے گا۔
ظلمات اور نور کی تشریح: ہم جس طرح یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم انسانوں کو ظلمات سے نکال کر نور کی طرف لانا چاہتے ہیں تو ہمیں واضح کرنا ہوگا کہ نور صرف ایک ہوتا ہے اور وہ اسلام ہے۔ اصل میں سیدھے راستے سے بھٹک جانے کے نتیجہ میں انسانیت کو لاحق نقصانات ظلمات کی تعریف میں آتے ہیں۔ ظلم، ناانصافی، بے حیائی، شرک اور بد اخلاقی کی جتنی بھی شکلیں دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ سب ظلمات کی طرف لے جانے والی ہیں۔ نور ،خدا کے بتائے ہوئے راستے میں مضمر ہے۔
ہماری ذمہ داری ہے کہ برادران وطن کے سامنے اس دعویٰ کو بہتر سے بہتر انداز میں پیش کریں۔ اس کے لیے علمی و ذہنی تیاری کی ضرورت ہے۔ لیکن ایک بات کا خصوصی خیال رہے کہ ہم اپنی بات پیش کرتے وقت ’سرو دھرم سمبھاو‘ کے فریب کا شکار نہ ہو جائیں۔ حکمت و موعظت کا مطلب ’سرو دھرم سمبھاو‘ نہیں ہے۔
دعوت دین کے دوران پیش آنے والے مسائل کے حل کے لیے کوشش کریں اور یہ طے کر کے چلیں کہ ہم اپنی بنیادی فکر سے کوئی مصالحت نہیں کریں گے۔ احسن طریقہ سے ثابت کریں کہ ’ظلمات‘ ہر خرابی کی جڑ اور ’نور‘ ہر کامیابی کی بنیاد ہے۔ خالقِ کائنات کی انسانوں کے نام اس راست دعوت کو پر زور طریقہ سے پیش کریں کہ ظلمات سے نکلنے کا ارادہ کرنے والوں کو دین حق اور نور حق کی طرف اللہ رب العزت رہنمائی کرتا ہے۔ سورۃ بقرۃ میں ہے کہ ’’جو لوگ ایمان لاتے ہیں ان کا حامی و مددگار اللہ ہے اور وہ ان کو تاریکیوں سے روشنی میں نکال لاتا ہے اور جو لوگ کفر کی راہ اختیار کرتے ہیں ان کےحامی و مددگار طاغوت ہیں اور وہ انہیں روشنی سے تاریکیوں کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں۔ یہ آگ میں جانے والے لوگ ہیں جہاں یہ ہمیشہ رہیں گے‘‘
اس بنیادی وضاحت کے بعد ہم اس نتیجہ پر پہنچ چکے ہیں کہ دنیا سے اندھیروں اور مایوسی کو صرف اسلام کی قولی اور عملی شہادت کے ذریعے ہی دور کیا جا سکتا ہے اور اس قولی اور عملی شہادت کو پیش کرنے اور حقیقی نور کا راستہ بتانے کی ذمہ داری ہر مسلمان کی ہے۔ ہم امت کے ہر فرد سے گزارش کرتے ہیں کہ برادران وطن کے دوست احباب، پڑوسی، ساتھ میں کام کرنے والے اور اپنے شہر و محلہ کے لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جائے۔اس عظیم فریضہ کی ادائیگی کے نتیجہ میں نہ صرف امت مسلمہ پر چھائے ہوئے مایوسی کے بادل چھٹ جائیں گے بلکہ پوری انسانیت حقیقی نور سے
آشنا ہو جائے گی۔
***

نور صرف ایک ہوتا ہے اور وہ اسلام ہے۔ اصل میں سیدھے راستے سے بھٹک جانے کے نتیجہ میں انسانیت کو لاحق نقصانات ظلمات کی تعریف میں آتے ہیں۔ ظلم، ناانصافی، بے حیائی، شرک اور بد اخلاقی کی جتنی بھی شکلیں دنیا میں پائی جاتی ہیں وہ سب ظلمات کی طرف لے جانے والی ہیں۔ نور ،خدا کے بتائے ہوئے راستے میں مضمر ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 7 فروری تا 13 فروری 2021