اسلام سے بغض رکھنے والے ہی بحران کا شکار

الیکشن جیتنے کے لیے فرانسیسی صدر کی اسلام پر تنقید مسلم اسکالرس اور عالمی میڈیا کے مختلف گوشوں سے سخت مذمت

احمد عظیم ندوی، جھارکھنڈ

 

فرانس کے صدر امانوئیل ماکرون نے 2اکتوبر کو دین اسلام کے متعلق اپنے ایک متنازع بیان میں کہا کہ: ’’اسلام پوری دنیا میں بحران کا شکار ہے‘‘۔ جس پر دنیا بھر کے مسلمانوں اور باشعور لوگوں نے غم وغصہ اور شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔ ورلڈ فیڈریشن آف مسلم اسکالرز کے مطابق ’’اسلام کو ماننے والوں میں ہر روز اضافہ ہو رہا ہے چنانچہ ہمارے دین کو کسی قسم کے بحران کا سامنا نہیں ہے بلکہ اسلام سے لاعلم اور مسلمانوں اور ان کے دین سے بغض وحسد رکھنے والے بحران کا شکار ہیں‘‘ اسلامک ریسرچ سنٹر ازہر نے کہا ہے کہ ’’ماکرون کا یہ بیان نسل پرستی کا عکاس ہے اور اس سے کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے‘‘
ترکی کے صدر رجب طیب اردگان نے کہا کہ ’’اسلام کے تعلق سے ماکرون کا یہ بیان اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ بے ادب اور اپنے حدود سے ناواقف ہیں اور وہ اس طرح کے بیان سے فرانس جس بحران سے گزر رہا ہے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں نیز ماکرون ہوتے کون ہیں اسلام کی تنظیم نو کی بات کرنے والے؟‘‘۔
عمان کے مفتی اعظم احمد الخلیلی نے کہا ’’تمام دانشور اس بات پر متفق ہیں کہ آج دنیا جن مشکلات سے دوچار ہے اس کا حل صرف اور صرف اسلام کے پاس ہے اس لیے اسلام پر جھوٹے الزامات لگانے والوں کو ناکامی کے سوا کچھ ہاتھ نہ آئے گا‘‘۔
اتحاد العلماء المسلمین کے رکن ڈاکٹر اکرام کساب: ’’فرانسیسی صدر نے کوئی نئی بات نہیں کہی ہے بلکہ ہزاروں صفحات اس قسم کے تصریحات سے بھرے پڑے ہیں نیز، عالمی سینما نے اسلام کے خلاف سیکڑوں فلمیں بنائی ہیں۔ اور میرا ماننا ہے کہ ماکرون نے اسلام اور مسلمانوں کو جس طریقہ سے نیچا دکھانے کی کوشش کی ہے اس طرح کے واقعات خود عرب حکام، اسلامی ادارے اور مسلمانوں کی وجہ سے بڑھ رہے ہیں کیوں کہ وہ اس طرح کے واقعات پر اپنے غم وغصے کا خاطر خواہ اظہار نہیں کرتے‘‘۔ انہوں نے مزید لکھا کہ: ’’ماکرون کو معلوم ہونا چاہیے کہ اسلام کے دامن پر کس بھی قسم کے تشدد یا دہشت گردی کا کوئی داغ نہیں ہے اور اگر وہ اس قسم کا بیان دینے سے پہلے مستشرق مصنفین سے ہی رجوع کرلیتے تو انہیں معلوم ہوجاتا کہ اسلام نے نہ صرف فرانس بلکہ پورے یورپ پر کس قدر احسان کیا ہے‘‘۔
فرانسوا بورغا (انسٹی ٹیوٹ فار اسٹڈیز برائے عربی واسلام، فرانس کے محقق): ’’مجھے لگتا ہے کہ ماکرون اس قسم کی بیان بازی 2022 کے انتخاب میں سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے کر رہے ہیں‘‘۔
علی محمد الصلابی نے فرانسیسی صدر کے نام ایک کھلے خط میں لکھا کہ: ہم سمجھتے ہیں کہ فرانس کے عوام کی اکثریت آپ کے اس معاندانہ بیان کے خلاف ہے اور فرانسیسی انقلاب کے ان اقدار سے آپ کا کو تعلق نہیں ہے جس نے انسانی بھائی چارگی اور عدل وانصاف کی حمایت اور ظلم واستبدا سے جنگ کا اعلان کیا تھا۔
اس مناسبت سے شیخ الازھر ڈاکٹر احمد طبیب نے مغربی ممالک کی طرف سے ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطاح کے استعمال پر سخت غصے کا اظہار کیا ہے۔
بی بی سی عربی: ’’ماکرون کے سیاسی مخالفین کا کہنا ہے کہ جب سے وہ اقتدار میں آئے ہیں اسلام کے خلاف بیان بازی کرنا ان کی عادت ہوگی ہے اور وہ بار بار ’’اسلامی دہشت گردی‘‘ کی اصطلاح کا استعمال کرتے ہیں اور اس طرح کے بیانات سے ملک کے اندرونی بحران پر پردہ ڈالنا چاہتے ہیں‘‘۔
الجزیرہ کی ایک سرخی: ’’اتحاد العلماء المسلمین کے بعد جامعہ ازھر نے بھی ماکرون کے اسلام مخالف بیان کو خارج کرتے ہوئے کہا کہ یہ نسل پسندی پر مبنی ہے‘‘۔
بی بی سی عربی کے مطابق فرانس کے عام شہریوں اور سیاسی رہنماؤں نے بھی اس بیان پر ماکرون کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

مشمولہ: ہفت روزہ دعوت، نئی دلی، شمارہ 25 اکتوبر تا 3 نومبر، 2020