اردو تراجم وتفاسیر قرآن میں خواتین کی خدمات

طبقہ نسواں کے لیے کلام الٰہی سے تعلق پیدا کرنے کا ایک پیغام

ڈاکٹرہاشمی سید وہاج الدین، حیدرآباد

اسلام کو یہ خصوصیت حاصل ہے کہ اس نے علم کو مرد وعورت دونوں کے لیے فرض قرار دیا ہے۔ چنانچہ اس کا عملی نمونہ ہمیں دورِ اسلام ہی سے امہات المومنین کی شکل میں ملتا ہے۔ قرآن کے ترجمہ وتفسیر سے مراد اگر انفرادی آیات یا سورتوں کی تفسیر اور تدریس ہو، تو یہ تاریخ امہات المؤمنین سے شروع ہوتی ہے، اس فہرست میں سیدہ عائشہ، سیدہ حفصہ، سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہما اور تابعات میں حفصہ بنت سیرین، ملکہ زبیدہ ہارون الرشید اور عرب وعجم کی دیگر خواتین کی طرح برصغیر کی کئی خواتین شامل ہیں۔ ایسی خواتین جنہوں نے بشمول اردو دیگر زبانوں میں ترجمہ یا مستقل تفسیر لکھی ہو، اور کتابی صورت میں موجود ہو، تو اس کی بھی ایک طویل فہرست ہے۔ خواتین کا قرآن کریم کے ترجمہ و تفسیر میں کیا کردار رہا اس موضوع پر موجودہ دور میں عصری جامعات کی طالبات کا کام تفسیر وعلوم قرآنی میں بہت نمایاں ہے۔ عالم عرب، پاکستان اور ہندوستان میں 1000 سے زائد طالبات نے ایم اے، ایم فل اور پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالات لکھے ہیں ہنوز یہ سلسلہ جاری ہے۔ اس مضمون میں قرآن مجید کا اردو زبان میں ترجمہ وتفسیر کرنے والی خواتین کے متعلق معلومات فراہم کی جائیں گی جو کہ راقم کے تحقیقی مقالہ کا ایک ضمنی باب بھی رہا ہے۔ البتہ اس مضمون میں کچھ اضافہ شامل ہے۔
1۔ رانی گل بیگم:
اردو زبان میں قرآن مجید کے ابتدائی تراجم میں کسی خاتون مترجم کا ذکر نہیں ملتا، اگر چیکہ اردو میں تراجم قرآن کی ابتداء سولہویں صدی عیسوی ہی سے ہوگئی تھی۔ تقریباً چار صدیوں بعد ایک خاتون رانی گل بیگم کا نام ملتا ہے جنہوں نے 1933ء میں سورہ یوسف کا ترجمہ کیا تھا؛ جو کہ ایک جزوی ترجمہ تھا۔ سورہ یوسف کایہ ترجمہ وتفسیر لاہور کے اورینٹل کالج میگزین میں1933ء میں شائع ہوا۔
2۔ محمودالنساء بیگم:
اردو زبان میں کسی خاتون کی طرف سے اولین مکمل ترجمہ قرآن کا اعزاز شہر حیدرآباد کی خاتون کوحاصل ہے۔ محمودالنساء بیگم نے 1943ء میں ’’ تفسیر قرآن مجید معہ ترجمہ احکام قرآن بہ اردو‘‘ تالیف کیا۔ 261 صفحات پر مشتمل اس ترجمہ کو دارالطبع سرکار عالیہ، حیدرآباد دکن، نے شائع کیا۔ مترجم نے محمود حسن دیوبندی کے ترجمہ قرآن اور شاہ عبدالقادر دہلوی کے موضح قرآن سے مدد لی ہے، یہ بلا متن ترجمہ ہے۔ اس کے نسخہ کا ذکر ڈاکٹر احمد خان نے اپنے مقالے میں کیا ہے جو کراچی یونیورسٹی لائبریری میں موجود ہے (2) ۔ محمودالنساء بیگم 1898ء میں پیدا ہوئیں، آپ کے والد سید محمد یوسف الدین حکومت نظام میں اعلٰی عہدے پر فائز تھے۔ چونکہ اس ترجمہ وتفسیر کی اشاعت بہت قلیل تعداد میں ہوئی تھی، اس لیے بہت جلد یہ ترجمہ مفقود ہوگیا۔ راقم کو محترمہ کا یہ ترجمہ جو نایاب تھا کافی کوشش کے بعد مولانا سراج الہدیٰ ندوی ازہری، استاذ تفسیر وحدیث، دارالعلوم سبیل الاسلام، حیدرآباد سے دستیاب ہوا جس کی صرف تین اصل نقل ان کے افراد خاندان کے پاس محفوظ ہیں۔ البتہ اس پر تحقیق وتالیف کا کام مولانا سراج الہدیٰ انجام دے چکے ہیں۔ چنانچہ مولانا موصوف نے ساڑھے تین سال کی عرق ریزی سے اس ترجمہ وتفسیر کو جدید انداز واسلوب میں ڈھالا ہے اور اس ترجمہ کو ’’آسان ترجمہ وتفسیر قرآن مجید‘‘ کا نام دیا ہے جو دو جلدوں پر مشتمل ہے۔ اس کام کو موصوف نے اپریل 2015ء میں مکمل کیا جسے محمودالنساء کے افرادِ خاندان نے شائع کروایا ہے۔ مولانا موصوف نے اس ترجمہ میں جو الفاظ متروک ہوچکے ہیں انہیں حذف کرکے انہیں جدید اسلوب وبیان کے مطابق استعمال کیا ہے۔
3۔ واحدہ خانم:
1936ء میں واحدہ خانم پرنسپل قرآنک کالج بنگلور نے دو حصوں پر مشتمل ترجمہ و تفسیر پارہ عم المسمی بہ مطالب القرآن کے نام سے قرآن پاک کا ترجمہ کیا۔ پہلا حصہ سورہ فاتحہ پھر الٹی ترتیب سے سورۃ الناس سے سورہ الفجر کی تفسیر پر مشتمل ہے؛ جبکہ دوسرے حصہ میں سورہ الغاشیہ تاسورہ النباء ہے۔ ترجمہ بالکل عام فہم انداز میں ہے بلکہ ہر سورہ کی ترجمانی کی گئی ہے۔ ترجمہ اور تفسیر کا انداز یہ ہے کہ متن قرآن کے ساتھ اردو ترجمہ ہے پھر مطلب اور مفہوم کو واضح کیا ہے۔ یہ نہایت مختصر تفسیر ہے جو قومی پریس بنگلور سے 1936ء میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے علاوہ اساس القرآن کے نام سے محترمہ واحدہ خانم نے 1946ء میں سورہ فاتحہ کا ترجمہ کیا جو اس سورہ کے معنی و مطالب پرمشتمل ہے۔ جسے مسلم ویلوروی کے اشتراک سے محترمہ نے لکھا ہے سات ابواب پر مشتمل اس کتاب کا مقام اشاعت نا معلوم ہے البتہ ملنے کا پتہ۔ 251۔ حدید، بنگلور سٹی لکھا ہے۔ یہ کتاب دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ کی لائبریری میں موجود ہے۔ مولفہ کی دیگر تالیفات مسائل القرآن،فوائد القرآن اور ترتیل القرآن تک رسائی نہیں ہوسکی۔
4۔ نکہت شاہجہاں پوری
نکہت شاہجہاں پوری نے 1944ء میں بصائر القرآن کے نام سے قرآن مجید کا جزوی ترجمہ کیا یہ ترجمہ ممبئی میں چھپا تھا۔ اس کا سنہ سیارہ ڈائجسٹ میں غلطی سے 1944ء کی جگہ 1144ء چھپا ہے۔ ڈاکٹر احمد خان نے لکھا ہے کہ زبان کی بندش اور کلمات کے استعمال سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ترجمہ بیسویں صدی کے وسط میں چھپا ہے۔ جمیل نقوی نے اس کا شمار مکمل تفاسیر میں کیا ہے جبکہ ڈاکٹر احمد خان نے اسے جزوی تفسیر قرار دیا ہے۔
5۔ امتہ الکریم بیگم اسحاق:
امتہ الکریم بیگم اسحاق نے ’’ تجلیات قرآن کے چند عجائبات‘‘ کے نام سے قرآن مجید کی ان آیات اور مضامین کو جمع کیا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی قدرت اور اس کی تجلیات پوشیدہ ہیں۔ مؤلفہ نے کتاب کے مقدمہ میں قرآن مجید کی دونوں طرح کی آیات محکمات و متشابہات کی مختصراً تفسیر پیش کی ہے، سائنس سے متعلق آیات کو منتخب کیا ہے اور اپنی کتاب میں اسی طرح کے عناوین بھی قائم کیے ہیں۔ مثلاً انسانی تخلیق، چاند، سورج اور زمین سے متعلق، ایٹم بم، دھماکے اور دھماکوں کے انجام، وغیرہ وغیرہ۔ محترمہ نے آیات کا ترجمہ بھی سائنسی حقائق کی روشنی میں کرنے کی کوشش کی ہے۔ زیادہ تر مقامات پر آیات کا مفہوم یا خلاصہ سے کام لیا ہے۔ کچھ آیات کا ترجمہ نئے انداز اور اسلوب سے کیا ہے۔ اس میں سائنسی حقائق کو قرآن کی رو سے ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کتاب کو مطبع فضلی اینڈ سنز نے 1970ء میں شائع کیا جو دارالمصنفین اعظم گڑھ کی لائبریری میں دستیاب ہے۔
6۔ ثریا عندلیب:
ثریا عندلیب نے قرآن مجید کی مختلف سورتوں کی انتالیس (39) آیتوں کو منتخب کیا ہے اور اس کی تشریح بھی کی ہے جو ’’آیات بینات‘‘ کے نام سے 1992ء میں سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور سے شائع ہوئی ہے۔ اس کتاب میں مؤلفہ نے آیات کی تشریح میں کافی حد تک قرآن مجید کی دوسری آیتوں سے استدلال کیا ہے۔ قرآن مجید پر غور و فکر اور تدبر کی یہ ایک نہایت بہترین کوشش ہے۔
7۔ پروین خلیل:
پروین خلیل نے بچوں میں قرآن فہمی پیدا کرنے کے لیے بچوں کی ذہنی سطح کو پیش نظر رکھ کر اردو زبان میں نہایت آسان زبان میں پارہ عم کا ترجمہ وتفسیر کا کام انجام دیا ہے۔ پہلے آیت میں ہر لفظ کے علیحدہ معنی بیان کیے گئے ہیں پھر اس کا ترجمہ کرتے ہوئے تفسیر بیان کی گئی ہے۔ اس ترجمہ و تفسیر کی خاص بات یہ ہے کہ ہر سورہ کی تفسیر کے بعد اس سورہ سے متعلق کچھ سوالات کیے گئے ہیں تاکہ بچے قرآن کے پیغام کو بآسانی سمجھ سکیں۔ پارہ عم کی مختلف سورتوں کو تین الگ کتابی شکلوں:
1۔ بچوں کے لیے پارہ عم کی دس سورتیں
2۔ بچوں کے لیے پارہ عم کی بارہ سورتیں
3۔ بچوں کے لیے پارہ عم کی پندرہ سورتیں
میں ترتیب دیا گیا ہے جو اردو مدرسہ اسلامیہ، سنگاریڈی سے 1997ء میں شائع ہوئی ہیں جبکہ اشاعت دوم 1998ء میں عمل میں آئی۔ پارہ عم کی پندرہ سورتوں کا پیش لفظ جناب مسعود جاوید ہاشمی نے لکھا ہے۔ آج بھی بچوں کے لیے اسلامی لٹریچر کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ان کے لیے عام فہم اور آسان زبان میں تصانیف لکھی جائیں۔
8۔ شہر یار بانو
نکہت شاہجہاں پوری کے ترجمہ کے بعد خواتین مترجمین قرآن میں ایک بڑا وقفہ نظر آتا ہے۔ لگ بھگ نصف صدی کے بعد پاکستان کی شہر یار بانو نے 174 صفحات پر مشتمل تیسویں پارے کا ترجمہ وتفسیر بنام ’’تفسیرمنتخب 30 واں پارہ‘‘ لکھاجسے دارالسلام پبلشرز اینڈ ڈسٹری بیو ٹرز ریاض، سعودی عرب نے مئی 1998ء میں شائع کیا ہے۔ یہ دراصل کراچی میں محترمہ شہریار بانو کے فہم قرآن کے سلسلے میں خواتین کے لیے پیش کیے گئے دروسِ قرآن کامجموعہ ہے۔ موصوفہ کی تحریرمیں سلاست و روانی اور موضوع سے قریب ترین شرح وتوضیح کا ایک دریا موجزن ہے۔ جس کو پڑھنے کے بعد قاری قرآن فہمی سے بیگانہ نہیں رہ سکتا۔ محترمہ نے کلمات قرآنی کی لغوی تشریح کے ساتھ ساتھ تفسیر بالماثور کے اسلوب کو بھی اختیار کیا ہے اور اسی طرح جدید تعلیم یافتہ طبقہ کے ذہنی اور فکری رجحانات کو مدنظر رکھتے ہوئے آیات کی تشریح کے دوران فنی اور سائنسی انداز بھی اختیار کیا ہے۔ اس طرح یہ تفسیرقدیم و جدید کا ایک خوبصورت مرقع بن گئی ہے۔ جس سے ہرطبقہ اور مکتب فکر کے لوگ استفادہ کرسکتے ہیں۔ اس کے علاوہ مولفہ نے سورہ یوسف، سورہ ملک تا سورہ مرسلات (منتخب تفاسیر) ، تفسیر سورہ مجادلہ تا سورہ مریم (منتخب تفاسیر) ، سورہ النور، مومنون، النحل، الانبیاء اور سورہ الحج وغیرہ بھی تالیف کی ہیں۔ (جاری)