اداریہ

’’یہ عید تو ہر سال آتی ہے۔۔۔‘‘

شریعتِ محمدی نے دونوں عیدوں عیدالفطر اور عید الاضحٰی کو دین اسلام کا شعار اور علامت قرار دیا ہے۔ یہ دونوں عیدیں محض شادمانی اور مسرت کا ہی نہیں بلکہ بارگاہ الہی میں شکر بجا لانے کا موقع بھی ہیں۔ ایک رمضان المبارک میں قرآن جیسی بیش بہا نعمت سے نوازنے پر رب کریم کا شکر، دوسرے ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے فرزند حضرت اسماعیل علیہ السلام کی قربانی کی یاد اور حج بیت اللہ کو قیامت تک کے لیے جاری و ساری رکھنے پر۔
ماہ ذی الحجہ کی دسویں تاریخ کو حجاج جب منی میں قربانی کر چکے ہوتے ہیں اور عالم اسلام کے مسلمان عید منا رہے ہوتے ہیں تو در اصل یہ عالمی اسلامی اخوت اور بین الاقوامی ملت کے جشن کا ایک مظہر بھی ہوتا ہے۔ مشعر الحرام میں کھڑے ہو کر لبیک کہنے والے حاجیوں کی آواز میں آواز ملا کر دنیا بھر کے مسلمان اپنی اپنی جگہوں پر تکبیر کی صدا بلند کرتے ہوئے عالمی یگانگت کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں۔ حرمین الشریفین میں جس طرح دنیا بھر سے آئے ہوئے لاکھوں مسلم مرد اور عورتیں ربِّ کعبہ کی بڑائی بیان کرنے کے لیے جمع ہو جاتے ہیں اسی طرح ہر محلہ ہر قریہ ہر گاؤں اور ہر شہر کے مسلمان مرد و خواتین بھی عید گاہوں میں پہنچ کر اللہ کی بڑائی بیان کرتے ہیں اور اسلام کی عظمت اور امت کی شان کو رعب دار انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرتے ہیں۔
عیدالفطر روزے اور زکوۃ سے معنون ہے جس کا روحانی فیض اس کے بعد آنے والے سال بھر انسانی زندگیوں پر جاری رہتا ہے۔ اسی طرح عیدالاضحیٰ قربانی سے معنون ہے اور یہ قربانی صرف جانور کے ذبح کرنے تک محدود نہیں ہوتی بلکہ رب العالمین کی راہ میں اسلام کی سربلندی جیسے عظیم اور مہتم بالشان مقصد کی تکمیل تک ہمہ وقت ہمہ جہت ہر طرح کی جانی اور مالی قربانیوں کی متقاضی ہوتی ہے۔
رسول اللہ ﷺ سے محبت و عقیدت اور ان پر جاں نثاری کے دعوے داروں کو ‘امیر’ کی اطاعت اور امت کے ایک جسد واحد ہونے کے تقاضوں کو سمجھنا ہو گا کہ کہیں جانے ان جانے میں اور وقتی جذبات سے مغلوب ہو کر یا سازشوں کے دامِ فریب میں آکر وہ ایسا اقدام نہ کر بیٹھیں جو امتِ محمدیہ کی رسوائی کا سبب بن جائے یا امت کے اجتماعی مفادات کو نقصان پہنچائے۔
اسلام کی عظمت سے مرعوب قوموں کی جانب سے اب اس طرح کے مطالبات کیے جانے لگے ہیں کہ "جہاد، امت اور کافر” جیسی اسلامی اصطلاحات کا استعمال مسلمانوں کو اس وجہ سے ترک کر دینا چاہیے کہ ان کے خیال میں اس سے ان کے جذبات مجروح ہو سکتے ہیں یا ان کے وجود پر خطرے کے بادل منڈلاتے رہتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ آج اس گئے گزرے دور میں بھی مسلمانوں سے خوف کھانے کا سامان لوگوں کو بے چین کیے ہوئے ہے۔ ہماری دونوں عیدیں فی الحقیقت اسی "امت با ہمت” کے وجود کا ایک اعلان ہیں۔ خاص طور پر عیدِ قرباں کو اس معاملے میں یک گونہ برتری حاصل ہے کہ کعبۃ اللہ اور میدان عرفات میں اسی امت مسلمہ کی شان و شوکت اور رعب و جلال ہر سال دنیا اپنی آنکھوں سے دیکھتی ہے۔ لازم ہے کہ ہم اپنی طاقت کو پہچانیں، دینی شعائر کی سطوت و اہمیت کی پہچان ہر خاص و عام کے سامنے رکھیں۔ ہم اپنے وطنی بھائیوں کو بھی آفاقی پیغام درست تناظر میں پیش کریں اور امت مسلمہ کی عالم گیریت سے ان سب کو وابستہ کرنے کے لیے کمر کس لیں تاکہ ان کو اپنے مالک حقیقی کے سامنے بس ایک سجدہ کرنے کی توفیق نصیب ہو جائے جس کے نتیجے میں ہزاروں بلکہ لاکھوں سجدوں سے ان کو نجات مل سکے۔
رسول اللہ ﷺ سے محبت کے تقاضے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ خدا کے دشمنوں سے مقابلہ انصاف تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کیا جائے تاکہ "کسی قوم کی دشمنی ہمیں ‘عدل’ سے پھیرنے کا سبب نہ بن جائے۔” ورنہ عین نیکی بھی اکارت جانے کا اندیشہ ہے۔
قربانی کا فلسفہ عوام وخواص تک اس کی اصل روح کے ساتھ پہنچانے کا اہم ذریعہ ہمارے ارد گرد افراد کو گھروں میں دعوتوں کے اہتمام سے شروع ہو کر خدا کو بھولے ہوئے عوام کی اکثریت تک شیر خورمے کی مٹھاس کو دلوں تک میں اتارنے تک یہ عمل جاری رہنا چاہیے۔
اللّٰہ أکبر اللّٰہ أکبر، لا إلٰہ إلا اللّٰہ، واللّٰہ أکبر، اللّٰہ أکبر وللّٰہ الحمد‘‘

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  10 جولائی تا 16 جولائی 2022