اداریہ

یکساں سول کوڈ ہی کیوں؟

حکمراں جماعت بی جے پی کو ملک میں ان مسائل سے کچھ زیادہ ہی دل چسپی ہوتی ہے جن کا تعلق کسی نہ کسی حیثیت میں مسلمانوں سے ہو۔ کیوں کہ اس وقت وہ ملک میں جس طرح کی سیاست کر رہی ہے اس کے لیے یہ آکسیجن کا کام کرتے ہیں۔ اس کی سیاست کی زندگی کا دار ومدار انہی مسائل پر ہے۔ دراصل وہ انہی کی مدد سے اپنی حکمرانی کے سلسلے کو برقرار رکھے ہوئے ہے۔ ایسے ہی مسائل میں ایک اہم مسئلہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ بھی ہے۔ ملک میں آزادی کے بعد وقفے وقفے سے یکساں سول کوڈ کا شوشہ چھوڑا جاتا رہا ہے۔ بی جے پی نے گزشتہ لوک سبھا انتخابات کے موقع پر جاری کردہ انتخابی منشور میں بھی اس کا وعدہ بھی کیا ہے۔ اس بار یکساں سول کوڈ کا یہ شوشہ بی جے پی کی حکومت والی ایک ریاست اتر اکھنڈ سے چھوڑا گیا ہے۔ اتر اکھنڈ کے وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی نے حالیہ اسمبلی انتخابات کے موقع پر اپنی مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ اگر وہ دوبارہ منتخب ہوئے تو ان کی حکومت ریاست میں یکساں سول کوڈ کا نفاذ کرے گی۔ چنانچہ تشکیل حکومت کے بعد وزیر اعلیٰ پشکر سنگھ دھامی کی زیر قیادت کابینہ کے پہلے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ ریاستی حکومت ریاست کے لیے یکساں سول کوڈ کا مسودہ تیار کرنے کی غرض سے ایک ماہرین کا پینل تشکیل دے گی۔ حکومت اتر اکھنڈ کے اس اعلان کے بعد قانونی، صحافتی اور سیاسی حلقوں میں یہ سوال اٹھ کھڑا ہوا کہ کیا کسی ریاستی حکومت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ یکساں سول کوڈ کا نفاذ کرے؟ کچھ ماہرین قانون کے نزدیک ریاستی حکومت اس طرح کی قانون سازی کر سکتی ہے، کیوں کہ شادی بیاہ، طلاق، وراثت وغیرہ کے معاملات پر قانون سازی آئین کی اس مشترکہ فہرست میں شامل ہے جس میں مرکز وریاست دونوں کے اختیارات ہیں۔ لیکن بیشتر ماہرین قانون کی رائے میں ریاست کو اس طرح کی قانون سازی کا اختیار حاصل نہیں ہے کیوں کہ آئین کی دفعہ ۴۴ میں حکومت کو یہ ہدایت دی گئی ہے کہ وہ ملک کے سارے شہریوں کے لیے یکساں قانون بنانے کی کوشش کرے۔ اتر اکھنڈ حکومت کے اس فیصلے سے اور بھی کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ آئین میں ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں کے تحت جس یکساں سول کوڈ کا ذکر کیا گیا ہے کیا اس کی یہی اسپرٹ ہے؟ اگر تمام ریاستیں اپنے ہاں اس طرح اپنے الگ الگ یکساں سول کوڈ نافذ کر لیں گی تو اس اصل ہدف کا کیا ہو گا کہ جس کے لیے آئین میں یہ دفعہ رکھی گئی ہے؟ اور جبکہ مرکز میں بھی بی جے پی ہی کی حکومت ہے تو آخر ایک ریاست کو اس طرح سے الگ فیصلہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ اور مرکزی حکومت نے اس معاملے کو ایک ریاستی حکومت کے حوالے کیوں کر دیا ہے؟ یکساں سول کوڈ کے متعلق آئین کی دہائی دینے والوں سے یہ سوال بھی پوچھا جانا چاہیے کہ ریاستی پالیسی کے رہنما اصولوں میں سے انہیں صرف یکساں سول کوڈ کی فکر ہی کیوں ستاتی رہتی ہے جبکہ آئین میں ریاستی پالیسی کے رہنما اصول کے تحت بیس امور کا ذکر کیا گیا ہے؟ دفعہ ۳۸ کے تحت کہا گیا ہے کہ مملکت ایسے سماجی نظام کو قائم اور برقرار رکھنے کے لیے کوشاں ہو گی جس میں قومی زندگی کے سارے ادارے سماجی، معاشی اور سیاسی انصاف سے بہرہ ور ہوں۔ اس دفعہ کی دوسری شق میں کہا گیا ہے کہ مملکت خاص طور پر نہ صرف افراد کے درمیان بلکہ مختلف علاقوں کے رہنے والوں اور مختلف پیشوں میں کام کرنے والے افراد کے درمیان آمدنی میں عدم توازن کو کم کرنے کی کوشش کرے گی اور اس امر کی کوشش کرے گی کہ حیثیت، سہولتوں اور مواقع میں عدم توازن کا خاتمہ ہو۔ دفعہ ۳۹ میں تو اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا گیا ہے کہ مملکت خاص طور پر ایسی پالیسی وضع کرے گی جس میں مرد اور عورت اور تمام شہریوں کو مساوی طور پر معقول ذرائع معاش حاصل ہوں۔ ملک کے مادی وسائل کی ملکیت اور ان پر نگرانی کی اس طرح تقسیم ہو جس سے عوام کو فلاح حاصل ہو اور ملک کا معاشی نظام اس طرح نہ چلایا جائے کہ جس سے دولت اور پیداوار کے ذرائع ایک جگہ سمٹ ہو کر عوام کے لیے نقصان دہ ثابت ہوں۔ اسی طرح دفعہ ۴۵ میں کہا گیا ہے کہ مملکت چھ سال کی عمر کے تمام بچوں کے لیے بچپن کی دیکھ بھال اور تعلیم کا انتظام کرنے کی کوشش کرے گی۔ اسی طرح اور بھی کئی فلاحی ہدایتیں رہنما اصول کے تحت حکومت کو دی گئیں ہیں لیکن حکومت کی ان تمام اہم امور سے کبھی کوئی دل چسپی کا اظہار نہ تو ہوا ہے اور نہ عملاً اس سمت میں کوئی سنجیدہ کوششیں نظر آتی ہیں۔ ملک میں نہ تو سماجی انصاف ہے اور نہ معاشی انصاف، الٹا آمدنی میں عدم توازن کم ہونے کے بجائے اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے، ملک کے وسائل اور ذرائع پیداوار چند گھرانوں کے ہاتھوں میں مرکوز ہو چکے ہیں اور حکومتی پالیسیاں اس صورت حال کو مزید ابتر بنا رہی ہیں۔ حکومت کو ان تمام اہم مسائل کے حل سے کوئی دل چسپی نہیں ہے کیوں کہ وہ اس کی اہل ہی نہیں ہے۔ وہ تو بس چند پرکشش جملوں سے عوام کو دھوکہ دے کر اور مذہبی منافرت کے ذریعے لوگوں کو تقسیم کر کے انتخاب جیتنے میں یقین رکھتی ہے۔ اتر اکھنڈ میں یکساں سول کوڈ کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔ ریاستی حکومت اس معاملے میں کامیاب ہوتی ہے یا نہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اگر وہ کامیاب بھی ہو جائے تو اس سے عوام کا کچھ بھلا ہونے والا نہیں ہے۔ عوام کا بھلا تو انہی اقدامات سے ہو گا جو پورے اخلاص وسنجیدگی کے ساتھ عوام کی فلاح کے لیے اٹھائے جائیں گے۔

 

***

 


ہفت روزہ دعوت، شمارہ  03 تا 09 اپریل  2022